زکوۃ کے احکام

مسئلہ (۱۸۷۱)زکوٰۃ دس چیزوں پرواجب ہے:
۱) گیہوں
۲)جو
۳)کھجور
۴)کشمش
۵)سونا
۶)چاندی
۷)اونٹ
۸) گائے
۹)بھیڑبکری
۱۰) احتیاط لازم کی بناپرمال تجارت۔
اگرکوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کامالک ہوتوان شرائط کے تحت جن کاذکربعدمیں کیاجائے گاضروری ہے کہ جومقدارمقررکی گئی ہے اسے ان مصارف میں صرف کرےجن کاحکم دیاگیاہے۔
زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط
مسئلہ (۱۸۷۲)زکوٰۃ مذکورہ دس چیزوں پراس صورت میں واجب ہوتی ہے جب مال اس نصاب کی مقدارتک پہنچ جائے جس کاذکربعدمیں کیاجائے گااوروہ مال انسان کی اپنی ملکیت ہواوراس کامالک آزادہو۔
مسئلہ (۱۸۷۳)اگرانسان گیارہ مہینے گائے،بھیڑبکری،اونٹ،سونے یاچاندی کا مالک رہے تواگرچہ بارھویں مہینے کی پہلی تاریخ کوزکوٰۃ اس پرواجب ہوجائے گی لیکن ضروری ہے کہ اگلے سال کی ابتداکاحساب بارھویں مہینے کے خاتمے کے بعدسے کرے۔
مسئلہ (۱۸۷۴)سونے،چاندی اورمال تجارت پرزکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک، بالغ اورعاقل ہو۔لیکن گیہوں ،جو،کھجور،کشمش اوراسی طرح اونٹ، گائے اوربھیڑ بکریوں میں مالک کابالغ اورعاقل ہوناشرط نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۸۷۵)گیہوں اورجوپرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں ’’گیہوں ‘‘ اور ’’جو‘‘ کہاجائے۔کشمش پرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ابھی انگورہی کی صورت میں ہوں اورکھجورپر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب (وہ پک جائیں اور) عرب اسے’’ تمر‘‘کہیں لیکن گیہوں اورجو میں زکوٰۃ کانصاب دیکھنے اورزکوٰۃ دینے کاوقت وہ ہوتاہے جب یہ غلہ کھلیان میں پہنچے اوران (کی بالیوں ) سے بھوسا اور (دانہ) الگ کیاجائے۔جب کہ کھجوراورکشمش میں یہ وقت وہ ہوتاہے جب انہیں اتار لیتے ہیں ۔ اگر اس وقت بغیر کسی عذر یا مستحق کے ہونے کے باوجود تاخیر کیاجائے اور تلف ہوجائے تو اس کا مالک ضامن ہوگا۔
مسئلہ (۱۸۷۶)گیہوں ،جو،کشمش اورکھجور میں زکوٰۃ ثابت ہونے کے لئے (جیسا کہ سابقہ مسئلے میں بتایا گیاہے)معتبرنہیں ہے کہ ان کا مالک ان میں تصرف کر سکے۔ پس اگر مال مالک یااس کے وکیل کے ہاتھ میں نہ ہو مثلاً کسی نے ان چیزوں کوغصب کرلیاہوتو جب مال انھیں مل جائے تو زکوٰۃ اس پر واجب ہے۔
مسئلہ (۱۸۷۷)اگرگائے،بھیڑ،اونٹ،سونے اور چاندی کامالک سال کاکچھ حصہ مست (بے حواس) یا بے ہوش رہے توزکوٰۃ اس پرسے ساقط نہیں ہوتی اور اسی طرح گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کامالک زکوٰۃ واجب ہونے کے موقع پر مست یابے ہوش ہو جائے توبھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۸۷۸)گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کے علاوہ دوسری چیزوں میں زکوٰۃ ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک شرعی اور تکوینی طورپر اس مال میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتاہو پس اگرکسی نے اس مال کو غصب کرلیاہو جو قابل توجہ مدت شمار کی جائے یا شرعی طور پرمالک اس مال میں تصرف نہ کرسکتاہو تواس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۸۷۹)اگرکسی نے سونااورچاندی یاکوئی اورچیزجس پرزکوٰۃ دیناواجب ہو کسی سے قرض لی ہواور وہ چیزایک سال تک اس کے پاس رہے توضروری ہے کہ اس کی زکوٰۃ دے اورجس نے قرض دیاہواس پرکچھ واجب نہیں ہےلیکن اگر قرض دینے والا اس کی زکوٰۃ دے دے تولینے والے سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔
گیہوں ، جو، کھجور اورکشمش کی زکوٰۃ
مسئلہ (۱۸۸۰)گیہوں ، جو،کھجوراورکشمش پرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ نصاب کی حدتک پہنچ جائیں اوران کانصاب( تین سو)صاع ہے جوایک گروہ کے بقول تقریباً( ۸۴۷) کیلوگرام ہوتاہے۔
