سلائیڈرسیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

حضرت علیؑ کا نظریاتی مخالفین کے ساتھ رویہ

مقالہ نگار:مہدی علی زمانی

چکیدہ
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی نمائندہ الہٰی اپنے الہٰی فرض کی تکمیل کے لیے معاشرے میں آیا، کسی نہ کسی طرح ان کی راہ میں مختلف غیر عقلی، غیر منطقی اور خواہشات پر مبنی نظریا ت کے سہارے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں ہیں، لیکن ان الہٰی ہستیوں نے اپنی خداداد فہم وفراست سے ان نظریاتی مخالفین کےساتھ مناسب رویہ اپناتے ہوئے کسی بھی لحاظ سے اپنے ہدفِ اصلی کو زندہ و قائم رکھا۔ ان ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی کو دنیا علیؑ ابن ابی طالبؑ کے نام سے جانتی ہے۔ آپؑ کی شخصیت کے جامع پہلوؤں کو دیکھ کر یہ یقین ہوجا تاہےکہ آپؑ ایک انسان کامل تھے۔ سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد اللہ نے ہدایتِ انسانی کا تسلسل سلسلہ امامت کے ذریعے جاری رکھا اور آپؑ منصبِ امامت کے پہلے امام اور ہادی مقررہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بعد از وفات رسولﷺ آپؑ کو منصبِ امامت کے ایک اہم جز، رہبری امت اور حکومت سے محروم کیا گیا۔ لیکن آپؑ نے وقت کے امام ہونے کے ناطے اپنی بصیرت سے ان خد شات اور خطرات کو درک کیا تھا جو اپنے حق کے لیے براہ راست جنگ کرنے کی صورت میں پیش آنی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؑ نے جہاد بالسیف کی جگہ جہاد بالصبر کو مناسب سمجھا اور اس دوران امامت کے باقی پہلوؤں اور ذمہ داریوں پر خاص توجہ دی۔ البتہ جب آپ کو حکومت ملی تھی تو آپؑ کے الہٰی معیارات اور اصولوں کے نفاذ کی وجہ سےکچھ دھڑیں ایسی سامنے آگئی جنہوں نے آپؑ کے خلاف خروج کیا اور امت میں تفرقہ ڈالنا شروع کیا، جنہیں تاریخ میں ناکثین،قاسطین اورمارقین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ آپؑ نے کافی حد تک انہیں سمجھانے اور نصیحت کرنے کی کوشش کی لیکن جب یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام اور ملت اسلامیہ کےلیے سنگین خطرہ ہے تو اس وقت آپؑ نے ان کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی اور ان کا صفایا کردیا۔
کلیدی الفاظ: حضرت علیؑ، رویہ، نظریاتی مخالفین
مقدمہ
یہ بات حقیقت ہے کہ ہدایت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اللہ نے ہدایت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی۔ فرمایا:”إن علينا للهدىٰ” بےشک ہدایت کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے”۔(القرآن۱۲:۹۲) اسی ذمہ داری کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کی ذات نے ہر دور میں ہدایت کا اہتمام فرمایا، کوئی دور یا زمانہ ایسا نہیں چھو ڑا جس میں ہدایت کا انتظام نہ ہو، تاکہ انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری ہو اوراپنے بندوں پر حجت تمام ہو۔ غرضِ ہدایت کاانتظام اللہ نے کبھی اپنے کسی نمائندے کو نبوت کا عہدہ دے کر کبھی امامت کا عہدہ دے کر اور کبھی نبوت اور امامت دونوں عہدے بیک وقت عطافرماکر کیا۔ ختم الرسلﷺ پرمنصبِ نبوت کا سلسلہ تمام فرمانے کے بعد صرف منصبِ امامت کے ذریعےسلسلہ ہدایت کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ کے مسلمہ حقائق میں سے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے اپنے بعد بارہ خلفاءاور جانشین کے آنے کی خبردی ہے۔ "جَابِر بْنَ سَمُرَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیؐ، یقُولُ: یکونُ اِثْنی عَشَرَ اَمیراً فَقالَ کلِمَهً لَمْ اَسْمَعْها، فَقالَ اَبی اِنَّهُ قالَ کلُّهُم مِنْ قُرَیشٍ” ترجمہ:جابر کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم ﷺسے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا: میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ ارشاد فرمایا، جسے میں نے نہیں سنا، میرے والد نے کہا، پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں، کہ یہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح مسلم، استانبول، ۱۳۱۵ق) ان بارہ میں سے پہلے جانشین کا اعلان نہایت ہی اہتمام اور غیر معمولی انداز میں فرمایا۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوا کہ قبل از تجہیز وتکفین پیغمبر ﷺ،آپ کے اعلان کا لحاظ نہیں کیا گیا اور منصبِ امامت کے ایک اہم گوشہ، جو کہ حکومت تھی، سے صاحبِ امامت کومحروم کیا گیا۔ یہ بات توجہ کے قابل ہے تاکہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، امامت اور حکومت کوئی مساوی عہدہ نہیں بلکہ حکومت، امامت کے متفرق جہات اور شئون میں سے ایک جہت اور شان ہے، اور امامت نفس الامرمیں ایک الہٰی عہدہ ہے جس کابندوں کے قبول اور عدم قبول کے ساتھ تعلق نہیں، اس بنا پرواقعاًاس وقت بھی آپؐ ہی امام تھے جب لوگ حکمرانی کےلیے اوروں کی طرف رجوع کررہے تھے۔ البتہ حکومت جو کہ امامت کا اہم حصہ تھا جس سے آپ کومحروم کیا گیا اور فی الحال اس کی بازیابی کے لیے عملی طور پر میدان میں آنے میں مصلحت نہیں تھی۔ لیکن یہ بات واضح رہی کہ حکومت سے محروم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ امامت کے باقی جہات سے صرفِ نظر کریں اور ان سے لاتعلق رہیں، بلکہ امام اپنے باقی ذمہ داریاں جن میں ہدایتِ انسانیت، تحفظِ دین، توضیحِ دین، تبیینِ دین، حجت قائم کرنا اور دیگر اہم امورشامل ہیں، ان پر عمل کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امیرالمومنینؑ کو عہدہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ آئی تو باقی امامت کے جہات اورگوشوں کو بطور احسن انجام دیتےرہیں۔
