محافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

صادق و امین کی زبان سے وحی الٰہی کے نمونے (حصہ اول)

شیخ ضیاء جواھری

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل ایک ایسے سمندرکے مانند ہیں جس کی کوئی انتہااور ساحل نہیں ہے انسان جب اس سمندر میں تیرتا ہے تو سمندر سے موتی اور ہیرے حاصل کرتا ہے۔

ہم اس شخصیت کے فضائل کے متعلق کیا عرض کر سکتے ہیں جس کے فضائل کو اس کے دشمنوں نے حسد اور عداوت کی وجہ سے اور دوستوں نے خوف اور تقیہ کی وجہ سے چھپایا ۔

لیکن اس کے باوجود اس کے فضائل سے دنیا بھری ہے آپ کے فضائل اس مشک کی طرح ہیں کہ جسے جتنا چھپایا جائے وہ اتنا ہی خوشبو پھیلائی گی آپ کے فضائل پر جتنا پردہ ڈالا گیا وہ اتنا ہی ضوء فشاں ہوئے خلاصہ یہ کہ ہر فضیلت آپ کی ذات پر ختم ہوتی ہے ۔

آپ ہر فضیلت کے سردار اور سرچشمہ ہیں فضیلتوں کے میدان میں آپ علیہ السلام اول اور سابق ہیں فضائل حاصل کرنے والے آپ علیہ السلام ہی سے فضائل حاصل کرتے ہیں ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام اصحاب کے متعلق اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے جتنے تنہا حضرت علی ابن ابی طالب کے متعلق بیان ہوئے ہیں ۔

(مستدرک الصحیحین ج ۳ص ۱۰۷)

دوسرے مقام پر احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ حسان کی اسناد کے مطابق اصحاب میں سے کسی کے متعلق اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے جتنے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

(الاسیتعاب ج۲ ص ۴۶۶)

عمر ابن خطاب کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا

"کسی شخص نے بھی حضرت علی کی مانند فضل وکمال حاصل نہیں کیا”۔

(ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۱۴)

ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ ہمدان میں برد نامی ایک شخص رہتا تھا وہ معاویہ کے پاس آیا اور اس نے وہاں عمرو کو حضرت علی علیہ السلام کے متعلق زبان درازی کرتے سنا، تو اس نے عمرو سے کھاکہ ہمارے بزرگوں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

"من کنت مولاه فعلیِ مولاه

(جس کا میں مولاھوں اس کا علی مولا ہے)۔

اب تو بتا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان سچ ہے یا جھوٹ؟۔

عمر وکہنے لگا: یہ حق ہے۔ اور میں تمہیں مزید بتاتا ہوں کہ اصحاب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جس قدر فضائل و مناقب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہیں۔ اتنے کسی اور کے نہیں ہیں یہ سن کر وہ نوجوان چلا گیا۔

(الاامامہ والسیاسہ ص۹۷)

ابن عباس کہتے ہیں:

قرآن کریم میں جس قدر آیات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں اتنی کسی اور کے متعلق نازل نہیں ہوئیں۔

(نور الابصار، ص۷۳)

بہر حال ہم یہاں چند فضائل کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اگرچہ آپ کے فضائل سورج کی طرح روشن ہیں اور کسی سے مخفی نہیں ہیں:

ابن عسا کر،ام سلمہ سے روایات کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

"علیِ مع الحق والحق مع علیِ ولن يفتر قا حتیٰ يردا علیِ الحوض”

"علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں حوض پر میرے پاس پہنچیں گے اورایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے” ۔

(مختصر تاریخ دمشق ج ۱۸ ص۴۵)

شیخ مفید اعلی اللہ مقامہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر جانے لگے توحضرت علی علیہ السلام نے عرض کی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منافقین گمان کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ دیا ہے، اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

میرے بھائی آپ علیہ السلام واپس جائےے کیونکہ میرے اور آپ کے بغیر مدینہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، آپ علیہ السلام میری موجودگی اور عدم موجودگی میں میری امت کے خلیفہ ہیں کیا آ پ علیہ السلام اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپ علیہ السلام کی مجھ سے وہی نسبت ہوجو ہارون علیہ السلام کوموسیٰ علیہ السلام سے تھی بس اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ۔

(ارشاد ‘ج۱‘ص۱۵۶‘اس طرح مناقب خوارزمی ص۱۳۳‘ابن اثیر کی تاریخ کامل ج۲ص۲۷۸’مجمع الزوائد الھیثمی ‘ج ۹ ص ۹ ۰ ۱)

