خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:204)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک09 جون 2023ء بمطابق 19 ذیقعدہ1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: استغفار
آج کی گفتگو کا آغاز ہم قرآن حکیم کی سورہ ھود کی آیات 2 اور 3 سے کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید جیسی عظیم کتاب جس کی آیات محکم و مفصل ہیں یہ ہمیں تین باتوں کی طرف دعوت دیتی ہے:
اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾
کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں اللہ کی طرف سے تمہیں تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ :پہلی بات یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے جو اس کتاب کے مضامین میں سب سے اہم مضمون ہے کہ بندگی میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔
وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ع مَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ۔۔۔ (هود : ۳)
اور یہ کہ تم اپنے پروردِگار سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف لوٹ جاؤ، تاکہ وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اچھے حصے کے ساتھ سرفراز فرمائے اور ہر صاحبِ فضیلت کو اس کی زیادہ سے زیادہ فضیلت عطا کرے…
وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ: دوسری بات یہ ہے کہ اپنے رب کے حضور استغفار کرو۔ اپنی تقصیروں کا اعتراف کر کے اللہ سے معافی مانگنا بندگی کی بنیاد ہے۔
۲۔ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا: تیسری بات یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرے۔ توبہ سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ ابی جعفر علیہ السلام سے روایت ہے:
التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ (الکافی ۲: ۴۳۵)
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
لا صغیرۃ مع الاصرار ولا کبیرۃ مع الاستغفار ۔ (الکافی۲: ۲۸۸)
گناہ تکراراً بجا لانے سے صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کے ساتھ گناہ کبیرہ نہیں رہتا۔
پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہے:
خیر العبادۃ الاستغفار ۔۔۔۔ ( الکافی۲:۵۱۷)
بہترین عبادت استغفار ہے۔
ایمان کے ساتھ اور مغفرت کے لیے درگاہ الٰہی میں راز و نیاز سے توبہ کے ذریعے تطہیر باطن سے انسان فطرتی طور پر اعتدال میں آ جاتا ہے۔ اس کا ضمیر مطمئن، اس کی روح پرسکون، اس کے اعصاب میں توازن ہوتا ہے۔
فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡعَلُ اللّٰہُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ (۶ انعام : ۱۲۵)
پس جسے اللہ ہدایت بخشنا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس طرح ناپاکی مسلط کرتا ہے۔
یعنی جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اس کے لیے ایک دشوار زندگی ملے گی۔
۳۔ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا: اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان و عمل صالح سے نہ صرف یہ کہ آخرت کی زندگی سدھرتی ہے، دنیوی زندگی میں بھی بہتری آ جاتی ہے۔ یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ دینداری غربت و افلاس کا دوسرا نام ہے اور دنیاداری کا مطلب بے دینی ہے۔ البتہ جہاں دنیاداری دین سے متصادم ہو تو یہ بات درست ہے ورنہ مؤمن کے لیے دنیا و آخرت دونوں کی سعادتیں میسر آ جاتی ہیں۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
اسی طرح سورہ ھود کی آیت 52 میں فرمایا:
وَ یٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ع مَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا وَّ یَزِدۡکُمۡ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمۡ وَ لَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِیۡنَ ﴿۵۲﴾ (هود : ۵۲)
اور (ہود ع نے فرمایا:) اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف توجہ کرو تاکہ وہ آسمان سے پے در پے تمہارے اوپر بارش برسائے، اور قوت پر قوت کا اضافہ فرمائے اور گناہوں کی وجہ سے (راہِ حق سے) منہ نہ پھیرو۔
