سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اکرمؐ کی سیاسی سیرت کے راہنما اصول

GUIDING PRINCIPLES FROM POLITICAL LIFE OF THE HOLY PROPHET (PBUH)
محمد شریف نفیس(فاضل جامعۃ الکوثرو پی ایچ ڈی سکالرانٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد)
خلاصہ
قرآن ، رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو ہر اس شخص کے لیے نمونہ عمل قرار دیتا ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو۔ یقینا آپ ڈیم کی زندگی کے ہر پہلو میں انسانی زندگی کے ساجی ، فلاحی ، سیاسی اور دیگر اجتماعی و انفرادی پہلوؤں کے بارے میں راہنمائی کے اصول اور نمونہ عمل موجود ہیں۔ اس مقالے میں آنحضرت ا کرم ﷺ کی سیاسی زندگی کے کچھ راہنما اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ ان اصولوں میں آپ ﷺ کی نرم مزاجی ، مدارات اور عفو و در گذر پر مبنی سیرت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ آپ سیڈیم کی سیاسی زندگی کا یہ پہلو یوں تو ہر حکمران کو اور بالخصوص مسلمان حکمرانوں کو حکمرانی کے ایک اساسی اصول کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
کلیدی کلمات: رہنما اصول ، سیاسی زندگی ، پیغمبر اکرمﷺ، عفو و در گذر۔
موضوع کے مفردات:
سب سے پہلے یہاں موضوع کے مفردات کا مختصر تجزیہ ضروری ہے تاکہ موضوع واضح ہو۔موضوع کے عنوان میں رسول اکرمؐ کی "سیاسی سیرت” کا ذکر ہوا ہے لہٰذا ان دو الفاظ کے بارے میں جاننا بہت اہم ہے۔ اس غرض سے لفظ "السیاسۃ” اور "السیرۃ” کا لغوی و اصطلاحی مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔
لغت میں لفظ "السیاسۃ” کے کئی معانی نقل ہوئے ہیں جن میں ملکی معاملات کی تدبیر و انتظام، معاملات کی نگہداشت، حکمت عملی اور تدبیر، پالیسی، ڈپلومیسی، اصول جہاں بانی اور اصول حکمرانی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح "السیرۃ” فِعلۃ کے وزن پر عربی زبان کایہ لفظ میں مادہ "السیر” سے نکلا ہے۔ جس کا معنی حرکت کرنا ، چلنا اور راستہ چلنا ہے۔ جب یہ لفظ فِعلہ کے وزن پر آتا ہے تو یہ کام کرنےکا انداز ‘ کا معنی دیتا ہے۔ راغب اصفھانی کے مطابق سیرہ انسان کے رہنے کی حالت کو کہا جاتا ہے ۔ لسان العرب میں ابن منظور نے سیرہ کے معنی چلنے کی روش، رفتار، سنت، طریقت اور ہیئت بیان کئے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ حالت کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: ” سَنُعِیدُہَا سِیرَتَہَا الاُولٰی ” ‘ہم اسے اس کی پہلی حالت پر پلٹا دیں گے’۔
شہید مطہریؒ لکھتے ہیں کہ سیرہ عربی زبان میں مادہ "سیر” سے نکلا ہے ۔ سیر یعنی حرکت، چلنا اور راستہ چلنا۔ لہٰذا سیرہ یعنی حرکت کرنے کا انداز، چلنے کا طور و طریقہ۔ جب ہم سیرت کی بات کرتے ہیں تو اس میں اہم یہ ہے کہ ہم روش رفتار پیغمبرؐ کی شناخت کریں۔ رسول اکرمؐ کا انداز زندگی جان لینا چاہیے۔ ہمارے بہت سارے سیرت نگاروں نے رسول اکرام ؐ کا رفتار لکھا ہے۔ آپؐ کا سلوک اور عمل لکھا ہے۔ آپؐ کے چلنے کا انداز اور طریقہ رفتار نہیں لکھا۔ اس لئے ہمارے پاس جو سیرت کی کتابیں ہیں ان کو ہم ‘کتب سیر’ تو کہہ سکتے ہیں لیکن سیرت نہیں کہہ سکتے۔
ان تمام تعریفات کی روشنی میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہےکہ لفظ "سیرہ” کو عام طور پر رفتار اور حالت پر اطلاق کیا جاتا ہے جبکہ یہ لفظ روشِ رفتار اور انداز ِ فکر و عمل کو بیان کرتاہے۔ یعنی جب کوئی شخص بات کرتا ہے یا کوئی کام کرتا ہے تو اس کا اپنا ایک انداز اور طریقہ ہوتا ہے۔ درحقیقت یہی انداز اور روش و عادت اس کی سیرت ہوتی ہے۔ البتہ یہ لفظ اب رسول اکرمؐ کے طرز زندگی اور انداز فکر و عمل کے لئے استعمال ہوا ہے کہ اب اس لفظ سے مراد عام انسان کی سیرت کے بجائے صرف رسالتمآبؐ کی حیات طیبہ سے ہی متعلق سمجھا جاتا ہے۔ گویا لفظِ سیرت کا معنی و مفہوم ہی رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ کے گرد گھومتا ہے۔اب یہ لفظ رسول اکرمؐ کی قیادت و رہبری کا انداز اور امت اسلامی کی ہدایت کے لئے آپ کے طرز زندگی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے کہ دنیا میں رہنے والے سارے انسان صاحب سیرت نہیں ہوتے۔ کیونکہ اکثر لوگ اپنی زندگی کو کسی خاص مقصد کے لئے کسی واضح فکر، فلسفہ اور اصولوں کے مطابق نہیں گزارتے۔ بہت سارے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ہوا کی رخ پر چلتا ہو۔ ان کی زندگی میں کوئی اصول ہوتے ہیں نہ کوئی منزل۔ بس آئے روز کی زندگی جس طرح سے بھی گزرے گزار لیتے ہیں۔ جبکہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی متعین مقصد اور ہدف کو لے کر چلتے ہیں اور اپنی زندگی کو اس ہدف کے لئے وقف کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے زندگی کو متعین اصول اور خاص منہج کے مطابق گزارنا ہوتا ہے۔ درحقیقت یہی لوگ عظیم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے اہداف اور منزلیں عظیم اور ان کا راستہ دوسروں کے لئے مثالی ہوتا ہے۔ رسول اکرمؐ دنیا کے سب سے عظیم ترین انسان ہیں۔ آپ کا ہدف مقدس اور منزل بہت بلند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے اپنے ہدف تک رسائی کے لئے جس طرح کی شعوری زندگی گزاری ، اللہ تعالیٰ نے اسے انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا۔
