رسالاتسیرتسیرت امام مھدیؑ

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اوراس کی حکمت و ضرورت

مؤلف: آل البیت محققین
بادشاہ وقت خلیفہ معتمدبن متوکل عباسی جواپنے آباؤاجداد کی طرح ظلم وستم کاخوگراورآل محمد کاجانی دشمن تھا ۔ اس کے کانوں میں مہدی کی ولادت کی بھنک پڑچکی تھی ۔ اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد تکفین وتدفین سے پہلے بقول علامہ مجلسی حضرت کے گھرپرپولیس کاچھاپہ ڈلوایااورچاہاکہ امام مہدی علیہ السلام کو گرفتارکرالے لیکن چونکہ وہ بحکم خدا ۲۳ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری کوسرداب میں جاکرغائب ہوچکے تھے۔ جیسا کہ شواہدالنبوت ،نورالابصار،دمعۃ ساکبہ ،روضۃ الشہدا ،مناقب الا ئمہ ،انوارالحسینیہ وغیرہ سے مستفاد ومستنبط ہوتاہے ۔ اس لئے وہ اسے دستیاب نہ ہوسکے ۔اس نے اس کے رد عمل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تمام بیبیوں کوگرفتارکرالیا اورحکم دیا کہ اس امرکی تحقیق کی جائے کہ آیاکوئی ان میں سے حاملہ تونہیں ہے اگرکوئی حاملہ ہو تواس کاحمل ضائع کردیاجائے ،کیونکہ وہ حضرت سرورکائنات ﷺ کی پیشین گوئی سے خائف تھا کہ آخری زمانہ میں میرا ایک فرزند جس کانام مہدی ہوگا ۔ کائنات عالم کے انقلاب کا ضامن ہوگا ۔ اوراسے یہ معلوم تھا کہ وہ فرزند امام حسن عسکر ی علیہ السلام کی اولاد سے ہوگا لہذا اس نے آپ کی تلاش اورآپ کے قتل کی پوری کوشش کی ۔تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں ہے کہ ۲۶۰ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب معتمد خلیفہ عباسی نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آدمی بھیجے توآپ سرداب ( یہ سرداب ،مقام ”سرمن رائے“ میں واقع ہے جسے اصل میں سامراکہتے ہیں) ” سرمن رائے “میں غائب ہوگئے بعض اکابرعلما اہل سنت بھی اس امرمیں شیعوں کے ہم زبان ہیں ۔ چنانچہ ملاجامی نے شواہدالنبوت میں امام عبدالوہاب شعرانی نے لواقع الانواروالیواقیت والجواہرمیں اورشیخ احمدمحی الدین ابن عربی نے فتوحات مکہ میں اورخواجہ پارسانے فصل الخطاب میں اورعبدالحق محدث دہلوی نے رسالہ ا ئمہ طاہرین میں اورجمال الدین محدث نے روضۃالاحباب میں ،اورابوعبداللہ شامی صاحب کفایۃالطالب نے کتاب التبیان فی اخبارصاحب الزمان میں اورسبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں اورابن صباغ نورالدین علی مالکی نے فصول المہمہ میں اورکمال الدین ابن طلحہ شافعی نے مطالب السؤل میں اورشاہ ولی اللہ نے فضل المبین میں اورشیخ سلیمان حنفی نے ینابع المودة میں اوربعض دیگرعلما نے بھی ایساہی لکھا ہے اورجولوگ ان حضرت کے طول عمرمیں تعجب کرکب انکارکرتے ہیں ۔ ان کویہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے کچھ بعیدنہیں ہے جس نے آدم کوبغیرماں باپ کے اورعیسی کوبغیرباپ کے پیداکیا ،تمام اہل اسلام نے حضرت خضرکواب تک زندہ ماناہوا ہے ،ادریس بہشت میں اورحضرت عیسی آسمان پراب تک زندہ مانے جاتے ہیں اگرخدائے تعالی نے آل محمد میں سے ایک شخص کوعمرعنایت کی توتعجب کیاہے ؟حالانکہ اہل اسلام کودجال کے موجود ہونے اورقریب قیامت ظہورکرنے سے بھی انکارنہیں ہے
