احکامجدید فقہی احکام

رقم مستعار (Over Draft)

بینکوں سے اکاؤنٹ میں موجود ہ رقم سے زیادہ لینا (Over Draft)

کوئی بھی شخص جو بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ رکھتا ہے وہ کسی بھی رقم کو جو اکاؤنٹ میں موجودہ رقم سے زیادہ نہ ہو ،لے سکتا ہے۔

اور کبھی کبھی بینک کچھ کھاتہ داروں کو جن پر وہ مطمئن ہوتاہے، انھیں اجازت دیتا ہے کہ اکاؤنٹ میں موجودہ رقم سے زیادہ پیسہ اپنے اکاؤنٹ کے حساب میں لے لیں اوراس کام کو (اضافہ برداشت) یعنی اکاؤنٹ میں موجود ہ رقم سے زیادہ رقم حاصل کرنا کہا جاتا ہے اور بینک اس رقم کو دینے کے بدلے اپنے لئے کچھ فائدہ لیتاہے۔

مسئلہ (۲۸۲۳)اضافی رقم لینا، حقیقت میں ، بینکوں کو فائدہ دینے کی شرط پر قرض لینا ہے اور نتیجہ میں یہ سودی قرض ہوگا اور حرام ہے اور وہ فائدہ جس کابینک اضافی رقم لینے کے مقابل مطالبہ کرتا ہے وہ ر بوی اور حرام فائدہ شمار کیاجاتاہے۔

البتہ اگر بینک سرکاری یامشترک ہوتو اس سے اضافی رقم لینا بینک سے قرض لینے کے عنوان سے نہیں بلکہ مجہول المالک کا مال حاکم شرع(مرجع) کی اجازت لینا اس طرح جیسے مسئلہ نمبردو میں گذر گیا ہے اشکال نہیں رکھتا ہے۔

 تنزیل برات
مقدمات:
(اول:)
خریدوفروخت قرض سے بہت سی چیزوں میں الگ ہے من جملہ:(۱) بیچنا بدلے میں کچھ لےکر کسی چیز کا مالک بنانا ہے جب کہ قرض مال کا مالک بنانا ہے اس وعدہ کے مقابل میں کہ وہ اس طرح رقم واپس کردے گا اگر وہ مال مثلی ہے تو مثل اور قیمی ہے تو قیمت ادا کرے گا[9]۔

(۲)سودی خریدوفروخت بنیادی طور پر باطل ہے ربوی قرض کے خلاف جس کی اصل صحیح ہے اور صرف اضافی رقم لینا باطل ہے۔

(۳) جو بھی اضافی رقم کی شرط قرض میں لگائی جائے گی وہ ربا اور حرام ہے، اس خریدوفروخت کے برخلاف جو تولنے اور وزن سے بیچی جانے والی چیزوں میں ہوتا ہے (وہ چیزیں جو ناپ یا تول کر بیچی جاتی ہیں ) اگر ایک ہی جنس کی ہوں تو زیادہ لینا مطلقاً حرام ہے اور اگر دونوں کی جنس الگ یا ناپ اورتول کر بیچی وخریدی جانے والی چیزیں نہ ہوں ، اس صورت میں اگر معاملہ نقدمیں ہو، تو جو زیادہ لیا ہے وہ ربا نہیں ہے اور معاملہ صحیح ہے لیکن معاملہ میں مدت پائی جاتی ہو جیسے (۱۰۰) انڈے کو ایک سودس انڈے کے بدلے جو بعدمیں لیں گے بیچا جائے یا بیس کلو چاول کو، چالیس کلو گہیوں کے بدلے جو ایک مہینے کےبعد ملے گا بیچے اس صورت میں یہ معاملہ ربوی نہ ہو اشکال ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔

(دوم:) نوٹ چونکہ گننے والی چیزوں میں شمار ہوتےہیں ، بیچنا اور کم و زیادہ لےکر بدلنا اس صورت میں جب کہ ایک ہی جنس کے نہ ہوں نقد و ادھار جائز ہے لیکن اگر ایک ہی جنس کےہو ں تو ان کا اضافی رقم پر صرف نقد ہی بیچنا جائز ہے لیکن ان کا ادھار بیچنا (جیسا کہ گذر چکا ہے) اشکال سے خالی نہیں ہے۔

اس بناء پر وہ شخص جو دس عراقی دینار کا کسی سے طلبگار ہے اس کے لئے جائز ہےکہ وہ اپنی مطلوبہ رقم کو اس سےکم مثلاً نو عراقی دینار میں نقد بیچ دے۔ اسی طرح اس کے لئے جائز ہےکہ اسے دوسرے کرنسی اس سے کم مثلاً اردن کے نو دینار سے نقد بیچ دے لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے مطالبہ کا وقت آچکاہو، اس لئے کہ جس رقم کے مطالبہ کا وقت نہیں ہے اسے مہلت دے کہ قرض میں بیچنا جائز نہیں ہے۔