مسئلہ (۱۸۸۱)جس انگور، کھجور، جواور گیہوں پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہواگرکوئی شخص خود یا اس کے اہل وعیال اسے کھالیں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوٰۃ کی نیت کے بغیر دے دے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار استعمال کی ہواس پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۸۸۲)اگرگیہوں ،جو، کھجوراورانگورپرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعدان چیزوں کامالک مرجائے توجتنی زکوٰۃ بنتی ہووہ اس کے مال سے دینی ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے مرجائے توہروہ وارث جس کا حصہ نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ اپنے حصے کی زکوٰۃ خوداداکرے۔
مسئلہ (۱۸۸۳)جوشخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰۃ جمع کرنے پرمامورہووہ گیہوں اورجو کے کھلیان میں بھوسا (اوردانہ) الگ کرنے کے موقع پر اورکھجوراورانگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰۃ کا مطالبہ کرسکتاہے اوراگرمالک نہ دے اورجس چیز پر زکوٰۃ واجب ہو گئی ہووہ تلف ہوجائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
مسئلہ (۱۸۸۴)اگرکسی شخص کے کھجور کے درختوں ، انگور کی بیلوں یا گیہوں اورجو کے کھیتوں (کی پیداوار)کامالک بننے کے بعدان چیزوں پرزکوٰۃ واجب ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۸۸۵)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگورپرزکوٰۃ واجب ہونے کے بعدکوئی شخص کھیتوں اوردرختوں کوبیچ دے توبیچنے والے پران اجناس کی زکوٰۃ دیناواجب ہے اور وہ زکوٰۃ اداکردے توخریدنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۸۸۶)اگرکوئی شخص گیہوں ،جو،کھجوریاانگورخریدے اور اسے علم ہوکہ بیچنے والے نے ان کی زکوٰۃ دے دی ہے یاشک کرے کہ اس نے زکوٰۃ دی ہے یانہیں تواس پر کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہوکہ بیچنے والے نے ان پرزکوٰۃ نہیں دی تو ضروری ہے کہ وہ خود اس پرزکوٰۃ دے دے لیکن اگر بیچنے والے نے دغل کیاہوتووہ زکوٰۃ دینے کے بعداس سے رجوع کرسکتاہے اورزکوٰۃ کی مقدار کا اس سے مطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ (۱۸۸۷)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کاوزن ترہونے کے وقت نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور خشک ہونے کے وقت اس حدسے کم ہوجائے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۸۸۸)اگرکوئی شخص گیہوں ،جواورکھجورکوخشک ہونے کے وقت سے پہلے خرچ کرے تواگروہ خشک ہوکرنصاب پرپوری اتریں توضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۸۸۹)کھجور کی تین قسمیں ہیں :
۱) وہ جسے خشک کیاجاتاہے ۔ اس کی زکوٰۃ کاحکم بیان ہوچکا ہے۔
۲) وہ جورطب (پکی ہوئی رس دار) ہونے کی حالت میں کھائی جاتی ہے۔
۳) وہ جوکچی ہی کھائی جاتی ہے۔
دوسری قسم کی مقدار اگرخشک ہونے پرنصاب کی حدتک پہنچ جائے تواحتیاط مستحب ہے کہ اس کی زکوٰۃ دی جائے۔جہاں تک تیسری قسم کاتعلق ہے ظاہریہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۰)جس گیہوں ،جو،کھجوراورکشمش کی زکوٰۃ کسی شخص نے دے دی ہو اگروہ چندسال اس کے پاس پڑی بھی رہیں توان پردوبارہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
مسئلہ (۱۸۹۱)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگور(کی کاشت) بارانی یانہری زمین پر کی جائے یامصری زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائدہ پہنچے توان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اوراگران کی سینچائی کے پانی سے بذریعہ ڈول کی جائے تو ان پرزکوٰۃ بیسواں حصہ ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۲)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگور(کی کاشت) بارش کے پانی سے بھی سیراب ہواوراسے ڈول وغیرہ کے پانی سے بھی فائدہ پہنچے تواگریہ سینچائی ایسی ہوکہ عام طور پرکہاجاسکے کہ ان کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے تواس پرزکوٰۃ بیسواں حصہ ہے اور اگریہ کہا جائے کہ یہ نہراوربارش کے پانی سے سیراب ہوئے ہیں توان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اوراگرسینچائی کی صورت یہ ہوکہ عام طورپرکہاجائے کہ دونوں ذرائع سے سیراب ہوئے ہیں تواس پرزکوٰۃ( ۳؍۴۰ )فی صد ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۳)اگرکوئی شک کرے کہ عام طورپرکون سی بات صحیح سمجھی جائے گی اور اسے علم نہ ہوکہ سینچائی کی صورت ایسی ہے کہ لوگ عام طورپرکہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی یایہ کہیں کہ مثلاً بارش کے پانی سے ہوئی ہے تواگروہ( ۳؍۴۰)فی صد زکوٰۃ دے توکافی ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۴)اگرکوئی شک کرے اوراسے علم نہ ہوکہ عموماً لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی ہے یایہ کہتے ہیں کہ ڈول وغیرہ سے ہوئی ہے تواس صورت میں بیسواں حصہ دیناکافی ہے اور اگراس بات کا احتمال بھی ہوکہ عموماً لوگ کہیں کہ بارش کے پانی سے سیرابی ہوئی ہے تب بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۵)اگرگیہوں ،جو،کھجوراورانگوربارش اورنہرکے پانی سے سیراب ہوں اور انہیں ڈول وغیرہ کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی ہوئی ہو اورڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مددنہ ملی ہوتوان پرزکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور اگرڈول وغیرہ کے پانی سے سینچائی ہوئی ہو اورنہراوربارش کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن نہراوربارش کے پانی سے بھی سیراب ہوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مددنہ ملی ہوتوان پر زکوٰۃ بیسواں حصہ ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۶)اگرکسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی جائے اور اس سے ملحقہ زمین میں کھیتی باڑی کی جائے اور وہ ملحقہ زمین اس زمین سے فائدہ اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نہ رہے توجس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے اس کی زکوٰۃ بیسواں حصہ اوراس سے ملحقہ کھیت کی زکوٰۃ احتیاط کی بناپردسواں حصہ ہے۔
مسئلہ (۱۸۹۷)جواخراجات کسی شخص نے گیہوں ،جو،کھجوراورانگورپرکئے ہوں انہیں وہ فصل کی آمدنی سے منہاکرکے نصاب کاحساب نہیں لگاسکتالہٰذااگران میں سے کسی ایک کاوزن و اخراجات کاحساب لگانے سے پہلے نصاب کی مقدارتک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۸۹۸)جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیاہو خواہ وہ اس کے پاس موجود ہویا اس نے خریداہو وہ نصاب کاحساب اس بیج کوفصل کی آمدنی سے منہا کرکے نہیں کرسکتابلکہ ضروری ہے کہ نصاب کاحساب پوری فصل کومدنظر رکھتے ہوئے لگائے۔
مسئلہ (۱۸۹۹)جوکچھ حکومت اصلی مال سے (جس پرزکوٰۃ واجب ہو) بطورٹیکس لے لے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے مثلاً اگرکھیت کی پیداوار(۲۰۰۰ ) کیلو ہو اور حکومت اس میں سے( ۱۰۰)کیلوبطورلگان لے لے توزکوٰۃفقط( ۱۹۰۰)کیلو پرواجب ہے۔
مسئلہ (۱۹۰۰)احتیاط واجب کی بناپرانسان یہ نہیں کرسکتاکہ جواخراجات اس نے زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے کئے ہوں یا بعد میں کئے ہوں انہیں وہ پیداوار سے منہاکرے اورصرف باقی ماندہ پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۰۱)زکوٰۃ واجب ہونے کے بعدجواخراجات کئے جائیں اورجوکچھ زکوٰۃ کی مقدارکی نسبت خرچ کیاجائے وہ پیداوارسے منہانہیں کیاجاسکتااگرچہ(احتیاط کی بناپر)حاکم شرع یااس کے وکیل سے اس کوخرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی ہو۔
مسئلہ (۱۹۰۲)کسی شخص کے لئے یہ واجب نہیں کہ وہ انتظارکرے تاکہ جواور گیہوں کھلیان تک پہنچ جائیں اورانگوراورکھجورکے خشک ہونے کاوقت ہوجائے پھر زکوٰۃ دے بلکہ جیسےہی زکوٰۃ واجب ہوجائز ہے کہ زکوٰۃ کی مقدارکااندازہ لگاکروہ قیمت بطور زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۰۳)زکوٰۃ واجب ہونے کے بعدمتعلقہ شخص یہ کرسکتاہے کہ کھڑی فصل کاٹنے یاکھجوراورانگور کوچننے سے پہلے زکوٰۃ مستحق شخص یاحاکم شرع یااس کے وکیل کو مشترکہ طورپرپیش کردے اوراس کے بعدوہ اخراجات میں شریک ہوں گے۔
