سلائیڈرسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

باغ فدک ہبہ یا ارث؟

تحریر: اکبر علی جعفری
بہت سے افراد کو اس چیز میں شبہ ہوتا ہے کہ آیا فدک حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کو ہبہ کی گئی تھی یا ان کو ارث میں ملا تھا؟ کیونکہ کبھی سیدہ کے حوالے سے ہبہ کا دعوی کیا جاتا ہے تو کبھی ارث کا ، آیا اس کی حقیقت کیا ہے؟
لیکن اگر تاریخی حقائق اور روایات کی رو سے دیکھا جائے تو یہ شبیہ بہت آسانی سے دور ہو جاتا ہے۔
اگر ہم حقائق کا مطالعہ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ باغ فدک پہلے سیدہ فاطمۃ الزہراء کو ہبہ کی گئی تھی لیکن جب ان کو اپنے اس دعوی سے جھٹلایا گیا تو انہوں نے ارث کا مطالبہ کیا۔
ذیل میں ان دونوں پہلوؤں کو اہل سنت کے ہاں معتبر ادلّہ کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
باغ فدک سیدہ کو ہبہ ہوا تھا
تفسیر در منثور میں روایت رقم ہے کہ : عن ابن عباس رضي اللّٰه عنه قال: لما نزلت (وآت ذا القربى حقه) أقطع رسول اللّٰه فاطمة فدكا۔(1)
ابن عباس سے روایت ہے کہ فرمایا: جب آیت (و آت ذی القربی حقہ) لازل ہوئی تو رسول خداﷺ نے فدک سیدہ فاطمۃ الزہرا کو عطا کر دی۔
اسی معنی کے ساتھ ایک اور روایت فتح القدیر میں ذکر ہے: وأخرج البزار وأبو يعلى وابن أبي حاتم وابن مردويه عن أبي سعيد الخدري قال: لما نزلت هذه الآية وآت ذا القربى حقه دعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك.(2)
ابو سعید خدری کہتے ہیں: جب آیت:” و آت ذا القربی حقہ” نازل ہوئی تو رسول خداﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کو بلایا اور ان کو فدک عطا کی۔
اسی متن کے ساتھ تفسیر روح المعانی میں بھی روایت ذکر ہے: أخرجه البزار وأبو يعلى وابن أبي حاتم وابن مردويه عن أبي سعيد الخدري من أنه لما نزلت هذه الآية دعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدكا۔(3)
جبکہ مختصر الزوائد میں ایک اور سند کے ساتھ اسی روایت کو نقل کیا گیا ہے: حدثنا عباد بن يعقوب، ثنا أبو يحيى التيمي، ثنا فضيل بن مرزوق، عن عطية، عن أبي سعيد قال: لما نزلت هذه الآية: (وآت ذا القربى حقه) دعا رسول اللّٰه صلى اللّۃه عليه وسلم فاطمة فأعطاها فدك.(4)
حالانکہ سیدہ فاطمۃ الزہراء نےخلیفہ وقت خود بھی فدک کا مطالبہ کیا تھااور اس پر گواہ بھی پیش کئے تھے۔
جیسا فتوح البلدان میں ذکر ہے کہ مالک بن جعونہ کی اپنے والد سے نقل کردہ روایت ہے: وحدثنا عبد اللّٰه بن ميمون المكتب، قال: أخبرنا الفضيل بن عياض عن مالك بن جعونة عن أبيه، قال: قالت فاطمة لأبي بكر إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم جعل لي فدك فأعطنى إياها وشهد لها علي بن أبي طالب فسألها شاهدا آخر فشهدت لها أم أيمن۔(5)
مالک بن جعونہ اپنے والد سے روایت کرتا ہے کہ :حضرت فاطمہؑ نے ابو بکر سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فدک مجھے دیا تھا، لہٰذا مجھے وہ دے دیجیے۔اس پر علی بن ابی طالبؑ نے ان کے حق میں گواہی دی۔ تو ابو بکر نے ان سے ایک اور گواہ طلب کیا، پھر امِّ ایمن نے ان کے حق میں گواہی دی۔
