سلائیڈرمناقب امام حسین عمناقب و فضائل

حضرت امام حسین علیہ السلام سنت کےآئینےمیں

 (حصہ اول)

۱۔ جوانان جنت کے سردار

احمد بن حنبل نےمسندمیں، بیہقی نےسنن میں،طبرانی نےمعجمِ اوسط اورمعجم کبیر میں، ابن ماجہ نےسنن میں،سیوطی نے جامع الصغیروالحاوی اورالخصائص الکبریٰ میں،سنن ترمذی میں، مستدرک حاکم میں، علامہ ابن حجرعسقلانی نےصواعق محرقہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن حجرعسقلانی نےالاصابہ میں، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں، بُغوی نے مصابیح السنة میں، ابن اثیر نے اُسد الغابة میں، حموینی شافعی نے فرائد السمطین میں، ابوسعید نے شرف النبوّة میں، محب طبری نے ذخائر العقبی میں، ابن السمان نے اپنی کتاب الموافقہ میں، نسائی نے خصائص امیر المومنین میں، ابونعیم نے معروف کتاب ”الحلیة” میں خوارزمی نے مقتل میں، ابن عدی نے کامل میں، مِنادی نے کنوز الحقائق وغیرہ میں متعدد اسناد کے ساتھ صحابہ و اہل بیت مثلاً حضرت علی ، ابن مسعود، حذیفہ، جابر، حضرت ابوبکر و عمر، عبداللہ بن عمر، قرة، مالک ابن الحویرث، بریدہ ابن سعید خدری، ابو ہریرہ، اسامہ براء اور اَنس وغیرہ نے پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ حضصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ور سرور کائنات نے امام حسن و حسین علیہماالسلام کایہ کہہ کر تعارف کروایا:

”الحسن والحسین سَیِّدا شَبَابِ أَ هَلِ الجَنَّةِ“

حسن وحسین علیہماالسلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔

اس سلسلےمیں کثرت سےان تمام حضرات سےواردہونےوالی روایات واحادیث سےمعلوم ہوتاہےکہ پیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےبارہاامام حسن وامام حسین علیہماالسلام کا تعارف اس عظیم صفت کےساتھ کرایاہے۔

لہٰذایادرہےکہ امام حسن وامام حسین علیہما السلام جنت کےسردارہیں اورکوئی بھی انکی مخالفت کرکےان سےجنگ کرکےیا ان سےبغض وعداوت اوردشمنی کرکے جنت میں جانے کی توقع نہ رکھے۔

اس حدیث کےراوی

الف: اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اس حدیث شریف کو اہل بیت علیہم السلام اوربہت سےمشہور اصحاب نےنقل کیاہےمنجملہ:

١۔ امام علی علیہ السلام

٢۔ امام حسین علیہ السلام

٣۔ عبداللہ ابن عباسؓ

٤۔ حضرت ابوبکر

٥۔ حضرت عمر

٦۔ عبداللہ بن عمر

٧۔ جابر بن عبداللہ انصاریؓ

٨۔ عبداللہ بن مسعودؓ

٩۔ حذیفہ بن یمانؓ

١٠۔ جم

١١۔ مالک بن حویرث لیثی

١٢۔ قرّة ابن أیاس

١٣۔ اسامہ بن زید

١٤۔ انس ابن مالک

١٥۔ ابوہریرہ دوسی

١٦۔ ابو سعید خدری

١٧۔ براء بن عازب

١٨۔ علی ھلالی

١٩۔ ابو رمثہ

٢٠۔ بریدہ

ب: علمائے عامّہ

اس حدیث شریف کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

منجملہ:

١۔ خطیب بغدادی ۔تاریخ بغداد

٢۔ ابن عساکر ۔تاریخ دمشق

٣۔ طبرانی ۔المعجم الکبیر

٤۔ ملا علی متقی ھندی ۔کنزالعمال

٥۔ محب الدین طبری ۔ذخائر العقبیٰ

٦۔ ھیثمی ۔مجمع الزوائد

٧۔ ابو نعیم اصفہانی ۔حلیة الاولیاء

٨۔ ابن حماد حنبلی ۔شذرات الذھب

٩۔وکیع ۔اخبار القضاة

١٠۔ ابن ماجہ ۔سنن ابن ماجہ

١١۔ حاکم نیشاپوری ۔ المستدرک علی الصحیحین

١٢۔ گنجی شافعی ۔ کفایت الطالب

١٣۔ ترمذی ۔سنن ترمذی

١٤۔ احمد بن حنبلی ۔المسند

١٥۔ ذہبی ۔ تاریخ الاسلام، سیرہ اعلام النبلاء

١٦۔ ابن حجر ۔ الاصابة

١٧۔ بغوی ۔ معجم الصحابہ

١٨۔ ابو القاسم سھمی ۔تاریخ جرجان

١٩۔ نھبانی ۔الفتح الکبیر

٢٠۔ابن حجر ھیثمی ۔الصواعق المحرقہ

٢١۔ سیوطی ۔الجامع الصغیر

٢٢۔ دیلمی ۔ فردوس الاخبار

٢٣۔ ابن ابی شیبہ ۔المصنّف

٢٤۔ نسائی ۔الخصائص

٢٥۔ ابن حبان ۔صحیح ابن حبان

٢٦۔ سمعانی ۔الانساب

٢٧۔ مناوی ۔فیض القدر

٢٨۔ البانی ۔سلسلة الاحادیث الصحیحة

امام حسین علیہ السلام راکب دوش رسالت

امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کرنے والی بعض روایات میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے پیغمبصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ر امام حسن و حسین علیہماالسلام کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے لوگوں کے سامنے لیکر آتے اور ان کا تعارف کراتے تاکہ لوگ اچھی طرح ان کے مقام و مرتبہ کو پہچان لیں مثلاً:

ایک مرتبہ حضوصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ر سرورکائنات، سرکار رسالت اس انداز سے گھر سے باہر تشریف لائے کہ دائیں کاندھے پر حس علیہ السلام ن اور بائیں کاندھے پر حسی علیہ السلام ن تھے اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی امام حسن علیہ السلام کو پیار کرتے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کو پیار کرتے اور اسی انداز سے لوگوں کے درمیان آئے اور پھر فرمایا: جس نے انہیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔ اس سلسلہ میں اہل سنت کے بہت سے علماء مثلاً: علامہ حجر عسقلانی نے ابوہریرہ سے اسی طرح دیگر افراد نے ابن مسعود، جابر اور انس وغیرہ سے پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امام حسین علیہ السلام سے اس انداز محبت کو نقل کیا ہے۔

(الاصابة ج١، ص ٢٣٠، ح١٧١٩؛ الجامع الصغیر، ج٢ ، ص ١١٨؛ ذخائر العقبیٰ، ص١٢٣و ١٣٢)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلسل امام حسن و امام حسین علیہ السلام کو اپنے کاندھے پر سوار کیا ہے اور ان کی عظمت و فضیلت کا قصیدہ پڑھا ہے۔یہاں تک کہ یہ حضرات نماز و دیگرحالات میں بھی سواردوش رسالت ہوتےتھےلیکن پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےکبھی انہیں منع نہیں بلکہ لطف ومحبت کااظہارکرتےاورلوگوں کوبھی ان سےمحبت ودوستی کا حکم فرماتے تھے۔ ابو سعیدنے ”شرف النبوّة” میں روایت کی ہےکہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تشریف فرماتھےکہ حسن علیہ السلام  وحسین علیہ السلام  ان کی طرف آئےپیغمبراسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےجیسےہی انہیں دیکھا،کھڑےہوگئےاورانہیں گود میں لیکر اپنے کاندھوں پرسوار کرلیا، پھر فرمایا:

"نِعْمَ المَطِیُّ مَطِیَّتُکما، و نِعمَ الرَّاکبانِ أنْتُمٰا“

(ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)

"کتنی اچھی سواری ہے یہ، اور کتنے اچھے سوار ہو تم”۔

شبلخی نے اس طرح روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا حسن و حسین﷧ کے پاس سے گزر ہوا تو سرکار رسالت نے اپنی گردن مبارک جھکا کر انہیں اپنے دوش مبارک پر بٹھالیا اورفرمایا:

”کتنی اچھی ہے ان کی سواری اور کتنے اچھے ہیں یہ سوار“ ۔

(ذخائر العقبیٰ، ص ١٣٠)

جمال الدین زرندی حنفی، ترمذی اورابن حجرنے ابن عباس سےروایت کی ہےکہ جب سرکاررسالت،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرورکائنات نےحسین علیہ السلام  کواپنےدوش پرسوار فرمایاتوایک شخص دیکھ کرکہنےلگا:واہ!کیاسواری ہے! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً فرمایا:

”نِعمَ الرَّاکب هُوَ“

(ترمذی، ج١٣، ص ١٩٨و ١٩٩؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ صواعق، ص١٣٥)

"تم نےسواری دیکھی ہےکہ کتنی اچھی ہےارےسواربھی تودیکھوکتنااچھاہے!”