اس آیت میں حضرت ھود ؑ اپنی قوم کو مغفرت کی تلقین کر رہے ہیں اور ساتھ اس کا نتیجہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ اگر تم استغفار کرو اور توبہ انجام دو تو تم اللہ کی رحمتیں برسیں گی اور تمہاری طاقت میں اضافہ ہوجائے گا۔
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام نے بھی حکم خدا سے لوگوں کو طمع و امید دلائی کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو تمہاری زندگی میں تمہیں آسائشیں میسر آجائیں گی۔:
فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾
اور کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔
یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۱﴾
۱۱۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا،
وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا ﴿ؕ۱۲﴾
۱۲۔ وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے اثرات صرف آخرت سے مختص نہیں ہیں بلکہ دنیوی زندگی پربھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۶﴾ (۷ اعراف: ۹۶)
اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔
اس آیت میں استغفار کو رزق کی فراوانی کا سبب قرار دیا ہے۔
اسی طرح قرآن میں مزید بھی آیات ہیں جن میں استغفار کی تلقین کی گئی ہے جیسے یہ آیات:
۱۔وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۔۔۔(آل عمران : ۱۳۵)
۱۔اور (پرہیزگار) وہ لوگ ہیں کہ جب بھی (اتفاقاً)کوئی برا کام انجام دیتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرکے اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں…
۲۔وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُو ۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ع مَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۱۰﴾ (النساء : ۱۱۰)
۲۔اور جو شخص برے کام کرے یا اپنے اوپر ظلم کرے لیکن پھر خدا سے مغفرت کی دعا کرے تو وہ خدا کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔
امام علی ؑ کی زبانی استغفار کا معنی:
نہج البلاغہ میں آیا ہے کہ :
لِقَآئِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِهٖ: «َسْتَغْفِرُ اللهَ»:
ایک کہنے والے نے آپؑ کے سامنے ’’استغفراللہ‘‘ کہا تو آپؑ نے اس سے فرمایا:
ثَكِلَتْكَ اُمُّكَ! اَتَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ الْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ، وَ هُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلٰى سِتَّةِ مَعَانٍ:
تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیا ہے؟ استغفار بلند منزلت لوگوں کا مقام ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے:
اَوَّلُهَا: النَّدَمُ عَلٰى مَا مَضٰى.
پہلی :یہ کہ جو ہو چکا اس پر نادم ہو۔
وَ الثَّانِیْ: الْعَزْمُ عَلٰى تَرْكِ الْعَوْدِ اِلَیْهِ اَبَدًا.
دوسری: ہمیشہ کیلئے اس کے مرتکب نہ ہونے کا تہیہ کرنا۔
وَ الثَّالِثُ: اَنْ تُؤَدِّیَ اِلَى الْـمَخْلُوْقِیْنَ حُقُوْقَهُمْ حَتّٰى تَلْقَى اللهَ اَمْلَسَ لَیْسَ عَلَیْكَ تَبِعَةٌ.
تیسری :یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا یہاں تک کہ اللہ کے حضور میں اس حالت میں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف اور تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔
وَ الرَّابِـعُ: اَنْ تَعْمِدَ اِلٰى كُلِّ فَرِیْضَةٍ عَلَیْكَ ضَیَّعْتَهَا فَتُؤَدِّیَ حَقَّهَا.
چوتھی: یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے اور تم نے انہیں ضائع کر دیا تھا انہیں اب پورے طور پر بجا لاؤ۔
وَ الْخَامِسُ: اَنْ تَعْمِدَ اِلَى اللَّحْمِ الَّذِیْ نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ فَتُذِیْبَهٗ بِالْاَحْزَانِ، حَتّٰى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ، وَ یَنْشَاَ بَیْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِیْدٌ.
پانچویں: یہ کہ جو گوشت (اَکل) حرام سے نشو و نما پاتا رہا ہے اس کو غم و اندوہ سے پگھلاؤ یہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملادو کہ پھر سے ان دونوں کے درمیان نیا گوشت پیدا ہو۔
وَ السَّادِسُ: اَنْ تُذِیْقَ الْجِسْمَ اَلَمَ الطَّاعَةِ كَمَاۤ اَذَقْتَهٗ حَلَاوَةَ الْمَعْصِیَةِ.