مسئلہ (۱۹۰۴)جب کوئی شخص فصل یاکھجوراورانگور کی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یامستحق شخص یاان کے وکیل کودے دے تواس کے لئے ضروری نہیں کہ بلا معاوضہ مشترکہ طورپران چیزوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ فصل کی کٹائی یاکھجور اور انگور کے خشک ہونے تک مال زکوٰۃ اپنی زمین میں رہنے کے بدلے اجرت کامطالبہ کرسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۹۰۵)اگرانسان کئی شہروں میں گیہوں ،جو،کھجوریاانگورکامالک ہواوران شہروں میں فصل پکنے کاوقت ایک دوسرے سے مختلف ہواوران سب شہروں سے فصل اور میوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہوتے ہوں اوریہ سب ایک سال کی پیداوار شمار ہوتے ہوں تواگران میں سے جوچیزپہلے پک جائے وہ نصاب کے مطابق ہوتوضروری ہے کہ اس پراس کے پکنے کے وقت زکوٰۃ دے اورباقی ماندہ اجناس پراس وقت زکوٰۃ دے جب وہ دستیاب ہوں اوراگرپہلے پکنے والی چیزنصاب کے برابر نہ ہو تو انتظار کرے تاکہ باقی اجناس پک جائیں ۔پھراگرسب ملاکر نصاب کے برابر ہوجائیں توان پرزکوٰۃ واجب ہے اوراگرنصاب کے برابر نہ ہوں توان پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۰۶)اگرکھجوراورانگورکے درخت سال میں دودفعہ پھل دیں اوردونوں مرتبہ کی پیداوار جمع کرنے پرنصاب کے برابر ہوجائے تو(احتیاط کی بناپر)اس پیداوارپر زکوٰۃ واجب ہے۔
مسئلہ (۱۹۰۷)اگرکسی شخص کے پاس غیرخشک شدہ کھجوریں ہوں یاانگورہوں جو خشک ہونے کی صورت میں نصاب کے مطابق ہوں تواگران کے تازہ ہونے کی حالت میں وہ زکوٰۃ کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف میں لے جتنی ان کے خشک ہونے پرزکوٰۃ کی اس مقدار کے برابر ہوجو اس پرواجب ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۹۰۸)اگرکسی شخص پرخشک کھجوریاکشمش کی زکوٰۃ واجب ہوتووہ ان کی زکوٰۃ تازہ کھجوریاانگورکی شکل میں نہیں دے سکتابلکہ اگروہ خشک کھجوریاکشمش کی زکوٰۃ کی قیمت لگائے اورانگوریاتازہ کھجوریں یا کشمش یاکوئی اورخشک کھجوریں اس قیمت کے طورپر دے تو اس میں بھی اشکال ہے نیزاگرکسی پرتازہ کھجور یاانگورکی زکوٰۃ واجب ہوتووہ خشک کھجوریا کشمش دے کر زکوٰۃ ادانہیں کرسکتابلکہ اگروہ قیمت لگاکرکوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچہ وہ تازہ ہواس میں اشکال ہے۔
مسئلہ (۱۹۰۹)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جومقروض ہواوراس کے پاس ایسامال بھی ہوجس پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہوتوضروری ہے کہ جس مال پرزکوٰۃ واجب ہوچکی ہو پہلے اس میں سے تمام زکوٰۃ دی جائے اوراس کے بعداس کاقرضہ اداکیاجائے لیکن اگر اس کے ذمہ میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہوتو یہ بقیہ قرضوں کی طرح شمار ہوگی۔
مسئلہ (۱۹۱۰)اگرکوئی ایساشخص مرجائے جومقروض ہواوراس کے پاس گیہوں ، جو، کھجور یاانگوربھی ہواور اس سے پہلے کہ ان اجناس پرزکوٰۃ واجب ہواس کے ورثاء اس کا قرضہ کسی دوسرے مال سے اداکردیں تو جس وارث کاحصہ نصاب کی مقدار تک پہنچتاہو ضروری ہے کہ زکوٰۃ دے اور اگراس سے پہلے کہ زکوٰۃ ان اجناس پرواجب ہومتوفی کا قرضہ ادانہ کریں اوراگراس کامال فقط اس قرضے جتناہوتوورثاء کے لئے واجب نہیں کہ ان اجناس پرزکوٰۃ دیں اوراگرمتوفی کامال اس کے قرض سے زیادہ ہوجب کہ متوفی پراتنا قرض ہوکہ اگراسے اداکرناچاہیں تواداکرسکیں ضروری ہے کہ گیہوں ، جو، کھجور اور انگور میں سے کچھ مقداربھی قرض خواہ کودیں لہٰذاجوکچھ قرض خواہ کودیں اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اور باقی ماندہ مال پروارثوں میں سے جس کابھی حصہ زکوٰۃ کے نصاب کے برابر ہواس کی زکوٰۃ دیناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۹۱۱)جس شخص کے پاس اچھی اورگھٹیادونوں قسم کا گندم،جو،کھجوراور انگور ہوں جن پرزکوٰۃ واجب ہوئی ہواس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ اچھے مال کی زکوٰۃ گھٹیا مال سے نہ دے۔
سونے کانصاب
مسئلہ (۱۹۱۲)سونے کے نصاب دوہیں :
اس کاپہلانصاب:
بیس مثقال شرعی ہے جب کہ ہرمثقال شرعی (۱۸؍)نخود(چنا)کا ہوتا ہے۔پس جس وقت سونے کی مقداربیس مثقال شرعی تک جوآج کل کے پندرہ مثقال کے برابرہوتے ہیں ،پہنچ جائے اوروہ دوسری شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جوبیان کی جا چکی ہیں توضروری ہے کہ انسان اس کاچالیسواں حصہ (جو۹؍نخودکے برابرہوتاہے )زکوٰۃ کے طورپردے اور اگرسونااس مقدارتک نہ پہنچے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
دوسرا انصاب:
اور اس کا چارمثقال شرعی ہے جومعمولی تین مثقال کے برابرہوتے ہیں یعنی اگر پندرہ مثقال پرتین مثقال کااضافہ ہوجائے توضروری ہے کہ تمام(۱۸؍)مثقال پر(۱؍۴۰ )کے حساب سےزکوٰۃ دے اور اگرتین مثقال سے کم اضافہ ہوتوضروری ہے کہ صرف( ۱۵؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اوراس صورت میں اضافے پرزکوٰۃ نہیں ہے اورجوں جوں اضافہ ہواس کے لئے یہی حکم ہے یعنی اگرتین مثقال اضافہ ہوتوضروری ہے کہ تمام مقدارپرزکوٰۃ دے اور اگراضافہ تین مثقال سے کم ہوتوجومقداربڑھی ہواس پرکوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔
چاندی کانصاب
مسئلہ (۱۹۱۳)چاندی کے نصاب دوہیں :
اس کاپہلانصاب:
( ۱۰۵؍)مروجہ مثقال ہے لہٰذاجب چاندی کی مقدار( ۱۰۵؍) مثقال تک پہنچ جائے اور وہ دوسری شرائط بھی پوری کرتی ہوجو بیان کی جاچکی ہیں تو ضروری ہے کہ انسان اس کا(۴۰؍۱ )جودومثقال اور( ۱۵؍)نخودبنتاہے بطورزکوٰۃ دے اور اگروہ اس مقدارتک نہ پہنچے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
دوسرانصاب:
( ۲۱؍) مثقال ہے یعنی اگر( ۱۰۵؍)مثقال پر(۲۱؍)مثقال کااضافہ ہوجائے توضروری ہے کہ جیساکہ بتایاجاچکاہے پورے (۱۲۶؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اوراگر(۲۱؍)مثقال سے کم اضافہ ہوتو ضروری ہے کہ صرف( ۱۰۵؍)مثقال پرزکوٰۃ دے اورجواضافہ ہواہے اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اورجتنابھی اضافہ ہوتاجائے یہی حکم ہے یعنی اگر(۲۱؍)مثقال کااضافہ ہوتوضروری ہے تمام مقدارپرزکوٰۃ دے اور اگر اس سے کم اضافہ ہوتو وہ مقدارجس کااضافہ ہواہے اور جو (۲۱؍)مثقال سے کم ہے اس پرزکوٰۃ نہیں ہے۔اور اگر اس بات کا شک ہو کہ نصاب کی حد تک پہونچا ہے یا نہیں تو(احتیاط واجب کی بناءپر) اس کی تحقیق کرے۔
مسئلہ (۱۹۱۴)جس شخص کے پاس نصاب کے مطابق سونایاچاندی ہواگرچہ وہ اس پرزکوٰۃ دے دے لیکن جب تک اس کے پاس سونایاچاندی پہلے نصاب سے کم نہ ہو جائے ضروری ہے کہ ہرسال ان پرزکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۱۵)سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ سکے میں ڈھلے ہوں اور ان کے ذریعہ لین دین کا رواج ہو لیکن اگر سکہ کی شکل میں نہ رہ گئی ہوں لیکن ان کے ذریعہ لین دین کا رواج ہوتوضروری ہےکہ ان کی زکوٰۃ دے لیکن اگر رواج نہ رہ گیاہو اور سکے کی شکل میں باقی ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۱۶)وہ سکہ دارسونااورچاندی جنہیں عورتیں بطورزیورپہنتی ہوں جب تک وہ رائج ہوں یعنی سونے اورچاندی کے سکوں کے طورپران کے ذریعے لین دین ہوتاہو(احتیاط کی بناپر)ان کی زکوٰۃ دیناواجب ہے لیکن اگران کے ذریعے لین دین کا رواج باقی نہ ہوتوان پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۱۷)جس شخص کے پاس سونااورچاندی دونوں ہوں اگران میں سے کوئی بھی پہلے نصاب کے برابرنہ ہومثلاً اس کے پاس( ۱۰۴؍)مثقال چاندی اور( ۱۴؍)مثقال سونا ہوتواس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۱۸)جیساکہ پہلے بتایاگیاہے سونے اورچاندی پرزکوٰۃ اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب وہ گیارہ مہینے نصاب کی مقدار کے مطابق کسی شخص کی ملکیت میں رہیں اوراگرگیارہ مہینوں میں کسی وقت سونا اورچاندی پہلے نصاب سے کم ہوجائیں تو اس شخص پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۱۹)اگرکسی شخص کے پاس سونااورچاندی ہواوروہ گیارہ مہینے کے دوران انہیں کسی دوسری چیز سے بدل لے یاانہیں پگھلالے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگروہ زکوٰۃ سے بچنے کے لئے ان کو سونے یاچاندی سے بدل لے یعنی سونے کو سونے یا چاندی سے، یاچاندی کو چاندی یا سونے سے بدل لے تواحتیاط واجب ہے کہ زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۲۰)اگرکوئی شخص بارھویں مہینے میں سونایاچاندی پکھلائے توضروری ہے کہ ان پرزکوٰۃ دے اور اگرپگھلانے کی وجہ سے ان کاوزن یاقیمت کم ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان چیزوں کوپگھلانے سے پہلے جوزکوٰۃ اس پرواجب تھی وہ دے۔