زرندی جو کہ اہل سنت کےعظیم عالم محدث و حافظ ہیں، نے اپنی معروف کتاب در رالسمطین میں جابر، سعد اور انس وغیرہ سے بھی دیگر روایات نقل کی ہیں۔

امام حسین علیہ السلام ریحانۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اہل سنت کے بعض مشہور و معروف محدثین نے حضرت علی علیہ السلام ، ابن عمر، ابو ہریرہ ، سعید بن راشد اور ابوبکر وغیرہ سے روایت کی ہے کہ حضور سرورکائناتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”اِنّ الحسن والحسین هُمٰا رَیْحٰانَتَای مِنَ الدُّنیا“

"حسن علیہ السلام  و حسین علیہ السلام  دنیا میں میرے دو پھول ہیں”۔

یہ حدیث مختلف الفاظ سے کثرت سے وارد ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مکرر یہ بھی فرمایا ہے

(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ ترمذی، ج١٣، ص ١٩٣؛ اسد الغابة، ج٢، ص ١٩؛ الاصابة، ج١، ص٣٣٢؛ مصابیح السنة ،ج، ص٢٧٩ و٢٨٠؛ کنوز الحقائق، ج١، ص ٦٣و٦٧و ج٢، ص ١٥١؛ خصائص نسائی ص ٥٤؛ کنزالعمال، ج٦، ص ٢٢٠، ح٣٨٧٤ و ص٢٢١، ح٣٩١٢؛ نظم در رالسمطین، ص٢١٢؛ مطالب السؤل ص٥٦؛ صواعق ص ١٩١)

اورر اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یاد رکھو یہ میرے پھول ہیں لہٰذا امّت کو چاہیے کہ انہیں پھول کی طرح رکھیں لیکن افسوس! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلے جانے کے بعد کسی نے ایک پھول کے جنازے پر تیر برسائے اور دوسرے پھول کی پتیوں کو کربلا کے صحرا میں ظلم و ستم کے ذریعہ مسل دیا گیا۔

سعید بن راشد نقل کرتے ہیں: حسن و حسین دوڑتے ہوئے پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً ایک کو ایک گود میں اور دوسرے کو دوسری گود میں اٹھالیا اور فرمایا:

"هٰذان رَیْحٰانَتَا یَ مِنَ الدّنیا مَنْ أَحَبَّنِی فَلْیُحِبُّ هُمٰا“

(ذخائر العقبیٰ، ص ١٢٤)

”یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ انہیں محبوب رکھے۔“

امام حسین علیہ السلام شبیہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

بخاری و ابن اثیرنےروایت کی ہے کہ جب سر امام حسین علیہ السلام کو عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو ایک طشت میں رکھا گیا۔ ابن زیاد تلوار یا چھڑی امام حسین علیہ السلام کی نازنین آنکھوں اور چہرے پر لگاتا اور ان کی خوبصورتی بیان کرتا یہ دیکھ کر انس کہنے لگے: اے ابن زیاد! یہ اہل بیت میں سب سے زیادہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شبیہ تھے۔

(صحیح بخاری، ج٢، ص ١٨٨؛ اسد الغابة، ج٢، ص ٢٠؛ البدء والتاریخ، ج٦، ص ١١)

لب امام حسین علیہ السلام بوسہ گاہ رسالت

ابن عبدالبر قرطبی ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسین علیہ السلام  کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو پکڑ کر اٹھانا شروع کیا اس انداز سے کے ننھے ننھے پیر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سرور کائنات کے قدم مبارک پر تھے اور سرکار رسالت فرما رہے تھے:

”تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّةٍ“

اےحسین علیہ السلام میری جان ننھےننھےقدم اٹھاکرمیری گودمیں آجا۔

یہ کہہ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےحسین علیہ السلام  کواتنا بلند کیا کہ حسی علیہ السلام ن کے ننھے ننھے پیر جناب رسالت مآب کےسینہ مبارک پرپہنچ گئےپھرحسین سے فرمایا: حسین منہ کھولو، پھرحسین علیہ السلام کے لبوں پر پیار کیا اورفرمایا:

”اللَّهُمَّ اَحِبَّهُ فَاِنّی اُحِبُّهُ“

(الاستیعاب، ج١، ص ١٨٢ و ٣٨٣)

"پروردگار تو اس سے محبت فرما کیونکہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں”۔

جلال الدین سیوطی نے جامع الصغیر کی تیسری جلد میں اور ابن عساکر نے ابوہریرہ سے ان الفاظ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

”حُزُقَّة حُزُقَّة تَرَقَّ عَیْنَ بَقَّةٍ“

"اے میری ننھی سے جان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاکر میری گود میں آجا”۔

عربی لغت کے مطابق ”حُزُقَّة“ اسے کہتے ہیں جس کے ضعف و کمزوری یا چھوٹےجسم کی وجہ سے قدم چھوٹے چھوٹے ہوں۔

جبکہ”تَرَقَّ“کےمعنی”اوپرآؤ“ہیں۔علائلی کاکہناہےکہ عرب محبت و الفت اورپیارمیں یہ لفظ استعمال کرتےہیں۔تاکہ بچہ سےاظہارمحبت و مزاح کرسکیں اوراس میں نشاط پیداکرسکیں۔ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لیکر ان کی طرف اشارہ کرکے لوگوں سےمخاطب ہوکر فرماتے:

اَنَاھُنٰا

"اےلوگوں میں یہاں ہوں”۔

یعنی میں حسین علیہ السلام کے پاس ہوں جو میرے پاس آنا چاہتا ہے وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے پھر کہتے ہیں کہ حب وعاطفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ عاطفت کا درجہ محبت سے کمتر ہے کیونکہ اس میں شرائط محبت نہیں ہوتیں جبکہ حب اس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبوب برگزیدہ ہو؛ اور پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم درحقیقت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت رکھتے تھے کیونکہ حسین برگزیدہ رسالت تھے۔ اسی طرح خدا حسین علیہ السلام  سے محبت رکھتا ہے کیونکہ حسین علیہ السلام شفق آفتاب نبوت ہیں۔

(سمو المعنی فی سمو الذات، ص ٧٦ و ٧٧)

ابن اثیر، سبط جوزی اور طبری نے نقل کیا ہے کہ جب ابن زیاد کے دربار میں شہداء کے سروں کو لایا گیا تو ابن زیاد تلوار یا چھڑی سے حسین علیہ السلام کے لب ہائے مبارک پر جسارت کرنے لگا:

زید ابن ارقم نے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے:

اے ابن زیاد !کیا تو اپنی اس بے ادبی اور ستم سے باز نہ آئے گا؟ اس جسارت سے باز آجا! خدا کی قسم! میں نے حسین علیہ السلام کے لبوں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لب دیکھے ہیں انہی لبوں پر پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بوسہ کیا کرتے تھے، یہ کہہ کر گریہ کرنے لگے۔

ابن زیاد نے کہا: اگر تو بوڑھا نہ ہوتا تو میں تجھے ابھی قتل کردیتا۔

زید باہر نکلے اور لوگوں سے کہنے لگے: یاد رکھو! آج کے بعد تم غلاموں کی طرح زندگی گزارو گے اس لئے کہ تم نے فاطمہ زہراء علیہا السلام کے لال حسین علیہ السلام  کو قتل کرکے مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ہے تاکہ وہ تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا رہے اور تمہیں اپنا غلام بنائے رکھے۔

(اسد الغابة، ج٢، ص ٢١؛ تاریخ طبری، ج٤، ص ٣٤٩؛ کامل، ج٣، ص٢٩٨؛ تاریخ ابوالفداء، ج٢، ص١٠٦؛ تذکرة الخواص، ص٢٦٧)

کتاب ”البدء والتاریخ ج٦، ص١٢“میں نقل ہوا ہے کہ یزید نے حکم دیا کہ اہل حرم کو اسی مسجد کے دروازے کے پاس روک دیا جائے جہاں عام طور سے اسیروں کو روکا جاتا تھا تاکہ لوگ انہیں دیکھتے رہیں اور سرِحسین علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھوایا پھر تلوار یا چھڑی سے توہین کرنے لگا اور کہنے لگا کاش میرے بدر کے بزرگ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے کس طرح ان کا بدلہ لیا ہے۔

ابو برزہ اسلمی نے جب یہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: خدا کی قسم جس جگہ یہ چھڑی لگائی جارہی ہے میں نے پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بارہا انہی لبہائے نازنین کا بوسہ لیتے دیکھا ہے۔

ابن اثیر ، ترمذی و طبری نے روایت کی ہے کہ ابو برزہ نے کہا: اے یزید یاد رکھنا کل قیامت میں جب محشور ہوگا تو ابن زیاد تیرا شفیع ہوگا اور پیغمبر شفیع حسین علیہ السلام ہوں گے۔

(کامل، ج٣، ص٢٩٩؛ اسد الغابة، ج٥، ص٢٠؛ ترمذی، ج١٣، ص١٩٧؛ طبری ج٤، ص٣٥٦)

امام حسین علیہ السلام اوردرجہ وسیلہ

ابن مرویہ نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

”فِی الجَنَّةِ دَرَجَة تُدعٰی الوَسِیلَةُ فَاِذا سَألْتُم اللّٰهُ فَسَلُوا اِلٰی الوسِیلَةَ قَالُوا: یَا رسولَ اللّٰه ِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ یَسْکُنْ معک فیها؟ قال: علی و فاطمة والحسن والحسین“

(کنزالعمال، ج٦، ص٢١٧، ح٣٨١٦؛ اسد الغابة، ج٥، ص٥٢٣)

جنت میں ایک مقام ہے جس کا نام ”الوَسِیلَةُ “ہے جب تم خدا سے سوال کرو تو میرے لئے ”وسیلہ” کا سوال کرنا، لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں آپ کے ساتھ کون ہوگا؟ فرمایا: علی و فاطمہ و حسن وحسین علیہما السلام۔

(امام حسین علیہ السلام قرآن وسنت کےآئینے میں سے اقتباس)

http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button