خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:270)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 04 اکتوبر 2024ء بمطابق 29ربیع الاول 1446ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: صبر
ہم کچھ عرصے سے حضرت لقمان کی قرآن میں بیان کی گئی حکمتوں اور نصیحتوں پر بات کر رہے ہیں۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان حکیم کی دس حکمتیں اور نصیحتیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے پانچ حکمتیں ہم گزشتہ خطبوں میں بیان کر چکے ہیں جوکہ یہ تھیں:
پہلی حکمت میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذۡ قَالَ لُقۡمَٰنُ لِابۡنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَيَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِۖ إِنَّ الشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيم
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسری حکمت میں اللہ تعالیٰ کے حساب و کتاب سے ڈرایا کہ اس میں ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہوگی:
يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ في‏ صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّماواتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ لَطيفٌ خَبيرٌ (سورہ لقمان آیۃ: 16)
اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو تو اللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
تیسری حکمت میں نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت لقمان اپنے بیٹے کو تیسری نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرمارہے ہیں :
يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ ؛
اے بیٹے نماز کو قا‏‏‏ئم کرو
چوتھی اور پانچویں حکمت میں فرمایا:
حضرت لقمان کی چوتھی اور پانچویں حکمت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں :
وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَر
اے بیٹے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔
آج ہم اسی سلسلے کی چھٹی حکمت و نصیحت پر گفتگو کریں گے:
حضرت لقمان کی چھٹی حکمت و نصیحت:
اس چھٹی حکمت میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہیں:
وَ اصْبِرْ عَلى‏ ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اے بیٹا! ۔۔جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔
حضرت لقمان نے اپنی بیشتر نصیحتوں میں اس صبر و استقامت کو بیان کیا ہے اور وہ انسان سے چاہتے ہیں کہ وہ اس محکم اور مضبوط قدرت سے استفادہ کریں اور اسی کی روشنی میں کمالات تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
انہی نصیحتوں میں سے ایک جو ہماری مورد بحث آیت ہے کہ جس میں حضرت لقمان اپنے بیٹے کو زندگی کے تلخ ترین حوادث اور سخت ترین مشکلات میں صبرو استقامت کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اسے ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔
صبرو استقامت ان کلمات میں سے ہیں جو قرآن کریم میں مختلف تعبیروں کے ساتھ تقریبا دوسو مرتبہ ذکر ہو‏‏‏ئے ہیں جو کہ اہم ترین مفاہیم میں سے ہیں اور انسان کے تقدیر بدلنے میں اساس اور بنیاد قرار پا‏‏‏ئے ہیں ۔ خدا وند متعال صابرین پر ہمیشہ دورد و سلام بھیجتا ہے اور انکو ہدایت پانے والوں میں سے قرار دیا ہے۔
