احکاماحکام نکاح و طلاق

نکاح کے احکام

عقدازدواج کے ذریعے عورت،مردپراورمرد،عورت پرحلال ہوجاتے ہیں اورعقد کی دوقسمیں ہیں : پہلی دائمی اور دوسری غیردائمی – عقد دائمی اسے کہتے ہیں جس میں ازدواج کی مدت معین نہ ہواوروہ ہمیشہ کے لئے ہواور جس عورت سے اس قسم کاعقد کیاجائے اسے دائمہ کہتے ہیں اورغیردائمی عقدوہ ہے جس میں ازدواج کی مدت معین ہومثلاً عورت کے ساتھ ایک گھنٹے یاایک دن یاایک مہینے یاایک سال یااس سے زیادہ مدت کے لئے عقدکیاجائے لیکن اس عقد کی مدت عورت اورمرد کی عام عمرسے زیادہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس صورت میں عقد باطل ہوجائے گا۔جب عورت سے اس قسم کاعقد کیاجائے تواسے ’’متعہ‘‘ یا’’صیغہ‘‘ کہتے ہیں۔

عقد کے احکام
مسئلہ (۲۳۸۲)ازدواج خواہ دائمی ہویاغیردائمی اس میں صیغہ پڑھنا ضروری ہے۔ عورت اور مرد کامحض رضامندہونااسی طرح (نکاح نامہ) لکھنا (احتیاط واجب کی بناء پر)کافی نہیں ہے۔نکاح کاصیغہ یاتوعورت اورمردخودپڑھتے ہیں یاکسی کووکیل مقرر کر لیتے ہیں تاکہ وہ ان کی طرف سے پڑھ دے۔

مسئلہ (۲۳۸۳)وکیل کامردہونالازم نہیں بلکہ عورت بھی نکاح کاصیغہ پڑھنے کے لئے کسی دوسرے کی جانب سے وکیل ہوسکتی ہے۔

مسئلہ (۲۳۸۴)عورت اورمردکوجب تک اطمینان نہ ہوجائے کہ ان کے وکیل نے صیغہ پڑھ دیاہے اس وقت تک وہ ایک دوسرے کو محرمانہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے اوراس بات کاگمان کہ وکیل نے صیغہ پڑھ دیاہے کافی نہیں بلکہ اگروکیل کہہ دے کہ میں نے صیغہ پڑھ دیاہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہوتواحتیاط واجب کی بناء پر اس کی بات پر ترتیب اثر نہ دیا جائے ۔

مسئلہ (۲۳۸۵)اگرکوئی عورت کسی کو وکیل مقررکرے اورکہے کہ تم میرانکاح دس دن کے لئے فلاں شخص کے ساتھ پڑھ دواوردس دن کی ابتداکومعین نہ کرے تووہ (نکاح خوان) وکیل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مردکے نکاح میں دے سکتاہے لیکن اگروکیل کومعلوم ہوکہ عورت کامقصد کسی خاص دس دن یاگھنٹے کاہے توپھراسے چاہئے کہ عورت کے قصد کے مطابق صیغہ پڑھے۔

مسئلہ (۲۳۸۶)عقددائمی یاعقدغیردائمی کاصیغہ پڑھنے کے لئے ایک شخص دو اشخاص کی طرف سے وکیل بن سکتاہے اورانسان یہ بھی کرسکتاہے کہ عورت کی طرف سے وکیل بن جائے اوراس سے خود دائمی یاغیردائمی نکاح کرلے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نکاح دواشخاص پڑھیں ۔

نکاح پڑھنے کاطریقہ
مسئلہ (۲۳۸۷)اگرعورت اورمردخوداپنے دائمی نکاح کاصیغہ پڑھیں تومہرمعین کرنے کے بعدپہلے عورت کہے: ’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ یعنی میں نے اس مہرپرجومعین ہوچکاہے اپنے آپ کوتمہاری بیوی بنایااوراس کے فوراًبعدمردکہے : ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ‘‘ یعنی میں نے ازدواج کوقبول کیاتونکاح صحیح ہے اور اسی طرح اگر صرف’’قبلت‘‘کہے تو بھی صحیح ہے اور اگروہ کسی دوسرے کووکیل مقررکریں کہ ان کی طرف سے صیغۂ نکاح پڑھ دے تواگر مثال کے طورپرمردکانام احمداورعورت کانام فاطمہ ہواورعورت کاوکیل کہے:’’زَوَّجْتُ مُوَکِّلَکَ اَحْمَدَمُوَکِّلَتِیْ فَاطِمَۃَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ اوراس کے فوراً بعدمرد کاوکیل کہے:’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ اَحْمَدَ عَلَی الصِّدَاقِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ تونکاح صحیح ہوگا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مردجولفظ کہے وہ عورت کے کہے جانے والے لفظ کے مطابق ہومثلاً اگرعورت’’زَوَّجْتُ‘‘ کہے تو مردبھی ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیجَ‘‘ کہے اور ’’قَبِلْتُ النِّکَاحَ‘‘ نہ کہے۔