ان بیانات اور ‘سیاسہ’ اور ‘سیرہ’ کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کے مفہوم جاننے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی سیاسی سیرت سے مراد رسالت اور شریعت مقدس اسلام کے تاجدار اور اسلامی فلاحی ریاست مدینہ کے فرمانروا کی حیثیت سے آپ ؐ کا انداز جہاں بانی اور طرز حکمرانی ہے۔جس میں آپؐ کی خارجہ و داخلہ امور کی پالیسی، آپؐ کی حکومت میں ڈپلومیسی کے دائمی اصول اور آپؐ کی جنگی حکمت عملی وغیرہ شامل ہیں۔اسی طرح ریاست کے اندر اپنے دوست اور اتحادیوں کے ساتھ آپ کا رویہ اور دشمن اور مخالفین کے ساتھ آپ کا سلوک اور غیر جانبدار قوتوں کے ساتھ آپؐ کا رویہ بھی آپؐ کی سیاسی سیرت کا اہم حصہ ہے۔
رسول اکرمؐ کی زندگی کا سیاسی پہلو:
رسول اکرمؐ اپنی حیات طیبہ کے ہر پہلو کے لحاظ سے صاحب سیرت ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے مکمل نمونہ عمل ہے۔ آپؐ کی سیرت کے جملہ پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو آپؐ کی سیاسی سیرت کا پہلو ہے۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کا مطالعہ ہمارے معاشرے میں سیاسی کردار کے بہترین اسلوب کو سمجھنے میں ممد و معاون ہوگا یہی چیز آج ہمارے معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی ہےکہ ہم اپنے رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی سے نمونہ عمل لیتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی استوار کریں۔ نبی کریمؐ کے اصول سیاست کے مطابق سیاست کریں۔ آج ہمارےسیاستدان رسول اکرمؐ کو اپنی سیاست میں رول ماڈل بنا کر آپؐ کے دئے ہوئے اصولوں پر چلنے کے بجائے مختلف مشرقی و مغربی سیاست کی بات کرتے ہیں۔ اہل مغرب کو اپنی سیاست کے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں، جن کی سیاست میں بنیادی رمز ہی یہ ہے کہ لوگوں میں اختلاف ڈال کر انہیں منتشر کرکردو، پھر ان پر حکومت کرو۔ جبکہ رسول اکرمؐ کی سیاسی سیرت میں امت کی وحدت اور مضبوطی ہی رمز اول ہے۔ لوگوں سے حق کی بات چھپانے کے بجائے حقیقت کی طرف رہنمائی کرنا اور گمراہی سے بچانا ہی رسول اکرمؐ کی سیاست کا مقصد تھا۔آج بھی دنیا کے ماہرینِ سیاسیات جب رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی کے حقائق سے آشنا ہوتے ہیں اور آپؐ کی عظمت اور دانشمندی کا ادراک کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی کا آغاز تو مکہ ہی سے ہوا تھا۔ آپؐ کی بعثت سے پہلےچالیس سالہ زندگی در اصل لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں گزاری۔ یہ آپؐ کی سیاسی زندگی کا ایک اہم ترین حصہ تھا۔ اس زندگی میں آپ ؐ نے اپنے پاک و پاکیزہ کردار کے ذریعے لوگوں کا ایسا اعتماد حاصل کیا جس پر کبھی بھی کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی۔ آپؐ کو قریش مکہ کی زبان سے صادق اور امین کا لقب ملا۔ یہ صرف ایک لقب ہی نہ تھا بلکہ آپؐ کی سیاسی سیرت کی ایک کامیاب سند تھی۔ قریش مکہ بعد میں آپؐ کے جانی دشمن بن گئے تھے لیکن تب بھی کوئی آپؐ کی صداقت و امانت اور دیگر اعلیٰ اخلاقی اقدار پر معترض نہ ہو سکا۔ آپؐ کی بعثت کے بعد بھی تیرہ سال کا زمانہ آپؐ کی سیاسی سیرت کا موزون حصہ تھا۔ مکہ کے حالات اور اسلام کے ابتدائی ادوار کا تقاضا ہی یہ تھا کہ رسول اکرمؐ دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسلامی معاشرے کے لئے زمینہ سازی کرتے اور افراد کی تربیت کرتے۔ اسی دوران ہجرت حبشہ کے موقع پر آپؐ کے اصحاب کی کامیاب ترین سفارت کاری آپؐ کی سیاسی حکمت عملی اور بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اسلامی حکومت کی بنیاد:
رسول اکرمؐ کے لئے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل دینے کے لئے دو اہم بنیادوں کی ضرورت تھی:
1۔ کوئی ایسی سرزمین جو "جیوپولیٹیکل” اور "جیو سٹریٹیجیکل” لحاظ سے ایسی مناسب موقعیت پر ہو جس میں مسلمان آزادی سے رہ سکیں۔
2۔افرادی قوت اور حالات ایسے ہوں جہاں ایک ملت کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ جب مسلمان ایک ملت کی شکل اختیار کر جائیں گے تو اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔
مدینہ منورہ کی شکل میں رسول اکرمؐ کو ایسی سرزمین میسر ہوئی جو "جیو پولیٹیکل” اور "جیو سٹریٹیجیکل” لحاظ سے حکومت سازی کے لئے موزون تھی۔ اس اہم بنیاد کے ساتھ رسول اکرمؐ کو اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے دوسری بنیاد کی بھی ضرورت تھی۔ اس وقت مدینے میں رہنے والے لوگ آپس میں بٹے ہوئے اور خاندانی جنگوں میں مشغول تھے۔ سالہا سالوں سے ایک دوسرے کے دل میں دشمنیاں پنپ رہی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہاں رسول اکرمؐ کے مخالفین بھی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ ان مخالفین کی مخالفت صرف اختلاف رائے کی حد تک نہیں تھی بلکہ آپؐ سے دشمنی بھی رکھتے تھے۔ ایسے حالات میں مدینہ میں امت سازی یا ایک متحد قوم کی تشکیل یقینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن رسول اکرمؐ نے اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ایک قلیل عرصے میں مدینے کے اندر امت سازی کی۔ آپؐ نے مدینے تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔مسلمانوں نے اس رشتے کو اس حد تک دل سے قبول کیا کہ اپنی جائدادوں میں بھی اپنے دینی بھائی کو برابر حصہ دیا۔نسلوں سے چلنے والی دشمنیوں اور جنگوں کی روک تھام کے لئے آپؐ نے لوگوں کے آپس میں امن کے معاہدے کروائے۔ مدینے میں پہلے سے موجود اقوام و ملل کے ساتھ بھی آپؐ نے امن معاہدے کئے جس کی وجہ سے مدینے میں ایک فضا سازگار ہوئی اور اسلامی حکومت کی تشکیل ممکن ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی حکومت اور معاشرے میں موجود مختلف قسم کے لوگوں کے درمیان ارتباط پیدا کرنا بھی ایک اہم کام تھا۔ لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں موجود تھے۔ کچھ گروہ اسلامی حکومت مخالف اور کچھ اس کے حامی تھے۔ حکومت کے لئے لازم تھا کہ ان تمام حامی اور مخالف گروہوں کو ساتھ لے کر چلے۔ چنانچہ آپؐ نے بڑی حکمت اور دانائی سے ان مختلف گروہوں کے ساتھ سلوک کیا۔ آپؐ نے اپنے مخالف گروہوں کے اختلافات سے صرفِ نظر کر کے ان کو جس انداز میں اپنے ساتھ ملا لیا، یہ واقعاً قابل دید ہے۔
