قرآنیاتمقالات قرآنی

فضائل قرآن  آیات و روایات کی روشنی میں

شیخ محسن علی نجفی

مقدمہ

"اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم۔”

قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پرسبقت لے جائیں۔ (حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغۃ وصیت ۴۷ ص ۷۳۸

سابقہ  ادوار میں انسان ابھی عہد طفولیت میں تھا، لہٰذا اس کی تربیت و تعلیم کے لیے سمعی و بصری ذرائع سے کام لیا گیا اور انہیں ایسے معجزات دکھائے گئے جو محسوسات و مشاہدات سے متعلق تھے۔ البتہ جب انسان عقل و شعور کے لحاظ سے بلوغت کی منزل کو پہنچ گیا تو اسے محسوس معجزات کی جگہ معقول معجزہ (قرآن) دیا گیا کیونکہ انسان اس قابل ہو گیا تھا کہ اسے ایک جامع ’’ ضابطۂ حیات ‘‘ اور ایک ابدی ’’دستور زندگی ‘‘ کا امین بنایا جائے۔ چنانچہ قرآن جیسا معجزہ عنایت فرما کراللہ تعالیٰ نے اس امّت مرحومہ کو اس قابل بنایا کہ وہ اس سرمدی امانت کی حامل بن جائے۔ اس نعمت الٰہی کی معرفت اور اس کی قدردانی کی واحد صورت یہ ہے کہ کلام اللہ کو حتی الامکان سمجھا اور سمجھایا جائے۔

فضائل قرآن بزبان قرآن:

قرآن مجید سے خود قرآن کی فضلیت سے متعلق چند منتخب آیات پیش خدمت ہے۔

"قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۝ۙ يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝ (۵مائدہ: ۱۵۔۱۶)

بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔

اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا۝ (۱۷ بنی اسرائیل: ۹)

یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مؤمنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝ (۱۰یونس: ۵۷)

اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ قرآن تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مؤمنین کے لیے ہدایت و رحمت بن کر آیا ہے۔

وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ (۲ بقرہ: ۲۳۱)

اور اللہ نے تمہیں جو نعمت عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور (یہ بھی) یاد رکھو کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی۔

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ (۳ آل عمران: ۱۳۸)

یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت و نصیحت ہے۔

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝ (۱۷ بنی اسرائیل ۸۸)

کہدیجیے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل نہیں لا سکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

ھٰذَا بَصَاۗىِٕرُ لِلنَّاسِ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝ (۴۵ جاثیہ: ۲۰)

یہ قرآن لوگوں کے لیے بصیرت افروز اور یقین رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۙ (۱۷ بنی اسرائیل: ۸۲)

اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مؤمنین کے لیے شفا اور رحمت ہے۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ۥۙ ۔۔۔۔۔۔۔ (۱۴ ابراھیم: ۱)

یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔

وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۵۵)

اور یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے نازل کی۔

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ۝ (۱۶ نحل: ۸۹)

اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝۷۷ۙ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (۵۶ واقعہ: ۷۷ تا ۷۹)

یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے، جو ایک محفوظ کتاب میں ہے، جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَۃِ اللہِ (۵۹ حشر: ۲۱)

اگر ہم اس قرآن کوپہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے اللہ کے خوف سے جھک کر پاش پاش ہوتا ضرور دیکھتے۔

فضائل قرآن بزبان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  قرآن مجید کا جامع تعارف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

"ان ھذا القرآن ھو النور المبین و الحبل المتین والعروۃ الوثقی والدرجۃ العلیا و الشفاء الاشفی و الفضیلۃ الکبری والسعادۃ العظمی من استضاء بہ نورہ اللہ و من اعتقد بہ فی امورہ عصمہ اللہ و من تمسک بہ انقذہ اللہ و من لم یفارق احکامہ رفعہ اللہ و من استشفی بہ شفاہ اللہ و من آثرہ علی ما سواہ ھداہ اللہ و من طلب الھدی فی غیرہ اضلہ اللہ و من جعلہ شعارہ و دثارہ اسعدہ اللہ و من جعلہ امامہ الذی یقتدی بہ و معولہ الذی ینتہی الیہ َداہ اللہ الی جنات النعیم و العیش السلیم ۔۔۔ الخ” (تفسیر الاما م العسکری (ع) ص ۴۵۰ بحار الانوار۸۹: ۳۱۔کتاب القرآن(

