سلائیڈرسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا حصہ اول

تمہید
علم اہل بیت علیہم السلام کا منبع خدا کا لا متناہی علم ہے؛ اسی لئے یہ ہستیاں علم لدنی کی مالک ہیں۔ بشری علوم سے ان کے علوم کا مقایسہ نہیں ہے۔ ان علوم کا درک کرنا بھی کسی بشر کے بس میں نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ نورانی ہستیاں اگر چہ عام انسانوں کے درمیان رہیں، انہی کی طرح زندگی گزاری لیکن ان کی مثال ان رسولوں کی طرح ہے جو لوگوں کی طرح کھاتے پیتے تھے بازاروں میں چلتےتھے، (1) لیکن اپنی صلاحیت کی بنا پر رسول تھے نبی تھے اولو العزم تھے۔ یہ سنت الہی ہے کہ لوگوں میں سے کسی کو رسول منتخب کرتا ہے، قرآن اس بات کو تاکید کے ساتھ بیان کر رہا ہے کہ خدا نے مومنین پر انہی میں سے رسول مبعوث کرکے احسان کیا۔(2) اس میں لوگوں کی بھلائی ہے کہ انہیں میں سے کسی کو رسول بنایا جائے جو ان پر بہت زیادہ مہربان، دلسوز ہو،(3 )اور ان کی مصلحتوں کو خود ان سے زیادہ جاننے والا ہواس لئے ان کے اسرار اور گھر میں چھپائی ہوئی چیزوں کے بارے میں جانتے تھے اور انہیں خبر دیتے تھے۔( 4)
امامت چونکہ استمرار نبوت ہے اور جوکچھ نبوت کے لئے ضروری ہے وہ امامت کے لئے بھی ضروری ہےاور جس بنیاد پر نبی کی ضرورت ہے اسی بنیاد پر امام کی بھی ضرورت ہے۔( 5)پس خدا نے جو کچھ نبی اور رسول کو عنایت فرمایا ہے وہ امام کو بھی عنایت فرما ہے لیکن صرف ایک چیز امام کو نہیں دی وہ وحی ہے،( 6)امام پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے بدلے میں مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسا عظیم مخزن اور ذخیرہ عنایت فرمایا۔جس کے بارے میں ہر امام فخر کرتا تھا کہ ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔( 7)اور اس میں دیکھ کر مختلف حوادث کے بارے میں خبر دیتے تھے۔(8)
اسی لئے مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا اسباب امامت میں شامل ہے اور ہر امام اپنے بعد والے امام کے حوالے کرتے تھے ابھی یہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے پاس ہے۔ ظہور کے وقت جہاں وہ آثار نبوت و امامت منجملہ تابوت بنی اسرائیل ، عصائے موسی علیہ السلام اپنے ہمراہ لے آئیں گے وہیں وہ مصحفِ فاطمہ کو بھی ساتھ لے آئیں گے۔اور چونکہ یہ اسباب امامت میں شامل تھا اسی لئے امام صادق علیہ السلام کئی مواقع پر اپنے دشمنوں کو چیلینج دیتے تھے کہ:
کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نکال لائیں؛ کیونکہ اس میں وصیت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے اور اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اسلحہ ہے۔(9)یہی وہ چیلینج تھا جو خدا نے قرآن کے منکروں کو دیا تھا اگر وہ سچ کہتے ہیں کہ یہ کسی بشر کا کلام ہے تو اس کے جیسےدس سورے لے آئیں(10)یا ایک سورہ لے آئیں۔(11)پھر ذات الہی نے خود جواب دیا کہ وہ اس کے جیسے نہیں لا سکیں گے اگر چہ ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔(12)
علم ائمہ علیہم السلام کی حقیقت
