سلائیڈرسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

کیا انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی؟

تحریر: اکبر علی جعفری
شریعتی قانون کے مطابق جب کوئی شخص رحلت کر جائے تو اس کا ترکہ اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور وراثت میں زیادہ حقدار قریبی اقرباء ہوتے ہیں۔
لیکن بعض مکتب فکر کے نزدیک انبیاء علیہم السلام اس قانون سے مستثنی ہیں کہ ان کی مالی وراثت نہیں ہوتی بلکہ ان کا مال رحلت کے بعد صدقہ شمار ہوتا ہے۔
اور یہ استثناء صرف رسول خداﷺ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی۔
انشاء اللہ ادلہ کی روشنی میں کوشش کریں گے کہ اس مسئلے کو واضح کیا جائے۔
اس استثناء کا واحد مصدر رسول خداﷺ سے منسوب روایت ہے : إنا معشر الأنبياء لا نورث، ما تركنا صدقة
تمام انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔
اسی روایت کی بناء پر انبیاء کی مالی وراثت نہ ہونے کا نظریہ اختیار کیا گیا ہے۔
تعلیم کے حقدار
اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ۔(1) (یا رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو تنبیہ کریں۔
رسول خداﷺ کے رشتے داروں میں سے سب سے قریب ترین حضرت فاطمہؑ تھیں، اور وراثت کا مسئلہ بھی انہیں سے متعلق تھا، تو کیا یہ حیف نہیں کہ رسول خداﷺ جناب سیدہ کو اس بات سے آگاہ نہ کریں کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، جبکہ یہ مسئلہ بھی انہی سے متعلق تھا اور کسی ایسے فرد کو آگاہ کریں جس سے متعلق یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔
فخر رازی اپنی تفسیر میں بھی اسی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس مسئلے کو جاننے کی حقیقی ضرورت صرف فاطمہ، علی اور عباس کو تھی، اور یہ سب زہد، علم اور دیانت میں بلند مرتبہ افراد تھے۔ رہا ابو بکر، تو اسے اس مسئلے کو جاننے کی کوئی حاجت ہی نہ تھی، کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات کبھی آ ہی نہیں سکتی تھی کہ وہ رسولِ خدا ﷺ کا وارث ہوگا۔ پھر یہ کیسے مناسب ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس مسئلے کو اُس شخص تک پہنچائیں جسے اس کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو، اور اُن لوگوں تک نہ پہنچائیں جنہیں اس کے جاننے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی؟(2)
کیا رسول خدا کے اقرباء اس حدیث سے واقف نہیں تھے؟
اب یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اقرباء رسول جن میں سر فہرست جناب فاطمہؑ، امام علیؑ اور حضرت عباس آتے ہیں کیا وہ اس حدیث سے واقف نہیں تھے؟
یا پھر کیا ایسا نہیں تھا کہ وہ واقف تو تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ارث کا دعوی عوام الناس کو حدیث رسولؐ اور اس مسئلے سے آگاہ کرنے کے لئے کیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی؟
حضرت فاطمہؑ اور حضرت عباس اس حدیث واقف نہیں تھے
روایات کی روشنی میں ان دونوں پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
حدثنا عبد اللّٰه بن محمد: حدثنا هشام: أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة:عن عائشة: أن فاطمة والعباس، أتيا أبا بكر يلتمسان ميراثهما من رسول اللّٰه ﷺ، وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدك ١، وسهمهما ٢ من خيبر. فقال لهما أبو بكر: سمعت رسول اللّٰه ﷺ يقول: لا نورث، ما تركنا صدقة، إنما يأكل آل محمد من هذا المال. قال أبو بكر: واللّٰه، لا أدع أمرا رأيت رسول اللّٰه ﷺ يصنعه فيه إلا صنعته. قال: فهجرته فاطمة، فلم تكلمه حتى ماتت.(3)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ: فاطمہؑ اور عباس، ابو بکر کے پاس آئے، وہ رسول اللہ ﷺ سے اپنی میراث طلب کر رہے تھے، اور اس وقت وہ فدک کی زمین اور خیبر میں اپنے حصے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ابو بکر نے ان دونوں سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
"ہم (انبیاء) وارث نہیں چھوڑتے، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے، البتہ آلِ محمد اس مال میں سے کھاتے ہیں۔”
ابو بکر نے کہا: اللہ کی قسم! میں کسی ایسے کام کو ترک نہیں کروں گا جسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا ہو، بلکہ میں اسی طرح عمل کروں گا۔
پس فاطمہؑ نے ابو بکر سے قطع تعلق کر لیا، اور ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔
اگر سیدہ فاطمہؑ اور حضرت عباس اگر اس حدیث سے آگاہ ہوتے تو وراثت کا مطالبہ نہ ہی کرتے، اور اگر صرف عوام کو آگاہ کرنا ہوتا تو سیدہؑ ناراض نہیں ہوتی۔
امام علی حدیث سے واقف نہیں تھے
