بینک کے انعامات

کبھی بینک اپنے کھاتہ داروں کے درمیان قرعہ نکالتا ہے اور انھیں اکاؤنٹ میں مزیدرقم ڈالنے اور رقم بچانے کی ترغیب دینے کےلئے جن کے نام قرعہ نکلتا ہے انھیں انعام سےنوازتاہے۔
مسئلہ (۲۸۲۰)کیا بینکوں کا یہ طریقہ جائز ہے؟ یہ تفصیل طلب مسئلہ ہے ، اس صورت میں کھاتہ داروں نے اکاؤنٹ کوکھولنے میں قرعہ اندازی کی شرط نہ رکھی ہو اور بینک صرف ان کی ترغیب اور اکاؤنٹ میں مزید رقم ڈالنے اور دوسروں کو اکاؤنٹ کھولنے کی ترغیب کےلئے ایسا کام کیا ہوتو جائز ہے اور قرعہ اندازی میں جن کا نام آیا ہے ان کا انعام لینا بھی جائز ہے ۔ لیکن اگر وہ سرکاری یا مشترک بینک ہوں تو ضروری ہےکہ ان انعامات کو لینے اور ان میں تصرف کرنے کےلئے حاکم شرع سے اجازت لے اور اگر بینک پرائیویٹ ہوتو انعامات کالینا اور ان میں تصرف کرنا جائز ہے اور حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر کھاتہ کھولنے والے نے اپنی رقم کو قرض کےمعاہدہ کے ضمن میں اس کے جیسے کسی دوسرے معاہدہ میں قرعہ اندازی کی شرط رکھی ہو اور بینک اس شرط کے مطابق قرعہ اندازی کےلئے اقدام کرے تو یہ جائز نہیں ہے اس طرح جس کے نام قرعہ نکلنا ہے جب کہ یہ شرط (وعدہ وفا کرنے کے عنوان سے ہو) جائز نہیں ہے اور اس کے بغیر جائز ہے۔
سفتہ (پرونوٹ کے احکام)
بینکوں کے خدمات میں سے ایک خدمت ، پرونوٹ کااپنے خریداری کی نمائندگی میں وصول کرنا ہے ، اس طرح کہ وقت آنے سے پہلے بینک پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کو معین تاریخ اور اس کی رقم سے باخبر کرتا ہے تاکہ اس کو ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے اور بینک پرونوٹ کی رقم کو وصول کرنے کے بعد اس رقم کو اپنے خریدار کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا ہے یا اس کو نقد دے دیتا ہے اور اس خدمت کے بدلے میں اجرت حاصل کرتا ہے اس طرح بینک اپنےخریدار کی طرف سے اس کے شہر یا کسی دوسرے شہر میں چیک وصول کرنے کے لئے اقدام کرتا ہے اس صورت میں کہ جب چیک لانے والا خود چیک سے متعلق اقدام کرنا نہیں چاہتا تو بینک سے اس کی نمائندگی میں وصول کرتا ہےا ور ان خدمات کے بدلے اجرت حاصل کرتا ہے۔
مسئلہ (۲۸۲۱) پرونوٹ وصول کرنے اور اجرت لینے کی چند صورتیں ہیں :
(۱) پرونوٹ بھنانے والا اس کو ایسے بینک کو دیتا ہے جس کے ذمہ حوالہ نہیں کیا گیا ہے اور اس کام کے بدلے ایک خاص اجرت، پرونوٹ کی رقم لینے کا تقاضا کرتا ہے۔ظاہراً اس طرح کی خدمت اور اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ بینک صرف پرونوٹ کو وصول کرے لیکن اس کی سودی رقم کو وصول کرنا جائز نہیں ہے اس طرح کی اجرت کو فقہی لحاظ سے جعالہ میں قرار دے سکتے ہیں کہ جس میں قرض دینے والا اپنی رقم بینک کے ذریعہ وصول کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
(۲)پرونوٹ سے بھنانے والا، پرونوٹ کو حوالہ دئے گئے بینک کو دکھاتا ہے لیکن بینک پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کا مقروض نہیں ہے یا حوالہ دی گئی چیز کے علاوہ دوسری کرنسی کا مقروض ہے۔