ان چیزوں کا ادراک بشر کے بس میں نہیں ہے جوان کی عقول سے بالا ہیں، مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی عقل بشری سے بالا ہے؛ چونکہ علم ائمہ علیہم السلام کا منبع یہی ہے،یہ وہ ہستیاں ہیں جو جب جسم مادی میں اس دنیا میں آئیں اور لوگوں کے درمیان زندگی گذاری تو ان کے عقول کے مطابق بات کرنے پر مامور تھے جیسا کہ انبیاء اس بات پر مامور تھے(13) لیکن یہی ہستیاں جب ایک دوسرے سے بات کرتے تھے تو وہ باتیں بیان فرماتی تھی جنہیں نبی مرسل، ملک مقرب اور مومن راسخ اور آزمائش شدہ کے علاوہ کوئی اور تحمل نہیں کر سکتا تھا۔(14) اسی طرح ان کی حدیث ااور اوامر بھی ہیں۔(15)
دعا اور زیارت میں بھی یہی فرق ہے کہ دعا وہ کلام ہے جو یہ ہستیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ کس طرح معبود سے ہمکلام ہونا ہے لیکن زیارت ایسا کلام ہے جو یہ ہستیاں ایک دوسرے سے کرتی ہیں؛ اسی لئے جب ائمہ علیہم السلام دعا کرتے تھے تو فرماتے تھےکہ میرے مولا! اگر تیرے علاوہ کوئی میرے گناہوں پر مطلع ہو جائے تو ایک لحظہ کے لئے مجھے امان نہ دے، مجھے چھوڑ کے چلا جائے اور مجھ سے ناطہ توڑ دے ابھی میں تیرے سامنے سر جھکائے کھڑا ہوں اب اگر تو نہ بچائے تو مجھے آگ سے بچانے والا کوئی نہیں۔(16) یہ کون ہے جو خدا کے حضور گڑگڑا رہا ہے یہ سید الشہداء اباعبد اللہ الحسین علیہ السلام ہے جو منی کے میدان میں اپنے معبود سے ہمکلام ہورہے ہیں یہ وہ ہستی ہے جس کی زیارت کرتے ہوئے امام باقر علیہ السلام فرماتے تھے سلام ہو تم پر اے وہ ہستی جو نزول رحمت کا سبب ہے جس کی بدولت آسمان بارشیں نازل کرتا ہے جس کی بدولت زمین اپنے ذخائر کو عیاں کرتی ہے۔
علم ائمہ علیہم السلام کے مراتب
علم ائمہ کے تین مراتب ہیں:
پہلے مرتبے پر وہ علوم ہیں جو لوگوں لئے مشعل راہ ہیں دنیا و آخرت کی سعادتیں ان میں ہیں اور یہ علوم احادیث کی شکل میں لوگوں تک پہنچے ہوئے ہیں جو کہ ہر مردہ دل کو زندہ کرتے ہیں۔(17) اس وقت ہمارے پاس موجود تمام احادیث کی کتابیں؛ کتاب سلیم اور کتاب فضل بن شاذان سے لیکر شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب، سفینۃ البحار تک اسی قسم میں سے ہیں۔
دوسرے مرحلے پر وہ علوم ہیں جنہیں ہر کوئی درک نہیں کر سکتا بلکہ ملک مقرب، نبی مرسل اور مومن راسخ ہی درک کر سکتے ہیں یہ وہ اسرار ہیں جنہیں امام نے اپنے بعض خاص اصحاب کو سکھایا ۔
اور تیسری قسم ان علوم کی ہے جنہیں کوئی بھی تحمل نہیں کرسکتا یہاں تک ملک مقرب، نبی مرسل اور مومن راسخ بھی اس سے عاجز ہیں۔(18) مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، جفر، جامع وغیرہ اسی سے ہیں اسی لئے ان کی تعلیم امام نے کسی کو بھی نہیں دی۔
اسی لئے مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ائمہ نے خود اپنے پاس رکھا اور کسی کو نہیں دکھایا، اس عظیم مخزن کے بارے میں اسی حد تک جاننا کافی ہے کہ یہ امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے پاس ہے اور آپ اس مصحف کی برکت سے آئندہ کے تمام حالات سے واقف ہیں اسی لئے اپنے چاہنے والوں کی دلجوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
وَ إِنَّا غَيْرُ مُهْمَلِينَ لِمُرَاعَاتِكُمْ وَ لَا نَاسِينَ لِذِكْرِكُمْ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَنَزَلَ بِكُمُ اللَّأْوَاءُ وَ اصْطَلَمَكُمُ الْأَعْدَاءُ وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمُ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ عَلَى اجْتِمَاعِ الْقُلُوبِ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا.