جب امامت کا ایک اہم حصہ جوکہ حکومت تھی آپ کی دسترس میں نہیں رہا اور امامت کے مقابل میں دیگر نظریہ سامنے آیااوراس کی بنیاد یہ تھی کہ پیغمبرﷺ نے زمامِ امت کی ذمہ داری خود امت پر چھوڑدی ہے، اس بنیاد پر حکومت سے آپؑ کو محروم کیا گیا۔ ایسے میں یہ بہت اہم سوال سامنے آتاہے کہ آپؑ نے ان نظریاتی مخالفین کے ساتھ کیا رویہ رکھا؟اس سوال کا جواب اس مقالے میں اختصارکو پیش نظر رکھ کر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
امام کون ہوتاہے اور منصب امامت کیا ہے؟
مکتب تشیع میں امام پورے’’ امت کا رہبر”ہوتاہے۔ یعنی دنیوی امور اور لوگوں کی انفرادی زندگی کے نظم و نسق اور اجتماعی امور سے مربوط تمام مسائل اور اسی طرح لوگوں کی روحانی ومعنوی مسائل کا حل اور فکری مشکلات اور عقائد اسلامی کی تفسیرو تشریح کی ذمہ داری بھی امام پر عائد ہوتی ہے۔ امام رضاؑ کے اس فرمان سے اس سوال کا جواب واضح ہوجا تاہے اور یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امامت کا منصب کس قدر وسیع، جامع پہلواور جہات رکھتی ہے۔ امامؑ  فرماتے ہیں:
"امامت دین کی باگ ڈور، نظامِ مسلمین کی درستی، دنیا کی آبادی کی ضامن، مومنین کی عزت و سربلندی، پیغمبروں کا مقام ومرتبہ، جانشینوں کی میراث، خدااور رسولﷺکی جانشینی ہے۔۔ ۔ اورمخلوقات کے درمیان اللہ کا امین ہوتاہے۔”(کلینی، ثقہ الاسلام محمد یعقوب ، کتاب اصول کافی۔ ج ۱،ص ۲۰۰)
شخصیتِ امام علیؑ
امامؑ کی شخصیت کا کلی ادراک یقیناً خدااور رسولﷺ کو ہے اور اس کے بعد درجہ عصمت پر فائز ہستیوں کو ہی ہوسکتاہے۔ لیکن اپنی بساط کے مطابق ہمارے دسترس میں موجود قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کی کتابوں میں آپ کی شان اور منزلت میں بیان کردہ حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئےآپ کی شخصیت کا کسی حد تک منظر کشی کرسکتے ہیں۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کاآپؑ کی شخصیت کے بارےمیں یہ تبصرہ قابلِ توجہ ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
"حضرت امیرالمومنین علیؑ کا وجودِ مبارک مختلف جہتوں اور گوناگوں حالات و واقعات کے لحاظ سے تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک نہ بھلایا جانے والادائمی سبق ہے۔ خواہ آپؑ کا انفرادی اور ذاتی عمل ہو، جیسے محراب عبادت میں آپؑ  کی عبادت و بندگی، آپؑ کی مناجات ہوں، آپؑ کا زہد و تقویٰ اور یاد خدا میں کھوجانا یا اپنے نفس کا شیطان اور مادی ونفسانی خواہشات کے خلاف جہاد، گویا آپ کی زندگی کے ہر میدان میں آپ کی زبان مبارک سے جاری ہونے والا یہ جملہ آج بھی فضاے عالم میں گونج رہا ہے۔(یا دنیا غری غیری) اے دنیا جاؤکسی اور کو دھوکہ دو، علی تمہارے جال میں پھسنے والا نہیں ہے۔ آپؑ کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو حق اور انصاف کے لیے جہاد ہے۔ جس دن پیغمبر ﷺ نے رسالت کا بوجھ اپنے کاندھوں پراٹھایا، اس وقت سے ایک مجاہد، مومن اور فدا کار بن کر رسولﷺ کی بابرکت زندگی کے آخری لمحات تک اسلام کی حفاظت اور بقا ءکے لیے جہاد کرتے رہے۔ تاریخ بشریت میں آپؑ جیسی شخصیات بہت کم گزری ہیں اگر وہ بھی نہ ہوتیں توانسانی قدریں بھی موجود نہ ہوتیں۔ انسان کے نزدیک تمدن، ثقافت اور اعلیٰ انسانی اہداف و مقاصد نامی اصطلاحات کی کوئی اہمیت نہ ہوتی بلکہ انسانیت وحشت ناک اورخوفناک حیوانیت کی شکل میں تبدیل ہوچکی ہوتی۔ آج پوری انسانیت اپنے اعلیٰ اہداف اور مقاصد کی حفاظت پر آپؑ  اور آپؑ جیسے عظیم انسانوں کی زحمتوں اور ان کے کردار کی موہون منت ہے۔ ” (آیت اللہ خامنہ ای، سید علی، کتاب ڈھائی سو سالہ انسان، ص، ۷۶)
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ امامت کا منصب متفرق پہلوؤں پر مشتمل عہدہ ہے اور امیرالمومنینؑ کی شخصیت کس قدر عظیم اور بے مثال ہے۔ اس کے بعد ہمیں آپؑ کا نظریا تی مخالفین کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کیا تھا، سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔
نظریاتی مخالفین اور اختلاف کی ممکنہ وجہ
امیرالمومنینؑ کے نظریاتی مخالفین کو دوطرح سے تقسیم کرسکتےہیں، خلفائے ثلاثہ اور دوسرا آپؑ کے حکومتِ ظاہری کے دوران آپؑ کے خلاف خروج اور بغاوت کرنے والی دڑیں۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آپؑ نے دونوں قسموں کے مخالفین کے ساتھ مختلف رویہ اپنایا۔ ایک کے خلاف باقاعدہ جنگ کی جبکہ دوسرے کے خلاف اگر چہ آپؑ اپنے موقف پر قائم رہیں اوراحتجاج کرتے رہیں، لیکن مسلح جنگ نہیں کی۔ آپؑ نےان دونوں قسم کے مخالفین کے ساتھ مختلف رویہ کیوں اپنایا، اس کی حقیقی وجہ منصب ِامامت پر فائزامام اور وقت کا حجت خود بہتر سمجھ سکتاہے اس کا کلی احاطہ کرنا ہمارے لیےمشکل ہے؟۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھ سکتے ہیں وہ یہ کہ امامؑ پر منصبِ امامت پر ہونے کے ناطے اہم ذمہ داری یہ تھی کہ تحفظ دین کریں اور جتنا ہوسکیں معاشرے میں اس کا نفاذ یقینی بنائیں۔ خلفا ءکے دور میں بعض اہم امور میں نفاذِ دین کی راہ میں رکاوٹ اور مانع موجود تھی اور وہ حکومت کا نہ ملنا تھی۔ بنا برایں جس وقت آپ کو حکومت ملی تھی اس وقت ضروری تھا دینِ الہٰی کومِن و عن نافذ کریں، دنیا کو عملی دین کی شکل دکھادے اورہر وہ طاقت یا شیطینت جو اس راہ میں رکاوٹ بنیں اس کو ہٹائیں۔ یہ تاریخ کے مسلمات میں سے ہیں کہ آپ کی حکومت میں فساد پھیلانے والوں کی بنیادی مشکل آپؑ کا عدل اجتماعی کو برداشت نہ کرسکنا تھا جو کہ نمائندہ الہٰی کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہیں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