اور خداوند متعال صابرین کی جزاء اور انعام کے بارے میں پیغمبر اسلام کو اس طرح سے فرمایا کہ ان کو خوش خبری دو پھر فرمایا: أُوْلَئكَ عَلَيهْمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُهْتَدُون
یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
جیسا کہ گناہ کے مقابل میں صبر اختیار کرنا۔ اطاعت کے راستے میں صبر کرنا۔ اورمصا‏‏‏ئب و مصیبتوں کے وقت صبر کرنا۔ لیکن حضرت لقمان نے ا پنی اس نصیحت میں مصیبتوں کے مقابل میں صبر کرنے کو بیان کیا ہے جو کہ صبر اور استقامت کے اہم ترین اقسام میں سے شمار ہوتا ہے۔ اور ایسا صبر توان اور قوت قلبی کا منشا ہے اور یہی آثار انسان کو دوسرے موارد میں صبر کرنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری عظیم برکات کا سرچشمہ قرار پا‏‏‏تے ہیں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت لقمان کی مراد صبر کی تمام اقسام ہوں چونکہ اطاعت کے مقابل میں ایسے عوامل جو سستی اور گناہ کا سبب بنتے ہیں وہ بھی مصیبت ہی شمار ہوتے ہیں ۔
امام علی علیہ السلام: الصَّبرُ صَبرانِ : صَبرٌ على ماتَكرَهُ ، وصَبرٌ عمّا تُحِبُّ.(نہج البلاغة : الحكمة ۵۵)
صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک اس چیز پر صبر جسے تو پسند نہیں کرتا اور ایک وہ جسے تو پسند کرتا ہے۔
ایک اور مقام پہ فرمایا:
امام علی علیہ السلام: الصَّبرُ أن يَحتَمِلَ الرجُلُ ما يَنُوبُهُ ، ويَكظِمَ ما يُغضِبُهُ.(غرر الحكم : ۱۸۷۴)
صبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر آنے والی مصیبتوں کو برداشت کرے اور غصہ کو قابو میں رکھے۔
بہر حال اس دنیا کی مشکلات اور مصا‏‏‏ئب بہت ہی زیادہ طاقت فرسا ہیں اگر ان کے مقابل میں صبر و استقامت نہ ہو تو انسان کا وجود بے ہودہ اور بے مقصد ہوگا ۔ اور ہر کا م کسی چیز کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو جا‏‏‏ئے گا اور اپنی روح و بدن کو ہلاکت میں ڈالے گا ۔
صبر کے فضائل:
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ (آل عمران : ۱۴۶)
اورایسے بہت سے پیغمبرؐ (گزر چکے) ہیں جن کے ساتھ(مل کر) بہت سے خدا پرستوں نے جہاد کیا اور راہ خدا میں انہیں جو مصیبت پہنچی انہوں نے نہ ہمت ہاری نہ کمزور ی دکھائی اور نہ ہی کسی کے آگے جھکے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام  فرماتے ہیں:
إنّكُم لا تُدرِكُونَ ما تُحِبُّونَ إلاّ بِصَبرِكُم على ما تَكرَهُونَ .(مسكّن الفؤاد : ۴۸)
تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو اس وقت تک حاصل نہیں کرپاؤ گے جب تک تم ناپسندیدہ باتوں پر صبر نہیں کرو گے۔
رسولُ اللہﷺ:  لَمَّا سُئلَ ماالإيمانُ: الصَّبرُ . (مسكّن الفؤاد : ۴۷)
رسول اللہ ﷺ :جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ: ایمان کیا ہے؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: صبر۔
امام علی علیہ السلام:الصَّبْرُ يُهَوِّنُ الفَجِيعَةَ. (غرر الحكم : ۵۳۳) صبر، دل ہلادینے والی مصیبتوں کو آسان بنادیتا ہے۔
امام جعفرصادق علیہ السلام: المؤمنُ يُطبَعُ عَلَى الصَّبرِ على النَّوائبِ.(مشكاة الأنوار : ۲۳)
مومن مصائب پر صبر کو عادت بنالیتا ہے۔
امام محمد تقیؑ:الصَّبرُ على المُصيبهِ، مُصيبَةٌ على الشامِتِ بها (كشف الغمّه : ۳ / ۱۳۹)
