خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:335)
فضائل ماہ رجب /سیرت و کردار حضرت امام علی نقی علیہ السلام

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 26 دسمبر 2025 بمطابق 5 رجب المرجب 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فضائل ماہ رجب /سیرت و کردار حضرت امام علی نقی علیہ السلام
﷽
ماہ رجب کی بے شمار عظمت و فضیلت کا ائمۂ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بڑی تعداد میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اس مہینے کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول خدا ارشاد فرماتے ہیں:
إنَّ اللّٰهَ تَعالى نَصَبَ فِي السَّماءِ السّابِعَةِ مَلَكا يُقالُ لَهُ : الدّاعي ، فَإِذا دَخَلَ شَهرُ رَجَبٍ يُنادي ذلِكَ المَلَكُ كُلَّ لَيلَةٍ مِنهُ إلَى الصَّباحِ : طوبى لِلذّاكِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ!
ويَقولُ اللّٰهُ تَعالى :……..
اللہ تعالی نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ کو مقرر کر کے رکھا ہے اسے "داعی” کہا جاتا ہے اور جب رجب کا مہینہ آتا ہے وہ فرشتہ رجب کے تمام راتوں میں یہ ندا دیتا رہتا ہے ” کتنا خوش نصیب ہے اس ماہ میں ذکر خدا کرنے والے ؛ کتنا خوش نصیب ہے اطاعت کرنے والے”اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اس کا ہمنشین ہوں جو اس ماہ میں میرا ہم نشین ہوتا ہے،اس شخص کو بخش دیتا ہوں جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے،اسے جواب دیتا ہوں جو مجھے پکارتا ہے،اسے عطا کرتا ہوں جو مجھ سے مانگتا ہے،اور اسے ھدایت کرتا ہوں جو مجھ سے ہدایت طلب کرتا ہےاور اس مہینے کو میں نے اپنے اور بندوں کے درمیاں ایک رسی قرار دیا ہے جو بھی اس رسی کے ساتھ تمسک کرے اور اسے تھام لے وہ مجھ تک پہنچے گا۔(الإقبال : ج ۲ ص ۲۲۸)
ماہ رجب کے روزے کی فضیلت
ثوبان نامی شخص رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن آنحضرت (ص) کے ساتھ قبرستان میں تھا کہ حضرت چلتے چلتے رک گئے پھر کچھ قدم چلے اور رک گئے ، عرض کیا یا رسول اللہ (ص) اپ کے اس عمل کی وجہ کیا ہے ؟ تو حضرت (ص) زور سے زور سے رونے لگے اور فرمایا میں اہل عذاب کے رونے کی آوازیں سن رہا ہوں ، ان پر رحم کی دعا کی تو خداوند متعال نے ان کےعذاب میں کمی کردی ، اے ثوبان ! اس قبرستان میں عذاب الھی کے شکار مُردوں نے اگر ماہ رجب میں فقط ایک روزہ رکھا ہوتا اور ایک شب صبح تک عبادت میں گزاری ہوتی تو اج قبر میں عذاب نہ ہو رہا ہوتا ۔ (بحارالانوار، ج97 ، ص 26)
یہ تمام فضائل و کمالات اس ماہ یعنی رجب میں روزہ رکھنے والوں کیلئے ہیں لیکن اگر کوئی روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو روایتوں میں اس تسبیح پڑھنے کی تاکید ہے "سُبْحانَ الْاِلٰہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إِلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ أَھْلٌ ؛ پاک ہے وہ معبود اور بڑی شان والا ہے ، پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں ، پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے ، پاک ہے وہ جو لباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔ ” اگر کوئی ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تو اسے اس ماہ میں روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔( ترجمہ ثواب الاعمال ، ص 136)
ابوسعید خُدری نے مرسل اعظم کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر کوئی ان اعمال کو انجام نہ دے سکے تو کیا کرے تو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی ماہ رجب میں روزہ نہ رکھ سکے تو وہ صدقہ دے دے کہ خداوند متعال قیامت میں اسے اس قدر ثواب عنایت کرے گا کہ جسے نہ انکھوں نے دیکھا ہوگا اور کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی ذھن نے تصور کیا ہوگا ۔ (امالی صدوق، ص 542)