ہم مسلسل تم لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور کبھی بھی تمہیں بھولے نہیں ہیں اگر ہم تمہیں بھول جاتے تو بلائیں تم پہ نازل ہوجاتیں اور دشمن تمہیں رونڈھ ڈالتے، اگر خدا ہمارے شیعوں کو توفیق دے دے کہ ان کے دل ہماری اطاعت پر جمع ہو جاتیں تو وہ ہمارے دیدار سے محروم نہیں رہتے۔(19)
مصحف اور صحیفہ میں فرق
صدر اسلام سے لیکر آج تک مصحف کا لفظ صرف قرآن پاک پر اطلاق ہوتا آیا ہے، جیسے مصحف علی علیہ السلام، مصحف امام رضا علیہ السلام لیکن مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایسا نہیں ہے یعنی کبھی بھی کسی معصوم نے یا شخصیت نے اسے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جمع کردہ قرآن نہیں کہا ہےبلکہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ سے تصریح فرماتے آئے ہیں کہ اس میں قرآن سے ایک حرف بھی نہیں جیسا کہ بعد میں اس مضمون کی احادیث کا بھی تذکرہ ہو گا۔
اور شاید بعض لوگوں نے اس اطلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مصحف قرآن پاک پر اطلاق آتا ہے، مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو صحیفہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بھی تعبیر کیا ہے(20) لیکن اسے مصحف ہی کہا جائے گا جیساکہ ائمہ معصومین علیہم السلام اس کی وجہ سے فخر کرتے تھے کہ ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔(21)
ایک فرق ہے مصحف اور صحیفہ میں، جیسا کہ بعض بزرگان نے فرمایا ہے کہ صحیفہ اس نوشتہ یا کتاب کو کہا جاتا ہے جوکسی ایک شخص نے ایک مجمع، گاوں ،گروہ یا عام الناس کے نام لکھا ہو جیسے صحیفہ سجادیہ جو امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چاہنے والوں کے نام لکھا تھا لیکن مصحف اس نوشتہ کا نام ہے جو ایک شخص نے اپنے لئے یا کسی مخصوص ہدف کے لئے لکھا ہو جیسے مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا۔(22)
لیکن یہ فرق کئی جہات سے صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن جو کہ مصحف ہے جملہ مخلوقات سے مخاطب ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان کرنے پر مامور تھے۔(23)اس کے علاوہ اہل لغات ان دونوں کو نوشتہ یا لکھی جانے والی چیز سے تعبیر کرتے ہیں یا وہ چیز جس کے ذریعے لکھا جاتا ہے جیسے قلم ۔(24)
ہاں ممکن ہے مصحف صرف اس نوشتہ کو کہا جائے جس میں ان چیزوں کو لکھا گیا ہو جو وحی ذریعے روح القدس یعنی جبرئیل لے کر آیا ہو جیسے قرآن کے بارے میں خدا ارشاد فرماتاہے کہ اسے روح القدس (جبرئیل) نے تیرے پروردگار کی جانب سے برحق نازل کیا ہے۔ (25) تو اس صورت میں مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئے مصحف کا اصطلاح ہی صحیح ہے کیونکہ یہ مصحف بھی ان باتوں پر مشتمل ہے جنہیں رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جبرئیل لے کر بیت فاطمہ الزہرا سلا اللہ علیہا میں آتا تھا اور علی علیہ السلام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے وحی لکھتے تھے یہاں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر نازل شدہ باتوں کو لکھ رہے تھے۔(26) لیکن صحیفہ ایسا نہیں ہے بلکہ صحیفہ علم ائمہ کا مظہر ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میراث میں لیا ہے جس طرح ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ میراث نبوت آپ علیہم السلام کے پاس ہے (27)اسی طرح بصائر الدرجات میں پورا ایک باب اسی سے مخصوص ہے جس کا عنوان یہ ہے کہ رسول اللہ نے اپنی رحلت کے وقت علم اکبر یعنی اسم اعظم، میراث نبوت اور میراث علم ،علی علیہ السلام کے حوالے فرمایا۔(28)
اس لئے ائمہ معصومین علیہم السلام مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ذکر تے ہوئے فرماتے تھے:
ہمارے پاس مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی ہےلوگ کیا جانیں کہ وہ کیا ہے؟ اس مقام پر راوی نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
تمہارے اس قرآن سے (بلحاظ تفصیل و توضیح) وہ مصحف تین گنا زیادہ ہے۔(29)
فاطمہ سلام اللہ علیہا شیعہ عقیدے کے مطابق