(سوم:)تاجروں کےدرمیان جو پرونوٹ رائج ہیں جیسے نوٹ، ان کا مالی اعتبار نہیں ہوتاہے اور صرف قرض ثابت کرنے کی سند شمار کیا جاتا ہے اور اس سند سے اس بات کا پتا چلتا ہےکہ پرونوٹ میں درج رقم پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کے ذمہ میں ہے اور یہ اس شخص کے لئے ہے جس کے نام پرونوٹ صادر کیا گیا ہے اس بناء پر خود پرونوٹ پر معاملات جاری نہیں ہوں گے بلکہ اس سرمایہ پر ہے جس کی نشاندہی یہ پرونوٹ کرتے ہیں ۔

اس طرح اگر خریدار کم رقم کی سند یا پرونوٹ بیچنے والے کو دے تو گویا مال کی قیمت کو ادا نہیں کیا ہے لہٰذا اگر وہ سند غائب ہوجائے یا بیچنے والے سے ضائع ہوجائے تو اس کے مال سے ضائع ہونانہیں کہا جائے گا اور خریدار کے ذمہ اس کا قرض باقی رہے گا لیکن اگر نوٹ دے دے تو گویا اس کی قیمت کو ادا کردیا ہے او ر اگر ضائع ہوجائے تو بیچنے والے کے مال سے ضائع ہونا کہاجائے گا۔

مسئلہ (۲۸۲۴)پرونوٹ دو طرح کے ہوتے ہیں :
(۱) وہ پرونوٹ جو واقعی قرض کو بیان کرتا ہے ا س طرح کہ اس پر دستخط کرنے والا اس شخص کا مقروض ہوتا ہے کہ جس کے نام وہ پرونوٹ صادر ہوا ہے۔

(۲) وہ پرونوٹ جو واقعی قرض کی نشاندہی نہیں کرتا۔

پہلی قسم میں جائز ہے کہ قرض دینے والا وہ قرض جس میں مہلت دی گئی ہے او رجو مقروض کے ذمہ ثابت ہے اس کو کم رقم پر نقد بیچ دے جیسے کہ اس کا سوروپیہ کسی پر قرض ہے اور وہ اسے نقد نوے روپیہ میں بیچ دے (البتہ مہلت دار قرض کو بیچنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ قرض کے مقابل بیچنا ہے) اور اس کے بعد بینک یا کوئی دوسرا شخص مقروض سے (جس نے پرونوٹ پر دستخط کیا ہے) وقت آنے پر اس کی قیمت کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔

لیکن دوسری قسم میں ،جس میں قرض دینے والے کے پرونوٹ کا بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہاں واقعی طور پر کوئی قرض نہیں ہے جس پر دستخط کرنے والے کے ذمہ کچھ نہیں ہے، یہ صرف رقم کم کرنے کےلئے صادر ہوا ہے۔اسی لئے اس کو دوستانہ پرونوٹ کہا جاتاہے۔ اس کے باوجود پرونوٹ کی رقم کو کم کرنے کو شرعی صورت دی جاسکتی ہے وہ اس طرح کہ پرونوٹ پر دستخط کرنے والا،پرونوٹ سے فائدہ اٹھانے والے کو وکیل قرار دے تاکہ پرونوٹ کی رقم کی مقدار کو دستخط کرنے والے کے ذمہ میں دوسری کرنسی اور اس کی قیمت سے کم قیمت میں بیچ دے مثلاً اگر پرونوٹ( ۵۰) عراقی دینار کا ہو او راس کی واقعی قیمت (۱۱۰۰) تومان ہوتو پرونوٹ سے فائدہ اٹھانے والا پچاس دینار پر دستخط کرنےوالے کے ذمہ میں ( ۵۰) دینار پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کی طرف سے ہزار تومان میں اس کے ذمہ بیچ دے اس معاملہ کے بعد پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کے ذمہ میں (۵۰) دینار آجائیں گے اور فائدہ اٹھانے والا( ۱۰۰۰) تومان حاصل کرلے گا جو پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کی ملکیت ہے پھر پرونوٹ سے فائدہ اٹھانے والا ہزار تومان کو پرونوٹ پردستخط کرنے والے کی طرف سے اپنے آپ سے بیچ دے گا جس کے مقابل میں پچاس دینار خود اس کے ذمہ میں آجائے گا ۔ نتیجہ میں پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کےلئے اسی پچاس دینار کی مقدار کے ذمہ کا مقروض ہوجائے گا جس کا پرونوٹ پر دستخط کرنے والا بینک کا مقروض ہے۔

لیکن اس راستہ میں بہت کم فائدہ ہے کیونکہ صرف اسی جگہ فائدہ مند ہوسکتا ہے جہاں پر غیر ملکی کرنسی سے کم رقم لینے کی صورت بنتی ہو لیکن ملک میں لینے والا روپیہ کے سلسلے میں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔کیونکہ اس کو خریدوفروخت معاملہ قرار دے کر صحیح قرار دینا( اس اشکال کو دیکھتے ہوئے جو گننے والی چیزوں میں اضافہ لینے کی صورت میں پیش آتا ہے اور جس کا ذکر ہوچکا ہے) ممکن نہیں ہے۔