ماہ رجب کی اہم مناسبات
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقیعات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلام ﷺکی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقر علیہ السلام ، امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ امام ہادی علیہ السلام اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
سیرت حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اس ہفتے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی ولادت و شہادت کی روایات ہیں۔ لہذا آج کا خطبہ دسویں امام، حضرت امام علی نقی الہادی علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ اور کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے ہے۔
حضرت امام محمد تقی نے تبرکاً آپ کا اسم مبارک اپنے جدبزرگوارامیرالمومنین علی ع کے نام پر علی رکھا،چونکہ آپ فصاحت وبلاغت،جہاداوراللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرنے میں اُن (امام علی )کے مشابہ تھے اورآپ کی کنیت ابوالحسن رکھی،جس طرح آپ کے کریم القاب مرتضیٰ،عالم اور فقیہ وغیرہ ہیں ۔اور آپؑ کے مشہور القاب الہادی (ہدایت دینے والا) اور النقی (پاکیزہ) ہیں۔
آپؑ کی ولادت ۱۵ ذوالحجہ جبکہ بعض روایات میں ۲ رجب ۲۱۲ ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب ‘صریا’ نامی بستی میں ہوئی۔جبکہ آپؑ کی شہادت 3 رجب کو منقول ہے۔
آپؑ کی زندگی علم، تقویٰ، صبر اور استقامت کا ایک روشن نمونہ ہے، اور آپؑ کی سیرت دنیا کے ہر انسان اور ہر معاشرے کے لیے مشعل راہ اور نمونہ عمل ہے۔
علم اور طاغوتی نظام سے مقابلہ
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے صرف ۸ سال کی عمر میں منصبِ امامت سنبھالا۔ آپ کا دور امامت چھ ظالم عباسی حکمرانوں کے دور سے گزرا۔ متوکل عباسی ان میں سب سے ظالم تھا جس نے امام حسین علیہ السلام کے روضے کو منہدم کرنے کا حکم دیا اور آپؑ کو مدینہ سے سامرا (عسکر) بلا کر نظر بند کر دیا۔
امام کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانا:
متوکل نے ایک بہت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے کو امام علی نقی سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام کی تشہیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا ۔
کچھ مدت کے بعد وہ امام سے سوالات کرنے کیلئے تیار ہو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی سے یوں سوال کیا :اللہ نے حضرت موسیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کےمریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا؟
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :’اللہ نے حضرت مو سیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بہت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیرا ن رہ جا ئیں اور ان کے لئے حجت ثابت ہو جا ئے ،حضرت عیسیٰ کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد ۖ کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بہت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔۔۔’۔