ہمارا عقیدہ ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زوجہ امیر المومنین علیہ السلام ،ام الائمہ کائنات کے تمام عورتوں کی سردار ہے(30 )ان سے بڑھ کر فضیلت میں کوئی نہیں اسی طرح یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ سلام اللہ علیہا دیگر تیرہ معصومین علیہم السلام کی طرح حجت خدا ہے اس کا قول ، فعل اور تقریر ہمارے لئے حجت ہے، پس وہ دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرح عصمت کے مقام پر بھی فائز ہیں اور یہ ضرورت مذہب میں سے ہے۔( 31)اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بتول ہے (32) ؛ یعنی ایسی عورت جس نے اپنی زندگی میں کبھی خون(حیض، نفاس اور استحاضہ) نہیں دیکھا،(33)اسی طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صدیقہ اور شہیدہ ہے(34)وہ اپنے طبیعی موت سے نہیں گئی بلکہ وہ شہید ہوگئی۔اسی طرح یہ بھی ہمارے اعتقادات کا جزء ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خوشی، غم، دکھ ، سکھ اور دوستی دشمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی، غم، دکھ ، سکھ اور دوستی دشمنی ہے۔(35)
مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا شیعہ عقیدے کے مطابق
جب مرحوم میرزا جواد تبریزی اعلی اللہ مقامہ سے سوال ہواکہ مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کیا ہے اور کیا یہ شیعہ اعتقادات کے مطابق ہے؟ تو آپ نے جواب دیا:
مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مراد جیساکہ معتبر روایتوں میں آیا ہے یہ ہے کہ ایک فرشتہ رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس آتا تھا اور اسے تسلی دیتا تھا ساتھ ہی آئندہ رونما ہونے والے واقعات بھی سناتا تھااور حضرت امیر المومنین علیہ السلام ان تمام باتوں کو لکھتے تھے۔ اس نوشتہ کا نام مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ۔ہے یہ نہ توقرآن ہے جیسا کہ بعض کا خیال ہے یا ہمارے دشمنوں نے ہم پر تہمت لگائی ہے اور نہ ہی احکام پر مشتمل ہے بلکہ یہ آئندہ پیش آنے والے حوادث پر مشتمل ہے اور فرشتے کا حضرت سلام اللہ علیہا سے گفتگو کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ؛چونکہ قرآن نے فرشتے کی حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے گفتگو کرنے کوثابت کیا ہے۔ ہم شیعوں کے عقیدے کے مطابق جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جناب مریم سلام اللہ علیہا سے افضل ہے اس لئے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہا صرف اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھی لیکن جناب سیدہ اولین و آخرین کے خواتین کی سردار ہے۔
اسی طرح جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا شیعوں کے پاس اسی قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن بھی ہے جسے "قرآن” یا "مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا” کہا جائے؟
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
یہ ادعا کرنا کہ شیعوں کے پاس معروف قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن بھی ہے صرف اور صرف تہمت اور بہتان ہے۔ شیعوں کے پاس ایسی کوئی کتاب نہیں۔ لیکن مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایسی چیز ہے جو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر املاء ہوتی تھی یہ صرف ائمہ علیہم السلام کے پاس ہے شیعوں کے پاس نہیں۔(36)
کتب ائمہ کی اقسام
ائمہ معصومین علیہم السلام کے دست مبارک سےیا ان کی املاء یا ان خطبات خطوط اور وصیتوں کے بارے میں لکھے ہوئے کتابوں کے چار قسم ہیں:
وہ کتابیں جو خود انہوں نے تو نہیں لکھے ہیں لیکن ان کی تقاریر، خطوط اور وصیتوں پر مشتمل ہیں جیسے نہج البلاغہ جو کہ سید رضی رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے ،جس میں امیر المومنین کے خطبات، خطوط اور چھوٹے چھوٹے کلمات جمع کئے ہیں اور یہ سارے جواہر پارے تسبیح کے دانوں کی طرح نہج البلاغہ نامی ایک دھاگے میں سینچے ہوئے ہیں۔ اسی طرح الجعفریات،تفسیر حیدری وغیرہ بھی اسی باب میں سے ہے۔