سامراکی آبادی بہت ہی قدیمی ہے اوردنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ، اس سام بن نوح نے آبادکیاتھا (معجم البلدان) اس کی اصل سام راہ تھی بعدمیں سامراہوگیا ، آب وہواکی عمدگی کی وجہ سے خلیفہ معتصم نے فوجی کیمپ بناکرآبادکیاتھا اوراسی کو دارالسلطنت بھی بنادیاتھا ، اس کی آبادی ۸ فرسخ لمبی تھی ، اسے اس نے نہایت خوبصورت شہربنادیاتھا ۔ ا سی لئے اس کانام سرمن رائے رکھ دیاتھا یعنی وہ شہرجسے جوبھی دیکھے خوش ہوجائے ،عسکری اسی کاایک محلہ ہے جس میں امام علی نقی علیہ السلام نظربندتھے بعد میں انھوں نے دلیل بن یعقوب نصرانی سے ایک مکان خریدلیاتھا جس میں اب بھی آپ کامزارمقدس واقع ہے ۔سامرامیں ہمیشہ غیرشیعہ آبادی رہی ہے اس لئے اب تک وہاں شیعہ آباد نہیں ہیں وہاں کے جملہ خدام بھی غیرشیعہ ہیں ۔حضرت حجت علیہ السلام کے غائب ہونے کاسرداب وہیں ایک مسجدکے کنارے واقع ہے جوکہ حضرت امام علی نقی اورحضرت امام حسن عسکری کے مزاراقدس کے قریب ہے
کتاب شواہدالنبوت کے ص ۶۸ میں ہے کہ خاندان نبوت کے گیارہویں امام حسن عسکری ۲۶۰ میں زہرسے شہیدکردئیے گئے تھے ان کی وفات پران کے صاحبزادے محمد ملقب بہ مہدی شیعوں کے آخری امام ہوئے۔مولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ خاندان رسالت کے ان اماموں کے حالات نہآیت دردناک ہیں ۔ ظالم متوکل نے حضرت امام حسن عسکری کے والدماجد امام علی نقی کومدینہ سے سامرہ پکڑبلایاتھا ۔اوروہاں ان کی وفات تک ان کونظربندرکھا تھا ۔ (پھرزہرسے ہلاک کردیاتھا ) اسی طرح متوکل کے جانشینوں نے بدگمانی اورحسدکے مارے حضرت امام حسن عسکری کوقیدرکھاتھا ،ان کے کمسن صاحبزادے محمدالمہدی جن کی عمراپنے والدکی وفات کے وقت پانچ سال کی تھی ۔ خوف کے مارے اپنے گھرکے قریب ہی ایک غارمیں چھپ گئے اورغائے ہوگئے ۔الخ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ جس غارمیں امام مہدی عج کی غیبت بتائی جاتی ہے ۔ اسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔(نورالابصارجلد ۱ ص ۱۵۲) علامہ ابن حجرمکی کاارشادہے، کہ امام مہدی سرداب میں غائب ہوے ہیں ۔” فلم یعرف این ذھب “ پھرمعلوم نہیں کہاں تشریف لے گئے۔ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴) ۔
غیبت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ پرعلماءاہل سنت کااجماع :
جمہورعلما اسلام امام مہدی کے وجودکوتسلیم کرتے ہیں ، اس میں شیعہ اورسنی کاسوال نہیں ۔ ہرفرقہ کے علماء یہ مانتے ہیں کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اورموجودہیں ۔ہم علماء اہل سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اورمختصراقوال کے درج کرتے ہیں :
( ۱ ) ۔ علامہ محمدبن طلحہ شافعی کتاب مطالب السوال میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی عج سامرہ میں پیداہوئے ہیں جوبغداد سے ۲۰ فرسخ کے فاصلہ پرہے۔
( ۲ ) ۔ علامہ علی بن محمدصباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں لکھتے ہیں کہ امام حسن عسکریؑ گیارہویں امام نے اپنے بیٹے امام مہدی عج کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پوشیدہ رکھی ۔
( ۳ ) ۔علامہ شیخ عبداللہ بن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ امام مہدی کانام محمد اورکنیت ابوالقاسم ہے ۔آپ آخری زمانہ میں ظہوروخروج کریں گے ۔
( ۴ ) ۔ علامہ محی الدین ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات مکہ میں ہے کہ جب دنیا ظلم وجورسے بھرجائے گی توامام مہدی عج ظہورکریں گے۔