عام طور پر اگر تاریخ عالم میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے ساتھ غیض و غضب اور قتل و غارت گری سے کام لیا ہے۔ جبکہ رسول اکرمؐ نے اس کے برعکس پیار، محبت اور نرم مزاجی سے کام لیتے ہوئے مخالف گروہوں کو اپنے ساتھ کر لیا ہے۔ آنحضرت ؐ کی سیرت طیبہ کا یہ پہلو ایک منفرد اور باعث اعزاز پہلو ہے۔ آپؐ نے اپنےمخالفین کی تمام تر مخالفتوں کے باوجودایک اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل ممکن بنائی اور اپنی سیاسی بینش اور حکمت عملی سے اس فلاحی ریاست کو بہترین انتظام کے ساتھ چلایا۔ ہمیں چاہئے کہ آپؐ کی سیرت طیبہ کے اس منفرد پہلو کو اپنے لئے نمونہ عمل کے طور پر لیں اور اس کے خدو خال پر تحقیق کر کے اپنی سیاسی زندگی کو اسی کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔
حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہونے کے بعد بھی رسول اکرمؐ نے اس حکومت کو چلانے کے لئے بھی نہایت کامیاب حکمت عملی سے کام لیا۔ اپنی حکومت کی ابتداءسے ہی ریاست کے تمام افراد کے ساتھ مساوات روا رکھا۔ انصاف کا نظام سستا اور آسان بنایا۔ آپؐ کے مخالفین کی طرف سے آنے والی برائیوں ، دشمنیوں اور عہد شکنیوں کو آخری حد تک تحمل فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جو مخالفین اسلامی حکومت گرانے اور مسلمانوں کے قتل ِ عام سے ک پر راضی نہ تھے ، ان کے ساتھ بھی آپؐ کو انصاف ، عدالت اور رحمدلی سے کام لیتے ہوئے دیکھا گیا۔ آپؐ نے کفار و مشرکین کے ساتھ جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں ، صبر و برداشت کی آخری حد تک پہنچنے کے بعد ہی ان کی نوبت آئی ہے ورنہ ابتدائی طور پر جنگ آپؐ کی حکمت عملی نہ تھی۔ آپ ؐ نے ان جنگوں میں بھی کبھی ظلم اور نا انصافی نہیں کی، بلکہ یہاں بھی آخری حد تک اپنی رحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہے کہ مشرکین مکہ ، جو زندگی بھر آپؐ کے بدترین دشمن بنے رہے۔ آپؐ کے ساتھ کئے ہوئے سارے عہد و پیمانوں کو توڑ ڈالا تو آپؐ نے مکہ کی طرف رخ کیا اور فتح مبین حاصل کی۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آنحضرت ؐ نےباعزت طریقے سے مکہ میں قدم رکھا تو تمام مشرکین مکہ ڈرے ہوئے، سہمے ہوئے تھے ۔ لیکن آپؐ نےب صرف چند افراد کے،علاوہ، باقی تمام مشرکین کے لئے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر آپؐ نے مشرکین مکہ کا خوف اور ڈر دیکھ کر ارشاد فرمایا: آج میں وہی بات کہوں گا جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: "لا تثریب علیکم الیوم۔۔۔” آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، خداوند متعال تمہارے گناہوں کو بخش دے وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے”۔
رسول اکرمؐ کے مخالف گروہ:
رسول اکرمؐ کے زمانےمیں عرب میں طاقت کا نظام قبائلی طرز کا تھا۔ لوگ اپنے قبیلوں کی قوت و طاقت کے بل بوتے پر ہی قدرتمند بنتے تھے۔ جب رسول اکرمؐ نے ایسے معاشرے میں اسلامی نظام لانے کی تحریک شروع کی تو یہ طاقت اور قدرت کا معیار بدلنے والی ایک تحریک تھی۔ جب آپ ؐ کی یہ تحریک کامیاب ہوئی تو اس کے نتیجے میں قبائلی سیاسیت اور نظام کے جگہے پر اسلامی نظام آیا۔ یہ سلامی نظام عرب کے ان قبائلی نظام والوں کی منفعت کے خلاف تھا۔ لہٰذا بہت سارے لوگوں کا رسول اکرمؐ کی مخالفت میں اتر آنا ایک فطری بات تھی۔چنانچہ مختلف قبائل عرب اور ان کے سرداروں نے رسول اکرمؐ کی مخالفت اور آپؐ سے دشمنی شروع کی۔ان کی دشمنیاں مختلف وجوہات کی بناء پر تھیں۔ ایک تقسیم بندی کے مطابق آپؐ کے مخالفین کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1۔ اشرافیہ اور مشرکین مکہ:
مکہ کے مشرکین اور طبقہ اشرافیہ رسول اکرمؐ کا سب سے پہلا بڑا دشمن طبقہ تھا۔ انہوں نے رسول اکرمؐ کے اہداف کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ رسول اکرمؐ کی 13 سالہ مکی زندگی میں ہر طرح کے مصائب و آلام کی شکل میں اور اس کے بعد آپؐ کی مدنی زندگی میں متعدد جنگیں مسلط کر کے آپؐ سے دشمنی کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
2۔ یہود اور اہل کتاب:
یہود اور دیگر اہل کتاب کی رسول اکرمؐ اور نومولود اسلامی حکومت کے ساتھ دشمنی مدینے میں شروع ہوئی۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ تشریف لانے کے بعد مختلف اقوام اور قبائل کی طرح یہود اور دیگر اہل کتاب کے ساتھ بھی امن معاہدے کئے تھے۔ ان لوگوں نے ابتداء میں ان معاہدوں پر دستخط بھی کئے اور مسلمانوں کی حمایت کا عہد بھی کیا۔ لیکن رسول اکرمؐ کی قیادت میں اسلامی حکومت اور مسلمانوں کا ارتقاء تیزی سے ہونے لگا تو یہ ان سے برداشت نہ ہو سکا۔ چنانچہ بعد میں ان معاہدوں کا پاس نہ رکھتے ہوئے اسلامی حکومت کے ریشے کاٹنے اور مسلمانوں کو راہ راست سے منحرف کرنے میں مشغول ہوئے۔
