عقائد کا مطالعہ

رجعت ایک عالمگیر عقیدہ

رجعت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے وقت بعض فوت شدہ انسانوں کے زندہ ہونے کو کہا جاتا ہے۔ رجعت شیعہ عقائد میں سے ہے اور اس کے اثبات کے لئے مختلف آیات و روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کے مطابق رجعت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے ساتھ رونما ہونگے لیکن اس کی کیفیت اور رجعت کرنے والوں کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔
رجعت کے لغوی معنی
لفظ "رجعت” مصدر ہے جو مادہ "ر ـ ج ـ ع” سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی بازگشت (= لوٹنے اور پلٹنے) کے ہیں۔
المعجم الوسیط، ذیل ماده رجع
اس اعتقادی اصول کے لئے آیات قرآن اور احادیث میں مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے: "رجعت”، "کرّۃ”، "ردّ” اور "حشر”؛ تاہم لفظ "رجعت” زیادہ مشہور ہے۔ لفظ "مصدر مَرَہ” ہے اور اس کے معنی ایک بار پلٹنے اور واپسی کے ہیں؛ جیسا کہ لسان عرب میں آیا ہے کہ رجعت مصدرِ مرہ ہے اور مادہ "رجوع” سے مشتق ہے۔فیومی کہتا ہے: رجعت بفتح عین رجوع کرنے اور لوٹ آنے آنے کے ہیں اور جو رجعت پر یقین رکھتا ہے وہ دنیا میں پلٹ آنے پر ایمان رکھتا ہے۔
(لسان العرب ج8، ص114، فیومی، مصباح المنیر، ص84)
اصطلاحی معنی
اصطلاح میں رجعت کے معنی یہ ہیں خداوند متعال ظہور امام مہدی علیہ السلام کے وقت آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعض شیعوں کو زندہ کرے گا اور دنیا میں پلٹا دے گا تا کہ آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کی مدد کریں اور آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کا مشاہدہ کرنے کی سعادت پائیں۔ نیز آپ عجل اللہ فرجہ الشریف کے بعض دشمنوں کو پلٹا دے گا تا کہ دنیا کا عذاب چکھ لیں اور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی طاقت و شوکت کو دیکھ لیں اور جان لیں۔(مجمع البیان، ج7، ص406)
رجعت شیعہ عقائد میں
رجعت مسلمہ اور ناقابل شیعہ اعتقادات میں سے ہے۔ سید مرتضی اس سلسلے میں کہتے ہیں: "شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے زمانے میں مؤمنین کی ایک جماعت کو محشور کرے گا تا کہ حکومت حقہ کے ظہور سے بہرہ ور اور فیضیاب ہوں اور امام عجل اللہ فرجہ الشریف کی مدد کے عوض جزا اور ثواب پائیں اور دشمنوں کی ایک جماعت کو بھی پلٹا دے گا تا کہ ان سے انتقام لیا جائے”۔
(رسائل سید المرتضی، ج1 ص125)
علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: غیر شیعہ فرقے عامۃ المسلمین اگرچہ ظہور مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے سلسلے میں احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کرچکے ہیں لیکن وہ مسئلۂ رجعت کے منکر ہوئے ہیں اور اس کو شیعہ اعتقادی خصوصیات کا جزو سمجھے ہوئے ہوئے۔
(المیزان، ج2، ص106)
رجعت دیگر ادیان میں
عہد عتیق میں رجعت کے موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ حزقیال نے بنی اسرائیل کے زندہ ہوجانے اور آخر الزمان میں داؤد علیہ السلام کی حکومت کی طرف اشارہ کیا ہے اور دانیال نے بھی کہا ہے: آخر الزمان میں وہ جو مٹی میں سو چکے ہیں جاگ اٹھیں گے۔
(عہد عتیق 37: 21-27، 12: 1-3)
عہد جدید میں بھی قیامت ثانیہ سے پہلے، مسیح کی حکومت اور ان کے آباء و اجداد کے زندہ ہوجانے کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔
(مکاشفہ یوحنا 20: 4-6)
رجعت کی اسناد متواتر ہیں
رجعت کے بارے میں احادیث و اسناد اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر قسم کے شک و شبہ کی نفی ہو جاتی ہے۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں 160 رجعت کے سلسلے می نازل اور وارد ہونے والی آیات و روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