مصیبت پر صبر کرنے سے اس شخص پر مصیبت آجاتی ہے جو دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے۔
صبرِ حضرت ایوبؑ کا واقعہ:
قرآن مجید ان تلخ اور دشوار حوادث کے مقابل میں صبرو استقامت جیسی خصوصیت کی تعلیم دینے میں کبھی گزشتہ انبیاء کی تاریخ کو بیان کرتا ہے اور ان کی زندگی کے ایک حصے کو بطور نمونہ ذکر کرتا ہے تاکہ ہم بھی اپنی زندگی کو ان کے ساتھ مقایسہ کریں اور ان سے صبر و استقامت کا درس حاصل کریں ۔ انہی میں سے ایک نمونہ حضرت ایوب ہے جو زراعت اور گلہ بانی کرنے کی وجہ سے بہت ہی عظیم دولت کے مالک تھے۔
حضرت ایوب کی زندگی تمام نعمات الہی سے سرشار تھی وہ ہمیشہ خدا کا شکر انجام دیتے تھے اس حد تک وہ شکر خدا بجا لاتے تھے کہ ابلیس اس سے حسد کرنے لگا اور خدا کی درگاہ میں عرض کرنے لگا ایوب کا اتنا شکر بجالانا آپ کی نعمات کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے لہذا آپ مجھے اس پر مسلط کردیں تاکہ معلوم ہوجا‏‏‏ئے کہ وہ کیسے آپ کا شکر بجا لاتا ہے ؟ تو خداوند عالم نے ان کو اجازت دی تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے یہ حقیقت ثابت ہو جا‏‏‏ئے لہذا ابلیس نے حضرت ایوب کے تمام مویشیوں کو اور سارے باغوں کو اور یہاں تک کہ انکے گھر اور بیٹوں کو بھی نابود کردیا لیکن حضرت ایوب نے ان سب مصیبتوں اور مشکلات میں صبر و استقامت کے ساتھ انکا مقابلہ کیا اور ہمیشہ شکر خدا بجا لاتا رہا بلکہ ان سب مشکلات اور سختیوں کے بعد اس کے شکر بجا لانے میں اور اضافہ ہو گیا۔( گفتار امام صادق(ع); تفسیر نورالثقلین, ج3, ص447 و 448)
حضرت ایوب اسی حالت میں بھی اپنی پیشانی کو سجدے میں رکھ کر خدا وندمتعال سے اس طرح سے راز و نیاز کرتا ہے ۔(اے دن اور رات کو خلق کرنے والے خدا میں جس حالت میں اس دنیا میں آیا ہوں اسی حالت میں تیرے پاس آؤنگا خدایا آپ نے مجھے نعمت دی ہے اسی کو مجھ سے دوبارہ لے لیا ہے میں آپ کی اس رضا پر راضی ہوں )
اتنی ساری مشکلات کے ساتھ اس دفعہ حضرت ایوب اپنے پاؤں کے بہت ہی سخت درد میں مبتلا ہو‏‏‏ئے ان کا پاؤں زخمی ہوا جس کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ایوب تقریبا سات یا سترہ سال تک اسی حالت میں رہے لیکن پہاڑ کی طرح محکم اور مضبوط رہے اور ان سب مشکلات کے ساتھ مقابلہ کرے اور ہمیشہ خدا کا شکر بجا لاتے رہے۔
حضرت ایوب نے نہ ہی اپنے دل میں اور نہ ہی زبان سے اور نہ ہی عملی طور پر ایک ذرہ بھی خدا کی نارضایتی کا اظہار نہیں کیا اور یہی اس کی صبر و استقامت کا بہترین نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو مقام شکر اور رضا حاصل ہوا۔
حضرت ایوب کی کئی بیویاں تھیں لیکن ان کی اس بیماری کو تحمل نہیں کرسکیں وہ ایک ایک ہوتی ہو‏‏‏ئیں حضرت ایوب کو تنہا چھوڑ کر چلی گئیں۔ حضرت ایوب کی صرف ایک ہی بیوی جو رحیمہ نام کی تھی اس کے ساتھ رہ گئی لیکن کچھ ہی مدت کے بعد وہ بھی بے صبری کا اظہار کرتی ہو‏‏‏ئی ایوب کو تنہا چھوڑ کر چلی گئی۔
حضرت ایوب اتنی ساری مشکلات اور سختیوں کے ساتھ اس صحراء میں تنہا رہ گئے لیکن صبر اور استقامت کے ساتھ ان ساری مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے اور خدا کا شکر بجا لاتے رہے۔
اب حضرت ایوب کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہ رہا بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہوتے ہو‏‏‏ئے سجدے میں گر پڑے اور خدا کو مخاطب قرار دیتے ہو‏‏‏ئے عرض کرنے لگے:
اذ نادیٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ أَنْتَ‏ أَرْحَمُ‏ الرَّاحِمِينَ‏;
جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: مجھے (بیماری سے) تکلیف ہو رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔
ایسے وقت میں حضرت ایوب کی دعا قبول ہو‏‏‏گئی اور ان کی ساری مشکلات اور سختیاں ختم ہو‏‏‏ئیں اور خدا وند متعال نے ان کو تمام بلاؤں کے بدلے میں بہت ساری نعمتوں سے نوازا اور ان کے صبر اور استقامت اور شکر کے بدلے میں ان کے مال و دولت میں اور بھی اضافہ ہوا جیسا کہ فرمایا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی تکلیف ان سے دور کر دی اور انہیں ان کے اہل و عیال عطا کیے اور اپنی رحمت سے ان کے ساتھ اتنے مزید بھی جو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت ہے۔
قرآن مجید کی یہ تعبیر …وَ ذِكْرَى‏ لِلْعَالَمِين‏ حضرت ایوب کے صبر کرنے کا جو واقعہ ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد یہ اعلان کررہا ہے کہ حضرت ایوب کی شخصیت تمام عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل بن گئی ہے بالکل یہی بات ہے کہ خداوند عالم نے حضرت ایوب کو تمام دنیا والوں کے لئے مایہ افتخار بنایا ہے کہ فرمایا :
إِنَّا وَجَدْناهُ صابِراً نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّاب؛
ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔
صبر کا اجر:
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ  الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙقَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (البقرة : ۱۵۵- ۱۵۷)
اور یقینا ہم تم سب کی خوف ،بھوک ،مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی جیسے امور سے آزمائش کریں گے (اے پیغمبر ؐ! ان سختیوں میں) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں!۔(صابر) وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی مصیبت انہیں پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں یقینا ہم خدا کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔یہی لوگ تو ہیں جن پر ان کے پروردِگار کی طرف سے درود اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
امام علی علیہ السلام:متقین کے اوصاف کے بارے میں فرماتے ہیں:
صَبَرُوا أيّاما قَصِيرَةً ، أعقَبَتهُم راحَةٌ طَويلَةٌ (نہج البلاغہ)
انہوں نے چند مختصر سے دنوں کی تکلیف پر صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی۔
امام جعفرصادق علیہ السلام:مَنِ ابتُلِيَ مِن شِيعَتِنا فَصَبَرَعلَيهِ كانَ لَهُ أجرُ ألفِ شَهيدٍ . (التمحيص : ۵۹ / ۱۲۵)
ہمارے شیعوں میں سے جو شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ اس پر صبر کرے تو اسے ایک ہزار شہید کا اجر ملے گا۔
رسول اللہ کی زندگی سے صبر کی مثالیں:
1 ۔ رسالت کے ابلاغ کے راستے میں پیغمبر اسلام کی طرح کسی اور پیغمبر کو اذیت اور تکلیف نہیں ہو‏‏‏ئی ہے جیسا کہ خود پیغمبر اسلام کا فرمان ہے۔ مَا أُوذِيَ‏ نَبِيٌ‏ مِثْلَ‏ مَا أُوذِيت‏; کسی بھی پیغمبر کو میری طرح اذیت و آزا ر نہیں پہنچا ہے۔
اس کے باوجود پیغمبر اکرم کی تمام زندگی میں کو‏‏‏ئی ایسا مورد نہیں ملتا ہے کہ پیغمبر نے عاجزی یا ضعف و سستی کا اظہار کیا ہوا ہو بلکہ انہوں نے ایک پہاڑ کی مانند صبر و استقامت کے ساتھ اپنے راستے کو جاری رکھا۔