رسول اکرمؐ سے یہودیوں کی دشمنی اسی دن سے شروع ہوئی تھی جس دن آپؐ مدینے تشریف لائے تھے، لیکن آپؐ نے انہیں امن معاہدوں کے ذریعے پابند کیا تھا۔ آپؐ انہی معاہدوں کی وجہ سے اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد ان کے سارے حقوق کا لحاظ فرماتے تھے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ صلح صفائی سے رہتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے مدینے میں اسلامی نظام کو اپنی منفعتوں سے تعارض کرتا ہوا دیکھا تو اس کے خلاف سازش کرنے اور دشمنی پالنے میں اتر آئے۔ یہاں تک کہ ان کے کرتوت اس حد تک بڑھ گئے کہ معاہدے کے دوسرے فریق کو بھی اپنی روش بدلنی پڑ گئی۔ ،دینہ اور اس کے آس پاس میں آباد بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ جیسے مالدار و ثروت مند یہودی قبیلوں نے مشرکین مکہ کے تعاون سے رسول اکرمؐ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔آپؐ کے خلاف سازشیں تیار کیں اور دوسرے دشمنان اسلام سے مل کر آُؐ پر جنگیں مسلط کیں تو رسول اکرمؐ اور مسلمانوں کو بھی مجبورا لباس جنگ پہننا پڑا۔ اس طرح یہودیوں کے مقابلے میں کئی جنگیں ہوئیں، جن میں بہت سے یہودی مارے گئے ، جو بچ گئے تھے انہیں مدینہ سے شہر بدر کیا گیا۔ قرآن کریم، سور آل عمران کی آیات 65-67 اور سورہ بقرہ کی آیات 142-144 میں مسلمانوں کو یہودیوں سے دور رہنے اور ان سے دوستی نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
3۔ منافقین
رسول اکرمؐ کے مخالفین میں تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہی گروہ ہی کسی بھی شخصیت یا تحریک کا سب سے خطرناک مخالف گروہ ہوتا ہے۔انسان کو سب سے زیادہ نقصان اسی قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور آپؐ کی انقلابی تحریک کے لئے بھی یہ دشمن بہت خطر ناک تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ منافقین نے اسلام اورپیغمبر سلام کے ساتھ شروع دن سے ہی دشمنی رکھی تھی۔ قرآن کریم نے ان منافقین کو دل کے مریض اور دھوکے باز قرار دیا ہے جو ظاہراً اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو مسلمانوں کی صف میں شامل کیا لیکن ان کا باطن ہر قسم کی آلودگی اور شیطانی صفات سے بھرپور تھا۔ یہ لوگ ظاہراً اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور رسول اکرمؐ پر بھی ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن یہ سب ان کا دکھاوا اور ظاہری ایمانداری تھی۔ یہ لوگ اگر کسی حکم الٰہی پر عمل بھی کرتے تھے تو بھی انتہائی ناگواری اور مجبوری کی بناء پر کرتے تھے۔ یہ لوگ نماز میں سست اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرنے میں آگے ہوتے تھے۔ چنانچہ سورہ نساء کی آیت 142 میں منافقین کی یہی صفات بیان ہوئی ہیں: "اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا” ‘یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔’ اور سورہ توبہ میں ارشاد ہوا ہے: " یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ” ‘ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے، ان سے کہدیجئے: تم استہزا کیے جاؤ، اللہ یقینا وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے، کہدیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ‘
سورہ التوبہ کی ایک اور آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سوں نے اپنا دین بدل دیا تھا اور معاشرے میں فتنہ فساد پھیلانے میں مشغول تھے۔ ان میں سے بعض منافقین مدینہ ہی میں موجود تھے اور دوسرے بعض مدینہ کے اطراف کے قبائل میں رہتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہوا: ” وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ ” ‘ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔’
منافقین ہمیشہ اسلامی حکومت اور معاشرے میں ہونے والے اجتماعی اور فلاحی کاموں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ان کا کوئی کام کسی صورت بھی معاشرہ ، اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوتا تھا۔ یہ لوگ ہمیشہ دشمنان اسلام کو خوش کرنے کے لئے سرگرم عمل رہتے تھے۔ معروف مؤرخ طٰہٰ حسین اس بارے میں لکھتے ہیں کہ منافقین کا معاملہ رسول اکرمؐ کے لئے نہایت مشکل اور پیچیدہ تھا۔ منافقین کا کام ایک لحاظ سے یہودیوں اور مشرکوں سے آسان تھا۔ کیونکہ یہودی اور مشرکین آپؐ کے ساتھ مختلف جنگوں میں برسر پیکار تھے جبکہ منافقین کے ساتھ بظاہر ایسی کوئی جنگ نہیں تھی۔ لیکن دوسرے لحاظ سے منافقین کا کام یہودی اور مشرکین سے مشکل اور پیچیدہ تھا۔ کیونکہ یہودی اور مشرکین کی دشمنی اور میدان جنگ دونوں واضح تھے۔ جنگی محاذ میں دشمن کا مقابلہ کرنا آسان تھا۔ جبکہ منافقین کسی ظاہری جنگ و جدال کے بغیر اندر سے مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے کے درپے تھے۔ اس لئے ان کی پہچان اور طریقہ واردات کے علاوہ کہاں کہاں سے اور کب حملہ کریں گے واضح نہیں تھا۔اس لئے ان کی شر سے بچنے کے لئے ہمیشہ ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔
اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا یہ گروہ بہت خطرناک تھا۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات میں اس گروہ کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مدینے میں ان کی تمام تر خراب کاریوں اور عہد شکنیوں کے باوجود رسول اکرمؐ ، رحمت دوعالم، ان کی کارستانیوں سے ہمیشہ درگزر فرماتے تھے۔ ان کے خلاف کوئی سخت اقدام نہیں کرتے تھے۔ البتہ بعض موارد میں آپؐ نے ان کے خلاف سخت اقدامات بھی کئے۔ مثلا مسجد ضرار کو گرانے کے معاملے میں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی۔ بلکہ ان کے کرتوتوں کا شدید رد عمل دکھاتے ہوئے مسجد ضرار کو مسمار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
رسول اکرمؐ کے مخالفین کے مقابلے میں سیاسی اصول:
رسول اکرم ؐ کی سیاسی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی 13 سالوں پر محیط مکی زندگی اور 10 سالہ مدنی زندگی میں آپؐ کے سیاسی اصول میں کوئی تفاوت نہیں۔آپؐ نے اپنی پوری زندگی میں ہمیشہ نرم مزاجی، مدارات اور افہام و تفہیم کے اصول کو محور بنایا ہے۔ البتہ ماحول اور حالات و شرائط کے مطابق آپؐ نے کہیں کہیں جنگی حکمت عملی بھی بنائی ہے۔مکہ مکرمہ میں آپؐ انفرادی طور پر اور ایک محدود پیمانے پر اسلام کی تبلیغ فرما رہے تھے جبکہ مدینے میں تشریف لانے کے بعد آپؐ نے ایک اسلامی ریاست تشکیل دی اور اس ریاست کے منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے بھی آپؐ کو اپنی تبلیغی حکمت عملی بنانی پڑی۔ کیونکہ یہاں اسلامی ریاست کا تحفظ اور بقا بھی ضروری تھا۔ البتہ یہاں بھی آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کہیں پر بھی آپؐ کے بنیادی اصولوں کے خلاف کوئی عمل نظر نہیں آئے گا۔ لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے کہیں پر کوئی نئی حکمت عملی دکھائی دے وہ الگ مسئلہ ہے۔ مثلا کسی مہم میں آپؐ کے صلح و سلامتی کا اصول دوسری طرف سے قابل قبول نہ ہوا ہو۔ دوسری بات جب تک آپؐ مکہ میں تشریف فرما تھے وہاں کے مشرکین آپؐ کو ذاتی طور پر تکلیف اور اذیتیں دیتے تھے اور مسلمان جو کہ قلیل تعداد میں رہتے تھے مختلف اوقات میں کفار و مشرکین کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے تھے لیکن آپؐ کے مدینہ تشریف لانے کے بعدکفار و مشرکین اور آپ کے دیگر مخالفین کی طرف سے یکے بعد دیگرے جنگیں مسلط کی گئیں، جس کی وجہ سے آپ کو اسلامی ریاست اور مسلمانوں کے تحفظ و بقاء کے لئے دفاعی پوزیشن سنبھالنی پڑی۔ تاریخ میں کہیں نہیں ملے گا کہ رسول اکرمؐ نے ابتدائی طور پر ہی کسی پر حملہ کیا ہو یا کسی قسم کی چڑھائی کی ہو۔ بلکہ آپؐ نے ہمیشہ ہی آپ پر مسلط کی گئی جنگوں کا دفاع کیا یا اسلام دشمن عناصر کی طرف سے اسلام و مسلمین کو خطرات ہونے کی وجہ سے پہلے آپ ؐ نے انہیں صلح اور عہد ناموں کے ذریعے اپنی تحفظ کی کوشش کی۔ جب یہ اصول کارگر نہ ہوسکا تو مجبوراً آپؐ کو ہتھیار اٹھانا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے مدنی دس سالہ دور میں 80 سے زائد غزوات لڑنی پڑیں۔ ذیل میں رسول اکرمؐ کی عملی سیاست کے کچھ اہم اصول اختصار کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں:
1۔ مُدارات اور نرم مزاجی
نرم مزاجی اسلامی اخلاقیات کا ایک اہم اصول ہےجو معاشرے میں فلاح بہبود اور لوگوں کے درمیان اجتماعی روابط پیدا کرنے کے لئے بے حد مؤثر ہے۔ اگر اس اہم ترین اصول پر معاشرے کے سارے لوگ عمل کریں اور اسے بہترین وقت اور طریقے سے استعمال کریں تو معاشرے سے کئی قسم کی اخلاقی بیماریاں دور ہو جائیں گی۔اسلام نے اس اخلاقی اصول کی بہت تاکید کی ہے۔ رسول اکرمؐ نے اپنی پوری زندگی میں اس اصول پر عمل کیا اور اسے اپنی بہترین عادت بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں آپؐ کی اسی عادت کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: "وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُق عَظِیم”
رسول اکرمؐ نہ صرف اپنے اصحاب اور دوستوں کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آتے تھے بلکہ آپؐ تو اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتے تھے۔ یہی آپؐ کی ایک حکمت عملی بھی تھی کہ اپنے مخالفین سے بھی کبھی شدت سے بات نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں بڑی نرمی اور ملائمت کے ساتھ دین اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ جب تک آپؐ پر کوئی جنگ مسلط نہ کی جاتی آپؐ کبھی شدت کا راستہ اختیار نہ فرماتے۔ جنگ کی نوبت آنے کی صورت میں اپنے دفاع کے لئے استقامت اور استحکام کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ پھر جنگ اور شدت کے بعد بھی اگر کوئی مخالف شخص یا گروہ امن اور صلح کی طرف بڑھنا چاہتا تو آپؐ کی طرف سے امن اور صلح کے راستے کو فوراً قبول کیا جاتا تھا۔در حقیقت آپؐ کی یہ صفت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا۔ چنانچہ قران حکیم میں ارشاد ہے: "وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ” ‘اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔’
تاریخ شاہد ہے کہ آپؐ نے مدنی دور میں بھی ، جب آپؐ کے پاس حکومت اور طاقت تھی، ابتدائی طور پر کبھی کسی مخالف کے ساتھ شدت سے کام نہیں لیا۔حد الامکان آپؐ کی کوشش ہوتی تھی کہ سارے معاملات نرمی اور خوش اسلابی سے حل ہوں۔ یہاں تک کہ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کی بار بار عہد شکنیوں کے باوجود بھی آپؐ نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ لیکن جب مدینہ کے یہودی اپنے کاموں سے باز نہ آئے تو آپؐ کو ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا بھی پڑا۔ چنانچہ مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ آخر میں شدت اور مقاومت کے ساتھ جنگیں کر کے مدینہ کو ان کی شرارتوں سے پاک کیا گیا۔
آپؐ کی نرم مزاجی اور مدارات کی ایک اہم مثال عبداللہ بن ابی کا معاملہ ہے۔ عبداللہ بن ابی منافقین کا سردار تھا۔ اس کی زندگی منافقت میں گزر گئی۔اسی کی منافقت کی وجہ سے غزوہ بنی مصطلق پیش آنے کے بعد بھی آپؐ اسے قتل کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ خود عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے آنحضرتؐ سے اجازت چاہی کہ وہ اپنے منافق باپ کو قتل کر دے گا۔ آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا:” جب تک یہ شخص زندہ ہے، اس کے ساتھ ایک دوست اور رفیق کی طرح نیکی سے پیش آؤں گا” ابن ہشام کے بقول رسول اکرمؐ کا یہی سلوک ور برتاؤ باعث بنا کہ عبداللہ بن ابی مرتے دم تک اپنے ہی قوم و قبیلہ کی سرزنش اور ملامت کا مستحق ٹھہرا۔