( ۵ ) ۔علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت والجواہرمیں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پیداہوئے اب اس وقت یعنی ۹۵۸ ہجری میں ان کی عمر ۷۰۶ سال کی ہے ،یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح النجاة میں بھی ہے ۔
( ۶ ) ۔ علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہدالنبوت میں ہے کہ امام مہدی سامرہ میں پیداہوئے ہیں اوران کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکریؑ کی موجودگی میں غائب ہوگئے تھے ۔اسی کتاب میں ولادت کاپوراواقعہ حکیمہ خاتون کی زبانی مندرج ہے ۔
( ۷ ) ۔ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الائمہ ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ہیں امام حسن عسکری نے ان کے اذان واقامت کہی ہے اورتھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپردہوگئے جن کے پاس حضرت موسی بچپنے میں تھے۔
( ۸ ) ۔ علامہ جمال الدین محدث کی کتاب روضۃالاحباب میں ہے کہ امام مہدی ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے اورزمانہ معتمد عباسی میں بمقام ”سرمن رائے“ ازنظربرایاغائب شد لوگوں کی نظرسے سرداب میں غائب ہوگئے ۔
( ۹ ) ۔ علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراةالاسرارمیں ہے کہ آپ بطن نرجس سے ۱۵ شعبان ۲۵۵ میں پیداہوئے ۔
( ۱۰ ) ۔ علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیربحرمواج کی کتاب ہدایۃ السعداء میں ہے کہ خلافت رسول حضرت علی کے واسطہ سے امام مہدی عج تک پہونچی آپ ہی آخری امام ہیں ۔
( ۱۱ ) ۔ علامہ نصربن علی جھمنی کی کتاب موالیدالائمہ میں ہے کہ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پیداہوئے ۔
( ۱۲ ) ۔ علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکوة میں ہے کہ امام مہدی با رہویں امام ہیں شیعوں کایہ کہناغلط ہے کہ اہل سنت اہل بیت کے دشمن ہیں۔
( ۱۳ ) ۔ علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہین ساباطیہ میں ہے کہ امام مہدی اولادفاطمہ سلام اللہ علیھا میں سے ہیں ، وہ بقولے ۲۵۵ میں متولد ہوکرایک عرصہ کے بعد غائب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۴ ) ۔ علامہ شیخ حسن عراقی کی تعریف کتاب الواقع میں ہے کہ انھوں نے امام مہدی عج سے ملاقات کی ہے ۔
( ۱۵ ) ۔ علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے الیواقیت میں لکھا ہے کہ انھوں نے امام مہدی عج سے ملاقات کی ہے ۔
( ۱۶ ) ۔ علامہ شیخ سعدالدین کاکہناہے کہ امام مہدی عج پیداہوکرغائب ہوگئے ہیں ”دورآخرزمانہ آشکارگردد“ اوروہ آخرزمانہ میں ظاہرہوں گے ۔جیساکہ کتاب مقصداقصی میں لکھا ہے ۔
( ۱۷ ) ۔ علامہ علی اکبرابن اسعداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پیداہوکرقطب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۸ ) ۔ علامہ احمدبلاذری ااحادیث لکھتے ہیں کہ آپ پیداہوکرمحجوب ہوگئے ہیں ۔
( ۱۹ ) ۔ علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوارد میں ہے، محمد بن حسن( المہدی ) کے بارے میں شیعوں کاکہنا درست ہے ۔
( ۲۰ ) ۔ علامہ شمس الدین جزری نے بحوالہ مسلسلات بلاذری اعتراف کیاہے ۔
( ۲۱ ) ۔علامہ علاالدولہ احمدمنانی صاحب تاریخ خمیس دراحوالی النفس نفیس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھرقطب ہوگئے۔
22۔علامہ نوراللہ بحوالہ کتابیان الاحسان لکھتے ہیں کہ امام مہدی عج تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں
۲۴ ۔علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ امام مہدی ۲۵۶ میں پیداہوکرمعدوم ہوگئے ہیں
۔۲۵ علامہ ابن حجرمکی کی کتاب صواعق محرقہ میں ہے کہ امام مہدی عج المنتظرپیداہوکرسرداب میں غائب ہوگئے ہیں ۔
۲۶ ۔علامہ عصرکی کتاب وفیات الا عیان کی جلد ۲ ص ۴۵۱ میں ہے کہ امام مہدی عج کی عمرامام حسن عسکری کی وفات کے وقت ۵ سال تھی وہ سرداب میں غائب ہوکرپھرواپس نہیں ہوے ۔
۔۲۷ علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرةالخواص الامہ کے ص ۲۰۴ میں ہے کہ آپ کالقب القائم ، المنتظر،الباقی ہے ۔
۔۲۸ علامہ عبیداللہ امرتسری کی کتاب ارجح المطالب کے ص ۳۷۷ میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان مرقوم ہے کہ آپ اسی طرح زندہ باقی ہیں جس طرح عیسی ، خضر، الیاس وغیرہ ہم زندہ اورباقی ہیں ۔
۲۹۔ علامہ شیخ سلیمان تمندوزی نے کتاب ینابع المودة ص ۳۹۳ میں، علامہ ابن خشاب نے کتاب موالیداہل بیت میں،علامہ شبلنجی نے نورالابصارکے ص ۱۵۲ طبع مصر ۱۲۲۲ میں بحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ امام مہدی عج غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اورباقی ہیں اوران کے وجود کے باقی ،اورزندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے وہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت خضراورحضرت الیاس وغیرہم زندہ اورباقی ہیں ان اللہ والوں کے علاوہ دجال ،ابلیس بھی زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید صحیح مسلم ،تاریخ طبری وغیرہ سے ثابت ہے لہذا ”لاامتناع فی بقائہ“ان کے باقی اورزندہ ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے علامہ چلپی کتاب کشف الظنون کے ص ۲۰۸ میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبارصاحب الزمان ابوعبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی تصنیف ہے ۔ (علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ امام مہدی عج قائم ومنتظرہیں وہ آفتاب کی مانند ظاہرہوکردنیاکی تاریکی ،کفرزائل کردیں گے ۔
۳۱۔ علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال کی جلد ۷ کے ص ۱۱۴ میں ہے کہ آپ غائب ہیں ظہورکرکے ۹ سال حکومت کریں گے ۔
۳۲۔ علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب درمنشورجلد ۳ ص ۲۳ میں ہے کہ امام مہدی عج کے ظہورکے بعد عیسی نازل ہوںگے وغیرہ۔
امام مہدی عج کی غیبت اورآپ کاوجود وظہورقرآن مجیدکی روشنی میں :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اورآپ کے موجودہونے اورآپ کے طول عمرنیزآپ کے ظہوروشہود اورظہورکے بعد سارے دین کوایک کردینے کے متعلق ۹۴ آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں سے اکثردونوں فریق نے تسلیم کیاہے ۔اسی طرح بے شمارخصوصی احادیث بھی ہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو غایۃ المقصود وغایۃالمرام علامہ ہاشم بحرانی اورینابع المودة ،میں اس مقام پرصرف دوتین آیتیں لکھتےہیں :
۱ ) آپ کی غیبت کے متعلق :آلم ذلک الکتاب لاريب فیه هدی للمتقين الذين يومنون بالغيب ہے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان بالغیب سے امام مہدی عج کی غیبت مراد ہے ۔نیک بخت ہیں وہ لوگ جوان کی غیبت پرصبرکریں گے اورمبارک باد کے قابل ہیں ۔ وہ سمجھدار لوگ جوغیبت میں بھی ان کی محبت پرقائم رہیں گے ۔(ینابع المودة ص ۳۷۰ طبع بمےئی )