ترجمہ: بتحقیق ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ (القرآن ۵۷:۲۵)
رسول اکرمﷺ کے لائے ہوئے کتاب اور میزان کو قائم کرنا آپؑ پر ضروری تھا اسی وجہ سے آپ نے سرکشوں سے باقاعدہ جنگ کی اورعدل اجتماعی پر سمجھوتا نہیں کیا۔
پہلی قسم کے نظریاتی مخالفین: خلفائےثلاثہ
امیرالمومنینؑ کا خلفا ءکےساتھ دوطرح کے رویئےدیکھنے کو ملتے ہیں:
پہلا رویہ: جہاد بالسیف کے بجاے جہاد بالصبر
جب آپ کو رہبری امت کے حق سے محروم کیا گیا تب آپ کے سامنے دو راستے تھے ایک تو یہ تھا کہ آپؑ قیام کریں اور اپنا حق واپس لے لیں یا یہ کہ آپ صبر کرلے۔ لیکن ان دو نوں میں و قتی مصلحت کس میں ہے، خود امامؑ  بہتر سمجھ سکتے تھے۔ باوجود اس کے کہ امامت کا ایک اہم جز، جوکہ امت پر رہبری اور حکومت کرناتھی، کیونکہ حکومت کے ذریعے ہی عدل و انصاف کا اِجرااورباقی احکام الہٰی کا نفاذکیا جاسکتاتھا، آپؑ کے پاس ہونا ضروری تھااور آپ کو یہ ادراک بھی تھا کہ رہبریت غیر منصوص کو ملنے سے ملت اسلامیہ کےلیے کیا نقصان ہوگا۔ لیکن آپؑ وقت کے نزاکت اور تقاضے کو بہتردرک کررہے تھے کہ اس وقت حکومت کے لیے جہاد کرنے سے بڑھ کر ایک اوراہم جہاد لڑنے کی ضرورت ہے اور وہ صبر کی جہاد ہے۔ ایسے اوقات میں اہم اور مہم جہاد میں فرق علیؑ جیسے بابصیرت اورمعاملہ فہم ہستی ہی کرسکتی تھی۔ چنانچہ امامؑ نے صبر کاراستہ اختیار کیا۔ آخر کیا وجہ تھی، کیوں صبر کو ترجیح دی، ممکن ہے ہم اس کی یوں توجیہ پیش کرسکیں: امیرالمومنینؑ ہی اس شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے بہت ساری قربانیاں اسلام کی پرچار اور بقاءکے لیے دیےتھے اوررسول اسلامﷺ نےکتنی دشواریاں سہ کر اسلام کو اس نہج پر پہنچا یا تھا، آپؑ کو ہی ان تمام کا واقعی ادراک تھا۔ موجودہ حالت میں بھی اسلام کے لیے واقعی درد رکھنے والی ہستی آپؑ ہی تھے۔ ایسے میں آپؑ کا ملحوظِ نظر اور بنیادی مقصد تحفظ اسلام تھا اور تحفظ اسلام کے لیے آپ باقی ہر چیزحتٰی کہ حکومت بھی قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ آپؑ کے فرامین کے چند نمونے پیش کروں گا اس سے آپ بہتر اندازہ لگاسکیں گے کہ اسلام کس خطرے کی نہج پر پہنچ چکاتھا لیکن آپؑ نے کس بصیرت الٰہی کے ساتھ دین کا تحفظ کیا۔ آپؑ نے ایک مقام پر فرمایا :
’’اللہ کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور سلامتی کے ساتھ چلتے رہیں گے اور جب تک میں یہ دیکھوں کہ کسی پر ظلم نہیں ہورہا ہے، اس وقت تک میں خاموش نہیں رہوں گا۔ جب تک میرے سوا دوسروں پر ظلم نہ ہورہا ہو، معاشرے میں ظلم و جور کی حکمرانی نہ ہو اور ظلم صرف میرے اوپر ہورہا ہو تب تک میں کوئی مفاہمت نہیں کروں گا۔ ”(مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ خطبہ ۵،ص۱۰۳، ناشر مرکزافکار اسلامی)
اس کے علاوہ منافقین اور دشمنان اسلام کے لیے بہت اہم موقع تھا کہ اس اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کریں۔اس کا اندازہ اس تاریخی واقعہ سے لگایا جاسکتاہے۔ آپؑ پیغمبر اکرم ﷺ کے جسد مبارک کی تجہیزوتکفین میں مشغول تھے کہ ابوسفیان جس میں تدبر وسیاست فہمی بہت تیز تھی، پیغمبر اکرم ﷺکے گھر پہنچا تاکہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرے اور حضرت علیؑ کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ میں آپؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنا چاہتاہوں۔ لیکن آپؑ اس کی نیت کو جانتے تھے لہٰذا قطعی اہمیت نہ دی اور فرمایا’’ تمہارا مقصد مسلمانوں میں فتنہ پھیلانا ہے۔”( علي بن مُحمَّد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الجزري، کامل ابن اثیر ج ۲،ص۳۲۷، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
ابوسفیان جس کی پوری زندگی اسلام کے خلاف جنگ میں گزری ہے اور اسلا م کی نابودی کے لیے ہر ممکن کوشش کر تارہاہےوہ آج اسلام سے درد مندگی کا اظہار کررہاتھا چنانچہ اسی حوالے سےمولا امیرؑ فرماتے ہیں “میں ایک ایسا طوفان دیکھ رہا ہوں کہ جس کی منہ زوریوں کو خون ہی روک سکتاہے”۔( طبری ، احمد بن جریر طبری، تاریخ طبری ، ج۳، ص ۲۰۹ )
وہ نو مسلم عرب جن سے دورِ جاہلیت کے رسم ورواج کی عادت ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی اور جزبہ ایمان و اسلامی عقیدہ ان کے دلوں میں پورے راسخ نہیں ہوا تھا، انہیں مد نظر رکھتے ہوئے داخلی جنگ مسلمانوں کی طاقت کے انحلال اور اسلام کے انہدام کا باعث ہوتی، اس خدشے کو آپؑ دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؑ نے فرمایا “فتنے کی امواج کو نجات کی کشتیوں سے چاک کردومیری خاموشی کا سبب میری وہ باطنی آگاہی ہےجس میں میں غرق ہوں”۔( مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ خطبہ ۵،ص۱۰۳، ناشر مرکزافکار اسلامی)