اس طرح کے بے شمار واقعات اور مثالیں مل جاتی ہیں جن میں رسول اکرمؐ نے ہمیشہ اپنی نرمی اور خوش خلقی کی حکمت عملی سے اپنا کردار ادا کیا۔ دوسری طرف جب منافقین کے ساتھ نرمی سے پیش آنا دینی مصلحت کے خلاف ٹھہرا اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ فساد کا موجب بنا ، تو آپؐ نے اپنی نرم مزاجی کی صفت کے باوجود پوری قوت کے ساتھ منافقین کا قلع قمع کیا۔ چنانچہ مسجد ضرار اس کی مثال ہے جب منافقین نے ابو عامر کی سرکردگی میں بیماری اور دیگر وجوہات کی وجہ سے مسجد قبا نہ آسکنے کا بہانہ بنا کر اپنی الگ مسجد تعمیر کی ، جس کے پس پشت نوآباد مسلم معاشرے میں اختلاف ڈالنا اور اس کی بنیادیں کمزور کرنے کی مذموم سازش کارفرما تھی۔ لہٰذا آپؐ نے اس مسجد کو ہی جلا کر خاکستر کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
2۔ صلح و سلامتی پر مبنی خارجہ پالیسی
رسول اکرمؐ کا طرزِ حکمرانی میں جو خارجہ پالیسی تھی اس کے اصولوں میں مصالحت اور مسالمت پسندی نہایت اہمیت رکھتی تھی۔ آپؐ نے دنیا کے دیگر اقوام اور سلطنتوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ہمیشہ اس اصول کو اپنایا۔ آپؐ نے جنگ اور تشدد کو کبھی ذاتی طور پر خارجہ پالیسی کی بنیاد نہیں بنایا۔ بعض لوگوں کو یہ اشتباہ ہوا ہے کہ آپؐ نے دوسری سلطنتوں اور اقوام کے ساتھ جنگی زبان میں بات کی ہے۔ لیکن یہ حقیقت سے منافی ہے۔ کیونکہ آپؐ نے جنگ کی اجازت اس وقت تک نہیں دی جب تک آپؐ پر جنگ مسلط نہ کی گئی۔ جنگوں کے معاملے میں آپؐ کی پالیسی ہمیشہ دفاعی رہی ہے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات کی روشنی میں اس بات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلام کا بنیادی ہدف ہی امنو سلامتی اور مصالحت ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً” ‘اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ ‘۔ یہی چیز رسول اکرمؐ کی زندگی میں مکمل طور پر مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ ممثال کے طور پر آپؐ نے جب حجرت امیرالمؤمنیں علیہ السلام کو یمن کی طرف بھیجا تو جنگی حکمت عملی کے ساتھ نہیں ، بلکہ امن و سلامتی کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کا حکم دے کر بھیجا۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی بغیر بغیر کسی جنگ و جدال کے تعلیمات اسلام کو ان کے سامنے رکھا تو یمن کا معروف قبیلہ ہمدان کے سارے افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ جب یہ خبر مدینے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معمول سے زیادہ خوش ہوئے۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لایا اور قبیلہ ہمدان کے لئے دعا فرمائی۔ پھر دو بار فرمایا: "السلام علی الھمدان”بعض نصوص کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”نعم الحی ھمدان ما اسرعھا الیٰ النصر! واصبرھا علیٰ الجھد! فیھم ابدال وفیھم اوتاد”
اسی طرح رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ میں کہیں نہیں ملے گا کہ آپؐ نے اپنی خارجہ پالیسی میں پرامن طریقے سے بات چیت کرنے سے پہلے جنگ اور تشدد کا رویہ اپنایا ہو۔ کیونکہ آپؐ جنگ کو مسئلے کا آخری حل سمجھتے تھے۔ آُؐ کی ڈپلومیسی کی بنیادی خصوصیت ہی یہی تھی کہ آپؐ ہر جنگ سے پہلے میدان جنگ میں بھیاسلام کی تبلیغ کیا کرتے تھے اور امن سلامتی کی طرف دعوت دیتے تھے۔ میدان جنگ میں جانے والا ہر مبارز سب سے پہلے اپنے مدمقابل کو اسلام، امن اور سلامتی کی طرف دعوت دیتا تھا۔ جب تک دوسری طرف سے امن کی دعوت کو ٹھکرا کر حملہ نہ ہوتا تھا مسلمان حملہ آور نہ ہوتے تھے۔
رسول اکرمؐ نے اپنی پوری زندگی میں صلح، امن اور سلامتی کا پیغام دیا۔ آپؐ اپنے اصحاب کو بھی ہمیشہ شرح صدر اور برداشت کا مادہ بڑا رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔آُؐ نے معاشرے میں امن و امان اور صلح قائم کرنے کے لئے ہر طرح کے اجتماعی اور انفرادی نوعیت کے طریقے بھی اپنائے۔ مثلا ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے آپؐ کی شادی اور فتح مکہ کے موقع پر خود ابوسفیان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک عام انسان سے توقع ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ابوسفیان جس نے آخری دم تک اسلام کی دشمنی میں بڑا کردار ادا کیا ہو، جب اس کی عاقبت کا وقت آیا تو آپ آپؐ نے نی صرف اسے امان دیا بلکہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے سب کو بھی عام معافی اور امان کا اعلان فرمایا۔ یہ سب آپؐ کی صلح پسندی اور امن و سلامتی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے تھا۔ محمد حسین ہیکل نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپؐ شروع سے کفار و مشرکین مکہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے کے حق میں تھے جس میں پرامن طریقے سے اسلام کی تبلیغ کی جاسکے۔ صلح حدیبیہ میں مشرکین کی شرائط پر صلح نامہ لکھوانا آپؐ کی صلح پسندی کی بلند ترین مثال ہے۔
3۔ غیر جانبدار قوتوں کے ساتھ امن معاہدے
رسول اکرمؐ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جنگ و جدال اور دشمنیاں پالنے سے پرہیز کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد جبکہ جہاد فرض بھی ہوچکا تھا، لیکن آپؐ کی بھرپور کوشش یہی تھی کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اپنے دشمن، خاص کر مشرکین مکہ کو کمزور کرے۔ اپنے حریف کو کمزور کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہی تھا کہ سرزمین عرب کے مختلف قبائل و اقوام کے ساتھ امن معاہدے کر کے ان کو مشرکین مکہ کے ساتھ ملنے سے روکا جائے۔ چنانچہ آپؐ نے عرب کے مختلف چھوٹے بڑے قبائل کے ساتھ امن معاہدے کئے۔ معاہدوں کی شرائط کے ضمن میں ان تمام اقوام و ملل کو امن کا پابند بنایا۔ سرزمین عرب میں بسنے والے یہ سارے قبائل اگرچہ شرک و گمراہی میں مبتلا تھے لیکن آپؐ نے ابتداء سے ہی ان کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے امن معاہدوں کی شکل میں پہلے امن و سلامتی کی دعوت دی پھر رفتہ رفتہ ان تک اسلام کا پیغام بھی پہنچایا۔
