امام ہادی کی تعلیمات میں غور وفکر

امام ہادیؑ نے شیعوں کی امامت کو اس وقت قبول کیا کہ جس وقت حکومت کی طرف سے شیعوں پر دباؤ اور پریشانیاں حد سے زیادہ تھیں۔
(دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104)
اسی طرح ثقافتی اور تبلیغی کام انجام دینے میں آپ آزاد نہیں تھے، لیکن آپ نے اسی ماحول میں اعتقادی اعتراض کے جوابات بھی دئیے، حدیثی اور فقھی میدان میں کام انجام دیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت فرمائی، فقہی مشکلات کا حل اور سوالات کے جوابات آپ کے علم و دانش پر بہترین گواہ ہیں۔
عیسائی زنا کار جو کہ حد جاری ہونے سے پہلے مسلمان ہو گیا تھا، کے متعلق امام ہادیؑ کا فقہی فتوی اور یحیی بن اکثم اور دوسرے درباری فقہاء کے نظریات کی مخالفت میں امام ہادیؑ کا فتوی بہت اہم ہے۔
( وسائل الشیعہ، ج18 ص408 ، ابواب حد الزنا، باب 36) ۔
اسی طرح متوکل کی نذر اور اس کو انجام دینے میں اختلافات اور پھر امام ہادیؑ کا مشکل کو حل کرنا ایک دوسری مثال ہے۔
( تذکرة الخواص ، ص360)
( دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104)
لہذا امام ہادی (ع) کے برجستہ شاگردوں میں ایوب بن نوح، عثمان بن سعید اہوازی اور عبد العظیم حسنی، کا نام لیا جا سکتا ہے، ان میں سے بعض اصحاب کی علمی اور فقہی کتابیں بھی موجود ہیں۔
(دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1، ص107)
امام ہادیؑ کی نظر میں دنیا کی حقیقت:
امام ہادیؑ نے دنیا کی حقیقت کو ایک بازار کے عنوان سے بیان کیا ہے کہ جس میں کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ نقصان اٹھاتے ہیں، آپ نے فرمایا :
الدنیا سوق ربح فیھا قوم و خسر آخرون۔
دنیا ایسا بازار ہے جس میں ایک گروہ فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا گروہ نقصان اٹھاتا ہے۔
(بحار الانوار ، ج75)
(مواعظ امام ہادی (ع) ، ص366)
امام ہادیؑ کے اس نورانی کلام کی تفسیر میں آیت اللہ مکارم شیرازی نے لکھا ہے کہ:
امام علی نقیؑ کی یہ روایت بتاتی ہے کہ دنیا کی طرف فقط ایک آخری ہدف کے عنوان سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ ایسا وسیلہ ہے جس میں عمل صالح انجام دینے کے بعد آخرت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(پیام امام امیر المومنین (ع) ، ج2 ،ص185)
امامؑ کے اس کلام کی تفسیر میں وہ پھر لکھتے ہیں کہ:
یہ دنیا انسان کا اصلی وطن نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے بلکہ ایک بہت بڑا تجارت خانہ ہے جس میں انسان اپنی عمر، طاقت،فکری اور عملی کاموں کے عظیم سرمایہ کو لگانے کے بعد آخرت کی ابدی زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔
یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی)، ص78
پھر وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
جو لوگ بہت زیادہ کارکردگی انجام دیتے ہیں اور بہت زیادہ ہوشیار اور آگاہ ہیں وہ اس تجارت خانے کے فنون سے با خبر ہیں ، وہ ایک لمحہ کے لیے آرام سے نہیں بیٹھتے اور ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ اس سرمایہ کے ذریعہ اپنے لیے اور اپنے معاشرہ کے لیے بہترین زندگی کا انتخاب کر لیں۔
دنیا امتحان اور مشکلات کا گھر ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے، اگر دنیا کو آخرت کی کھیتی ، بازار اور یونیورسٹی سمجھیں تو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کریں گے ، ورنہ مادیوں کی طرح بیکار زندگی بسر کریں گے۔ مادی اور توحیدی نظریات کو الگ الگ کرتے ہوئے فرمایا : پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرنے کیلئے ہم کچھ خرچ کرنا پڑے گا اور بغیر خرچ کیے ہوئے اس تک نہیں پہنچ سکتے۔
(یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص78)
دنیا میں ایک بڑے نقصان سے بچنے کیلئے خداوند پر توکل و اعتماد کرنا ضروری ہے:
آیت اللہ مکارم شیرازی نے امام ہادی ؑکے کلام کی تفسیر کرتے ہوئے خطرہ اور نقصان سے بچنے کے لیے سورہ عصر کو متوجہ اور متنبہ کرنے والے کے عنوان سے پیش کیا اور فرمایا : ایک بزرگ نے کہا ہے: میں نے اس سورہ عصر کے معنی برف بیچنے والے مرد سے سیکھے ہیں ، وہ آواز لگاتا ہوا کہہ رہا تھا کہ : "ارحموا من یذوب راس مالہ ارحموا من یذوب راس مالہ "!
اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پانی بن کر بہہ رہا ہے ، اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھل رہا ہے ، میں نے اپنے آپ سے کہا : "ان الانسان لفی خسر "۔
(سورہ عصر ، آیت 2)
کے معنی یہ ہیں، زمانہ اس کے اوپر سے گزر جاتا ہے اور اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے اور اسے کوئی ثواب حاصل نہیں ہوتا اور وہ بہت ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔
(تفسیر فخر رازی ، ج32 ،ص85
تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296)
لہذا اس عظیم خسران سے بچنے کیلئے صرف ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے جس کے متعلق خداوند فرماتا ہے کہ: وہ لوگ گھاٹے اور نقصان میں نہیں ہیں جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق اور صحیح کام کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و استقامت کی نصیحت کرتے ہیں: "الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر "
(سورہ عصر ، آیت 3
تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296)
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ جو چیز اس عظیم نقصان کو روک سکتی ہے اور اس کو عظیم فائدہ میں تبدیل کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں گرانقدر اور قیمتی سرمایہ کو حاصل کر لیں۔
(تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص297)
یقینا انسان اگر ایک سانس بھی لیتا ہے تو وہ موت سے نزدیک ہوتا چلا جاتا ہے، اس بناء پر انسان کا جب ایک مرتبہ دل دہڑکتا ہے تو اس کی عمر کا ایک قدم کم ہو جاتا ہے، لہذا اس عظیم نقصان کے سامنے ایسے کام کرنا چاہیے تا کہ خالی جگہ پر ہو جائے۔
(تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص297)
گویا آیت اللہ مکارم شیرازی نے دنیا میں انسان کی زندگی اور عمر کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ:
1- بہت سے لوگ اپنی زندگی اور عمر کے نفیس سرمایہ کے مقابلہ میں بہت کم مال یا بہت حقیر اور چھوٹا سا گھر حاصل کر لیتے ہیں۔
2- بہت سے لوگ کسی عہدہ و مقام کو حاصل کرنے کیلئے اس پورے سرمایہ کو ختم کر دیتے ہیں۔
3- بہت سے اس سرمایہ کو عیش و نوش اور مادی لذات کے مقابلہ میں کھو دیتے ہیں۔
4- یقینا اس عظیم سرمایہ کی ان میں سے ایک بھی قیمت نہیں ہے ، اس کی قیمت صرف اور صرف خدا کی مرضی اور اس سے تقرب حاصل کرنا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کا ایک نام ‘ ‘یوم التغابن ‘ ‘ ہے ، جیسا کہ سورہ تغابن کی آیت 9 میں ذکر ہوا ہے : "ذالک یوم التغابن”۔ اس دن معلوم ہو گا کہ کون مغبون ہوا ہے اور کس نے نقصان اٹھایا ہے۔
(تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص298)
اس وجہ سے کہنا چاہیے کہ دنیا ، امتحان و مشکلات کا گھر ہے اور آخرت ہمیشہ کیلئے چین و سکون کا گھر ہے اور اگر دنیا کو آخرت کی کھیتی ، بازار تجارت اور یونیورسٹی سمجھ لیں تو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کریں کیونکہ اسلام کی نظر میں دنیا ایک بازار تجارت ہے، جیسا کہ امام ہادی ؑ کی روایت میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
(تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296)
تہذیب نفس میں خود شناسی بہترین قانون ہے:
آیت اللہ مکارم نے امام ہادیؑ کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
جیسا کہ تہذیب نفس اور اخلاقی مسائل میں خود شناسی بنیادی ترین مسئلہ ہے ، اپنی قدر و منزلت سے جاہل ہونا دوسری چیزوں اور خداوند سے دوری کا سبب ہے ، لہذا ایک حدیث میں امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ :
‘ ‘من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ ‘ ‘۔
جس کی نظر میں اپنی کوئی قدر و قیمت نہ ہو اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔
(تحف العقول ،ص362
اخلاق در قرآن ، ج1 ، ص326)