حدیث دار

جب یہ آیت نازل ہوئی

وانذر عشیر تک الاقربین“

” یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرو (ڈراؤ)”

تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے بنی عبد المطلب اللہ تعالی نے مجھے پوری مخلوق کے لئے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے میں تمہیں دوکلموں کی طرف دعوت دیتا ہوں جنہیں زبان پر لانا آسان ہے جب کہ وہ میزان میں بہت بھاری ہیں ان کی وجہ سے تم عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے اور امتیں تمہاری مطیع ہو جائیں گی اور ان کی وجہ سے تم جنت میں داخل کےے جاؤ گے اور تمہیں جہنم کی آگ سے چھٹکارا ملے گا اور وہ دو کلمے یہ ہیں ۔

"هادة الا اله الا الله واٴنی رسول الله،فمن یجیبني إلیٰ هذا الامر و یؤازرني علیه و علیٰ القیام به یکن اٴخي ووصیي ووزیري ووارثي وخلیفتي من بعدي

"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور جو شخص اس کام میں میری دعوت قبول کریگا اوراس کی تبلیغ میں مدد کرے گا وہ میرابھائی، وصی،وزےر ،وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہو گا”۔

ان میں سے کسی نے جواب نہ دیا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

” میں ان لوگوں کے سامنے کھڑا ہواگرچہ میں اس وقت سن میں سب سے چھو ٹا تھا”۔

اورمیں نے کہا:

اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کا ساتھ دونگا۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بٹھا دیا اور اپنی بات کو تےن مرتبہ دہرایا ہر مرتبہ میں کھڑا ہوا اور کہایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کا ساتھ دونگا تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

"فانت اٴخي ووصیي ووزير ي ووارثي وخلیفتي من بعدي ”

(الارشاد ج ۱ ص ۴۹ تا ۵۰)

"یا علی علیہ السلام آپ میرے بھائی، میرے بعد میرے وصی ،وزیر اوروارث ہیں اور میرے خلیفہ ہیں”۔

جنگ خندق میں جب حضرت علی علیہ السلام نے عمر ابن عبد ود کو فی النار کیا تو اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کا عمر وبن عبدود سے جنگ کرنا میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے افضل و بہترہے۔

(بعض روایات میں ”علی علیہ السلام کی ایک ضربت “آیا ہے

(مترجم، مستدرک الصحیحین ج۲،ص۳)

حدیث الرایہ

خیبر میں جب یہودیوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے بھاگنے والے بھاگے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

"لاٴُعطینَّ الرایه غداً رجلاً یحبه اللّهُ و رسوله ویحبُ الله و رسوله‘ کرار غیر فرار لايرجع حتٰی يفتح الله علیٰ يدیهِ”

"کل میں علم اس شخص کودو ںگا جس سے اللہ تبارک و تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالی اور رسول کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ کرار ہوگا، غیر فرارہو گا ،اوروہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک اللہ تبارک و تعالی اس کے ہاتھوں فتح نصیب نہ فرمائے” ۔

(ارشاد شیخ مفید ج۱ ص۶۴ ، اسی طرح صحیح بخاری کتاب جہاد والسیر فی باب افضل من اسلم علی ےیدہ رجل)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"اے انس اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والا شخص مومنین کا امیر، مسلمانوں کا سردار ،قائد الغر المحجلین اور خاتم الاوصیا ہے”۔

انس کہتے ہیں:

میں نے دعا مانگی اے اللہ اس شخص کو انصار سے قرار دینا لیکن اسی وقت حضرت علی علیہ السلام تشریف لے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"اے انس یہ وہی شخصیت ہیں ۔میں نے کھاکہ آپ کی مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں”۔

حضرت نے فرمایا:

ہاں ۔

"پھر میں خوشی خوشی کھڑا ہوا اور آپ کے چہرے پر موجود پسےنے کے قطرات کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا اوراپنے ہاتھوں کو اپنے چھرے پر پھیرا”۔

(حلیة الاولےا ج۱ ص۶۳ ارشاد مفید ج۱ص۴۶ اور مجمع الزوائدجلد :۹ص۱۲۱)