یہ بھی آپؐ کی ڈپلومیسی کا ایک اہم حصہ تھا کہ ان غیر مسلم قبائل کے ساتھ امن معاہدے کر کے ایک طرف قریش مکہ کی مدد کرنے سے روکا جائے، دوسری طرف معاہدات کے فریق ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے اتحادیوں میں شامل کر کے قریش مکہ کے مقابلے میں ایک مضبوط اتحاد اور قوت کے طور پر استعمال کیا جائے۔
4۔ دشمن کے ساتھ مہربانی اور عطوفت سے پیش آنا:
رسول اکرمؐ چونکہ تمام عالمین کے رہبر و پیشوا بن کر آئے تھے۔ آپؐ وحی الٰہی کے امین تھے۔ آپؐ دنیا میں پیار اور محبت بانٹنے تشریف لائے تھے۔ آپؐ اپنے ہر عمل میں رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ اپنے دشمنوں کے لئے بھی رحمت ہی رحمت تھے۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپؐ اپنی بعثت کے بعد مکہ میں لوگوں کو دین اسلام کی طرف دعوت دیتے اور ان کو نیکی و سلامتی کا پیغام پہنچاتے تو مشرکین مکہ آپؐ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے تھے۔ آپؐ پر بے جا تہمتیں لگاتے ، آُؐ کی شان میں گستاخیاں کرتے، آپؐ کو جھٹلاتے، اور آپؐ کو کذاب، ساحر اور مجنون قرار دیتے۔ کئی بار آپؐ پر پتھر برسا کر آپؐ کو لہو لہان بھی کیا لیکن ان تمام اذیتوں کو جھیلنے کے بعد بھی آپؐ کی زبان مبارک سے ان کی ہدایت اور بھلائی کے لئے دعا ہی نکلتی تھی۔ آپؐ فرماتے تھے: اے اللہ میری اس قوم پر اپنی رحمت نازل فرما۔ ان کے گناہوں کو معاف کر۔ کیونکہ یہ نادان ہیں۔ یہ حقیقت کو نہیں جانتے۔
آپؐ کی عطوفت اور مہربانی کی عالم کا اندازہ فتح مکہ کے موقع سے ہوتا ہے۔ 13 سالہ مکی زندگی میں ہر قسم کی رنجشیں اور مصائب و آلام برداشت کیں، اس کے بعد مدنی زندگی میں 26 سے 28 غزوات اور متعدد سرایا کی شکل میں بہت سی جنگیں لڑیں، جن میں آپؐ اور مسلمانوں نے بھوک پیاس، رنج و الم اور خوف و خطر برداشت کیا۔ آخر میں فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ فاتح کی طرح مکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کے بدترین دشمن آپؐ کے زیردست تھے، تب آپؐ نے ان سے اتنی لمبی عداوت و دشمنی کا بدلہ اور انتقام لینے کے بجائے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ لشکر اسلام جب اپنے پورے شان و شوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہا تھا تو حضرت سعد بن معاذ، جوکہ خود بزرگ صحابی اور لشکر اسلام کے بڑے کمانڈروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ فتح کی خوشی میں وہ رجز پڑھ رہے تھے کہ آج کا دن نبرد آزمائی کا دن ہے۔ آج تمہاری جان و مال حلال شمار ہوگی۔ یہ اشعار اور رجز سن کر قلب نازنین رسول اکرمؐ عطوفت و مہربانی سے بھر آیا۔ آپؐ سخت غمگین ہوئے۔ اتنے غمگین کہ حضرت سعد بن معاذ کی تنبیہ کے لئے ان کے منصب سے معزول فرمایا اور اس کی جگہے پر لشکر کا پرچم انہی کے بیٹے قلیل بن سعد کے ہاتھ میں تھمایا۔
آنحضرتؐ کی رحمت اور عطوفت کا ایک اور اعلیٰ نمونہ صفوان بن امیہ کا واقعہ ہے۔ آنحضرت ؐ نے فتح مکہ کے موقع پر صرف دس لوگوں کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو عام معافی کا اعلان فرمایا تھا۔ صفوان بن امیہ کا شمار ان دس لوگوں میں ہوتا تھا جن کے ناقابل معاف جرائم کی وجہ سے آپؐ نے انہیں پھانسی دینے کا حکم صادر فرمایا تھا۔ صفوان بن امیہ نے ایک مسلمان کو مکہ والوں کے سامنے پھانسی دی تھی۔ وہ زندگی بھر رسول اکرمؐ اور اسلام و مسلمین سے دشمنی رکھنے میں پیش پیش رہا تھا۔ مسلمانوں پر متعدد جنگیں مسلط کرنے میں بھی یہ براہ رست شریک تھا۔ جب اس نے اپنی سزا کے بارے میں سنا تو خوف کے مارے مکہ سے جدہ کی طرف بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ صفوان بن امیہ کا چچا زاد بھائی عمرو بن وہب نے رسول اکرمؐ سے درخواست کی کہ صفوان کے معاملے میں عفو درگزر سے کام لے۔ آپؐ نے فوراً معاف فرمایا۔ صفوان کو جب معافی کا اعلان ہوا تو یقین نہیں کر سکا۔ کہاکہ جب تک رسول اکرمؐ سے معافی کی کوئی علامت نہ ملے میں اس معافی پر یقین نہیں کرسکتا۔ رسول اکرمؐ نے اپنا عمامہ یا اپنی قمیض کو اسے نشانی کے طور پر عطا فرمایا۔ جب یہ نشانی اسے ملی تو واپس مکہ آیا۔ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے دو مہینے کی مہلت مانگی تاکہ وہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرے۔ آپؐ نے فرمایا تو چار مہینے کی مہلت لے لے۔ تاکہ تم تحقیق کرو پھر مسلمان ہوجاؤ۔
صفوان رسول اکرمؐ کے اس اعلیٰ ظرفی اور عطوفت و مہربانی کو دیکھ کر گویا ہوا: "دنیا میں کوئی بھی اتنی بڑی نیکی اور اچھائی نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ اللہ کا نبی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں”۔ اس طرح اس نے وہی پر اسلام قبول کی۔
5۔دشمن پر لعن طعن سے پرہیز:
رسول اکرمؐ نے اپنی پوری زندگی میں اپنی ذات کی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ بلکہ آپؐ ہمیشہ اپنے دشمنوں کے حق میں دعا فرماتے تھے اور ان کی بھلائی اور ہدایت چاہتے تھے۔ لیکن جو شخص خدا کا دشمن ہو یا خدا کے دین کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہو، آپؐ اسے نہیں بخشتے تھے۔خواہ وہ دشمن آپؐ کے قریبی رشتہ داروں میں ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اکرمؐ کی سیاست میں دیانت داری ہی سب کچھ تھی۔ آپؐ نے اپنی سیاست میں کبھی دیانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ آپؐ اپنے مخالفین اور دشمنوں کے دل اور ان کی فکر پر حکومت کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ اس لئے ان کے افکار اور ان کی اجتماعی اور دنیوی دلچسپیوں پر نظر رکھتے تھے۔ ان کے دل جیتنے اور ان کی ہدایت کے لئے شرافت کے ہر طریقے استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ پیغامِ حق ، صلح اور محبت سے عبارت ہے۔ اس پیام میں لفظ انتقام کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