جیسا کہ جنگ احد میں پیغمبر اسلام کو بہت ہی سخت ترین مصیبت ( حضرت حمزہ کی شہادت ) کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت علی جیسی محبوب ترین شخصیت زخمی ہو‏‏‏ئی اور اآپ کے مبارک دانتوں پر چوٹ لگنے کی روایت بھی ہے لیکن ان سب مشکلات کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ پیغمبر کے اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ دشمن کے لئے بدعا اور نفرین کریں لیکن انہوں نے فرمایا : اللّٰهُمَ‏ اهْدِ قَوْمِي‏ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.خدا یا میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ہیں۔
پیغمبر اسلام کے دو بیٹے قاسم اور عبداللہ تھے جب انہوں نے مدینہ میں وفات پا‏‏‏ئی تو اس کے بعد پیغمبر اسلام کو کو‏‏‏ئی اور بیٹا نہیں ہوا یہاں تک کہ ہجرت کی آٹھویں سال پیغمبر اسلام کی ایک بیوی ماریہ قبطیہ سے ایک بچہ ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا اور وہ بھی ایک سال دس مہینہ اور آٹھ دن کے بعد وفات پاگئے تو پیغمبر اسلام نے ان کو بقیع میں دفن کیا ۔
پیغمبر اسلام کے لئے یہ بہت بڑی مصیبت تھی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو‏‏‏ئے اور فرمایا: میری آنکھیں رو رہی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن صبر اور شکر کے خلاف کو‏‏‏ئی ایسا کلام نہیں کرونگاجو خدا کی ناراضگی کا سبب بنے۔
امام علی علیہ السلام کو کہنے لگے آپ قبر میں داخل ہو جا‏‏‏ئیں اور ابراہیم کو دفن کریں امام علی علیہ السلام پیغمبر کی اطاعت کرتے ہو‏‏‏ئے قبر میں داخل ہو‏‏‏ئے تو بعض اصحاب نے کہا کہ پیغمبر اسلام خود قبر میں داخل نہ ہونے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ باپ کا اپنے بیٹے کے قبر میں داخل ہونا مناسب نہیں ہے تو پیغمبر اسلام نے ان کو کہا یہ کو‏‏‏ئی حرام کام نہیں ہے لیکن مجھے اس بات سے خوف ہے کہ کسی شخص کا بیٹا مرجا‏‏‏ئے اور اس کا باپ اس کو دفن کرے اور اس وقت اس کے بیٹے کے چہرے پر نظر پڑ جا‏‏‏ئے اور باپ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر بے صبری کا اظہار کرے اور بے تابی کرنے لگے تو اس کے نتیجہ میں جو خداکی درگاہ میں جو مقام اور اجر و ثواب ہے وہ نابود ہوجا‏‏‏ئے۔
آئمہ اہلبیتؑ  کی زندگی سے صبر کی مثالیں:
2۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ان کے خاندان پر بہت بڑی مصیبتں آ‏‏‏ئیں امام علی علیہ السلام بہت ہی سخت ترین مشکلات میں گرفتار ہو‏‏‏ئے ایک طرف سے پیغمبر اسلام کی وفات کا غم اور ایک طرف سے حضرت زہرا کی شہادت کا غم اور انکی خلافت کو غصب کرنا لیکن ان ساری مشکلات میں امام علیہ السلام نے صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا اور فرمایا : فَرَأَيْتُ‏ أَنَ‏ الصَّبْرَ عَلَى‏ هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى، وَ فِي الْحَلْقِ شَجًى، میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔
شاید پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی کی طرح کو‏‏‏ئی بھی رنج اور بلاء میں مبتلا نہیں ہوا ہے لیکن کبھی بھی عاجزی اور ضعف کا اظہار نہیں کیا ۔ امام صادق علیہ السلام کے قول کے مطابق امام علی علیہ السلام سخت ترین مشکلات اور مصا‏‏‏ئب میں گرفتار ہوتے تو نماز پڑھتے تھے اور اسی نماز کے ذریعے سے اپنی روح کو آرام بخشتے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے تھے: وَ اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ ;صبر اور نماز سے مدد لینا ۔