مسئلہ (۲۳۸۸)اگرخودعورت اورمردچاہیں توغیردائمی نکاح کاصیغۂ نکاح کی مدت اور مہرمعین کرنے کے بعدپڑھ سکتے ہیں ۔لہٰذااگرعورت کہے:’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ فِی الْمُدَّۃِ الْمَعْلُوْمَۃِ عَلَی الْمَھْرِالْمَعْلُوْمِ‘‘اوراس کےفوراًبعدمردکہے: ’’قَبِلْتُ‘‘ تو نکاح صحیح ہے اوراگروہ کسی اورشخص کووکیل بنائیں اورپہلے عورت کاوکیل مردکے وکیل سے کہے:’’زَوَّجْتُ مُوَکِّلَتِیْ مُوَکِّلَکَ فِی الْمُدَّۃِ الْمَعْلُوْمَۃِ عَلَی الْمَھْرِالْمَعْلُوْمِ‘‘ اوراس کے بعدمردکاوکیل فوراً بعدکہے: ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ لِمُوَکِّلِیْ ھٰکَذَا‘‘تونکاح صحیح ہوگا۔

نکاح کے شرائط
مسئلہ (۲۳۸۹)نکاح کی چندشرطیں ہیں جوذیل میں درج کی جاتی ہیں :
۱:) (احتیاط واجب کی بناپر)نکاح کاصیغہ عربی میں پڑھاجائے اوراگرخودمرد اور عورت صیغۂ عربی نہ پڑھ سکتے ہوں توعربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے ہیں اور کسی شخص کووکیل بنانالازم نہیں ہے۔البتہ انہیں چاہئے کہ وہ الفاظ کہیں جو ’’زَوَّجْتُ اور قَبِلْتُ‘‘ کامفہوم اداکرسکیں ۔
۲:)مرداورعورت یاان کے وکیل جو صیغہ پڑھ رہے ہوں وہ ’’قصدانشاء‘‘ رکھتے ہوں یعنی اگرخودمرداورعورت صیغہ پڑھ رہے ہوں توعورت کا’’زَوَّجْتُکَ نَفْسِیْ‘‘ کہنااس نیت سے ہوکہ خودکواس کی بیوی قراردے اور مردکا ’’قَبِلْتُ التَّزْوِیْجَ‘‘ کہنااس نیت سے ہوکہ وہ اس کااپنی بیوی بنناقبول کرے اوراگرمرداورعورت کے وکیل صیغہ پڑھ رہے ہوں تو ’’زَوَّجْتُ وَقَبِلْتُ‘‘کہنے سے ان کی نیت یہ ہوکہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہیں وکیل بنایاہے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں ۔
۳:)جوشخص صیغہ پڑھ رہاہوضروری ہے کہ وہ عاقل ہواوراگر اپنے لئے پڑھ رہا ہو تو ضروری ہے کہ بالغ بھی ہو بلکہ( احتیاط کی بناء پر) سمجھ دار نابالغ بچے کا دوسرے کےلئے صیغہ جاری کرنا کافی نہیں ہے اور اگر پڑھ دے تو ضروری ہےکہ طلاق دیں یاپھر سے صیغہ پڑھیں ۔
۴:)اگرعورت اورمردکے وکیل یاان کے سرپرست صیغہ پڑھ رہے ہوں تووہ نکاح کے وقت عورت اورمردکومعین کرلیں مثلاًان کے نام لیں یاان کی طرف اشارہ کریں ۔ لہٰذا جس شخص کی کئی لڑکیاں ہوں اگروہ کسی مردسے کہے: ’’زَوَّجْتُکَ اِحْدٰی بَنَاتِیْ‘‘ یعنی میں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو تمہاری بیوی بنایااوروہ مردکہے: ’’قَبِلْتُ‘‘ یعنی میں نے قبول کیاتوچونکہ نکاح کرتے وقت لڑکی کومعین نہیں کیاگیااس لئے نکاح باطل ہے۔
۵:)عورت اورمردازدواج پرراضی ہوں ۔ہاں اگرعورت بظاہرناپسندیدگی سے اجازت دے اورمعلوم ہوکہ دل سے راضی ہے تونکاح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۰)اگرنکاح میں ایک حرف یا اس سے زیادہ غلط پڑھاجائے جواس کے معنی کو نہ بدلے تو نکاح صحیح ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۱)وہ شخص جونکاح کاصیغہ پڑھ رہاہواگر( خواہ اجمالی طورپر) نکاح کے معنی جانتاہواوراس کے معنی کو قصد تحقق یعنی حقیقی شکل دیناچاہتاہوتونکاح صحیح ہے اور یہ لازم نہیں کہ وہ تفصیل کے ساتھ صیغے کے معنی جانتاہومثلاً یہ جانے کہ عربی زبان کے لحاظ سے فعل یا فاعل کون ساہے۔

