سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) اور خدا کی معرفت

تحریر نگار: میر آغا
خلاصہ: اگر ہمیں خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے تو ہمیں خدا کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی اتباع کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ لوگ ہی ہم کو خدا کی حقیقی معرفت کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال اس پوری کائنات کا خالق ہے اور اس دنیا میں موجود ہر چیز پر اس کی عظمت، قدرت اور علم کی نشانیاں جلوہ نما ہے، جو لوگ گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں ان کو یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں، کیونکہ قرآن کی آیت کے مطابق:
وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ
یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں۔(سورۂ اعراف، آیت:۱۷۹)
اگر انسان کو اس غفلت سے نکلنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی تأسی اور اتباع کرے اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، اسی مقصد کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس مقالہ میں حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) خدا کی جو معرفت رکھتی تھیں اس کے ایک ادنٰی سے گوشہ کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ آپ کی سیرت کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی خدا کی معرفت میں اضافہ ہو۔
اگر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سوائے خدا کے جلووں کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا، جیسا کہ ایک دفعہ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے فرمایا: فاطمہ(سلام اللہ علیھا)، جبرئیؑل کہ رہے ہیں: خدا نے آپؑ کو سلام کہلوایا ہے اور فرمایا: فاطمؑہ، سے کہہ دو کہ جو بھی حاجت ہے وہ طلب کریں، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے تھوڑی دیر فکر کی اور فرمایا:
لا حاجَۃَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ
میری حاجت اس کے سواء کچھ بھی نہیں ہے کہ میں ہمیشہ خدا کے جمال کو دیکھتی رہو۔
(زندگانی حضرت زہرا(علیھا سلام)[ترجمہ ج۴۳، بحارالانوار]ترجمہ: روحانی، ص۹۲۳)
یہ کلام اسی زبان سے نکل سکتا ہے جس نے حقیقی اور واقعی کمال کو حاصل کر لیا ہو اور مناجات کی لذت کو محسوس کیا ہو اور جس نے اپنے آپ کو خدا کی محبت میں فانی کردیا ہو اسی لئے تو جب حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا ) محراب میں کھڑی ہوجاتی تھیں:
زَهَرَ نُورُها لِلمَلائِکَةِ السَّمَاء
ملائکہ کے لئے آپؑ کی نماز کا نور پھیل جاتا تھا۔
(بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸)
آپؑ کی ذات وہ ہے جس نے دنیا کی پستیوں کی طرف کبھی بھی رجحان پیدا نہیں کیا اور سختی اور تنگدستی نے بھی آپؑ کے ایمان کو کمزور نہیں کیا اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے آپ کے بارے میں فرمایا:
إنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللهُ قلب ها وَ جوارح ها إِیِمَاناً وَ یَقِینا
(بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹)
میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کا تمام وجود ایمان اور یقین سے بھرا ہوا ہے۔
حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) ہمشیہ اپنے چاہنے والوں کو اپنی طرح خدا کا اطاعت گذار اور مطیع بنانے کی کوشش کیا کرتی تھیں، ایک دفعہ آپ کے ایک چاہنے والے نے اپنی بیوی کو آپ کی خدمت میں بھیجا تاکہ یہ جانے کہ اس کا شمار آپ کے شیعوں میں سے ہوتا ہے یا نہیں؟
حضرت زہراء(سلام الله علیها) نے فرمایا:
اِن کُنتَ تَعمَلُ بِما أمَرناکَ وَ تَنتَهی عَما زَجَرناکَ عَنهُ فَأنتَ مِن شیعَتِنا وَ اِلّا فَلا
ہم نے جس چیز کا حکم دیا ہے اگر تم اس پر عمل کرتے ہو اور ہم نے جس چیز سے تم کو منع کیا ہے اگر تم اس کو انجام نہیں دیتے، تو ہمارے شیعہ ہو۔
جب اس کے شوہر نے یہ سنا تو بہت زیادہ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں ہمیشہ جہنم میں ہی رہوں گا، اس کی بیوی پریشان ہوگئی اور حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے بتایا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے فرمایا: اپنے شوہر سے کہہ دو، اس طرح نہیں ہے، ہمارے شیعہ جنت کے بہترین لوگوں میں سے ہوں گے، ہمارے چاہنے والوں کے چاہنے والے اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھنے والے سب جنت میں رہیں گے! ہاں جو دل اور زبان سے ہم اہل بیت(علیھم السلام) سے محبت کرتا ہے لیکن ہماری اتباع نہیں کرتا ہمارا حقیقی شیعہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ یہ گروہ بھی گناہوں کی بخشش کے بعد جنت میں داخل ہوجائے گا اور ہم اس کواپنی محبت کی خاطر جہنم کی آگ سے نجات دےکر اپنی بارگاہ میں جگہ دیں گے۔
(بحار الانوار ، ج۶۵، ص۱۵۵)
نتیجہ:
اگر ہمیں خدا کی حقیقی معرفت کو حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم معصومین(علیھم السلام) کی اتباع کریں، اور ان کی اتباع ان کی فرمائشات پر عمل کرکے ہی ہو سکتی ہے٫ اگر صرف دل اور زبان کے ذریعہ ان سے محبت کرینگے اور کردار کو ان کی طرح اپنانے کی کوشش نہیں کرینگے تو جہنم کی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد جنت میں ان کی بارگاہ میں جگہ ملیگی، وہ بھی معصومین(علیہم السلام) کی محبت کی وجہ سے۔ خدا ہم سب کو اہل بیت(علیہم السلام) سے حقیقی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button