"ان لوگوں کے لئے جو ائمہ علیہم السلام کے کلام پر یقین رکھتے ہیں ـ شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ مسئلۂ رجعت حق ہے، اور اس باب میں ائمہ علیہم السلام سے واردہ روایات متواتر ہیں اور تقریبا 200 روایات وارد ہوئی ہیں جو اس امر پر تصریح کرتی ہیں اور ان روایات کو 40 سے زائد اکابرین علماء اور محدثّین نے 50 سے زائد معتبر کتب میں ثبت و ضبط کیا ہے۔ :جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ صدوق،کلینی رازی،شیخ طوسی،سید مرتضی علم الہدی،احمد بن علی نجاشی،محمد بن عمر کشی،محمد بن مسعود سمرقندی عیاشی،علی بن ابراہیم قمی،شیخ مفید،ابوالفتح کراجکی،محمد بن ابراہیم نعمانی،محمد بن حسن صفار قمی،ابن قولویہ،سید ابن طاؤس،فضل بن حسن طبرسی،ابن شہر آشوب سعید بن ہبۃ اللہ راوندی۔
مجلسی بعدازاں ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مسئلۂ رجعت پر تالیف ہوئی ہیں۔علاوہ ازیں بہت سی زیارات اور دعاؤں میں بھی رجعت کے عقیدے پر تاکید ہوئی ہے جیسے زیارت جامعہ، زیارت وارث، زیارت اربعین، زیارت آل یاسین، زیارت رجبیہ، دعائے وداع اور دعائے عہد۔
(بحارالانوار، ج53، ص96 و 122، مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیره، آل یس و دعائےعہد)
نکتہ: شیعہ رجعت پر یقین و اعتقاد راسخ رکھنے کے باوجود رجعت کے منکرین کو کافر نہیں سمجھتے؛ کیونکہ رجعت مذہب شیعہ کی ضروریات و مسلمات میں سے ہے اور جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے رجعت پر ایمان، ایمان کامل اور حقیقی اسلام کی شروط میں سے ہے۔
(تفسیر نمونہ، ج15، ص593)
رجعت کرنے والے
بعض روایات میں واضح طور پر ان افراد کا تذکرہ آیا ہے جو رجعت کریں گے جیسے:
انبیاء میں سے:
حضرت دانیال علیہ السلام،حضرت یوشع علیہ السلام،حضرت عیسی علیہ السلام،حضرت خضر علیہ السلام اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نیزائمۂ معصومین علیہم السلام
اصحاب میں سے:
سلمان فارسی،مقداد بن اسود،جابر بن عبداللہ انصاری،مالک اشتر نخعی،مفضل بن عمر،حمران بن اعین، اورمیسر بن عبدالعزیز نیز
اصحاب کہف۔(بحارالانوار، ج53، ص61 و 105و108)
رجعت کے قرآنی دلائل
قرآن جو مسلمانوں کے لئے قطعی ترین دلیل اور منبع و ماخذ ہے ـ نہ صرف رجعت کو ایک امر محال نہیں سمجھتا بلکہ اس کو ممکن قرار دیتا ہے اور سابقہ امتوں میں رجعت کے متعدد نمونوں کی طرف کئی آیتوں میں اشارہ کرتا ہے۔ یہ آیات دلالت کے لحاظ سے دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں:
1۔ وہ آیات جو صراحت کے ساتھ رجعت پر دلالت کرتی ہیں جیسے:
الف۔ سورہ نمل آیت 83: اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
"وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ”
” اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر قوم میں سے ایک دستے کو ان میں سے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں تو انہیں تنبیہہ کی جائے گی”۔
معصومین علیہم السلام کی روایات میں رجعت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد ہوا ہے: علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"آیت کے ظواہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ "حشر” قیامت والے حشر سے مختلف ہے کیونکہ قیامت والا حشر امت کے ایک گروہ یا جماعت کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ تمام امتیں اس دن محشور ہونگی حتی کہ ارشاد ہوا ہے کہ
"وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً”
"اور ان سب کو اکٹھا کرکے لائیں گے تو ان میں سے کسی کو چھوڑا نہیں ہو گا۔” اور کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ جبکہ اس آیت کریمہ میں ہے کہ "ہم امت سے ایک جماعت یا ایک فوج اور گروہ کو اٹھائیں گے”۔
وہ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے مزید لکھتے ہیں:
"ہمارے اس مدعا کی دلیل کہ یہ حشر قیامت والے حشر سے مختلف ہے ـ یہ ہے کہ یہ آیت اور بعد کی دو آیتیں "دابۃ الارض” کے برآمد ہونے والی آیت کے بعد آئی ہیں جو خود اس بات کا ثبوت ہے یہ حشر قیامت سے قبل واقع ہوگا۔ قیامت کی داستان بعض کی آیات کریمہ میں بیان ہوئی جہاں فرمایا جاتا ہے:
"وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ”
اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔”
اور پھر اس دن کے واقعات کے اوصاف بیان ہوتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ قیامت کے اصل موضوع کے بیان سے قبل متعلقہ واقعات میں سے ایک کو پیشگی بیان کیا جائے۔ کیونکہ واقعات کے وقوع کی ترتیب تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہر امت میں سے ایک گروہ کا حشر قیامت کے واقعات میں سے ہو تو اس کو نفخ صور کے بعد کی آیات میں بیان کیا جائے۔ لیکن خداوند متعال نے ایسا نہیں کیا بلکہ نفخ صورت سے قبل ہر امت کی ایک فوج کے حشر کا تذکرہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حشر قیامت کے واقعات میں سے نہیں ہے۔
(المیزان، ج15، ص570)
اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں بھی ائمۂ معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں اس آیت کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں رجعت کے وقوع کی محکم دلیل قرار دیا گیا ہے۔
(تفسیر القمی، ج2 ص36، بحارالانوار، ج53، ص51،تفسیر البرہان، ج6، ص36)
ب۔ سوره مؤمن‎ آیت 11: اس آیت میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:
"قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ”
"انہوں نے کہا اے ہمارے مالک! تو نے ہمیں دو دفعہ موت دی اور دو دفعہ زندہ کیا تو ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اب کیا نکلنے کی کوئی صورت ہے؟۔”
(بحار الانوار، ج53، ص56 و 116 و 144)
وہ آیات جو امکان رجعت پر دلالت کرتی ہیں:
قرآن کریم کی بعض آیات ان افراد کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو مرنے کے بعد زندہ ہوئے ہیں اور ان سے نہ صرف رجعت کا اثبات ہوتا ہے بلکہ قیامت کے امکان کی گواہی بھی ملتی ہے۔
(بحار الانوار، ج53، ص142)
سورہ بقرہ آیت 259: اس آیت میں ایک شخص کے 100 سال بعد زندہ ہوجانے کا تذکرہ ہوا ہے:
"أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
سورہ بقرہ آیت 260: اس آیت میں ذبح شدہ پرندوں کے زندہ ہوجانے کی طرف اشارہ ہوا ہے:
"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ”
” اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا : میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، فرمایا: کیا آپ ایمان نہیں رکھتے؟ کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان مل جائے، فرمایا: پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تیزی سے آپ کے پاس چلے آئیں گے اور جان رکھو اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔”۔
سورہ کہف آیت 25: اس آیت میں خداوند متعال اصحاب کہف کی داستان اور 309 سال بعد ان کے زندہ ہوجانے کی داستان بیان فرماتا ہے:
"وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعاً”
” اور وہ لوگ تین سو برس اپنی غار میں رہے اور اس پر نو سال بڑھ گئے "۔
(سورہ بقرہ آیت 56)
"ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ”
"پھر تمہارے مرنے کے بعد تمہیں ہم نے دوبارہ جلا دیا (زندہ کیا) کہ شاید اب تم شکر گزار ثابت ہو جاو”۔
"وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون "
” اور جب کہ تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا پھر تم اس کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور جسے تم چھپا رہے تھے اللہ اس کو ظاہر کرنے والا تھا تو ہم نے کہا اسی گائے کا ٹکڑا اس پر مارو۔ اس طرح اللہ مردوں کو جلاتا ہے۔ اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے شاید اب بھی تم میں عقل آ جائے”۔
( بقرہ آیت 243)
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ”
” کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دی”۔
سورہ آل عمران آیت 49: اس آیت میں خداوند متعال حضرت عیسی علیہ السلام کے زبانی ارشاد فرماتا ہے:
"قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ”
میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے خاص معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ بحکم خدا پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے اور کوڑھے کو شفا دیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں”۔
( مائدہ آیت 110)
"إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي”
"جب عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو عطا کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری تائید کی، تم گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے”۔
رجعت کے دلائل منابع حدیث میں
رجعت ان موضوعات میں سے جس پر ائمۂ شیعہ علیہ السلام نے ایک اعتقادی اصول کے عنوان سے تاکید کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ تم ان ساری سنتوں کا سامنا کرو گے جو سابقہ امتوں میں رائج تھیں، اور جو کچھ ان امتوں میں جاری ہوا ہوا من و عن اس امت میں جاری ہوگا یہاں تک کہ نہ تم ان سنتوں سے انحراف کرو گے اور نہ ہی وہ سنتیں جو بنی اسرائیل میں رائج تھیں تمہیں نظر انداز نہیں کریں گی۔
(تفسیر العیاشی، ج1، ص303 ذیل آیت 19 سورہ انشقاق لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَن طَبَقٍ،تفسیر القمی، ج، 2، ص413 ذیل آیت مذکورہ)
اس حدیث کے مطابق جو کچھ سابقہ امتوں میں وقوع پذیر ہوا ہے اس امت میں بھی وقوع پذیر ہوگا اور ان سنتوں میں سے ایک "مسئلۂ رجعت” اور "مردوں کا زندہ ہوجانا” ہے جو مذکورہ آیات کے مطابق واقع ہوا ہے اور اس سنت کو اس امت میں بھی واقع ہونا ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں رجعت کو ایمان کی شرطوں میں قرار دیا ہے۔نیز امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام نے ایام اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: "ایام اللہ میں مہدی موعود کے ظہور، یوم رجعت اور روز قیامت شامل ہیں۔
(بحارالانوار، ج53، ص122،ایام اللہ کا تذکرہ سورہ ابراہیم کی آیت 5 اور سورہ جاثیہ کی آیت 14 میں ہوا ہے، بحار الانوار، ج53، ص63، ج51، ص50و45)
امام رضا علیہ السلام ایمان میں اہم اور مؤثر عقائد کا ذکر کرتے ہوئے رجعت کو ان عقائد کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور اس کو توحید، نبوت، امامت، معراج اور قبر میں سوال و جواب پر شیعہ عقائد کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔یکی از عقاید مهم و موثر در ایمان را اعتقاد به رجعت ذکر نموده و آن را در راستای اعتقاد به توحید و نبوت و امامت و معراج و سوال قبر قرار داده است۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، ج1، ص218)
نیز مروی ہے کہ مامون عباسی نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:
"یا اباالحسن! آپ رجعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: رجعت حق ہے، اور سابقہ امتوں کو اس کا سامنا پڑا ہے۔ قرآن بھی رجعت پر مہر تصدیق ثبت فرماتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: پس جو پیش آتا ہے اس امت کو وہ پیش آئے گا بغیر کسی کمی اور بیشی کے، وہ سب کچھ جو سابقہ امتوں پر گذرا ہے، اور فرمایا ہے: جب میرے فرزندوں میں سے مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ظہور کرے گا عیسی علیہ السلام آسمان سے آتر آئیں گے اور آن جناب عجل اللہ فرجہ الشریف کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ مامون نے عرض کیا: آخر کار ہوگا کیا؟ فرمایا: حق اہل حق کی طرف پلٹے گا۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، ج1، ص218)
رجعت کے موضوع پر لکھی گئی کتب