چھٹی: یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو جس طرح اسے گناہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہے۔
فَعِنْدَ ذٰلِكَ تَقُوْلُ: «اَسْتَغْفِرُ اللهَ».
تو اب کہو: ’’استغفراللہ‘‘۔( نہج البلاغہ حکمت:417)
خدا ہمیں حققی معنوں میں ایسا استغفار اور توبہ کرنے کے توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح ایک اور مقام پہ فرمایا: عَجِبتُ لِمَن يَقنَطُ ومَعهُ الاستِغفارُ ! .(نهج البلاغة : الحكمة ۸۷)
مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو استغفار کے ہوتے ہوئے بھی مایوس ہوتا ہے۔
امیر المومنین ؑکا ایک لطیف استنباط:
امیر المومنین امام علی ؑ نے نہج البلاغہ میں قرآن مجید سے ایک نہایت لطیف نکتہ نکالا ہے جس کے بارے میں نہج البلاغہ کو جمع کرنے والے سیّد رضیؒ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: وَ هٰذَا مِنْ مَّحَاسِنِ الْاِسْتِخْرَاجِ وَ لَطَآئِفِ الْاِسْتِنْۢبَاطِ.
یہ بہترین استخراج اور عمدہ نکتہ آفرینی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:كَانَ فِی الْاَرْضِ اَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللهِ، دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں،
وَ قَدْ رُفِـعَ اَحَدُهُمَا، فَدُوْنَكُمُ الْاٰخَرَ فَتَمَسَّكُوْا بِهٖ: ایک امان ان میں سے اٹھا لی گئی ہے، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔
اَمَّا الْاَمَانُ الَّذِیْ رُفِعَ فَهُوَ رَسُوْلُ اللهُ ﷺ. وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ ﷺ تھے،
وَ اَمَّا الْاَمَانُ الْبَاقِیْ فَالْاِسْتِغْفَارُ، اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا:
قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
’’اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک تم ان میں موجود ہو (اور) اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں اتارے گا، جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے‘‘۔
استغفار کے ذریعے خود کو رہائی دلانا
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "يا أيُّهَا النّاسُ، إنَّ أنفُسَكُم مَرهونَةٌ بِأَعمالِكُم فَفُكّوها بِاستِغفارِكُم”، "اے لوگو! بے شک تمہارے نفس تمہارے اعمال کے بدلے میں گروی ہیں، تو ان کو اپنے استغفار کے ذریعے رہائی دلاؤ”۔ [عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، ج۲، ص۲۶۵] رہن اور گروی اس مال کو کہا جاتا ہے جو مال آدمی کسی شخص کو دیتا ہے اور اس سے قرض لیتا ہے کہ اگر مقررہ وقت پر قرض واپس نہ کیا تو قرض خواہ اس مال میں سے یعنی رہن اور گروی میں سے لے سکتا ہے۔ لہذا مثلاً اگر آپ نے کسی شخص کو سونا دیا ہے اور اس سے قرض لیا ہے، وہ سونا رہن اور گروی ہے اور آپ اس کو استعمال نہیں کرسکتے، اگر استعمال کرنا چاہیں تو قرض واپس دے کر سونے کو رہن اور گروی سے آزاد کروائیں گے۔
جو شخص مقروض ہوتا ہے اسے گروی چھڑوانی پڑتی ہے۔ انسان اگر گناہ کربیٹھے تو اللہ تعالیٰ کا مقروض ہوجاتا ہے۔ مقروض آدمی کو کوئی چیز گروی رکھنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقروض لوگ خود، گروی ہوتے ہیں۔ پروردگار متعال انسان کے مال اور گھر وغیرہ کو تو گروی کے طور پر نہیں لیتا، بلکہ انسان کے گناہوں کے بدلے میں خود انسان کو گروی لیا جاتا ہے۔