لیکن فرضی پرونوٹ کی قیمت بینک کے نزدیک کم کرنا قرض کی صورت میں اس طرح کہ قرض لینے والا اور پرونوٹ سےفائدہ اٹھانے والا علامتی پرونوٹ کی قیمت سےکم رقم میں بینک سے قرض لیں اور بینک کو پرونوٹ پر دستخط کرنے والے کوجو مقروض نہیں ہے پوری قیمت وصول کرنے کےلئے حوالے دے دے۔ یہ سود اور حرام ہے کیونکہ پرونوٹ کی رقم سے کچھ مقدار میں رقم کم کرنے کی شرط لگانا حقیقت میں اس رقم پر اضافی رقم کی شرط ہے جو حرام ہے ،اگر یہ اضافی رقم مہلت دینے کےبدلے میں نہ ہو بلکہ بینک بعض خدمات کے عنوان سے ہو جیسے قرض کے دستاویز بنانا اور اس کو حاصل کرنا چونکہ قرض دینے والا قرض لینے والے کے لئے یہ شرط نہیں لگاسکتا کہ اس قرض پر مجھے کوئی مالی فائدہ حاصل ہوجائے۔

مذکورہ بالا حکم پرائیویٹ بینکوں کےلئے ہے لیکن سر کاری اورمشترک بینکوں کےلئے ربا کی مشکل سے نجات پانے کے لئے اس طرح عمل کیا جاسکتاہے کہ پرونوٹ کی رقم سے کم قیمت سے فائدہ اٹھانے والا بیچنے اور قرض کاارادہ نہ رکھتا ہو بلکہ اس کا مقصد مجہول المالک مال تک رسائی ہو اس صورت میں حاکم شرع کی اجازت سے اسے لے سکتے ہیں اس کے بعد اس کو استعمال کرسکتے ہیں اور جب کبھی وقت پورا ہوجائے تو بینک پرونوٹ پر دستخط کرنے والے سے رجوع کرے اور اس کو پرونوٹ کی قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرے۔ پرونوٹ پر دستخط کرنے والا بھی جو کچھ اس نے ادا کیا ہے اس کے بدلے میں پرونوٹ سے فائدہ اٹھانے والے سے رجوع کرکے حاصل کرلے اگر اس کی درخواست پراس نے دستخط کیا ہو۔

 بینک میں نوکری کرنا
بینک کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں :
(۱)بینک کا حرام کام:جیسے وہ کام جو سودی معاملات سے تعلق رکھتاہے جیسے سودی معاملات کے دستورکو جاری کرنے کی ذمہ داری لینا، دستاویز آمادہ کرنا اور ان پر گواہ معین کرنا اور فائدہ اٹھانے والے سود کی اضافی رقم لینا وغیرہ ہے۔ اسی طرح ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا جو سودی کاروبار سے تعلق رکھتی ہیں یا شراب کی تجارت کرتی ہیں جیسے ان کے حصص(شیئرز) بیچنا اوران کے توسعہ کے لئے تعاون کرنا حرام کاموں میں شمار ہوتا ہے یہ سارے کام حرام ہیں اور بینک کے اس شعبہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے اور اجرت لینے کاحق دار نہیں ہوگا۔

(۲) بینک کےجائز کام: جو مذکورہ کام کے علاوہ ہیں اور ان میں کام کرنااور اس کی اجرت لینا جائز ہے۔

مسئلہ (۲۸۲۵)اگر سودی معاملات میں سود کی اضافی رقم دینے والا مسلمان نہ ہو، (خواہ بینک غیر ملکی یا کوئی اورہو) ،اس صورت میں جیسا کہ گذرچکا ہے مسلمان کے لئے زائد رقم لیناجائز ہے اور نتیجۃً ایسے شعبوں میں نوکری کرناجو سودی معاملات سے متعلق ہوں ، جائز ہے چاہےبینک ہو یا دوسرے ادارے۔

مسئلہ (۲۸۲۶)اسلامی ممالک میں سرکاری یا مشترک بینکوں میں جو سرمایہ ہوتا ہے وہ مجھول المالک کا سرمایہ ہے جس میں حاکم شرعی سے اجازت لئے بغیر استعمال کرناجائز نہیں ہے اس بناء پر اس کے بینکو ں میں کام کرنا او رکھاتہ داروں کو پیسہ دینا اور لینا جوحاکم شرع سے رجوع کئے بغیراستعمال کررہاہو حاکم شرع(مرجع) کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے لیکن اگر حاکم شرع اس طرح کے بینکوں میں کام کرنے کو مذکورہ مقامات میں اجازت دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔

مسئلہ (۲۸۲۷)جعالہ،اجارہ، حوالہ اور جائز معاملات کی صحت کےلئے سرکاری بینکوں میں جو اسلامی ممالک میں رائج ہیں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت ہے اور اس کی اجازت کےبغیر یہ معاملات صحیح نہیں ہیں اور اسی طرح وہ شرعی معاملات جو سرکاری اورمشترک اسلامی ملکوں کے بینکوں میں رائج ہیں حکومت کے حصص(شیئرز) کے تعلق سے ، معاملات کی صحت حاکم شرع(مرجع تقلید) کی اجازت پر موقوف ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button