۲ ) آپ کے موجود اورباقی ہونے کے متعلق ”جعلھا کلمةباقیة فی عقبہ “ ہے ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ کوقراردیاہے جوباقی اورزندہ رہے گا اس کلمہ باقیہ سے امام مہدی عج کاباقی رہنا مراد ہے اوروہی آل محمد میں باقی ہیں ۔(تفسیرحسینی علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۲۲۶) ۔
۳) آپ کے ظہوراورغلبہ کے متعلق ”یظہرہ علی الدین کلہ “ جب امام مہدی عج بحکم خداظہورفرمائیں گے توتمام دینوں پرغلبہ حاصل کرلےں گے یعنی دنیا میں سوا ایک دین ا سلام کے کوئی اوردین نہ ہوگا ۔(نورالابصارص ۱۵۳ طبع مصر)۔
امام مہدی عج کی غیبت کی وجہ :
مذکورہ بالاتحریروں سے علمااسلام کااعتراف ثابت ہوچکا یعنی واضح ہوگیا کہ امام مہدی عج کے متعلق جوعقائد اہل تشیع کے ہیں وہی منصف مزاج اورغیرمتعصب اہل تسنن کے علماء کے بھی ہیں اورمقصد اصل کی تائید قرآن کی آیتوں نے بھی کردی ،اب رہی غیبت امام مہدی عج کی ضرورت اس کے متعلق عرض ہے کہ :
۱ ) اخلاق عالم نے ہدایت خلق کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراورکثیرالتعداد ان کے اوصیا بھیجے ۔پیغمبروں میں سے ایک لاکھ تیس ہزار نوسو ننانوےں انبیاء کے بعد چونکہ حضوررسول کریم تشریف لائے تھے ۔لہذا ان کے جملہ صفات وکمالات ومعجزات حضرت محمدمصطفی صلعم میں جمع کردئیے تھے اورآپ کوخدانے تمام انبیاء کے صفات کا جلوہ برواربنایا بلکہ خود اپنی ذات کامظہرقراردیا تھا اورچونکہ آپ کوبھی اس دنیائے فانی سے ظاہری طورپرجاناتھا اس لئے آپ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت علیؑ کوہرقسم کے کمالات سے بھرپورکردیاتھا یعنی حضرت علیؑ اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ نبوی کمالات سے بھی ممتازہوگئے تھے ۔سرورکائنات کے بعد کائنات عالم صرف ایک علیؑ کی ہستی تھی جوکمالات انبیاء کی حامل تھی آپ کے بعد سے یہ کمالات اوصیامیں منتقل ہوتے ہوئے امام مہدی عج تک پہونچے بادشاہ وقت امام مہدی عج کوقتل کرنا چاہتاتھا اگروہ قتل ہوجاتے تودنیاسے انبیاء واوصیاء کا نام ونشان مٹ جاتا اورسب کی یادگاربیک ضرب شمشیرختم ہوجاتی اورچونکہ انھیں انبیاء کے ذریعہ سے خداوند عالم متعارف ہواتھا لہذا اس کابھی ذکرختم ہوجاتا اس لئے ضرورت تھی کہ ایسی ہستی کومحفوظ رکھا جائے جوجملہ انبیاء اوراوصیاء کی یادگاراورتمام کے کمالات کی مظہرہو ۔
۲ ) خداوندے عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے” وجعلها کلمة باقیة فی عقبة “ ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قراردیاہے نسل ابراہیم دوفرزندوں سے چلی ہے ایک اسحاق اوردوسرے اسماعیل ۔ اسحاق کی نسل سے خداوندعالم جناب عیسی کوزندہ وباقی قراردے کر آسمان پرمحفوظ کرچکاتھا ۔ اب بہ مقتضائے انصاف ضرورت تھی کہ نسل اسماعیلؑ سے کسی ایک کوباقی رکھے اوروہ بھی زمین پرکیونکہ آسمان پرایک باقی موجودتھا ،لہذا امام مہدی عج کوجونسل اسماعیل سے ہیں زمین پرزندہ اورباقی رکھا اورانھیں بھی اسی طرح دشمنوں کے شرسے محفوظ کردیا جس طرح حضرت عیسیؑ کومحفوظ کیاتھا ۔
۳ ) یہ مسلمات اسلامی سے ہے کہ زمین حجت خدا اورامام زمانہ عج سے خالی نہیں رہ سکتی (اصول کافی ۱۰۳ طبع نولکشور) چونکہ حجت خدا اس وقت امام مہدی عج کے سوا کوئی نہ تھا اورانھیں دشمن قتل کردینے پرتلے ہوئے تھے اس لئے انھیں محفوظ ومستورکردیاگیا ۔حدیث میں ہے کہ حجت خدا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے اورانھیں کے ذریعہ سے روزی تقسیم کی جاتی ہے (بحار)۔