امام نے اپنے حکیمانہ جواب کے ذریعہ ان معجزوں کے ذریعہ انبیاء کی تائید فرما ئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ہی مناسب تھے، اللہ نے اپنے رسول حضرت مو سیٰ کی عصا دے کر تائید فرما ئی جو ایک خطرناک اژدھا بن کر جادو گر وں کی اژدھے کی شکل میں بنا ئی ہوئی رسیوں اور لکڑیوں کو نگل گیاتو وہ مو سی کی طرح معجزہ لانے سے عاجز آگئے اور وہ علی الاعلان موسیٰ کی نبوت پر ایمان لے آئے ،اسی طرح اللہ نے آپ کو ید بیضاء عطا کیا تھاجونور اورروشنی میں سورج کے مثل تھااور یہ معجزہ آپ کی سچا ئی کی ایک نشانی تھا۔لیکن پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اندھوں کو بینائی ،مبروص کو شفااور مردوں کو زندہ کرنے کی تائید فرما ئی کیونکہ آپ کے زمانہ میں طب کا زور اوج کمال پر تھالہٰذا اطباء آپ کا مثل لانے سے عاجز آگئے ۔پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی قرآن کریم کے جاودانہ فصیح و بلیغ معجزہ کے ذریعہ تا ئید فرما ئی جس میں انسان کی کرامت اور اس کی امن دار حیات کو منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بلغائے عرب اس کے ہم بحث اور اس کا مثل نہ لا سکے ۔۔۔جیسا کہ اللہ نے امیر المو منین علی کی کاٹنے والی تلواردے کر تا ئید فرما ئی تھی جو عرب کے سر کشوں کے مشرکین کے سروں کو کا ٹتی جاتی تھی ،اور بڑے بڑے بہادر اس کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے ہوئے کہا کرتے تھے :علی کی تلوار کے علاوہ جنگ سے فرار کرنا ننگ ہے وہ اس کو ندتی ہو ئی بجلی کے مانند تھی جومشرکین اور ملحدین کے ستونوں کوتباہ و برباد کر دیتی تھی ۔بہر حال ابن سکیت نے امام سے سوال کیا کہ حجت کسے کہتے ہیں ؟آپ نے فرمایا :
’العقل یُعرفُ بہ الکاذبَ علی اللّٰہ فیُکذَّبُ’۔
ابن سکیت امام کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ہو گیا ہے یہ صاحب ِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔امام اپنے زمانہ میں صرف شریعت کے احکام میں ہی اعلم نہیں تھے بلکہ آپ تمام علوم و معارف میں اعلم تھے۔
سیرت اور اخلاقی تربیت
۱۔ تقویٰ اور اطاعتِ خالق: امامؑ نے فرمایا:
**«مَنِ اتَّقَى اللّٰهَ يُتَّقَى، وَمَنْ أَطَاعَ اللّٰهَ يُطَاعُ، وَمَنْ أَطَاعَ الْخَالِقَ لَمْ يُبَالِ بِسَخَطِ الْمَخْلُوقِينَ»**
ترجمہ: "جو اللہ سے ڈرے گا لوگ اس سے ڈریں گے، اور جو اللہ کی اطاعت کرے گا اس کی اطاعت کی جائے گی، اور جو خالق کی اطاعت کرے گا اسے مخلوق کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔” (تحف العقول، ص ۴۸۲)۔
تشریح: تقویٰ وہ ڈھال ہے جو انسان کو دنیاوی خوف سے آزاد کر کے صرف ایک اللہ کا تابع بنا دیتی ہے۔ جب انسان اللہ کا ہو جاتا ہے تو کائنات اس کے تابع کر دی جاتی ہے۔ یہ ارشاد مومن کو یہ درس دیتا ہے کہ اللہ کی اطاعت میں مخلوق کی ناراضگی کی پرواہ نہ کریں، جو امامؑ کی زندگی کا عملی نمونہ ہے۔
۲۔ خودبینی اور تکبر سے پرہیز:
امامؑ نے خودبینی اور غرور کو سخت ناپسند فرمایا۔ آپؑ نے فرمایا:
«الْعُجْبُ صَارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ، دَاعٍ إِلَى الْغَمْطِ وَالْجَهْلِ»
"خود پسندی (عجب) تحصیلِ علم سے مانع ہے اور پستی و نادانی کی طرف کھینچنے والی ہے۔” (بحار الانوار، ج ۶۹، ص ۱۹۹)۔
مزید فرمایا:
**«مَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِهِ كَثُرَ السَّاخِطُونَ عَلَيْهِ»**
ترجمہ: "جو اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہوتا ہے اس پر غصہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔” (بحار الانوار، ج ۷۲، ص ۳۱۶)۔
تشریح: یہ ارشادات بتاتے ہیں کہ خود پسندی علم کی راہ میں رکاوٹ ہے اور انسان کو جہالت کی طرف لے جاتی ہے۔ امامؑ کی سیرت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپؑ ہمیشہ تواضع اور عاجزی کا نمونہ تھے، جو مومنین کو تکبر سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔
۳۔ علم اور حکمت:
امام ہادیؑ علم کا وہ بحرِ بے کنار تھے جس سے وقت کے بڑے بڑے فقہا فیض یاب ہوئے۔ آپؑ نے فرمایا:
**«اَلْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ، وَالْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ، وَالْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ»**
ترجمہ: "علم ایک گراں قدر میراث ہے، اور ادب خوبصورت زیور ہیں اور فکر ایک صاف و شفاف آئینہ ہے۔” (بحار الانوار، ج ۷۵، ص ۳۶۹)۔ (یہ فرمان نہج البلاغہ میں امام علیؑ سے بھی منقو ل ہے)
تشریح: یہ ارشاد علم کی اہمیت کو بیان کرتا ہے کہ یہ ایک قیمتی میراث ہے جو نسلوں کو منتقل ہوتی ہے۔ امامؑ کی زندگی میں علم کی ترویج اور شاگردوں کی تربیت اس کی عملی مثال ہے، جو مومنین کو علم کی طلب اور اچھے اخلاق کی طرف راغب کرتی ہے۔
۴۔ زیارتِ جامعہ کبیرہ:
امامؑ کی علمی خدمات میں ایک عظیم یادگار "زیارت جامعہ کبیرہ” ہے۔ یہ عقیدہ امامت کا وہ مستند منشور ہے جو غلو اور تقصیر سے بچا کر معرفتِ اہل بیتؑ کا صحیح راستہ دکھاتا ہے۔ امامؑ نے اسے پڑھنے سے پہلے ۱۰۰ مرتبہ تکبیر کا حکم دیا تاکہ توحید اور عظمتِ الہیٰ مقدم رہے (الکافی، ج ۴، ص ۵۶۶)۔
دنیا اور آخرت کی حقیقت
امام علی نقی علیہ السلام نے ہمیں دنیا کی حقیقت سے باخبر کیا۔ آپؑ نے فرمایا:
**«الدُّنْيَا سُوقٌ رَبِحَ فِيهَا قَوْمٌ وَخَسِرَ آخَرُونَ»**
ترجمہ: "دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نے فائدہ اٹھایا اور دوسرے نے نقصان اٹھایا۔” (تحف العقول، ص ۴۸۳)۔
دنیا و آخرت کا توازن: آپؑ نے فرمایا:
**«النَّاسُ فِي الدُّنْيَا بِالْأَمْوَالِ وَفِي الْآخِرَةِ بِالْأَعْمَالِ»**
ترجمہ: "لوگوں کی حیثیت دنیا میں مال سے ہے اور آخرت میں اعمال سے ہے۔” (بحار الانوار، ج ۷۵، ص ۳۶۸)۔
مصائب پر صبر:
امامؑ نے لالچ کی مذمت کی اور فرمایا کہ لالچی کو کبھی چین نہیں ملتا۔ دنیا کے مصائب پر آپؑ کا ارشاد ہے:
**«إِنَّ اللّٰهَ جَعَلَ الدُّنْيَا دَارَ بَلْوَى وَالْآخِرَةَ دَارَ عُقْبَى، وَجَعَلَ بَلْوَى الدُّنْيَا لِثَوَابِ الْآخِرَةِ سَبَباً وَثَوَابَ الْآخِرَةِ مِنْ بَلْوَى الدُّنْيَا عِوَضاً»**
ترجمہ: "اللہ نے دنیا کو بلاؤں (آزمائش) کا گھر اور آخرت کو نتائج کا گھر قرار دیا ہے؛ دنیا کی بلاؤں کو آخرت کے ثواب کا سبب اور آخرت کے ثواب کو دنیا کی بلاؤں کا عوض قرار دیا ہے۔” (اعلام الدین، ص ۳۱۲)۔
تشریح: یہ ارشاد بتاتا ہے کہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے اور آخرت اجر کی۔ امامؑ کی زندگی میں ظالموں کے سامنے صبر اس کی عملی مثال ہے، جو مومنین کو دنیا کی سختیوں میں صبر کی تلقین کرتی ہے۔
شہادت
ظالم حکمرانوں کی تمام سختیوں کے باوجود امامؑ نے تبلیغ کا فریضہ جاری رکھا۔ آخر کار عباسی خلیفہ معتز کے حکم سے آپؑ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ آپؑ کی شہادت ۳ رجب ۲۵۴ ہجری کو سامرا میں ہوئی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپؑ کی تجہیز و تکفین کی اور کائنات کا وہ ہادی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا (بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۲۰۵)۔
مومنین کی ذمہ داری:
ہمیں امامؑ کی سیرت سے یہ درس لینا چاہیے کہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، حق کی راہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔ آج ہمیں اپنے امامِ زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت کے لیے "زیارتِ جامعہ کبیرہ” کا مطالعہ کرنا چاہیے اور تقویٰ و علم کے ذریعے اسلام کا دفاع کرنا چاہیے۔
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ شِيعَتِهِ وَالْعَامِلِينَ بِسِيرَتِهِ، وَثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى مَحَبَّتِهِ وَ وَلَايَتِهِ۔
اے اللہ! ہمیں امام ہادیؑ کے شیعوں میں سے شمار فرما اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ان کی محبت و ولایت پر قائم و دائم فرما۔ آمین
اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭



