محافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے القاب(حصہ دوئم)

آیۃ اللہ حسین مظاہری
9۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب مصفطیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ لقب امت اسلامی کے لیے ایک عظیم فخر کا باعث ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ مصطفیٰ کے معنی برگزیدہ کے ہیں اور خداوند عالم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوقات میں سے چنا ہے کیونکہ جہاں مہربانی و رحمدلی کا موقع ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے رحمدل اور مہربان ہیں کہ کوئی مثل نہیں۔ جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئی اور مدینہ پہنچی اور مسلمان ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امین لوگوں کے ہمراہ اسے اپنے بھائی عدی کے پاس بھیجا۔ عدی نے اپنی بہن کی زبانی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سن کر ارداہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور اسلام کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاکہ بصیرت و معرفت کے ساتھ مسلمان ہوجائے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک گئے اور کمال مہربانی کےساتھ اس کی باتیں سننے لگے اس عورت نے بہت زیادہ وقت لیا۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات نہیں کاٹی ۔ عدی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبری کی ایک دلیل تو میرے لیے ہی روشن ہوگئی۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےساتھ گھر پر پہنچے تو گھر کا فرش گوسفند کے چمڑے کا تھا اور جو غذا کھانے کے لیے مہیا کی گئی وہ جو کی روٹی اور نمک تھی۔ یہ میرے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی دوسری دلیل بن گئی۔
جو شخص اقتدار رکھتا ہو، دولت رکھتا ہو، حیثیت رکھتا ہو، پیرو کاروں کی ایک کثیر تعداد رکھتا ہو اور اس کے گھر کی حالت یوں ہو اور لوگوں کے ساتھ اس قدر انکساری برتا ہو تو وہ پیغمبر ہی ہوسکتا ہے۔ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک معجزانہ کام دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تمھارے دین اور عقیدے کے مطابق ٹیکس لینا حرام ہے پھر تم کیوں کر ٹیکس لیتے ہو۔ یہ سن کر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے نرم دل تھے کہ جب کسی بچے کو روتا سنتے تو فورا نماز ختم کر کے اسے اٹھالیتے اور جب کسی بچی کو دیکھتے کہ پیسے گم کردئیے ہیں تو اسے پیسے بھی دیتے اور اس کی سفارش کرنے اس کے مالک کے گھر تک جاتے۔
لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ یہودی سازش کررہے ہیں، عہد شکنی پر تلے ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں تو یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام کی ترقی کے لیے مانع ہے تو ان میں سے سات سو کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایسا انسان ہے جو مختلف ابعاد کا جامع ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ اگر ایک انسان زہد و ریا اور اصطلاح فلسفی کے مطابق بلی الرجی کی راہ اختیار کرچکا ہو۔ اس کے تعلقات لوگوں کے ساتھ بہتر نہیں رہ سکتے اور وہ نہ تو معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور نہ تو دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس کے روابط مضبوط نہیں ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاضت و مشقت کا پہلو بہت ہی مضبوط تھا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبدیت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے لیکن اس کے ساتھ مخلوق کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں بھی بہت آگے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم نے فرمایا :
فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ
العمران،۱۵۹
خداوند عالم کی طرف سے شامل حال رحمت کی بناء پر تم لوگوں کے ساتھ مدارات کرتے ہو اور نرمی سے پیش آتے ہو اگر تمہاری باتین اور کردار سخت اور درشت ہوتا تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجاتے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش گفتار ، خوش کردار ہیں اپنے سلوک اور زبان سے لوگوں کو اپنے سے دور نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل اور زبان سے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرتے ہیں دل کے بڑے نرم ہے سخت دل نہیں ہے۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر انسان خاص مقام حاصل کرے۔
مختصر یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔
اگر چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار القاب ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کمالیہ بھی بہت زیادہ ہیں۔
بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله
حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام خصائل نیک ہیں۔ بحث کےآخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔
10۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب خاتم النبیین ہے لفظ خاتم کے ت پر زبر پڑھیں یا زیر دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ دونون میں اختتام کے معنی موجود ہیں ۔عربی میں خاتم ت پر زبر کےساتھ انگوٹھی کو کہا جاتا ہے جس سے مہر لگایا جاتا ہے اور جب کوئی خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں دستخط کی جگہ مہر لگایا جاتا ہے۔ انگوٹھی کے مہر کی جگہ آخری جگہ ہوتی تھی اور اس کے بعد خط ختم ہوجاتا ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم ہونے کا عقیدہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے جو بھی مسلمان ہے وہ جانتا ہے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔
حلال محمد حلال الی يوم القيامۃ و حرامه حرام الی يوم القيمۃ
قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔
وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ
ہم تمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے انسانوں کے لیے رحمت۔
(الانبیاء107)
ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ
(الاحزاب 40)
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خاتم الانبیاء ہیں۔
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ساری موجود ہیں اور اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت “ روایت منزلت ” ہے جو سنی اور شیعہ تمام کے نزدیک مسلمہ ہے اور غایت المرام کے مصنف نے اسے 170 اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جن مٰیں سے ایک سند اہل سنت کے ہاں یوں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَنْتَ‏ مِنِّي‏ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے کہ موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کی تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
خاتم ہونے کا راز دو چیزوں میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
۱:۔ اسلام انسانوں کی فطرت کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ
الروم، ۳۰
اپنے رخ کودین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو انسانوں کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اﷲ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں یہ پائیدار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
۲:۔ دین اسلام تمام پہلوؤں کا جامع ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر زمانے میں ہر حالت میں معاشرے کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔ اسلام اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی معاشرے میں دینی اعتبار سے جس چیز کی ضرورت تھی اسے بیان کیا ہے۔
وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ
کتاب جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً
المائدة : ۳
آج کے دن ( غدیر خم کےدن ) ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔
اس کے علاوہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ اس دعوی کو ببانگ دہل کہتی ہیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس ضمن میں روایات بھی وارد ہوتی ہیں۔
ما من شئ يطلبونه الا وهو فی القرآن فمن اراد الک فليسئلنی عنه
کوئی چیز ایسی نہیں جس کی تمہیں ضرورت پڑے مگر یہ کہ وہ قرآن میں موجود ہے بس جو پوچھناچاہتا ہے اس بارے میں مجھ سے پوچھے۔
جب حقیقت ایسی ہے تو کسی دوسرے دین کا آنا بے فائدہ اور لغو قرار پاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے دین کا اس وقت ضروری ہوجانا جب موجودہ دین معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ایک خاص زمانے کے لیے ہو جب کہ ایسی محدودیت اسلام میں نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اسلام کا قانون مرجعیت ہے۔ اسلام کے کسی حکم کے بارےے میں اگر آپ ایک “ مرجع” کے پاس پہنچیں اور تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے سوالات کا جواب دینے سے وہ عاجز آجائے۔
دن اسلام دین ابدی ہے کیونکہ اس کا ختم ہونا اس صورت میں متصور ہو سکتا ہے:
یا تو اس دین میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی واقع ہو جائے، جیسا کہ یہودیت اور عیسایت کے بارے میں خود ان کا اپنا اقرار ہے جب کہ اسلام میں یہ نقص موجود نہیں ہے اور خداوند عالم نے اس بات کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اسلام اس قسم کی تحریفات سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کے بارے میں ہے۔
لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميدٍ
فصلت : ۴۲
باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔
یا اس دین کو ایک محدود وقت کے لیے نازل کیا گیا ہو۔ مثلا اگر کوئی ایسا دین جو کسی خاص زمانے کے لیے بھیجا گیا ہو، جس نے اس خاص زمانے کی معنویات اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ نظر رکھا ہوا اور جب وہ مطلوبہ ہدف پورا ہوا تو اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اسلام کے بارے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسلام انسان کے ساتھ سو فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی معنویات کا خیال رکھا ہے اس طرح کی مادیت سے غافل نہیں رہا۔ بلکہ اسے بھی اہمیت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔
وَ ابْتَغِ فيما آتاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ لا تَنْسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنْيا
سورہ القصص : آیت ۷۷
جو کچھ اﷲ تعالی نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے طلب گار رہو اور اپنی دنیا کے حصے کو فراموش مت کرو یعنی اسے بھی حاصل کرو۔
اسلام ایسے کامل قانون کا حامل ہے کہ تمام ممکنہ مسائل کا سامنا کرسکتا ہے اور ایسے احکام پیش کرتا ہے کہ قیامت تک کے زمانے کے لیے اجراء ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم کی طرف سے انبیاء علیہم السلام اس لیے آتے تھے کہ اﷲ کا قانون اس کے بندوں کو پہنچائیں ایسے پیغمبروں کو علم کلام کی اصطلاح میں اولو العزم کہا جاتا ہے اور اب قرآن کے نازل ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قرآن نے خود ان کی جگہ لے لی ہے تو اب ایسے پیغمبروں کا آنا بے فائدہ ہے۔
اور بعض انبیاء صرف تبلیغ اور قوانین کے اجراء کے لیے آتے ہیں جب کہ اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ذریعے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علمائے کرام ہی کو “ نظارت ملی” کا حق دیتا ہے اور بڑی اہمیت دیتا ہے بلکہ ان انبیاء کے برابر قرار دیا ہے۔
علماء امتی بمنزلة انبياء بنی اسرائيل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔
نیز نبوت کے خاتمے کے بعد نظریہ امامت کی بناء پر رسولوں کے نہ آنے کی تلافی ہوگئی اور مذکورہ صورتوں کے باوجود انبیاء کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے، لہذا آپؐ خاتم النبیین قرار پائے کہ آپؐ کے بعد کسی بنی کی ضرورت ہے نہ آسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button