مسئلہ (۲۳۹۲)اگرکسی عورت کانکاح اس کی اجازت کے بغیرکسی مردسے کردیا جائے اوربعدمیں عورت اورمرداس نکاح کی اجازت دے دیں تونکاح صحیح ہےاور اجازت کےلئے کافی ہے کہ کچھ زبان سے کہے یا کوئی ایساکام کرے جو اس کی رضایت پر دلالت کرسکتا ہو۔

مسئلہ (۲۳۹۳)اگرعورت اورمرددونوں کویاان میں سے کسی ایک کوازدواج پر مجبور کیاجائے اورنکاح پڑھے جانے کے بعدوہ اجازت دے دیں جیسا کہ گزشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا تونکاح صحیح ہے اور بہتریہ ہے کہ دوبارہ نکاح پڑھاجائے۔

مسئلہ (۲۳۹۴)باپ اوردادااپنے نابالغ لڑکے یالڑکی یا دیوانے فرزند کا جودیوانگی کی حالت میں بالغ ہواہونکاح کرسکتے ہیں اورجب وہ بچہ بالغ ہو جائے یادیوانہ عاقل ہوجائے توانہوں نے اس کاجو نکاح کیاہواگراس میں کوئی خرابی ہو تو انہیں اس نکاح کوبرقراررکھنے یاختم کرنے کااختیار ہے اور اگرکوئی خرابی نہ ہواور نابالغ لڑکے یالڑکی میں سے کوئی ایک اپنے اس نکاح کومنسوخ کرے تو (احتیاط واجب کی بناء پر) ضروری ہےکہ یا طلاق دیں یا دوبارہ نکاح پڑھیں ۔

مسئلہ (۲۳۹۵)جولڑکی سن بلوغ کوپہنچ چکی ہواوررشیدہ ہویعنی اپنابرابھلاسمجھ سکتی ہو اگروہ شادی کرناچاہے اورکنواری ہو اور اپنے زندگی کے امور کو خود انجام نہ دیتی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے باپ یادادا سے اجازت لےبلکہ اگر وہ خودمختاری سے اپنی زندگی کے کاموں کوانجام دیتی ہو تو( احتیاط واجب کی بناء)پھر بھی اجازت لےالبتہ ماں اور بھائی سے اجازت لینالازم نہیں ۔

مسئلہ (۲۳۹۶)اگر لڑکی کنواری ہولیکن باپ یا دادا کسی بھی مرد کے ساتھ اسے شادی کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں جوعرفاًوشرعاًاس کےلیے ہمکفو ہو اور وہ پوری طرح سے روک رہے ہوں یاباپ اور دادا بیٹی کے شادی کے معاملے میں کسی طرح شریک ہونے کے لئے راضی نہ ہوں یادیوانگی یا اس جیسی کسی دوسری وجہ سے اجازت دینے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں،یا اگر لڑکی کنواری نہ ہو توان تمام صورتوں میں ان سے اجازت لینالازم نہیں ہے۔ اسی طرح کنواری ہونے کی صورت میں ان کے موجودنہ ہونے یاکسی دوسری وجہ سے اجازت لیناممکن نہ ہواورلڑکی کاشادی کرنابےحدضروری ہوتوباپ اوردادا سے اجازت لینالازم نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۷)اگرباپ یادادااپنے نابالغ لڑکے کی شادی کردیں تو لڑکے کو چاہئے کہ بالغ ہونے کے بعداس عورت کاخرچ دے بلکہ بالغ ہونے سے پہلے بھی جب اس کی عمراتنی ہو جائے کہ وہ اس لڑکی سے لذت اٹھانے کی قابلیت رکھتاہواورلڑکی بھی اس قدرچھوٹی نہ ہوکہ شوہراس سے لذت نہ اٹھاسکے توبیوی کے خرچ کاذمہ دارلڑکاہے اوراس صورت کے علاوہ بقیہ صورتوں میں نفقہ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۳۹۸)اگرباپ یادادااپنے نابالغ لڑکے کی شادی کردیں تو اگر لڑکے کے پاس نکاح کے وقت کوئی مال نہ ہوتوباپ یادادا کوچاہئے کہ اس عورت کا مہر دے اور یہی حکم ہے اگرلڑکے کے پاس کوئی مال ہولیکن باپ یادادا نے مہر ادا کرنے کی ضمانت دی ہواور ان دوصورتوں کے علاوہ اگراس کامہرمہرالمثل سے زیادہ نہ ہو یا کسی مصلحت کی بناپراس لڑکی کامہرمہرالمثل سے زیادہ ہوتوباپ یادادابیٹے کے مال سے مہراداکرسکتے ہیں ورنہ بیٹے کے مال سے مہرالمثل سے زیادہ مہر نہیں دے سکتے مگریہ کہ بچہ بالغ ہونے کے بعدان کے اس کام کوقبول کرے۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button