امام ہادیؑ کی اس روایت کے مضمون سے اچھی طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ فضائل اخلاقی اور معنوی تکامل کی اصلی پرورش کی بنیاد خود شناسی اور معرفت نفس ہے اور جب تک انسان اس دشوار مرحلہ کو انجام نہیں دے گا ، اس وقت تک معنوی مقام تک نہیں پہنچ سکتا ، یہی وجہ ہے کہ اخلاق کے بزرگ علماء نے اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ اس راستہ پر گامزن ہونے والے اپنے آپ کو پہچانیں اور اس اہم مسئلے سے غافل نہ ہوں۔
(اخلاق در قرآن ، ج1، ص326)
حقیقت میں فساد اور بدکاری کو روکنے والا سب سے اہم سبب ، شخصیت یا کم از کم اپنی شخصیت کا احساس ہے ، جن لوگوں کی کوئی حیثیت ہے ، یا وہ اپنے لیے کسی شخصیت کے قائل ہیں ، چاہے دوسروں کی نظر میں ان کی کوئی شخصیت نہ ہو ،اپنی شخصیت اور حیثیت کو باقی رکھنے کیلئے بہت سے برے اور غلط کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن جیسے ہی ان کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ان کی نہ کوئی عزت ہے ، نہ احترام اور کوئی شخصیت ہے ، وہ کسی کی پروا نہیں کرتے ۔ لہذا امام ہادی ؑ نے فرمایا ہے کہ ایسے افراد سے دور رہنا چاہیے۔
(یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص142)
خود سازی ، ‘ ‘جہاد اکبر ‘ ‘ کو ایجاد کرنے کا وسیلہ:
آیت اللہ مکارم شیرازی ، امام ہادیؑ کی روایت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : ہم جانتے ہیں کہ ہوائے نفس جو کہ گناہوں کا اصلی سر چشمہ ہے ، سے مقابلہ کرنے کو اسلام میں ‘ ‘جہاد اکبر ‘ ‘ کے نام سے بیان کیا ہے اور اس سے مقابلہ کرنا بہت سخت ہے لیکن اہم اور سر سخت دشمن سے مقابلہ کرنا آسان ہے کیونکہ یہ جہاد ، خود سازی کا وسیلہ ہے اور جب تک خودسازی نہ ہو ،کامیابی نہیں مل سکتی، کیونکہ کمزوریوں کے مقابلہ میں انسان کو شکست ہوتی ہے۔
(یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص143)
ادیان آسمانی اور جوامع بشری میں ایک اہم مسئلہ، قیمتی نظام ہے۔ عالم مادہ اور عالم معنویت میں ہر چیز کی ایک قیمت ہے، کچھ امور قیمتی اور کچھ بے قیمت ہیں اور فطری سی بات ہے کہ اگر انسان کس چیز کو کم قیمت تشخیص دے، بہت ہی آسانی سے اس کو کھو بیٹھتا ہے اور اگر اس کو قیمتی قرار دے تو آسانی سے اس کو نہیں جانے دیتا، مثال کے طور پر ایک قیمتی گوہر ، بچے کو دیدیا جائے تو وہ اس سے کھیلنے کا کام لے گا اور اس کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور بہت ہی آسانی سے وہ اس کو کھو دیتا ہے۔
(مشکات ہدایت ، ص71)
انسان کی شخصیت بھی یہی ہے ، اگر اس کی قیمت کے قائل ہو جائیں تو آسانی سے نہیں بیچ سکتے، قرآن کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ:
عالم ہستی میں خداوند کی ذات کے بعد سب سے گرانقدر چیز انسان ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام چیزیں اسی کے لیے خلق ہوئی ہیں:
‘ ‘خلقت الاشیاء لاجلک و خلقتک لاجلی ‘ ‘
میں نے تمام چیزوں کو تیرے لیے خلق کیا ہے اور میں نے تجھے اپنے لیے خلق کیا ہے۔
(جواہر السنة ، ص361)
اور خدا کی بہترین مخلوق (فرشتوں) نے انسان کو سجدہ کیا ہے کہ:
‘ ‘فسجد الملائکة کلھم اجمعون ‘ ‘
(سورہ حجر ، آیت 30)
یہاں سے انسان کی اہمیت اور قیمت واضح ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ تمام اشیاء انسان کے لیے مسخر ہو گئی ہیں، یعنی وہ سب انسان کے لیے کام کرتی ہیں جو کہ انسان کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہیں۔
اب ہمیں اپنے گوہر نفس کو پہچان لینا چاہیے اور اس کو جلدی ختم ہونے والی شہوتوں اور دنیا کے بے قدر و قیمت عہدہ و مقام کے مقابلہ میں نہیں بیچنا چاہیے کیونکہ اگر ہم اپنی اہمیت کو نہیں پہچانیں گے تو اپنی شخصیت کو بیچ دیں گے اور ایسے انسان کے شر سے بچنا چائے کیونکہ وہ بہت کم پیسہ کے مقابلہ میں انسان کو قتل کر دیتا ہے کیونکہ وہ اپنی اہمیت اور قیمت کا قائل نہیں ہے۔
(مشکات ہدایت ، ص 72۔73)