مسئلہ (۱۹۲۱)سونے اورچاندی کے سکے جن میں معمول سے زیادہ دوسری دھات کی آمیزش ہواگرانہیں چاندی اورسونے کے سکے کہاجاتاہوتواس صورت میں جب وہ نصاب کی حدتک پہنچ جائیں ان پرزکوٰۃ واجب ہے اگرچہ ان کاخالص حصہ نصاب کی حد تک نہ پہنچے لیکن اگرانہیں سونے اورچاندی کے سکے نہ کہاجاتاہوتوخواہ ان کاخالص حصہ نصاب کی حدتک پہنچ بھی جائے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۲۲)جس شخص کے پاس سونے اورچاندی کے سکے ہوں اگران میں دوسری دھات کی آمیزش معمول کے مطابق ہوتواگروہ شخص ان کی زکوٰۃ سونے اور چاندی کے ایسے سکوں میں دے جن میں دوسری دھات کی آمیزش معمول سے زیادہ ہو یا ایسے سکوں میں دے جو سونے اورچاندی کے بنے ہوئے نہ ہوں لیکن یہ سکے اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی قیمت اس زکوٰۃ کی قیمت کے برابر ہوجو اس پرواجب ہوگئی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اونٹ، گائے اور بھیڑ،بکری کی زکوٰۃ
مسئلہ (۱۹۲۳)اونٹ،گائے اوربھیڑبکری کی زکوٰۃ کے لئے ان شرائط کے علاوہ جن کا ذکرآچکاہے ایک شرط اوربھی ہے اوروہ یہ کہ حیوان ساراسال صرف جنگلی گھاس چرتارہاہو۔لہٰذا اگرساراسال یااس کا کچھ حصہ کاٹی ہوئی گھاس کھائے یاایسی چراگاہ میں چرے جوخوداس شخص کی (یعنی حیوان کے مالک کی) یاکسی دوسرے شخص کی ملکیت ہوتواس حیوان پرزکوٰۃ نہیں ہے لیکن اگروہ حیوان سال بھرمیں کچھ کم مقدار میں مالک کی مملوکہ گھاس(یاچارا) کھائے تواس کی زکوٰۃ واجب ہے۔لیکن اونٹ، گائے اور بھیڑ کی زکوٰۃ واجب ہونے میں شرط یہ نہیں ہے کہ ساراسال حیوان بے کار رہے بلکہ اگرآبیاری یاہل چلانے یاان جیسے امورمیں ان حیوانوں سے استفادہ کیاجائے لیکن اگر عرف میں انہیں بے کارشمار کیا جاتا ہو بلکہ اگر انہیں بے کار شمار نہ بھی کیا جائے تو (احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۲۴)اگرکوئی شخص اپنے اونٹ، گائے اور بھیڑ کے لئے ایک ایسی چراگاہ خریدے جس میں کسی نے کاشت نہ کی ہویااسے کرائے پرحاصل کرے تواس صورت میں زکوٰۃ کاواجب ہونامشکل ہے اگرچہ زکوٰۃ کادینااحوط ہے لیکن اگروہاں جانور چرانے کاٹیکس اداکرے توضروری ہے کہ زکوٰۃ دے۔
اونٹ کے نصاب
مسئلہ (۱۹۲۵)اونٹ کے نصاب بارہ ہیں :
۱:) پانچ اونٹ ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک بھیڑہے اورجب تک اونٹوں کی تعداد اس حد تک نہ پہنچے،زکوٰۃ نہیں ہے۔
۲:)دس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوبھیڑیں ہیں ۔
۳:)پندرہ اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ تین بھیڑیں ہیں ۔
۴:)بیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ چاربھیڑیں ہیں ۔
۵:)پچیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ پانچ بھیڑیں ہیں ۔
۶:)چھبیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہو۔
۷:)چھتیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوتیسرے سال میں داخل ہو چکاہو۔
۸:)چھیالیس اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوچوتھے سال میں داخل ہوچکاہو۔
۹:)اکسٹھ اونٹ۔ اور ان کی زکوٰۃ ایک ایسااونٹ ہے جوپانچویں سال میں داخل ہو چکاہو۔
۱۰:)چھہتراونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوایسے اونٹ ہیں جوتیسرے سال میں داخل ہو چکے ہوں ۔
۱۱:)اکیانوے اونٹ۔ اوران کی زکوٰۃ دوایسے اونٹ ہیں جوچوتھے سال میں داخل ہوں۔