ایک اوراہم وجہ کہ آپؑ نے خلفا ءکے ساتھ رویہ صبر کو ترجیح دی اورخلفاء کے خلاف عملی اقدام نہیں کیا،نئے مسلمانوں کی دوبارہ جاہلیت کی طرف بازگشت کی خوف تھی، آپؑ نے والی مصر کو جو خط لکھا تھا جس میں آپؑ نے اس خدشہ کا اظہار فرمایا “ میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں میں سے ایک گروہ دین اسلام سے برگشتہ ہوگیا ہے اوروہ اس فکر میں ہے کہ آئین محمدی ﷺ کو نیست و نابود کردے۔ مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں تو مجھے اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ اسلا م کی تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔“ (مفتی، جعفرحسین،نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ص۱۵۳،ناشر مرکزافکار اسلامی )
اس کے علاوہ بھی وجوہات ہیں جن میں معقول فوجی طاقت میں کمی، آپ کے ساتھ کینہ توز دشمنی جیسے عوامل رکاوٹ بنی۔ مذکورہ تمام خدشات کے ہوتے ہوئے آپؑ کو منصب امامت کے ایک اہم گوشہ جو کہ حکومت تھی سے دست بردار ہونا پڑا، لیکن ایسا نہیں ہے کہ مولا امیرؑ نے مکمل طورپر معاشرہ اسلامی اور اموردینی سے لاتعلقی اختیار کر لی ہو بلکہ آپؑ نے منصبِ امامت کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر وہ ضروری امور اور کاموں میں حصہ لیا جن میں اسلام کی بھلائی تھی جن میں یہ چند نمونے قابلِ ذکر ہیں۔
امیرالمومنینؑ کا منصبِ امامت کے دیگر پہلوؤں پر عمل
• قرآن کی تفسیر، اس کی جمع آوری اورعلم تفسیر میں بعض شاگردوں کی تربیت۔
• دانشورانِ عالم بالخصوص یہودونصاریٰ کے سوالات کے جوابات اور ان کے شبہات کا ازالہ۔
• ایسے واقعات جو اس وقت تک اسلام میں رونما ہوچکے تھے ان کےاور بالخصوص قرآن و سنت پیغمبر ﷺکے بارے میں احکامات بیان کرنا۔
• خلفاءکے سیاسی وعلمی مسائل حل کرنا اوران کی جانب سے مشورہ کیے جانے پر ایسے نظریا ت پیش کرنا جو ان کی مشکلات کو دور کرسکیں۔
• اپنے پاک ضمیر اورروشن شاگردوں کی تربیت وپرورش کرنا جوسیروسلوک کے لیے آمادہ رہیں۔
• بعض لاچارومجبورانسانوں کی زندگی کے مخارج پوراکرنے کی کوشش کرنا۔ ان لوگوں کی دلجوئی و پاسبانی کرنا جن پر حکامِ وقت کی جانب سے ستم روارکھے جاچکے تھے۔(تاریخ اسلام، گروہ نگارش، ج اول، ص۴۳۰، ادارہ منہاج القرآن لاہور)

امیرالمومنینؑ کا خلفا ءکے مابین رویے میں نسبتاً فرق
تینوں خلفاء کے ساتھ امام کے رویے کو اگر نسبتاً دیکھا جائے توحضرت ابو بکر کے سا تھ امامؑ کے تعلقات سرد تھے۔ گویا ان تعلقات کاکوئی خاص ذکر ہی نہیں ملتا ہے۔ حضرت عمرکے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت سارے واقعات ملتے ہیں جو عدالتی فیصلوں میں حضرت عمر کی مدد اور ان کے مشورہ طلب کرنے پر جواب دینے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت عمر نے امامؑ کے ساتھ عداوت سے بظاہر گریزکیا اور امامؑ کی تجاویز یا احترام بھی کیا لیکن حضرت عثمان ایسے نہیں تھے۔ وہ امامؑ کے اظہار رائے کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار امامؑ سے کہا: تم میری نظر میں مروان بن حکم سے بہتر نہیں ہو۔ (ابولحسن علی،، کتاب مروج الذہب، ج۲، ص ۳۲۴، عثمانیہ سرکار عالی حیدرآباد، دکن)
حضرت عباس نے حضرت عثمان سے کہا امام کا خیال رکھا کریں۔ لیکن حضرت عثمان نے انہیں جواب دیا کہ: میری بات تم سے یہ ہے کہ اگر علیؑ خود چاہیں تو کوئی اور میرے نزدیک ان سے بہتر نہ ہوگا۔ (البلازری،ابوالحسن احمد ابن یحیی بن جابر بن داود،کتابانساب الاشراف ج ۵،) البتہ امام اس بات پر تیار نہ تھے کہ وہ حضرت عثمان اور ان کے ساتھ دوستی کی وجہ اسے انحرافات کو نظر انداز کردیں۔ اسی لیے عثمان کے ساتھ امامؑ کے تعلقات ایک اعتبار سے قریبی اور ایک اعتبار سے کشیدہ ہوگئے۔( تاریخ مدینہ منورہ، گروہ نگارش، ج ۳،ص ۱۰۴۶، دارالاسلام ریاض)
باوجود اس کے کہ حق رہبریت سے آپ کو محروم کیا گیا لیکن منصب امامت کے تقاضے کے تحت آپؑ، مصالح دینی اور اسلام و مسلمین کی بھلائی کے امور میں موجودہ خلفاء کو علمی اور سیاسی دونوں حوالے سے مشورہ دیاکرتے تھے اور مسائل حل کیاکرتے تھے۔
امیرالمومنینؑ اور حضرت ابو بکر کی علمی وسیاسی مشکلات
اہلِ روم سے جنگ کرنے کے بارے میں رسولﷺ کا خود فرمان تھا، اسے نافذکرنے میں حضرت ابوبکر کو تردد تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے بعض صحابہ رسولﷺ سے مشورہ بھی کیا۔ چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنی رائے کا اظہارکیا۔ بالآخر انہوں نے حضرت علیؑ سے مشورہ کیا اور رائے جاننا چاہی۔ آپؑ نے پیغمبرﷺ کے حکم کو نافذکئے جانے کی ترغیب دلائی اورمزید فرمایا:اگر آپ اقدام کریں گے توکامیاب ہوں گے،خلیفہ نے آپ کے کہنے پر عمل کیا۔ (یتاریخ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، ج ۲، ص۱۳۲، ناشر نفیس اکیڈمی، کراچی)
امیرالمومنینؑ اور حضرت عمر کی سیاسی و علمی مشکلات
امیرالمومنینؑ خلیفہ اول کی طرح خلیفہ ثانی کے بھی مشکل کشاءتھے، بطور مثال دو واقعات پیش کررہے ہیں:
جنگ قادسیہ میں سپاہ ایران کی شکست کے بعد ایران کے بادشاہ نےعظیم لشکر مرتب کیا تاکہ آئندہ عرب کے حملوں کوسد باب کیا جاسکے۔ کوفہ کے حاکم نے خط کےذریعے تمام واقعات کی اطلاع خلیفہ کو دی۔
حضرت عمر مسجد میں آئے اور اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ ہی میں رہیں یا اس علاقے میں پہنچ کرسپاہ اسلام کی کمان سنبھالیں۔حضرت عثمان اور طلحہ نےدوسرے نظریے کی تائید کی لیکن امیرالمومنینؑ نے دونوں نظریات کی مخالفت کی اور فرمایا:
” وہ شہر جو حال ہی میں مسلمانوں کے تصرف میں آئے ہیں انہیں فوج سے خالی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ حبشہ کی فوج یمن پر اور روم کا لشکر شام پر قبضہ کرلے۔اور حضرت عمر کی پہلی تجویز کے بارے میں بھی آپؑ نے انہیں مدینہ سے باہر نہ جانے کا مشورہ دیا۔ آپؑ کی رائے سننے کے بعد حضرت عمر نے کہا کہ قابلِ عمل رائے حضرت علیؑ کی ہےاور مجھے ان کی پیروی کرنی چاہیے۔”(ابن اثیر، علامہ ابن اثیر جزری، کتاب الکامل فی التاریخ، ج۲ ص ۴۰۳)
ایک شخص خلیفہ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں شادی کے چھ ماہ بعد ولادت ہوئی ہے۔ عورت نے بھی اس کی بات کو قبول کی۔اس پر خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کیا جائےلیکن امیرالمومنینؑ نے حد جاری کرنے سے منع کیا اورفرمایا: قرآن کی روسے عورت چھ ماہ پورے ہونے پر وضع حمل ہوسکتی ہےکیونکہ مدت حمل اور شیرخوارگی تیس ماہ معین ہے اور دوسری آیت میں دودھ پلانے کی مدت دوسال بتائی گئی ہے او ر اگر تیس ماہ میں سے دو سال کم کردیے جائیں تو مدتِ حمل چھ ماہ رہ جاتی ہے۔
آپؑ کی منطقانہ گفتگو سننے کے بعد حضرت عمر نے کہا:
"اگر علیؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا” ( ابولحسن علی،، کتاب مروج الذہب، ج ۲ ص ۳۰۲، ناشرعثمانیہ سرکار عالی حیدرآباد، دکن)
دوسرا رویہ:خلفا ءکے خلاف امامؑ کا احتجاج
امیرالمومنینؑ دوسری طرف، منصبِ رہبری اور حکومت کو اپنا حق سمجھنے سےایک لحظہ کے لیے بھی دستبردار نہیں ہوئے بلکہ ہر پلیٹ فارم اورجہاں جہاں موقع ملا اپنے حق کا برملا اعلان کرتے رہیں۔ ہر وہ دلیل اور حجت جن سے خلفاءاپنے لیے رہبری کو ثابت کررہے تھے۔ آپؑ نے ان تمام دلیلوں سے بدرجہ اولیٰ اپنے حق ہونے کو ثابت کیا۔ یہاں چند اہم احتجاج قابلِ ذکر ہیں:
۱: حضرت علیؑ ابھی پیغمبر ﷺ کے جسد مبارک کی تکفین و تدفین میں مشغول تھے کہ لوگوں کے شوروغل کی صدائیں سنائی دیں اور صحیح واقعہ کا علم ہوا اور خلافت کی اہلیت کے بارے میں جب مہاجرین کی یہ حجت ودلیل آپ کو بتائی گئی کہ انہوں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ خلیفہ خاندانِ قریش اور شجر نبوت کی شاخ ہو تو اس پر آپؑ نے فرمایا “انہوں نے تکیہ تودرخت پر ہی کیا ہے لیکن اس کے پھل کو تباہ کرڈالا”۔(مفتی، جعفر حسین، کتاب نہج البلاغہ ، خطبہ ۶۵ ص ۱۵۷، مرکز افکار)
گویا آپؑ نے واضح کردیا کہ اگر معیارِانتخابِ خلیفہ یہی ہے تواس کا اتم اور اول مصداق میں علیؑ ہوں۔
۲: ایک احتجاج آپؑ نے اس وقت کیا جب پیغمبر اکرم ﷺ کی تدفین ہوگئی تھی اور آپؑ مسجد میں تشریف فرماتھے۔اس وقت بنی ہاشم کے افراد بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ بعض وہ لوگ تھے جو حضرت ابوبکر کے ہاتھ پربیعت کرچکے تھے،وہ آپؑ اور افراد بنی ہاشم کے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے: طائفہ انصار نیز دیگر افراد نےحضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے۔ آپ بھی بیعت کرلیجئے ورنہ تلوار آپ کا فیصلہ کرے گی۔ اس وقت آپؑ نے فرمایا:
"میں ان سے زیادہ بیعت کے لیے اہل و قابل ہوں۔ تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو۔ تم نے رسول اللہ ﷺکی قربت کے باعث خلافت انصار سے لےلی اور انہوں نے بھی یہ حق تسلیم کرلیا۔ خلافت کےلیے میرے پاس بھی دلائل موجو د ہیں۔ میں پیغمبرﷺ کے زمانہ حیات میں ہی نہیں بلکہ رحلت کے وقت ان کے سب سے زیادہ قریب ونزدیک تھا۔ میں وصی، وزیراور علم رسولﷺ کا حامل ہوں۔ میں کتابِ خدااورسنت رسولﷺ کے بارے میں سب سے زیادہ واقف ہوں۔ ثبات و پائیداری میں میں تم سب سے بہتر محکم و ثابت قدم ہوں۔ اس کے بعد تنازع کس بات پر ہے؟”(طبرسی، عبداللہ بن جعفر، کتاب احتجاج طبرسی ج ۲ ص۹۰)
جب امام کے یہ بیانات سامنے آئے تو حضرت عمر نے کہا: آپ مانیں یا نہ مانیں ہم آپؑ کو بیعت کیے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ اس بات پر امامؑ نے ایک اور حقیقت افشا کردی، فرمایا”اچھی طرح کوشش کر لو اس میں تمہارابھی حصہ ہے۔ آج خلافت کے کمر بند کو ابو بکر کے لیے مضبوط باندھ لو،کل وہ تمہیں ہی لوٹا دیں گے ۔” (ابن بابویہ، علی ابن حسین بن موسی،الامامہ والسیاسۃ ج۱، ص ۱۸)
۳: ایک اور فیصلہ کن احتجاج، وہ تقریر ہے جو آپؑ نے مہاجرین اور انصار کے سامنے فرمائی۔ آپؑ نے فرمایا: ’’اے مہاجرین وانصار، خدا پر نظر رکھواو رمیرے بارے میں تم نے جو پیغمبرﷺ سے عہد و پیمان کیا تھا اسے فراموش نہ کرو۔ حکومتِ محمدیہ ﷺ کو ان کے گھر سے اپنے گھر مت لے جاؤ۔ تم یہ جانتے ہو کہ ہم اہلبیتؑ اس معاملے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ کیا تم ایسے شخص کو نہیں چاہتے جسے مفاہیم قرآن، اصول و فروع، دین اور سنت پیغمبر ﷺ پر مکمل عبور حاصل ہے تاکہ وہ اسلامی معاشرے کا بحسن و خوبی نظم ونسق برقرار کرسکے۔۔ ۔۔۔ میں خدائےواحد کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ ایسا شخص ہم میں موجود ہےاور تمہارے درمیان نہیں، نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجا ؤ۔ نیز اپنے گزشتہ اعمال کو اپنی بداعمالیوں سے فاسد و کثیف نہ ہونے دو۔( ابن الحدید، عبدالحمید بن ھبہ اللہ، کتاب شرح ابن الحدید ج ۶، ص۱۱)
۴: امام نے حالت سخت ہونے کے باوجود مناسب موقعوں پر اپنے حق کی بازیابی کے لیے کوشش کی۔ امامؑ نے پہلے ہی چند مہینوں تک بیعت سے گریز کیا۔( ابن اثیر، علامہ ابن اثیر جزری، کتاب الکامل فی التاریخ، جلد ۲،ص۳۲۵)
۵:ابتدائی ایام میں آپ نے حق کی بازیابی کے لیے اپنی بیوی اور بچوں کے ہاتھ تھام کر انصار کے گھر گھر گئے۔ آپ کا اصرار اس قدر تھا کہ آپؑ پر خلافت کے لیے حریص ہونے کا الزام لگایا گیا۔ امامؑ فرماتے ہیں: ’’ ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے تمہیں اس خلافت کی بڑی حرص ہے۔ میں نے کہا: نہیں خداکی قسم تم زیادہ حریص ہو۔ تم رسول خداﷺ سے دور اورمیں ان کا خاص ہوں۔ میں نے تو اپنا حق مانگا ہے لیکن تم نہیں چھوڑتے اورمجھے میرے حق تک پہنچنے سے روکتے ہو۔”(ابن ھلال ثقفی،ابواسحاق ابراهیم بن محمد بن سعید اصفهانی،کتاب۲، الغارات ج ق، ص۳۰۸،)
یہ سوال کہ آپؑ نے خلفاء کی حکومت میں کھلے عام اپنے حق کی تبلیغ کیوں نہیں کی؟۔اس کا جواب یوں دے سکتے ہیں: امامؑ کوکبھی اتنی آزادی میسر ہی نہیں تھی کہ آپؑ شیخین کے بارے میں کسی رائے کا اظہار کرسکیں۔ اس کے برعکس حضرت عثمان کے بارے میں امامؑ کو اپنی رائے کے اظہار کاموقع ملا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کوفہ آپؑ کے سپاہ سے سوائے کچھ محدود لوگوں کے دوسرے سب لوگوں نے شیخین کو قبول کیا ہوا تھا اوران کے درمیان امامؑ شیخین کے بارے میں آزادی کے ساتھ اظہاررائےنہیں کرسکتے تھے۔ ایک بار جب امامؑ کو موقع ملا تو آپؑ کو اپنی گفتگو روکنی پڑی اور دوبارہ گفتگو کے لیے ابن عباس کے اصرار پر فرمایا:  نہیں، ابن عباس، یہ ایک چنگاری تھی جو شعلہ بن گئی تھی۔(نثرالدور ج۱، ص۲۷۴/نہج البلاغہ خطبہ ۳)
امام کی ان کھلی تنقیدوں، بالخصوص شوریٰ میں امامؑ کے طرز عمل کے پیش نظر امام کی حضرت عثمان کے ساتھ بعض خاندانی رشتے داریوں کو اس بات کی دلیل نہیں بنا یا جاسکتا کہ آپؑ ان کی حکومتوں کو برحق سمجھتے تھے۔ حتی امامؑ کی جانب سے بعض خلفاء کے مقابلے پر بعض خلفاءکی تعریف کو بھی، اصولی طورپر امامؑ کے ان خلفاءکی خلافت قبول کرنے کی دلیل قرارنہیں دیا جاسکتا۔ جب امام نےیہ محسوس کرلیا کہ آپ اس گروہ سے مقابلے کی قوت نہیں رکھتے، اور کسی جنگ وجدال کا آغاز اسلام کی مصلحت میں بھی نہیں ہےتو آپ نے مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔امامؑ نے کئی مواقع پر ضرورت اور مسلمانوں کے اتحاد کی حفاظت کو حضرت ابو بکر کی بیعت اور ان کی خلافت کے دورمیں خاموش رہنے کی بنیاد قراردیا۔(البلازری،ابوالحسن احمد ابن یحیی بن جابر بن داود، کتابانساب الاشراف ج۲، ص ۲۸۱)
امامؑ نے اپنی خاموشی کے لیے وہی توجیہ پیش کی جو جناب ہارونؑ نے حضرت موسیؑ کے سامنے پیش کی تھی کہ: مجھے تو یہ خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں اختلاف پیدا کردیا ہے۔(المقنع، ص ۱۰۹ مفید، محمد بن محمد بن نعمان،کتاب المقنع، ص ۱۰۹، نشر از دارلمفید ونشرالاسلامی بیروت و قم)
یہ بات خوش آئند ہے کہ ماضی میں اہل سنت یہ بات بھی نہیں مانتے تھے کہ اہل بیتؑ خود کو خلافت کے لیے دوسروں یعنی خلفاء سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن اب اہل سنت کے کچھ روشن خیال حلقے اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ نے خود اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے کے باوجود صرف اتحاد کی خاطر حضرت ابو بکر کی بیعت کی تھی۔ (عثمانی، مولانا تقی، تفسیر المنار ج۸ ، ص ۲۲۵)
دوسری قسم کے نظریاتی مخالفین
ناکثین اور امامؑ کا رویہ
یہ طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ پر مشتمل ایک دھڑا تھا جنہوں نے بیعت شکنی کی تھی اور یہ بہانہ بنا لیا تھا کہ ہم خون عثمان کا انتقام لیں گے اور اس کا الزام امام اور آپ کے شیعوں پر عائد کردیا تھا۔ باطنی طور پر طلحہ و زبیر خود خلافت کے دعویدار تھے یا کم از کم وہ چاہتے تھے کہ حکومتی امور میں انہیں شامل کیا جائے اور کسی صوبے کا والی مقرر کیا جائے۔اس کے علاوہ اپنے لیے باقیوں سے بڑھ کر حقوق کے قائل تھے۔ لیکن جب انہیں امامؑ کےحکومتی معیارات کا علم ہوا اور مایوس ہوگئے تو حضرت عائشہ کو قائل کرکے اور سادہ لوح لوگوں کو ساتھ ملا کر امام کے مقابل میں کھڑے ہوگئے۔لیکن دوسری جانب امامؑ کی ہر صورت میں یہ خواہش تھی کہ جنگ نہ ہو لہٰذ اآپؑ بصرہ پہنچنے کے تین دن بعد تک اپنے پیغامات کے ذریعے شورشیوں سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ "جماعت” "اطاعت "کی طرف واپس آجائیں، لیکن آپ کو ان کی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا۔ (اخبارالطوال ص۱۴۷ دینوری، ابوحنیفه احمد بن داود (۱۳۶۴)، اَخبارُالطّوال،ص ۱۴۷دامغانی، تهران: نشر نی، ۲۰) ابن عباس نے حضرت عائشہ اور زبیر سے بات چیت کی۔ لیکن انہوں نے معمولی بھی لچک کا ااظہار نہیں کیا۔ (شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، وقعہ الجمل ص۳۱۴ نشر آزاد جہان احمدی تہران) جبکہ ہر صورت سے امامؑ اس بات پر خواہاں تھے کہ جنگ نہ ہو۔ آپؑ نے اپنے اصحاب کوجنگ کا آغاز کرنے سے روکا۔ باضابطہ اعلان کیا کہ کسی کو جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ (شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، وقعہ الجمل ص۳۱۴ نشر آزاد جہان احمدی تہران ) حتی کہ جس دن جنگ شروع ہوئی اس دن بھی ظہر سے پہلے امام نے ابن عباس کے ہاتھ ایک قرآن دے کر انہیں طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں قرآن کی جانب دعوت دیتے ہوئے ان سےگفتگو کریں۔ ابن عباس نے طلحہ و زبیر سے گفتگو کی۔ لیکن حضرت عائشہ نے اس گفتگو کی بھی اجازت نہیں دی اور کہا: اپنے صاحب سے کہ دو کہ ہمارے اور ان کےدرمیان صرف تلوار فیصلہ کرے گی۔ (شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان،کتاب الجمل ص۳۳۹،نشر از آزاد جہاں احمدی تہران)