جب انسان گناہ کرکے خود گروی اور گرفتار ہوگیا تو اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو رہائی دلوائے۔ اپنے آپ کو رہائی دلوانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرکے انسان اپنے نفس کو رہائی دلوائے "فَفُكّوها بِاستِغفارِكُم”۔
رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہيں: ’’ إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى يَغْفِرُ لِلْمُذْنِبِينَ إِلاَّ مَنْ لاَ يُرِيدُ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ ‘‘ یعني خداوند عالم گناہگاروں کے گناہوں کو بخش ديتا ہے مگر ان گناہگاروں کے علاوہ جن کو خدا بخشنا نہيں چاہتا۔ اصحاب نے سوال کیا: ’’يا رسول اللہ ! مَنِ اَلَّذِي يُرِيدُ أَنْ لاَ يُغْفَرَ لَهُ ؟‘‘ يا رسول خدا وہ کون ہے جس کو خدا بخشنا نہیں چاہتا ؟ ’’ قَالَ مَنْ لاَ يَسْتَغْفِرُ ‘‘ يعني وہ جو استغفار نہیں کرتا۔پس استغفار باب توبہ و مغفرت کی چابی ہے۔ استغفار کے ذریعے ہی مغفرت الٰہی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔خدانے اگر ہمارے لیے باب توبہ فراہم کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گناہوں کی کوئی حیثیت نیں ہے۔ کبھی کبھی یہی گناہ انسان کے وجود حقیقی کو بھی ضائع کر دیتے ہیں اور ا س کو حیات انسانی کے عالی مراتب سے ايک پست ترین حیوان میں تبديل کردیتے ہيں۔
حضرت لقمان کی بیٹے کو وصیت:
لقمانُ ع في وصيَّتِهِ لابنِهِ: يا بُنَيَّ، لا يكونُ الدِّيكُ أكيَسَ مِنكَ ، يقومُ في وَقتِ السَّحَرِ ويَستَغفِرُ ، وأنتَ نائمٌ !. (مستدرك الوسائل : ۱۲ / ۱۴۶ / ۱۳۷۴۴)
: حضرت لقمان ع نے اپنے فرزند کو جو نصیحتیں کیں ان میں یہ بھی تھی : اے بیٹے! مرغ کو تجھ سے زیادہ سمجھدار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تو سحر کے وقت اٹھ کھڑا ہو اور استغفار کرے لیکن تو سوتا رہ جائے۔
استغفار بہترین دعا ہے:
رسولُ الله ﷺ: خَيرُ الدعاءِ الاستِغفارُ. (الكافي : ۲ / ۵۰۴ / ۱)
رسول اللہ ص : بہترین دعا استغفار ہے۔
ایک اور مقام پہ ارشاد فرمایا: أكثِرُوا مِن الاستِغفارِ؛ فإنّ اللہَ عز و جل لم يُعَلِّمْكُمُ الاستِغفارَ إلاّ وهُو يُريدُ أن يَغفِرَ لَكُم .(تنبيه الخواطر : ۱ / ۵)
کثرت سے استغفار کیا کرو کیونکہ خدا وند عزوجل نے تمہیں یونہی استغفار کی تعلیم نہیں دی بلکہ اس طرح وہ تمہارے گناہوں کو بخش دینا چاہتا ہے۔
ایک مقام پہ امام علی ؑ نے فرمایا : تَعَطَّرُوا بالاستِغفارِ لا تَفضَحْكُم روائحُ الذُّنوبِ .(بحارالانوار : ۹۳ / ۲۷۸ / ۷)
اپنے آپ کو استغفار کی خوشبو سے معطر کرو اس طرح تمہیں گناہوں کی بدبو رسوا نہیں کر سکے گی۔
اسی طرح فرماما: مَن اُعطِيَ الاستِغفارَلم يُحرَمِ المَغفِرَةَ. (نهج البلاغة : الحكمة ۱۳۵)
جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت (کی نعمت) سے محروم نہیں ہوتا۔
استغفار کی مہلت:
جب انسان گناہ کرتا ہے تو متعددروایات میں آیا ہے کہ اللہ کی طرف سے فورا گناہ نہیں لکھا جاتا بلکہ کچھ وقت اسے مہلت دی جاتی ہے،اگر بندہ اسی مہلت میں سچے دل سے استغار کرکے معافی مانگ لے تو گناہ نہیں لکھا جاتا۔ اسی سے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