۱۲:)ایک سواکیس اونٹ اور اس سے اوپرجتنے ہوتے جائیں ضروری ہے کہ زکوٰۃ دینے والا یاتوان کاچالیس سے چالیس تک حساب کرے اور ہر چالیس اونٹوں کے لئے ایک ایسااونٹ دے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکاہویاپچاس کااور ہرپچاس اونٹوں کے لئے ایک اونٹ دے جوچوتھے سال میں داخل ہو چکا ہویاچالیس اورپچاس کا حساب کرے اوربعض موقعوں پر اسے اختیار ہے کہ یا چالیس کا حساب کرے یا پچاس کاجیسے دوسو اونٹ لیکن ہر صورت میں اس طرح حساب کرناضروری ہے کہ کچھ باقی نہ بچے یااگربچے بھی تونوسے زیادہ نہ ہو مثلاً اگر اس کے پاس( ۱۴۰)اونٹ ہوں توضروری ہے کہ ایک سوکے لئے دوایسے اونٹ دے جو چوتھے سال میں داخل ہوچکے ہوں اور چالیس کے لئے ایک ایسااونٹ دے جوتیسرے سال میں داخل ہو چکاہواورجو اونٹ زکوٰۃ میں دیاجائے اس کامادہ ہوناضروری ہےلیکن اگر چھٹے نصاب میں اسے مادہ اونٹ نہ ملیں کہ جو دوسال کے ہوں تو تین سال کانر اونٹ بھی کا فی ہے اور اگر وہ بھی نہ ملے تو ہر طرح کی خریداری کا اختیار ہے۔
مسئلہ (۱۹۲۶)دونصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے لہٰذااگرایک شخص جو اونٹ رکھتاہوان کی تعدادپہلے نصاب سے جوپانچ ہے،بڑھ جائے توجب تک وہ دوسرے نصاب تک جودس ہے نہ پہنچے ضروری ہے کہ فقط پانچ پرزکوٰۃ دے اور باقی نصابوں کی صورت بھی ایسی ہی ہے۔
گائے کانصاب
مسئلہ (۱۹۲۷)گائے کے دونصاب ہیں :
اس کاپہلا نصاب :
تیس ہے جب کسی شخص کی گایوں کی تعداد تیس تک پہنچ جائے اوروہ شرائط بھی پوری ہوتی ہوں جن کاذکرکیاجاچکاہے توضروری ہے کہ گائے کا ایک ایسابچہ جودوسرے سال میں داخل ہوچکاہوزکوٰۃ کے طورپردے اور احتیاط (واجب) یہ ہے کہ وہ بچھڑاہو۔
اس کادوسرانصاب :
چالیس ہے اوراس کی زکوٰۃ ایک بچھیاہے جو تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہواورتیس اورچالیس کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مثلاًجس شخص کے پاس انتالیس گائیں ہوں ضروری ہے کہ صرف تیس کی زکوٰۃ دے اور اگر اس کے پاس چالیس سے زیادہ گائیں ہوں توجب تک ان کی تعداد ساٹھ تک نہ پہنچ جائے ضروری ہے کہ صرف چالیس پرزکوٰۃ دے اور جب ان کی تعدادساٹھ تک پہنچ جائے توچونکہ یہ تعداد پہلے نصاب سے دگنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ دوایسے بچھڑے بطور زکوٰۃ دے جودوسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اوراسی طرح جیسے جیسے گایوں کی تعداد بڑھتی جائے ضروری ہے کہ یاتوتیس سے تیس تک حساب کرے یاچالیس سے چالیس تک یاتیس اور چالیس دونوں کاحساب کرے اور ان پراس طریقے کے مطابق زکوٰۃ دے جو بتایاگیاہے۔لیکن ضروری ہے کہ اس طرح حساب کرے کہ کچھ باقی نہ بچے اوراگرکچھ بچے تونوسے زیادہ نہ ہو مثلاًاگراس کے پاس ستّرگائیں ہوں توضروری ہے کہ تیس اور چالیس کے مطابق حساب کرے اور تیس کے لئے تیس اورچالیس کے لئے چالیس کی زکوٰۃ دے کیونکہ اگروہ تیس کے لحاظ سے حساب کرے گاتودس گائیں بغیر زکوٰۃ دیئے رہ جائیں گی اور بعض موقعوں پر جیسے (۱۲۰) کی تعداد پر اسے اختیار حاصل ہے۔
بھیڑکانصاب
مسئلہ (۱۹۲۸)بھیڑ کے پانچ نصاب ہیں :
پہلانصاب:
( ۴۰)ہے اوراس کی زکوٰۃ ایک بھیڑہے اور جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس تک نہ پہنچے ان پرزکوٰۃ نہیں ہے۔
دوسرانصاب:
( ۱۲۱) ہے اور اس کی زکوٰۃ دوبھیڑیں ہیں ۔
تیسرانصاب:
( ۲۰۱) ہے اوراس کی زکوٰۃ تین بھیڑیں ہیں ۔
چوتھانصاب:
( ۳۰۱) ہے اوراس کی نصاب چاربھیڑیں ہیں ۔
پانچواں نصاب:
( ۴۰۰ )اور اس سے اوپرہے اوران کاحساب سوسے سوتک کرنا ضروری ہے اورہر سوبھیڑپرایک بھیڑدی جائے اور یہ ضروری نہیں کہ زکوٰۃ انہی چیزوں میں سے دی جائے بلکہ اگرکوئی اوربھیڑیں دے دی جائیں یابھیڑوں کی قیمت کے برابر نقدی (پیسہ) دے دیا جائے توکافی ہے۔
مسئلہ (۱۹۲۹)دونصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نہیں ہے لہٰذااگرکسی کی بھیڑوں کی تعداد پہلے نصاب سے جوکہ چالیس ہے زیادہ ہولیکن دوسرے نصاب تک جو( ۱۲۱) ہے نہ پہنچی ہوتواسے چاہئے کہ صرف چالیس پرزکوٰۃ دے اور جوتعداد اس سے زیادہ ہو اس پرزکوٰۃ نہیں ہے اوراس کے بعدکے نصابوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۹۳۰)اونٹ،گائیں اوربھیڑیں جب نصاب کی حدتک پہنچ جائیں توخواہ وہ سب نرہوں یامادہ یا کچھ نرہوں اورکچھ مادہ ان پرزکوٰۃ واجب ہے۔