رسول اکرمؐ کا ہدف پیغام حق کا انکار کرنے والوں کو قتل کرنا نہ تھا، بلکہ آپؐ کا ہدف دنیا سے کفر و الحاد اور نفرت و کینہ کا قلع قمع کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے کبھی اپنے دشمنوں کے لئے بد دعا نہیں کی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپؐ کے ساتھ دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، لیکن رسول اکرمؐ سے ان کے مقابلے میں معمولی بد دعا کا بھی کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا: "مجھے لعنت و نفرین کرنے کے لئے مبعوث نہیں کیا گیا، بلکہ سب کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔
رسول اکرمؐ کی مدنی زندگی میں آپؐ کی غزوات اور سرایا کے احوال دیکھ کر ممکن ہے کسی کو خیال پیدا ہو کہ آپؐ کی سیاسی سیرت میں مدارات اور رحمت و عطوفت والارویہ اس وقت تھا جب آپؐ کے پاس قدرت اور طاقت نہ تھی۔ نہ ہی آپؐ کے پاس ریاست مدینہ کی شکل میں کوئی مضبوط حکومت تھی۔ لیکن جب آپؐ کے پاس طاقت و قدرت آئی تو آپؐ کی سیاست میں مدارات کے جگہے پر جنگ و جدال کا رویہ عیاں نظر آتا ہے۔
جبکہ یہ خیال محظ خیال اور وہم کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ آنحضرتؐ کی سیرتِ طیبہ کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو آپؐ کی حیات طیبہ کے آخری دنوں تک رحمت ہی رحمت اور عطوفت ہی عطوفت نظر آتی ہے۔ غزوہ ذات الرقاع ہی کی مثال لے لیں، جہاں آپؐ اپنی عطوفت و مہربانی دکھانے کے بجائے انتقام لینے میں حق بجانب تھے۔حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر آپؐ راستے میں کسی درخت کے نیچے استراحت فرما رہے تھے۔ آپؐ نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ جب میں آنحضرتؐ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ایک عرب بادیہ نشین آپؐ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جب میں نیند میں تھا تو یہ شخص آکر میری تلوار کو ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ جب میں بیدار ہوا تو مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا”اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟” میں نے کہا "میرا اللہ” اور اسی کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار چھٹ گئی ۔ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود بھی رسول اکرمؐ نے اس اعرابی کو کچھ کہے بغیر آزاد کیا۔ اس کی کوئی سرزنش بھی نہیں کی۔ حالانکہ رسول اکرمؐ اگر چاہتے تو اس اعرابی کو اسی وقت قتل بھی کر سکتے تھے یا مسلمانوں کے ہاتھ میں گرفتار بھی کر سکتے تھے۔ لیکن آپؐ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہ سب آپؐ کی رحمت، عطوفت، مہربانی اور مدارات ہی کی وجہ سے تھا۔
نتائج:
1۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کی مکمل شناخت اور اس سے صحیح آگاہی ایک ناقابل انکار ضرورت ہے۔ آپؐ کے احوال ، افکار اور اعمال پر غور و فکر کرنے کے بعد ہی آپؐ کی پیروی کرنے کا قرآنی حکم پر عمل ممکن ہے۔
2۔ رسول اکرمؐ کی سیاسی سیرت سے مراد آپؐ کی امت سازی کا انداز اور روش رہبری ہے۔ آنحضرت ؐ نے لوگوں کی ہدایت و بہتری کے لئے جس سلیقہ مندی سے پیغام رسالت پہنچایا اور کارہائے رسالت و امامت انجام دئے، یہی آپؐ کی سیاسی سیرت ہے۔
3۔ رسول اکرمؐ انتہائی نرم دل اور محبت و عطوفت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ اسی وجہ سے آپؐ نے اپنی تبلیغ کا اصل محور رحمت اور محبت کو قرار دیا۔ تئیس سال کے قلیل عرصے میں آپؐ کے مقصد میں غیر معمولی کامیابی کا راز ہی یہی نرم دلی ، مدارات اور محبت کا نتیجہ تھا۔
4۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ بالعموم دنیا کے تمام متخاصم و متقابل گروہوں کے، بالخصوص عرب کے مختلف قبائل جو کئی کئی نسلوں سے آپس میں دشمنیاں پال رہے تھے اور ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے، ان کے درمیان امنو صلح ایجاد کریں۔ اسی طرح تمام غیر مسلم اقوام اور قوتوں کے ساتھ بھی صلح و صفائی اور امن و امان کی زندگی گزارنے کے راستے تلاش کریں۔
5۔ رسول اکرمؐ کی تمام تر امن کی کاوشوں کے باوجود بھی مفاد پرست عناصر اور ہٹ دھرم لوگ ہمیشہ آپؐ کے مخالف رہے۔
6۔ رسول اکرمؐ کے مخالفین کو تین بڑےگروہوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ اشرافِ قریش و مشرکین مکہ، دوسرا یہود و نصاریٰ اور تیسرا گروہ، جو سب سے خطرناک تھا، منافقین کا گروہ تھا۔
7۔ رسول اکرمؐ نے اپنے تمام مخالفین کے ساتھ بھی بنیادی طور پر بردباری اور ملائمت کا سلوک روا رکھا۔ اس مقصد کے لئے آپؐ نے مخالفین کی طرف سے کڑی شرائط کے ساتھ بھی امن معاہدے کئے۔ اسی طرح مخالفین کی عہد شکنیوں اور دغابازیوں کے باوجود بھی کبھی انتقام لینے میں پہل نہیں کی۔ بلکہ آخری حد تک ان کو مہلت بھی دی۔ چنانچہ صلح حدیبیہ اور منافقین کے ساتھ آپؐ کا سلوک اس کی مثالیں ہیں۔
8۔ نرم مزاجی اور نرم دلی اسلامی اخلاق کا ایک اہم اصول ہے۔ رسول اکرمؐ اور ہمارے دیگر پیشوایان دین کی سیرت میں اس اصول کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button