حدیث غدیر

حضرت علی علیہ السلام نے غدیر خم میں موجود لوگوں سے حدیث غدیر کے بارے میںاقرار لینا چاھاتو فرمایا کون ہے جو حدیث غدیر کی گواھی (خدا اس کی کمک کرے) توتیرہ افراد نے کھڑے ہو کر گواھی دی ۔بے شک ہم نے بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ حدیث سنی تھی جس میں آنحضرت نے فرما یا تھا:

"الست اولیٰ بالمومنین من اٴنفسهم قا لوا بلیٰ یا رسول اللّه”

"کیا میں مومنین کے نفسوں(جان) پر ان سے زیا دہ تصرف کا حق نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا: کہ آپ زیادہ حق رکھتے ہیں”۔

آپ نے حضرت علی علیہ السلام کابازوبلند کر کے فرمایا:

من کنتُ مولاه فهذا مولاهُ اللهم وال من ولاه وعاد من عاداه واٴحب من اٴحبه واٴبغض من اٴبغضه وانصر من نصره واخذل من خذله “

"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی علیہ السلام مولا ہیں،اے اللہ جو اس سے محبت رکہے توبھی اس سے محبت رکھ جو اس سے دشمنی رکہے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے بغض رکہے تو بھی اس سے بغض رکھ اور جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد فرما جو اسے رسوا کرے توبھی اسے ذلیل کر”۔

(مجمع الزوائد ج۹ ص۱۰۵ ،انھی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ میں ابن عساکر نے اسے مختصرتاریخ دمشق ج ۱۷ ص۳۳۴ پر ذکر کیا ہے اور شیخ مفید نے ارشاد ج۱ ص ۱۷۶ ،پر ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ ج۷ص۳۲۸ ،اور اس کے علاو ہ دوسری اہم تاریخی کتب نے مختلف الفاظ میں اس واقعات کو بیان کیا ہے)

حدیث مواخاة :

انس اور عمر کہتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے درمیا ن مواخاة کے دن حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

"اٴنت اٴخي في الدنیا والآخرة

"آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں”۔

(البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج۷ ص۳۱۸ اور ابن عبدالبر نے بھی استعاب میں بےان کیا ہے)

حدیث طائر :

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشہور رحدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

” پروردگار! تیری مخلوق میں جو تجہے سب سے زیادہ محبوب ہے اسے میرے پاس بہےج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کوتناول کرے چنانچہ اس وقت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے”۔

(ارشاد شیخ مفید ج ۱ ص۳۸)

حدیث سد الابواب :

زید بن ارقم کہتے ہیں۔ کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے نام سے مسجد میں چند دروازے کھلتے تھے ایک دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

باب علی علیہ السلام کے علاوہ تمام دروازے بند کر دےے جائیں راوی کہتا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں نے چہ میگویئاں شروع کر دیں،انہیں سن کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوکر خطبہ دینے لگے اور خدا کی حمد کے بعد فرمایا:

"امابعد فاٴني اٴمرت بسد هذه الابواب الا باب علي وقال فیه قا ئلکم وانيوالله ما سددت شيئا ولا فتحته ولکنی امرت بشيء فاتبعته”

"میں نے باب علی علیہ السلام کے علاوہ تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا ہے”۔

اورچہ میگوئیاں کرنے والوں سے فرمایا :

"خدا کی قسم میں نے اپنی مرضی سے کسی چیز (دروازے) کے بند کرنے یا کھولنے کاحکم نہیں دیا ہے بلکہ مجھے جس چیز کا حکم دیاگیا ہے میں نے اس کی پیروی کی ہے”۔

(مجمع الزوائد ج ۹ س۱۱۴)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"لا يحل لاٴحد اٴن يُجنب في هذا المسجد إلا اٴنا وعلي

"میرے اور علی علیہ السلام کے علاوہ کسی مجنب کے لئے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہو”۔

(صواعق محرقہ ابن حجر ص۱۲۲ اور مجمع الزوائد ج ۹ ص۱۱۰)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

"اٴنا و هذا يعني علیا حجة علیٰ اٴمتي یوم القیامه

"میں اور حضرت علی علیہ السلام قیامت تک اپنی امت کے لئے حجت ہیں”۔

(کنز العمال ج۶ س۱۵۷)

علامہ شرف الدین اپنی کتاب مراجعات میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح حجت خدا ہیں کیونکہ آپ ہی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں ان کے ولی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہیں۔

(مراجعات علامہ شرف الدین موسوی ص۱۷۸)

( علي علیہ السلام صراط اللہ المستقیم سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button