مسئلہ (۱۹۳۱)زکوٰۃ کے ضمن میں گائے اوربھینس ایک جنس کی شمارہوتی ہیں اور عربی اورغیرعربی اونٹ ایک جنس ہیں ۔اسی طرح بکری، بھیڑ اور بھیڑ کے وہ بچے جو چھ ماہ یاایک سال کے ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۹۳۲)اگرکوئی شخص زکوٰۃ کے طورپربھیڑدے تو(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ وہ کم ازکم دوسرے سال میں داخل ہوچکی ہواوراگربکری دے تواحتیاطاً ضروری ہے کہ وہ تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہو۔
مسئلہ (۱۹۳۳)جوبھیڑکوئی شخص زکوٰۃ کے طورپردے اگراس کی قیمت اس کی بھیڑوں سے معمولی سی کم بھی ہوتوکوئی حرج نہیں لیکن بہترہے کہ ایسی بھیڑدے جس کی قیمت اس کی ہربھیڑسے زیادہ ہو نیزگائے اوراونٹ کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۹۳۴)اگرکئی افراد باہم حصے دار ہوں توجس جس کاحصہ پہلے نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ زکوٰۃ دے اورجس کا حصہ پہلے نصاب سے کم ہواس پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۹۳۵)اگرایک شخص کی گائیں یااونٹ یابھیڑیں مختلف جگہوں پرہوں اور وہ سب ملاکرنصاب کے برابر ہوں توضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۳۶)اگرکسی شخص کی گائیں ،بھیڑیں یااونٹ بیماراورعیب دارہوں تب بھی ضروری ہے کہ ان کی زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۳۷)اگرکسی شخص کی ساری گائیں ،بھیڑیں یااونٹ بیماریاعیب داریا بوڑھے ہوں تووہ خودانہی میں سے زکوٰۃ دے سکتاہے لیکن اگروہ سب تندرست، بے عیب اورجوان ہوں تووہ ان کی زکوٰۃ میں بیمار یاعیب دار یابوڑھے جانورنہیں دے سکتا بلکہ اگران میں سے بعض تندرست اوربعض بیمار،کچھ عیب دار اورکچھ بے عیب اورکچھ بوڑھے اورکچھ جوان ہوں تواحتیاط( واجب) یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ میں تندرست،بے عیب اور جوان جانور دے۔
مسئلہ (۱۹۳۸)اگرکوئی شخص گیارہ مہینے ختم ہونے سے پہلے اپنی گائیں ، بھیڑیں اور اونٹ کسی دوسری چیزسے بدل لے یاجونصاب ہواسے اسی جنس کے اتنے ہی نصاب سے بدل لے مثلاً چالیس بھیڑیں دے کرچالیس بھیڑیں لے لے تواگرایساکرنازکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے نہ ہوتواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگرزکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے ہوتواس صورت میں جب کہ دونوں چیزیں ایک ہی نوعیت کا فائدہ رکھتی ہوں مثلاً دونوں بھیڑیں دودھ دیتی ہوں تواحتیاط لازم یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ دے۔
مسئلہ (۱۹۳۹)جس شخص کوگائے،بھیڑاوراونٹ کی زکوٰۃ دینی ضروری ہواگروہ ان کی زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے دے دے توجب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نہ ہوضروری ہے کہ ہرسال زکوٰۃ دے اور اگروہ زکوٰۃ انہی جانوروں میں سے دے اوروہ پہلے نصاب سے کم ہوجائیں توزکوٰۃ اس پرواجب نہیں ہے مثلاًجو شخص چالیس بھیڑیں رکھتاہواگر ان کی تعداد اپنے دوسرے مال سے دے دے توجب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نہ ہوں ضروری ہے کہ ہرسال ایک بھیڑ دے اوراگرخودان بھیڑوں میں سے زکوٰۃ دے توجب تک ان کی تعداد چالیس تک نہ پہنچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
مال تجارت کی زکوٰۃ
جس مال کاانسان معاوضہ دے کرمالک ہواہواوراس نے وہ مال تجارت اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے محفوظ رکھاہوتو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ(مندرجہ ذیل) چند شرائط کے ساتھ اس کی زکوٰۃ دے جو چالیسواں حصہ ہے:
۱) مالک بالغ اورعاقل ہو۔
۲) مال کم ازکم( ۱۵) مثقال سکہ دار سونا یا( ۱۵) مثقال سکہ دار چاندی کی قیمت رکھتا ہو۔
۳) جس وقت سے اس مال سے فائدہ اٹھانے کی نیت کی ہو، اس پرایک سال گزر جائے۔
۴) فائدہ اٹھانے کی نیت پورے سال باقی رہے۔پس اگرسال کے دوران اس کی نیت بدل جائے مثلاًاس کو اخراجات میں صرف کرنے کی نیت کرے توضروری نہیں کہ اس پرزکوٰۃ دے۔
۵) مالک اس مال میں پوراسال تصرف کرسکتاہو۔
۶) تمام سال اس کے سرمائے کی مقدار یااس سے زیادہ پرخریدار موجودہوں ۔پس اگرسال کے کچھ حصے میں سرمائے کے برابر مال کےخریدار نہ ہوں تواس پرزکوٰۃ دینا واجب نہیں ہے۔