اس طرح امامؑ مجبور ہوگئے کہ اس دھڑے سے جنگ کریں تاکہ ملت اسلامیہ کو اس فتنہ سے نجات دلائیں۔
قاسطین اور امامؑ کارویہ
معاویہ کے بظاہر مسلمان ہونے سے لے کر امیرالمومنینؑ سے جنگ کرنے تک کوئی تیس سال سے کم مدت کا عرصہ گزر گیا تھا۔ معاویہ اور اس کے حامیوں نےسالہا سال شام پر حکومت کی تھی اورلوگوں میں اثرونفوذ پیدا کیا تھا اوراپنے لیے مرکز بنالیا تھا۔ اس بنا پر وہ کسی بھی طرح علوی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتاتھا۔ باطن میں اصل وجہ کو چھپا تے ہوئے خونِ عثمان کا بہانہ بنا کر انہوں نےسادہ لوح لوگوں کو تیار کرکے امام کے خلاف میدان میں آگیا۔امامؑ کو مجبوراًجنگ کے لیے تیار ہونا پڑا، جنگ سے پہلے امامؑ نے اپنے پورے لشکر کو یہ تاکید کی کہ”جب تک وہ لوگ شروع نہ کریں تم ابتدا نہ کرنا۔ "(ابن اعثم الکوفی، کتاب الفتوح ج۳، ص۴۴، نشر ازدارالعلم الکتبیہ لبنان )
یہاں بھی امام کا مقصد تھا کہ شامیوں کے پاس آخری لمحے تک حق کی طرف آنے کاموقع باقی رکھیں۔ یہی وجہ تھی امامؑ نے چند اور اہم باتوں کی بھی اپنے لشکر کو تاکید کی۔ فرمایا:’’کیونکہ بحمدللّٰہ تم لوگوں کی حجت مکمل ہے اور جب تم انہیں اس وقت تک ان کے حال پر چھوڑے رکھوگے، جب تک وہ خود جنگ کا آغاز نہ کریں، تو یہ تمہارے حق میں اور ان کے خلاف ایک حجت ہوگی۔ اور اگر تم جنگ کرو اور دشمن کو شکست دو، تو کسی بھاگنے والے کو نہ مارنا، نہ کسی زخمی کو قتل کرنا، نہ کسی کو برہنہ کرنا اور نہ کسی لاش کا مثلہ کرنا۔ اگر دشمن کے کسی ٹھکانے پر پہنچ جاؤ تو کوئی پردہ چاک نہ کرنا اور میرے حکم کے بغیر کسی گھر کے اندر داخل نہ ہونا اورلشکر میں موجود اشیا ءکے علاوہ کوئی چیزنہ اٹھانا۔ کسی عورت کو تکلیف اور اذیت نہ پہنچانا، اگرچہ وہ تمہاری ناموس کو برا بھلا کہیں اور تمہارے سرداروں اورنیک لوگوں پر گالم کلوچ کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہمیں حکم تھا کہ مشرک عورتوں کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کریں۔”(نصر بن مزاحم، کتاب وقعہ صفین ص۲۰۳،نشراز الموسسہ عربیہ حدیثیہ مصر )
خوارج اور امامؑ کا رویہ
خوارج کے ساتھ امیرالمومنینؑ کا رویہ سمجھنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ کس خاصیت کے لوگ تھے۔ اس حوالے سے مفتی جعفر حسین اپنی کتاب”سیرت امیرالمومنینؑ "میں لکھتے ہیں: خارجیت کا جراثیم پیغمبر اکرم ﷺ کے زمانہ ہی میں پیدا ہوچکا تھا جو اندر ہی اندر بڑھتے اور پھیلتے رہے۔ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے، تخریبی کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ان کی گستاخی کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر ﷺ کی عدالت و دیانت پر حملہ کرنے سے بھی نہ چوکتے۔ چنانچہ رسولﷺ نے غزوہ حنین کا مال غنیمت وادی جعرانہ میں تقسیم فرمایا اور تازہ مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے اپنا حصہ خمس میں سے انہیں اوروں کی نسبت زیادہ دیا تو اس گروہ کے ایک فرد ذوالخویصرہ تمیمی نے گستاخانہ لہجہ میں آنحضرتﷺ سے کہا کہ آپ عدل وانصاف کریں جس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر میں عدل نہ کروں گا تو پھر کون ہے جو عدل کرے گا۔حضرت عمر بھی اس پر بگڑے اور کہا کہ یارسول اللہﷺ کیا ہم اسے قتل نہ کردیں آنحضرت نے فرمایا: ’’چھوڑو اسے اس جیسے اور بھی اس کے ساتھی ہیں اگر تم میں کسی کوان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں اپنی نمازوں اورروزوں کو دیکھے گا تواپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر و پست سمجھے گا۔ یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکا ر کوچیر کر نکل جاتاہے۔”(محمد ابن سماعیل، صحیح بخاری، ج ۴ ص ۱۳۴/سیرت امیر ص۴۸۹، ناشر دارالاسلام )
یہ لوگ بظاہر شعائرِ اسلام اور احکام دین کے پابند اور نمازو روزہ اور تلاوت قرآن کے دلدادہ تھے مگر اسلام کی روح سے ناآشنااور دین کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے "میری امت دوفرقوں میں بٹ جائے گی اور ان دومیں سے ایک اور فرقہ نکل کھڑا ہوگا۔ اس فرقہ کے لوگ سر منڈوائے مونچھیں باریک کٹوائے اور آدھی پنڈلیوں تک تہمد باندھے ہوں گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، انہیں وہ شخص قتل کرے گا جو مجھے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔”(حافظ ابو بکر علی بن خطیب بغدادی،کتاب تاریخ بغداد ج ۱،ص۱۶۰،سیرت امیر ص۶۹۰)