: إنّ العَبدَ إذا أذنَبَ ذَنبا اُجِّلَ مِن غُدوَةٍ إلَى الليلِ ، فإنِ استَغفَرَ اللہَ لم يُكتَبْ علَيهِ .( الكافي : ۲ / ۴۳۷ / ۱)
جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اسے صبح سے رات تک کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر وہ اس دوران توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا۔
استغفار سے رزق میں اضافہ ہونا:
رسولُ اللهﷺ کا ارشاد مبارک ہے: مَن أَكْثَرَ الاسْتِغفارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِن كُلِّ هَمٍّ فَرَجا ، ومِن كُلِّ ضِيقٍ مَخرَجا . (نور الثقلين : ۵ / ۳۵۷ / ۴۵)
جو کثرت سے استغفار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غم سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال دے گا، ہر تنگی سے باہر آنے کی راہیں کھول دے گا۔
امام علیؑ :الاستِغفارُ يَزِيدُ في الرِّزقِ . (بحارالانوار : ۹۳ / ۲۷۷ / ۴)
استغفار رزق میں اضافے کا موجب ہوتا ہے ۔
اسی طرح فرمایا : اِستَغفِرْ تُرزَقْ . (مستدرك الوسائل : ۱۲ / ۱۲۲ / ۱۳۶۸۶) استغفار کیا کرو کہ اس سے تمہیں رزق ملے گا
توبہ و استغفار اور گناہوں پر اصرار بھی:
استغفار سے گناہ یقینا معاف ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو استغفار کی تسبیح بھی پڑھتے رہتے ہیں اور گناہ بھی کرتے رہتے ہیں اور شاید یہ سمجھتے ہیں کہ بس استغفار کرنے سے پچھلے گناہ مٹ گئے اور آگے پھر گناہ جاری رکھتے ہیں۔ رواایات میں ایسے عمل کو گناہوں پر اصرار کہا گیا ہے اور اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ چند روایات ذیل ہیں:
امام علی ؑ نے فرمایا : الاستِغفارُ مَع الإصرارِذُنوبٌ مُجَدَّدَةٌ .(تحف العقول : ۲۲۳)
گناہوں پر اصرار کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار سے گناہ تازہ ہوجاتے ہیں۔
امام علی رضا ؑ نے فرمایا : المُستَغفِرُ مِن ذَنبٍ ويَفعَلُهُ كَالمُستَهزئَ بربهِ .(الكافي : ۲ / ۵۰۴ / ۳)
؎اگر بندہ گناہوں سے استغفار بھی کرے اور ساتھ ہی گناہ کا ارتکاب بھی کرے تو ایسے ہے جیسے اللہ سے مذاق کر رہا ہے۔
امام علی رضا ؑ نے فرمایا : مَنِ استَغفَرَ بلِسانِهِ ولم يَندَمْ بقَلبهِ فَقدِ استَهزَأ بنفسِهِ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۳۵۶ / ۱۱)
جو اپنی زبان سے تو استغفار کرے لیکن دل سے گناہ پر پشمانی کا اظہار نہ کرے ، وہ اپنے آپ سے مذاق کر رہا ہوتا ہے۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:  اَلتَّوْبَةُ عَلى اَرْبَعَةِ دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَ اسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ وَ عَزْمٌ اَنْ لایَعُودَ ۔ 
توبہ کے چار ستون ہیں :
۱: دل سے پشیمانی۲: زبان سے استغفار۳:اعضاء بدن سے عمل ۴: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ
(میزان الحکمۃ، باب 459، حدیث 2160)
پس سچا استغفار اور سچی توبہ وہ ہے جو ان چار ستونوں پر مشتمل ہو۔ فقط زبان سے استغفراللہ کہتے رہنا کافی نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں استغفار اور سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button