صرف اسی صورت میں بینک کے لئے جائزہےکہ اس حوالے کو قبول کرنے کی بناء پر (اس شرط کے مطابق جو اس کے پہلے گذر چکی ہے) اپنے کام کی اجرت حاصل کرے، اس لئے کہ جس حوالے کا مقروض نہیں ہے اسے قبول کرنا یا جس چیز کا مقروض ہے اس کے علاوہ دوسری چیز کاقبول کرنا واجب نہیں ہے اس لئے اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لئے اور ان خدمات کو انجام دینے کےبدلے ، کسی چیز کے لینے کا حق رکھتا ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۳)پرونوٹ پر دستخط کرنے والا، پرونوٹ کی رقم کی ادائیگی اپنے اکاؤنٹ سےکرنے کے بعد اس کو بینک کے حوالے کرتا ہے کہ وقت آنے پر اس کے اکاؤنٹ سے وہ رقم نکال لے اور وہ رقم پرونوٹ کے مالک کے اکاؤنٹ میں ڈال دے یا اس کو نقد دے دے، یہاں پر پرونوٹ پر دستخط کرنے والا اپنے قرض دینے والے کو بینک کی طرف رجوع کرنے کےلئے کہتا ہے جو اس کا مقروض ہے اس لئے کہ یہ حوالہ مقروض کو حوالہ دینے کی قسم میں شمار ہوتا ہے اور جس کے حوالے کیا گیا ہے(یعنی بینک) اس کے لئے اس حوالے کی موافقت کرنا ضروری ہے اور بینک کی طرف سے قبول کئے بغیر وہ نافذ نہیں ہوتا اس لئے بینک کےلئے جائز ہےکہ اس حوالہ اور حوالہ دینے والے کی قرض کے ادائیگی کے بدلے اجرت دریافت کرے۔
کرنسی کی خرید وفروخت
بینکوں کے کاموں میں سے ایک کام، کرنسی خریدنے اور بیچنے کےلئے اقدام کرنا ہے تاکہ اپنے خریدار کی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کرسکے، خاص طور سے بیرون ملک سے چیزیں درآمد کرنے والوں کےلئے اور نتیجہ میں خریدوفروخت کے ذریعہ جو قیمتوں کافرق ہو اس سےفائدہ حاصل کیا جاسکے۔
مسئلہ (۲۸۲۲)کرنسی کی خریدو فروخت بازار کی قیمت پر یااس سے کم یا زیادہ میں خواہ نقدہو یا ادھار ہو تو صحیح ہے۔
بینکوں سے اکاؤنٹ میں موجود ہ رقم سے زیادہ لینا (Over Draft)
کوئی بھی شخص جو بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ رکھتا ہے وہ کسی بھی رقم کو جو اکاؤنٹ میں موجود ہ رقم سے زیادہ نہ ہو ،لے سکتا ہے۔
اور کبھی کبھی بینک کچھ کھاتہ داروں کو جن پر وہ مطمئن ہوتاہے، انھیں اجازت دیتا ہے کہ اکاؤنٹ میں موجودہ رقم سے زیادہ پیسہ اپنے اکاؤنٹ کے حساب میں لے لیں اوراس کام کو (اضافہ برداشت) یعنی اکاؤنٹ میں موجود ہ رقم سے زیادہ رقم حاصل کرنا کہا جاتا ہے اور بینک اس رقم کو دینے کے بدلے اپنے لئے کچھ فائدہ لیتاہے۔
مسئلہ (۲۸۲۳)اضافی رقم لینا، حقیقت میں ، بینکوں کو فائدہ دینے کی شرط پر قرض لینا ہے اور نتیجہ میں یہ سودی قرض ہوگا اور حرام ہے اور وہ فائدہ جس کابینک اضافی رقم لینے کے مقابل مطالبہ کرتا ہے وہ ر بوی اور حرام فائدہ شمار کیاجاتاہے۔
البتہ اگر بینک سرکاری یامشترک ہوتو اس سے اضافی رقم لینا بینک سے قرض لینے کے عنوان سے نہیں بلکہ مجہول المالک کا مال حاکم شرع(مرجع) کی اجازت لینا اس طرح جیسے مسئلہ نمبردو میں گذر گیا ہے اشکال نہیں رکھتا ہے۔