خوارج عرب کے صحرائی و بدوی باشندے تھے جن پربدویت ہی کا رنگ غالب تھا اور طبعاًشورش پسند فتنہ جو اور قتل و غارت کے خوگر تھے۔ پیغمبر اکرمﷺ کے بعد انہیں مختلف جنگوں میں دھکیلا جاتارہا اور وہ جنگ وقتال کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ اور کچھ نہ ہوتا توآپس ہی میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔ ان جنگی مصروفیات نے انہیں موقع ہی نہ دیا کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ورہو، اس کے اخلاق و آداب سے اثرپذیر ہوتے۔ فتح عراق کے بعد جب سرحدوں کی حفاظت کے لیے کوفہ وبصرہ کی بنیادیں رکھی گئیں تو ان چھاونیوں کی آبادکاری کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو طبعاً جنگجو اور جنگی خو رکھتے ہوں۔ چنانچہ ان لوگوں کو یہاں آباد کیا گیا مگر شہری زندگی اختیار کرنے کے باوجود اجتماعی زندگی سے مانوس نہ ہوسکےاور انفرادیت اور قبائلی عصبیت جو بدوی زندگی کا خاصہ تھاان میں رچی بسی رہی۔ جب امیرالمومنینؑ کو دشمن کے مقابلہ میں فوج کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ لوگ سابقہ حکومتوں میں جنگی خدمات بجالانے کے عادی تو تھے ہی حضرتؑ کی آواز پر بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور آپؑ کے مخالفین سے جنگوں میں حصہ لیا۔ یہ حق کی تائید اور دین کی حمایت کے جزبہ کے زیر اثر نہیں تھے بلکہ اس میں عصبیت جنگ پسندی اور مادی مقاصد کار فرما تھے۔ (مفتی، جعفر حسین ، کتاب سیرت امیرالمومنین ج۱ ص۶۹۰) اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان نے کبھی جگہ نہیں بنایا تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے امیرؑ  کے خلاف خروج کیا۔ خوارج کی غرض امیرالمومنینؑ کی مخالفت تھی۔انہوں نے آپؑ کے خلاف فتنہ وبغاوت کو ہوا دی، طرح طرح کے الزام تراشے اور حق وصداقت کے مقابلہ میں ضلالت وگمراہی پر جمے رہے۔ حضرت نے انہیں سمجھانے میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا۔ نہ ان پر سختی روا رکھی اور نہ ان کی معاشی و ظائف میں کوئی کمی کی۔ جب ان کی طغیانی و سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے بے دریغ مسلمانوں کو حق گوئی کے جرم میں قتل کرنا شروع کردیا اور عورتوں کو ذبح کرڈالاتو بحالت مجبوری ان کی طرف قدم اٹھا یا اورمیدان جنگ میں انہیں دلائل سے مطمئن کرنے کی کوشش کی اور جب دلائل کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا تو عمومی امان کا اعلان کیا۔ ان تمام کے باوجود جب وہ جنگ سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے تو پھر اس کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا کہ انہیں قرار واقعی سزادی جائے۔ (مفتی ، جعفر حسین ، کتاب سیرت امیرالمومنین ج ۱ ص۷۱۳) یہی وجہ تھی کہ آپؑ نے اس فریق کے ساتھ جنگی رویہ اپنایا تاکہ اس ناسور کا سرے سے خاتمہ ہو اور معاشرہ اسلامی میں امن ہو۔

خلاصہ
امیرالمومنینؑ نے اپنے نظریاتی مخالفین کے ساتھ الہٰی رہنمائی اور رسول اکرمﷺ کی ہدایت اور پیشنگوئی کے تحت رویہ روا رکھا۔ امامؑ کے نظریاتی مخالفین کو ہم دو طرح سے تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک خلفائے ثلاثہ اور دوسرے آپؑ کی حکومتِ ظاہری کے دوران خروج کرنے والی دھڑیں۔ اول الذکر مخالفین کے خلاف آپؑ نےجہاد بالسیف کی جگہ جہاد بالصبر کو ترجیح دی کیونکہ آپؑ کا بنیادی مطمع نظر وہ اسلام تھا جس کی پرچاراور حفاظت کےلیے رسول خداﷺ اور آپؑ کے دن رات کی مشقتیں اوربےشمارقربانیاں تھیں۔درپیش حالت میں آپ ہی تھے جو اسلام اورمسلمین کےساتھ مخلص تھے۔ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف وہ لوگ(ابوسفیان وغیرہ) جن کی پوری زندگی اسلام کے خلاف بسر ہوئی ہے اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں میں اختلاف ہو اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ملے۔ دوسری طرف ایسے مسلمان ہیں جن کے دل ابھی تک ایمان سے راسخ نہیں ہوئے اور وہ کسی بہانے کی تلاش میں ہیں تاکہ راہ ِارتداد اپنائے، اس کے علاوہ بھی کئی اور وجوہ شامل ہیں۔ ان تمام حقائق کے پیشِ نظر آپؑ باقاعدہ جنگ کرنےکے نتائج اور خدشات کو پوری طرح درک کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؑ نے مسلح جنگ نہیں کی۔ لیکن دوسری جانب آپؑ نے اپنے حق چھینے جانےکے خلاف منا سب مواقع پر احتجاج کیےاور ہروہ دلیلیں جن کی بنیاد پرخلفاء اپنے لیے حقِ خلافت کا استدلال کرتے تھے ان تمام دلیلوں کے ذریعے آپؑ نے بدرجہ اولیٰ اپنے حق ہونے کا استدلال کیا اور خلفاءکے پیش کردہ دلیلوں کو غیر منطقی اور غیر شرعی قراردیا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ منصبِ امامت کے تقاضوں کے تحت آپؑ نے خلفاءکےساتھ کلی لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ جہاں بھی اسلام کی حقانیت، حفاظت اور نفاذ کی بات ہو وہاں آپؑ نے خلفاء کو مشورے دیئے اور مناسب فیصلے کیے۔ پس اتحاد ِامت اور تحفظ اسلام کے لیے آپؑ باقی ہر چیز پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ دوسرے مخالفین آپؑ کے وہ تھے جو اس وقت سامنے آئے جب آپؑ حکومت پر تھے۔ بہت سارے امامت کے فرائض ایسے تھے جن کا معاشرے میں نفاذ حکومت کے ساتھ مشروط تھی اور دورانِ حکومت امامؑ انہیں نافذ کرکے اسلام کی عملی صورت دنیا کو دکھانا چاہتے تھے، جن میں عدالت اجتماعی اور دیگر اسلامی اقدار شامل ہیں۔ جب امامؑ نے عدالت اجتماعی کو نافذکیا اور عین اسلامی اصولوں پر معاملات چلانا شروع کیا تب بعض کو احساس ہواکہ ہمارے لیے اب حکومتی دائرے میں جگہ نہیں ہے، ایسے وقت میں مختلف دھڑیں اورگروہ مختلف بہانے جیسے قتل خون عثمان وغیرہ بناکر معاشرہ اسلامی میں فساد پھیلانے کی کوشش کرنے لگے۔ امامؑ نے پہلے مختلف تدابیر کے سہارے انہیں متوجہ کرنےاور فساد سے روکنے کی کوشش کی لیکن بالآخر آپؑ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا وجود اسلام اور معاشرہ اسلامی کے لیے ناامنی اور خطرے کاباعث ہے، اس وقت امامؑ نے ان سے مسلح جنگ کی اور ان کا صفایا کردیا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button