شیعہ تعلیمات میں رجعت کا رتبہ بہت نمایاں ہے اور اسی بنا پر شیعہ علماء اور محدثین نے قدیم الایام سے اس موضوع کو خاص توجہ دی ہے اور متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ہے گوکہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ان میں سے بہت سی کتب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ہو چکی ہیں اور ان کا صرف نام کتب رجال اور فہرست میں مذکور ہے۔
( www.ShiaOnlineLibrary.comالرجعة أو العود إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، ص46-47)
آقا بزرگ طہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ میں 30 کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جو مختلف ادوار میں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
(الذریعہ إلی تصانیف الشیعہ، ج1، صص91-95، ج7، ص116، ج10، صص161-163، ج11، ص187)
رجعت کے بارے میں شائع ہونے والی کتابوں میں بعض اہم ترین کتب کے نام بمع تعارف:
الرجعہ، تالیف: میرزا محمد مؤمن بن دوست محمد حسینی استرآبادی (شہید مکہ بسال 1088ہجری قمری)۔ تحقیق: فارس حسّون کریم، طبع دوئم: قم، انوارالهدی، 1417ہجری قمری۔ اس کتاب میں تمام امور میں ائمہ علیہ السلام کی طرف رجوع کرنے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت کے بارے میں مختصر دیباچے کے بعد رجعت کے بارے میں 100 سے زائد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
الایقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعہ، تالیف: شیخ محمد بن حسن حرّ عاملی (متوفی سنہ 1104ہجری قمری)۔ شیخ حر عاملی نے دسوں آیات کریمہ اور 170 سے زائد احادیث کے حوالے دیئے ہیں اور رجعت کے سلسلے میں دیگر دلائل پیش کئے ہیں۔
رجعت، تالیف: محمد باقر مجلسی (متوفی سنہ 1111 ہجری)۔ علامہ مجلسی نے یہ کتاب فارسی میں تالیف کی ہے اور اس میں ظہور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف اور موضوع رجعت کے بارے میں 14 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی رجعت پر مفصل بحث کی ہے اور اس سلسلے میں 200 سے زائد حدیثوں کا حوالہ دیا ہے۔
(بحارالأنوار، ج 53، باب الرجعۃ، ص 39-144)
الشیعۃ والرجعۃ، یہ ایک علمی، تاریخی اور ادبی کتاب ہے جس میں مسئلۂ رجعت پر مفصل بحث و تحقیق ہوئی ہے۔ یہ محمد رضا طبسی نجفی (متوفی سنہ 1405ہجری قمری) کی تالیف ہے جو نجف اشرف کے الطبعۃ الحیدریہ نے سنہ 1375ہجری قمری میں شائع کی ہے۔ اس کتاب میں تمہیدی مباحث کے بعد چند فصلوں کے ضمن میں رجعت قرآن، دعاؤں اور زیارات نیز اجماع فقہاء اور مشاہیر کے کلام کی روشنی میں زیر بحث لائی گئی ہے۔ اس کتاب کی پہلی فصل میں قرآن کریم کی 174 آیات کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں احادیث میں رجعت سے تاویل کیا گیا ہے اور متعلقہ روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔
الشيعة والرجعة حالیہ برسوں میں بھی اس سلسلے میں کتب تالیف ہوئی ہیں جن میں سے ذیل کی چند کتب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
رجعت یا دولت کریمۂ خاندان وحی علیہ السلام ، محمد خادمی شیرازی, تصحیح علی‌اکبر مہدی پور، ط دوئم، قم، مؤلف، 1411ہجری قمری۔
رجعت از دیدگاه عقل، قرآن، حدیث، حسن طارمی، زیر نگرانی آیت اللہ جعفر سبحانی تبریزی، طبع نہم: قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
رجعت یا بازگشت بہ جہان، محمدرضا ضمیری، طبع اول: تہران، موعود، 1378ہجری شمسی۔
بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، خدامراد سلیمیان، چاپ اوّل: قم، بوستان کتاب، 1384ہجری شمسی۔
الرجعۃ أوالعودة إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، اوّل: قم، مرکز الرسال، 1418ہجری قمری۔
(مجلہ موعود، شہریور 1387، شماره 91، رجعت در آثار اسلامی)
https://ur.wikishia.net/view/%D8%B1%D8%AC%D8%B9%D8%AA

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button