3۔ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام سخت ترین شرا‏‏‏ئط میں قرار پا‏‏‏ئے تو اپنے اصحاب کو مخاطب قرار دے کر فرمایا: صَبْراً يَا بَنِي‏ عُمُومَتِي‏ صَبْراً يَا أَهْلَ بَيْتِي‏،اے میرے چچا زاد بھا‏‏‏ئیوں کے بیٹے اور اے میرے اہل بیت صبر کرو آج کے بعد پھر کبھی بھی ناراحتی نہیں دیکھو گے۔
اور خود امام حسین علیہ السلام اتنے صابر تھے کہ کربلا کی تاریخ بیان کرنے والے حمید بن مسلم کہہ رہے ہیں: فَوَ اللّٰهِ مَا رَأَيْتُ‏ مَكْثُوراً قَطُّ قَدْ قُتِلَ وُلْدُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِهِ وَ أَصْحَابُهُ أَرْبَطَ جَأْشاً وَ لَا أَمْضَى جَنَاناً مِنْهُ ; خدا کی قسم میں نے ایسی شخصیت کو نہیں دیکھا جو اتنی مشکلات میں گرفتا رہو اور جس کے سارے خاندان اور ان کے بیٹے اور اصحاب شہید ہو‏‏‏ئے ہوں اس کے باوجود وہ صابر اور استوار ہو ۔
امام علیہ السلام اپنی شہادت کے وقت خدا سے مناجات کر رہے تھے: صبرا علی قضائك یا رب; خدایا تیری چاہت اور رضا پر میں صبر اور استقامت اختیار کرتا ہوں ۔
4۔ امام صادق علیہ السلام کا ایک شاگرد مفضل بن عمر کا اسما‏‏‏عیل نامی ایک بیٹا تھا جب وہ وفات پا گئے تو امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے موسی بن جعفر کو مفضل کے گھر تسلیت کے لئے بھیجا اور ان کو کہا کہ مفضل کو میرا سلام کہنا اور بتانا کہ جب میرے بیٹے اسماعیل کے مرنے کی خبر مجھے دی تو میں نے صبر کیا اور آپ بھی ہماری طرح سے صبر کرنا چونکہ جو کام خدا کے ارادے سے ہوتا ہے ہم اسی کو پسند کرتے ہیں اور خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں۔
جب امام صادق علیہ السلام بیماری کی حالت میں بستر پر تھے تو امام کا ایک صحابی ان کی عیادت کو آ‏‏‏یا اور امام کی وہ حالت دیکھ کر رونے لگا تو امام نے اس سے پوچھا تم کیوں رو رہے ہے ؟ تو وہ کہنے لگے یا امام میں آپ کو اس کمزوری کی حالت میں دیکھوں اور نہیں روؤں ؟ تو امام علیہ السلام نے کہا! آپ رو‏‏‏ئیں نہیں چونکہ تمام نیکیاں مؤمن کو دی جاتی ہیں اگر کو‏‏‏ئی حقیقی مؤمن ہو اور اس کے جسم کے تمام اعضاء قطعہ قطعہ ہو جا‏‏‏ئیں تو یہ اس کے لئے بہتر ہے او ر اسی طرح وہ مشرق اور مغر ب کا مالک بن جا‏‏‏ئے تو بھی اس کے ‏‏‏لئے بہتر ہے۔
5۔ صبر اور استقامت کا ایک اور نمونہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ہے اگر حضرت زینب کربلا میں روتی تھی تو یہ احساسات کی بنا پر تھا اور جب وہ بولتی تھیں تووہ عدالت اور نہی عن المنکر اور دشمن کو رسوا کرنے کی خاطر تھا۔
حضرت زینب اس حد تک صابر اور شاکر تھیں کہ ابن زیاد کی مجلس میں فخر کے ساتھ کہہ رہی تھی مَا رَأَيْتُ‏ إِلَّا جَمِيلا; میں نے صرف اچھا‏‏‏ئی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ! اے مرجانہ کے بیٹے قیامت کے دن دیکھنا کہ ہم میں سے کون جیتا اور کون ہارا؟ ابن زیاد کی مجلس میں حضرت زینب کا خطبہ اتنا پر جوش تھا کہ ابن زیاد اپنی سلطنت کو بچانے کی خاطر حضرت زینب اور ان کے تمام ساتھیوں کو قید کر دیا ۔

 

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button