وہ کتابیں جو ان ہستیوں نے املا فرما کر سب لوگوں کے استفادہ کے لئے دے دیا، جیسے صحیفہ سجادیہ اور رسالہ حقوق جو امام سجاد نے املا ء فرمایا اور آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
وہ کتابیں جو ان ہستیوں نے اپنے سے پہلے امام کے توسط سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وراثت میں پائے ہیں جیسے جفراحمر، جفر ابیض ، جفر اکبر اور جفر اصغر وغیرہ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
إِنَّ عِنْدِي الْجَفْرَ الْأَبْيَضَ قَالَ قُلْتُ فَأَيُّ شَيْ‌ءٍ فِيهِ قَالَ زَبُورُ دَاوُدَ وَ تَوْرَاةُ مُوسَى وَ إِنْجِيلُ عِيسَى وَ صُحُفُ إِبْرَاهِيمَ ع وَ الْحَلَالُ وَ الْحَرَامُ
میرے پاس جفر ابیض ہےراوی نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ امام علیہ السلام نےفرمایا: اس میں زبور داوود، تورات موسی، انجیل عیسی،ابراہیم کے صحیفے، اور حلال و حرام کی باتیں ہیں۔(37)
وہ کتب جو ان ہستیوں نے خود ایک دوسرے کے لئے لکھے ہیں ، انہیں ہر امام اپنے بعد والے امام کے حوالے کرتا تھا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے دست مبارک میں ہیں، ان میں ایک مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور دوسرا الجامعہ نامی کتاب ہے جو تمام حلال اور حرام پر مشتمل ہے۔
پس مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا میراث امامت کے طور پر امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے پاس ہےاسی لئےامام فرماتے ہیں:
وَ فِي ابْنَةِ رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه و آله لِي أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی میں میرے لئے اسوہ حسنہ ہے۔( 38)یہ وہ علمی خزانہ ہے جس میں کان و ما یکون کی خبریں درج ہیں۔ اورہرامام جو بھی غیبی خبر دیتا تھا وہ اسی مصحف میں دیکھ کر دیتے تھے۔
عدم تفصیل کی علت
ائمہ علیہم السلام نے کبھی بھی مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، صرف اتنا فرمایا کہ اس میں تا روز قیامت آنے والے واقعات، لوگ، حیوانات، چرند و پرند کے بارے میں تفصیل ہے، اور ساتھ ایک دو نمونے پیش کئے اس سے زیادہ بیان نہیں فرمایا۔ پس امام زمانہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہے اس مصحف میں کیا ہے؟ جفرابیض میں کیا ہے؟یہ بھی حکمت پر مشتمل ہے مخصوصا جب کتب آسمانی؛ تورات، انجیل اور زبور جیسے کتابوں میں تحریفیں ہوئیں، تو اگر مصحف اور جفر جیسے علمی ذخیرے لوگوں کے پاس ہوتے تو کیا حال ہوتا مخصوصا امام علیہ السلام نے جب جفر ابیض کے بارے میں فرمایا کہ اس میں تورات اور انجیل ہے، تو اس کا مطلب ہے وہ اصل تورات اور انجیل جو موسی اور عیسی علیہما السلام پر اترے وہ اس میں ہے نہ کہ آج کے تحریف شدہ تورات اور انجیل۔ اب یہ ہستیاں تمام انبیاء کی وارث ہیں۔ ان کی میراث کےمحافظ بھی ہیں تو اس میراث کی حفاظت کی خاطر اسے بشری ہاتھوں نہیں دیا اور خود ان کے محافظ بن کر اپنے پاس رکھا۔
ہاں البتہ جب امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور ہوگا تو آپ ان کتابوں کو بھی ساتھ لے آئیں گے ۔ جیسا کہ رأس الجالوت نے امام رضا علیہ السلام سے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی امامت کی دلیل مانگی تو امام نے فرمایا دہ اہل تورات اور اہل انجیل کےدرمیان تورات اور انجیل کے مطابق فیصلہ سنائیں گے۔(39) اس لئے کہ ائمہ علیہم السلام میں سے صرف امام علی کو مختصر وقت کے لئے ظاہری حکومت ملی اور وہ بھی تین گروہوں کے ساتھ جنگ میں گزر گیا ۔ (40) ۔اب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
تاریخ مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مصحف جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں املاء فرمایا ہے جب خد ا کے حکم سے فرشتہ آپ سلام اللہ علیہا کے پاس آپ کے والد گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مصیبت میں تسلی دینے اور آئندہ کی خبریں دینے آیا کرتا تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہ مصحف پچہتر 75 دن یا 95 دن کے اندر اندر تکمیل ہوا ۔
روایت میں آیا ہے کہ بعض اصحاب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں سوال کیا تو امام نے کچھ دیر سکوت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ تم لوگ غیر ضروری باتوں کے بارے میں بحث و گفتگو کرتے ہو، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا پر سخت مصیبت کی گھڑی آئی اس دوران جبریل آپ سلام اللہ علیہا کے پاس آیا کرتے تھے تاکہ والد گرامی کی مصیبت میں انہیں تسلی دے اور ساتھ ساتھ جنت میں مقام رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت بھی کرائے جائے اور انہیں آئندہ آنے والے واقعات، خاص کر ان کی اولاد پر پڑی جانے والی مصیبتوں کے بارے میں آگاہ کریں، امیر المومنین ان سب باتوں کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئے یادداشت فرماتے تھے اور اسی کا نام "مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا” ہے۔(41)
اسی طرح ایک اور روایت جسے جناب حماد بن عثمان نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے۔(42)
اصول کافی کتاب حجت میں ایک باب اس عنوان سے ہےجسے "ذکر صحیفہ، جفر، جامعہ اور مصحفِ فاطمہ سلام اللہ علیہا” کا باب کہا جاتا ہے۔(43) مذکورہ باب میں کل آٹھ روایتیں ہیں ہم نے اختصار کی خاطر صرف دو روایتوں پر اکتفاء کیا۔

حوالہ جات
( 1)سورہ فرقان، آیت 20۔
(2) سورہ آل عمران، آیت 164 اور سورہ جمعہ، آیت 2۔
(3) سورہ توبہ، آیت 128۔
(4) سورہ آل عمران، آیت 49۔
(5) جزیری، عبد الرحمن- غروی، سید محمد- یاسر مازح‌، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ و مذہب اہل البیت علیہم السلام؛ ج‌5، ص: 618۔
(6) شیرازی، سید صادق حسینی،المسائل الإسلامیۃ مع المسائل الحدیثۃ، ص 41۔
(7) طبرسی، احمد بن علی‌، الاحتجاج، ج2، ص373۔
(8) کلینی،محمدبن یعقوب، الکافی ج1 ص 597۔
(9 ) ایضا ، ج1 ص 599۔
(10 ) سورہ ہود، آیت 13۔
(11) سورہ یونس، آیت 28۔
)12) سورہ اسراء، آیت 88۔
(13) برقی، ابو جعفر، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج1 ص195۔
(14) قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویہ، معانی الاخبار، ص 409۔
(15) ایضا، ص 108
( 16) مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، زاد المعاد – مفتاح الجنان، ص 179 دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام۔
(17) راوندی، قطب الدین، سعید بن عبداللّٰہ، دعوات الراوندی – سلوة الحزین، ص62
(18) معانی الاخبار، ص 188۔
(19) راوندی، قطب الدین، سعید بن عبد اللّٰہ، الخرائج و الجرائح، ج2 ص903۔
( 20) بحرانی، آل طعان، احمد بن صالح، الرسائل الاحمدیۃ، ج3 ص62۔
(10 ) الاحتجاج، ج2 ص 372۔
( 22) فاضل مقالہ نگار جناب حجۃ الاسلام سید تقی داوری نے مصحف فاطمہ میں لکھا ہے۔
( 23) سورہ نحل، آیت 44۔
( 24) ابن منظور، ابو الفضل، جمال الدین، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج9 ص186۔
( 25) سورہ نحل، آیت 102۔
(26) الکافی، ج1 ص240۔
(27) "و میراث النبوۃ عندکم ” زیارت جامعہ کبیرہ
(28) صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلوات اللہ علیہم،ج1 ص468۔
(29) مولانا سید ظفر حسن نقوی امروہوی ،الشافی ترجمہ اصول کافی، ج2 ص123۔
(30) علل الشرائع؛ ج‌1، ص: 156
(31) تبریزی، جواد بن علی، رسالۃ فی لبس السواد – الانوار الإلہیۃ ص 119۔
(32) علل الشرائع؛ ج‌1، ص: 181
( 33)رسالۃ فی لبس السواد – الانوار الإلہیۃ ص 120۔
(34) عریضی، علی بن جعفر علیہما السلام، مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا؛ ص: 325۔
(35) علل الشرائع؛ ج‌1، ص: 186
(36 ) رسالۃ فی لبس السواد – الانوار الإلہیۃ ص 117-119۔
( 37) الکافی، ج1 ص 140۔
(38 ) الاحتجاج، ج2 ص467۔
( 39) الخرائج و الجرائح،ج1 ص 350۔
( 40) الامالی، ص 523۔
( 41) الکافی، ج1 ص: 242۔
(42 ) ایضا ، ص: 240۔
(43 ) اصول کافی، کتاب حجت، باب نمبر39۔
https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=1249

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button