ام ایمن وہ خاتون ہیں کہ جن کی حیات میں ہی رسول خداؐ نے ان کو جنت کی بشارت دی تھی۔
اور اسی طرح کتاب انساب الاشراف میں روایت ذکر ہے کہ: المدائني عن سعيد بن خالد مولى خزاعة عن موسى بن عقبة قال:
دخلت فاطمة على أبي بكر حين بويع فقالت: ان أم أيمن، ورباح يشهدان لي أن رسول اللّٰه ﷺ أعطاني فدك۔(6)
جب فاطمہؑ اس وقت ابو بکر کے پاس آئیں جب ان کی بیعت ہو چکی تھی، تو انہوں نے کہا:امِّ ایمن اور رباح میرے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فدک عطا کیا تھا۔
رباح رسول خداؐ کا اپنا غلام تھا۔
ان روایات سے واضح ہے کہ رسول خداﷺ نے فدک جناب فاطمۃ الزہراء کو ہبہ کی تھی اور اس پر گواہ ،امام علیؑ، ابن عباس، ام ایمن اور رباح بھی ہیں۔
باغ فدک ارث رسول
یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ باغ فدک رسول خدا نے سیدہ کو ہبہ کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہبہ کیا تھا تو ارث کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟
کوئی بھی متدین بندہ اب اس کا جواب آسانی سے دے سکتا ہے کہ جب سیدہ کو بطور موہوب باغ فدک نہیں دیا گیا تو سیدہ نے ارث کا مطالبہ کیا کہ اگر تم ہبہ کے طور پر مجھے فدک نہیں دیتے تو میں اپنے بابا کی وارث ہوں اور باغ فدک میرے بابا کی ملکیت ہے لہذا مجھے ارث کے طور پر فدک دیا جائے۔
پہلے سیدہ نے ہبہ کا مطالبہ کیا جب انہیں بطور موہوب فدک نہ دیا گیا تو انہوں نے ارث کا مطالبہ کیا۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ : حدثنا عبد العزيز بن عبد اللّٰه: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب قال: أخبرني عروة بن الزبير: أن عائشة أمالمؤمنين أخبرته:أن فاطمة، ابنة رسول اللّٰه ﷺ: سألت أبا بكر الصديق بعد وفاة رسول اللّٰه ﷺ: أن يقسم لها ميراثها، ما ترك رسول اللّٰه ﷺ مما أفاء اللّٰه عليه۔(7)
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ: رسول خداؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؑ نے ابو بکر نے مطالبہ کیا کہ جو اللہ نے رسول خدا کو مال عطا کیا تھا اس میں سے مجھے میرا حصہ تقسیم کر کے دیا جائے۔
پس معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ زہراء نے ہبہ کا مطالبہ بھی کیا تھا اور ارث کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ لہذا یہ وہم دفع ہو جاتا ہے کہ ہبہ کا مطالبہ کیا ہے تو ارث کا نہیں اور ارث کا کیا ہے تو ہبہ کا نہیں۔
حوالہ جات:
(1)۔ تفسیر در منثور ، سورہ اسراء، آیت 26، ذیلی حدیث: 18
(2)۔ فتح القدیر، محمد بن علی شوکانی، ج 3، ص 267
(3)۔ روح المعانی، محمود الوسی بغدادی، ج 8، ص 61
(4)۔ مختصر زوائد، شہاب الدین بن حجر عقاب، ج 2، ص 90
(5)۔ فتوح البلدان، احمد بن یحیی بلاذری، ص 40
(6)۔ انساب الاشراف، احمد بن یحیی بلاذری، ج 10، ص 79
(7)۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ج 3، ص 1126

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button