طبقات الکبری میں عبد اللہ بن مبعد جعفر سے روایت کرتا ہے کہ: أخبرنا محمد بن عمر، حدثني هشام بن سعد عن عباس بن عبد اللّٰه بن معبد عن جعفر قال: جاءت فاطمة إلى أبي بكر تطلب ميراثها، وجاء العباس بن عبد المطلب يطلب ميراثه، وجاء معهما علي، فقال أبو بكر: قال رسول اللّٰه لا نورث، ما تركنا صدقة، وما كان النبي يعول فعلي، فقال علي: ورث سليمان داود وقال زكريا يرثني ويرث من آل يعقوب؛ قال أبو بكر: هو هكذا وأنت واللّٰه تعلم مثلنا أعلم، فقال علي: هذا كتاب اللّٰه ينطق! فسكتوا وانصرفوا۔(4)
فاطمہ ابو بکر کے پاس آئیں اور اپنی میراث کا مطالبہ کیا، اور عبد المطلب کے بیٹے عباس بھی اپنی میراث مانگنے آئے، اور ان دونوں کے ساتھ علی بھی آئے۔
ابو بکر نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ہم (انبیاء) وارث نہیں چھوڑتے، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے، اور جن لوگوں کی کفالت نبی ﷺ کرتے تھے، اب ان کی کفالت میرے ذمہ ہے۔
علی نے کہا: سلیمان نے داؤد کی وراثت پائی، اور زکریا نے (دعا کی): وہ میرا وارث ہو اور آلِ یعقوب کا وارث ہو۔
ابو بکر نے کہا: بات یہی ہے، اور اللہ کی قسم! تم جانتے ہو اور میں جانتا ہوں، علی نے کہا: یہ تو کتابِ اللہ ہے جو بول رہی ہے! پس سب خاموش ہو گئے اور وہاں سے واپس چلے گئے۔
امام علی نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا اور اس کی رد میں قرآن سے ادلہ بیان کیں۔ کہ قرآن میں موجود ہے کہ سلیمان داود کے وارث بنے اور حضرت زکریا نے اپنے لئے وارث کی دعا کی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی بھی نہ خود آگاہ تھے اس حدیث سے کیونکہ انہوں نے ساتھ میں وراثت کا دعوی کیا اور یہ بھی کہ وہ عوام کو آگاہ کرنے کے لئے بھی ایسا نہیں کر رہے تھے کیونکہ انہوں نے خود اس حدیث کے رد میں قرآن سے ادلہ بیان کیں۔
کیا قرآنی ادلہ میں وراثت علمی مراد نہیں؟
یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ انبیاء کی مالی وراثت ہونے پر قرآنی ادلہ ہیں ان سے مراد علمی وراثت ہے ہو نہ کہ مالی وراثت؟
اولا تو یہ آیات عام ہیں جو علمی وراثت اور مالی وراثت دونوں کو شامل ہے۔
ثانیا اگر مان بھی لیا جائے کہ اس وراثت سے مراد علمی وراثت ہے تو قتادہ کی روایت رسول خدا نے نقل شدہ روایت سے واضح ہو جاتا ہے کہ انبیاء کی وراثت ہوتی ہے۔
تفسیر طبری اور بحر المحیط میں قتادہ سے روایت نقل ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: يرحم اللّٰه أخي زكريا ما كان عليه ممن يرث ماله۔(5)
اللہ میرے بھائی زکریا پر رحم فرمائے! انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ ان کے مال کا وارث کون ہوگا
اس روایت مین ذرا سی دقت طلب ہے۔
مثلا اگر میرا کوئی وارث بن ہو تو میں کہوں گا کہ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ میرا وارث کون بنے گا لیکن اگر میرا وارث ہی نہیں بننا یا میرا کوئی وارث ہو ہی نہیں سکتا تو میرا یہ کہنا کہ مجھے فکر نہیں کہ کون وارث بنے لغو ہے۔
پھر ایسا کہنا سالبہ بانتفاء موضوع قرار پائے گا۔ اب جب سرے سے موضوع ہی باقی نہ رہے تو اس کے بارے میں نفی یا اثبات کرنا لغو ہے۔
اگر حضرت زکریا کا کوئی وارث بن ہی نہیں سکتا تو رسول خداﷺ کا ان کے بارے میں کہنا کہ ان کو فکر نہیں تھی کہ ان کا وارث کون بنے گا سالبہ بانتفاء موضوع ہے اور یہ لغو ہے۔
اور کیونکہ رسول خداﷺ سے لغو سرزد نہیں ہو سکتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت زکریا کا کوئی وارث بن سکتا تھا ان کی مالی وراثت ملنی تھی لیکن حضرت زکریا فکر نہیں تھی کہ ان کی مالی وارث کون ہو۔
نتیجہ:
حضرت سیدہ فاطمہؑ، امام علیؑ اور حضرت عباس جو زیادہ حق رکھتے تھے کہ انہیں وراثت کے بارے میں رسول بتائیں وہ اس مسئلہ (انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی) سے نہ صرف آگاہ نہیں تھے بلکہ انہوں نے اسے رد بھی کیا۔
قرآن کریم کی ادلہ کا ظہور اس اس مسئلہ (انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی) کے مخالف ہے، رسول خدا کی حدیث سے ظاہر ہے کہ انبیاء کی وراثت ہوتی ہے پس ان ادلہ سے متدین انسان کے لئے معلوم ہو سکتا ہے کہ انبیاء کی وراثت مالی ہوتی ہے۔ اور ان کے اقرباء ان کے مال کے وارث بن سکتے ہیں۔
حوالہ جات
(1)القرآن الکریم ، 26: 214
(2) تفسیرالرازی، فخر الدین الرازی، ج 9، ص 210
(3) صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ج 6، ص 58
(4) طبقات کبری، ابن سعد، ج 2 ، ص 315
(5) تفسیر طبری، ابن جریر طبری، ج 15، ص 459
(6) بحر المحیط، ابو حیان الاندلسی، ج 7، ص 240

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button