۴ ) یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی عج جملہ انبیاء کے مظہرتھے اس لئے ضرورت تھی کہ انھیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ،حضرت موسی ،حضرت عیسی اورحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے عہدحیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے تھے اسی طرح یہ بھی غائب رہتے ۔
۵ ) قیامت کاآنا مسلم ہے اورواقعہ قیامت میں امام مہدی عج کا ذکربتاتاہے کہ آپ کی غیبت مصلحت خداوندی کی بناء پرہوئی ہے ۔
۶ ) سور ہ اناانزلنا سے معلوم ہوتاہے کہ نزول ملائکہ شب قدرمیں ہوتا رہتاہے یہ ظاہرہے کہ نزول ملائکہ انبیاء واوصیاء ہی پرہواکرتاہے ۔امام مہدی عج کواس لئے موجود اورباقی رکھا گیاہے تاکہ نزول ملائکہ کی مرکزی غرض پوری ہوسکے ،اورشب قدرمیں انھےںپرنزول ملائکہ ہوسکے حدیث میں ہے کہ شب قدرمیں سال بھرکی روزی وغیرہ امام مہدی عج تک پہونچادی جاتی ہے اوروہی اس کی تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔
۷ ) حکیم کافعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا یہ دوسری بات ہے کے عام لوگ اس حکمت ومصلحت سے واقف نہ ہوں غیبت امام مہدی عج اسی طرح مصلحت وحکمت خداوندی کی بناپرعمل میں آئی ہے جس طرح طواف کعبہ ،رمی جمرہ وغیرہ ہے جس کی اصل مصلحت خداوندعالم ہی کومعلوم ہے ۔
۸ ) امام جعفرصادق علیہ السلام کافرماناہے کہ امام مہدی عج کواس لئے غائب کیاجائے گا تاکہ خداوندعالم اپنی ساری مخلوق کا امتحان کرکے یہ جانچے کہ نیک بندے کون ہیں اورباطل پرست کون لوگ ہیں (اکمال الدین )۔
۹ ) چونکہ آپ کواپنی جان کاخوف تھا اوریہ طے شدہ ہے کہ ” من خاف علی نفسہ احتاج الی الاستتار“ کہ جسے اپنے نفس اوراپنی جان کاخوف ہو وہ پوشیدہ ہونے کولازمی جانتاہے (المرتضی )۔
۱۰) آپ کی غیبت اس لئے واقع ہوئی ہے کہ خداوندعالم ایک وقت معین میں آل محمد پرجومظالم کیے گئے ہیں ۔ ان کابدلہ امام مہدی عج کے ذریعہ سے لے گا یعنی آپ عہد اول سے لے کربنی امیہ اوربنی عباس کے ظالموں سے مکمل بدلہ لےں گے ۔ (اکمال الدین )۔
غیبت صغری وکبری اورآپ کے سفراء
آپ کی غیبت کی دوحیثیت تھی ، ایک صغری اوردوسری کبری ، غیبت صغری کی مدت ۷۵ یا ۷۳ سال تھی ۔ اس کے بعد غیبت کبری شروع ہوگئی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کاایک نائب خاص ہوتا تھا جس کے ذریعہ اہتمام ہرقسم کانظام چلتاتھا سوال وجواب، خمس وزکوة اوردیگرمراحل اسی کے واسطہ طے ہوتے تھے خصوصی مقامات محروسہ میں اسی کے ذریعہ اورسفارش سے سفرا مقررکئے جاتے تھے ۔
سب سے پہلے جنہیں نائب خاص ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ان کانام نامی واسم گرامی حضرت عثمان بن سعیدعمری تھا آپ حضرت امام علی نقی علیہ السلام اورامام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد خاص اوراصحاب خلص میں سے تھے آپ قبیلہ بنی اسد سے تھے آپ کی کنیت ابوعمرتھی ،آپ سامرہ کے قریہ عسکرکے رہنے والے تھے وفات کے بعد آپ بغداد میں دروازہ جبلہ کے قریب مسجد میں دفن کئے گئے آپ ک وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام آپ کے فرزند،حضرت محمد بن عثمان بن سعید اس عظیم منزلت پرفائزہوئے ، آپ کی کنیت ابوجعفرتھی آپ نے اپنی وفات سے ۲ ماہ قبل اپنی قبرکھدوادی تھی آپ کاکہناتھا کہ میں یہ اس لئے کررہاہوں کہ مجھے امام علیہ السلام نے بتادیاہے اورمیں اپنی تاریخ وفات سے واقف ہوں آپ کی وفات جمادی الاول ۳۰۵ ہجری میں واقع ہوئی ہے اورآپ ماں کے قریب بمقام دروازہ کوفہ سرراہ دفن ہوئے ۔ پھرآپ کی وفات کے بعد بواسطہ مرحوم حضرت امام علیہ السلام کے حکم سے حضرت حسین بن روح اس منصب عظیم پرفائزہوئے ۔جعفربن محمد بن عثمان سعیدکاکہناہے ،کہ میرے والد حضرت محمد بن عثمان نے میرے سامنے حضرت حسین بن روح کواپنے بعد اس منصب کی ذمہ داری کے متعلق امام علیہ السلام کا پیغام پہنچایا تھا ۔حضرت حسین بن روح کی کنیت ابوقاسم تھی آپ محلہ نوبخت کے رہنے والے تھے آپ خفیہ طورپرجملہ ممالک اسلامیہ کادورہ کیاکرتے تھے آپ دونوں فرقوں کے نزدیک معتمد ،ثقہ ،صالحاورامین قراردئے گئے ہیں آپ کی وفات شعبان ۳۲۶ میں ہوئی اورآپ محلہ نوبخت کوفہ میں مدفون ہوئے ہیں آپ کی وفات کے بعد بحکم امام علیہ السلام حضرت علی بن محمد السمری اس عہدہ جلیلہ پرفائزہوئے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی ،آپ اپنے فرائض انجام دئے رہے تھے ،جب وقت قریب آیاتوآپ سے کہاگیا کہ آپ اپنے بعد کاکیاانتظام کریںگے ۔ آپ نے فرمایا کہ اب آئندہ یہ سلسہ قائم نہ رہے گا ۔ (مجالس المومنین ص ۸۹ وجزیزہ خضرا ص ۶ وانوارالحسینیہ ص ۵۵) ۔ ملاجامی اپنی کتاب شواہدالنبوت کے ص ۲۱۴ میں لکھتے ہیں کہ محمد السمری کے انتقال سے ۶ یوم قبل امام علیہ السلام کا ایک فرمان ناحیہ مقدسہ سے برآمد ہوا ۔ جس میں ان کی وفات کا ذکراورسلسہ سفارت کے ختم ہونے کا تذکرہ تھا ۔ امام مہدی کے خط کے عیون الفاظ یہ ہیں
بسم الله الرحمن ا لرحیم
” یاعلی بن محمد عظم الله اجراخرانک فيک فانک ميت مابينک وبين ستة ایام فاجمع امرک ولاترض الی احد يقوم مقامک بعدوفاتک فقد وقعت الغيبة السامة فلاظهورالا بعداذن الله تعالی وذلک بعد طول الامد الخ“
ترجمہ : اے علی بن محمد ! خداوند عالم تمھارے بارے میں تمھارے بھائیوں اورتمھارے اوردوستوں کواجرجزیل عطاکرے ،تمہیں معلوم ہو کہ تم چھ یوم میں وفات پانے والے ہو،تم اپنے انتظامات کرلو۔ اورآئندہ کے لئے اپنا کوئی قائم مقام تجویز وتلاش نہ کرو۔ اس لئے کہ غیبت کبری واقع ہوگئی ہے اور اذن خدا کے بغیرظہورناممکن ہوگا ۔ یہ ظہوربہت طویل عرصہ کے بعد ہوگا ۔
غرضکہ چھ یوم گذرنے کے بعد حضرت ابوالحسن علی بن محمدالسمری بتاریخ ۱۵ شعبان ۳۲۹ انتقال فرماگئے ۔اورپھرکوئی خصوصی سفیرمقررنہیں ہوا اورغیبت کبری شروع ہوگئی ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے بعد :
حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت چونکہ خداوندعالم کی طرف سے بطورلطف خاص عمل میں آئی تھی ،اس لئے آپ خدائی خدمت میں ہمہ تن منہمک ہوگئے اورغائب ہونے کے بعد آپ نے دین اسلام کی خدمت شروع فرمادی ۔ مسلمانوں، مومنوں کے خطوط کے جوابات دینے ، ا ن کی بوقت ضرورت رہبری کرنے اورانھیں راہ راست دکھانے کا فریضہ اداکرنا شروع کردیا ضروری خدمات آپ زمانہ غیبت صغری میں بواسطہ سفرا یابلاوسطہ اورزمانہ غیبت کبری میں بلاواسطہ انجام دیتے رہے اورقیامت تک انجام دیتے رہیںگے۔
کتاب: مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام” سے اقتباس
;

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button