” بے شک یہ قرآن نمایاں روشنی ہے اور مضبوط رسی ہے اور محکم وسیلہ ہے، بلندترین مرتبہ ہے،نہایت مؤثر شفا ہے اور سب سے بڑی فضیلت ہے اور سب سے بڑی سعادت ہے۔جو اس کے ذریعے روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کرتا ہے۔ جس نے اپنے امور کو اس سے مربوط کیا اللہ نے اسے محفوظ رکھا اور جو اس سے متمسک رہا اللہ نے اسے نجات دی اور جس نے اس کے احکام کو نہ چھوڑا اللہ نے اسے عزت دی اور جس نے قرآن سے شفا طلب کی خدا نے اسے شفا دی اور جس نے قرآن کو دوسری چیزوں پر ترجیح دی خدا نے اسے ہدایت بخشی اور جس نے غیر قرآن سے ہدایت چاہی، اللہ نے اسے گمراہ کیا۔اور جس نے اسے اپنا شعار اور لازمہ قرار دیا اللہ نے اسے سعادت بخشی اور جس نے اسے اپنا وہ امام بنایا، جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اپنی وہ پناہ گاہ بنایا جس کی طرف وہ رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نعمتوں والی جنت اور سکون کی زندگی سے نوازے گا۔”

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

"فضل القرآن علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ۔”

(جامع الاخبار۔ تاج الدین الشعیری ص ۴۰۔ بحار الانوار ۸۹:۱۷ البیان فی تفسیر القرآن، الخوئی ص ۱۸۔ السنن الترمذی ۵:۱۸۴۔ القرآن کی جگہ کلام اللہ ہے۔(

"کلام خدا کو دوسرے کلاموں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر۔”

آپ ؐ نے اس کتاب مقدس کی تلاوت کی فضیلت یوں بیان فرمائی:

(من قرأ حرفا من کتاب اللہ تعالیٰ فلہ حسنۃ و الحسنۃ بعشر امثالھا، لا اقول الٓمٓ حرف ولکن الف حرف لام حرف و میم حرف۔ (السنن الترمذی ۵: ۱۷۵۔ تفسیر القرطبی ۱: ۷)

جو کتاب اللہ کے ایک حرف کی تلاوت کرے، اسے ایک نیکی کا ثواب دیا جائے گا اور ایک نیکی کا دس گنا ثواب ہوتا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔

فضلیت قران بزبان وصی علیہ السلام

مولائے متقیان امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

"ثم انزل علیہ الکتاب نوراً لا تطفأ مصابیحہ وسراجا لا یخبو توقدہ و بحرا لا یدرک قعرہ و منھاجا لا یضل نھجہ و شعاعا لا یظلم ضوئہ و فرقانا لا یخمد برھانہ و تبیانالا تھدم ارکانہ و شفاء لا تخشی اسقامہ و عزا لا تھزم انصارہ و حقا لا تخذل اعوانہ فھو معدن الایمان و بحبوحتہ و ینا بیع العلم وبحورہ و ریاض العدل وغدرانہ و اثا فی الاسلام و بنیانہ و اودیۃ الحق و غیطانہ وبحر لا ینزفہ المستنزفون و عیون لا ینضبھا الماتحون و مناھل لا یغیضھا الواردون ومنازل لا یضل نھجھا المسافرون و اعلام لا یعمی عنھا السائرون و آکام لا یجوز عنھا القاصدون جعلہ اللہ ریّا لعطش العلماء و ربیعا لقلوب الفقھاء و محاجَّ لطرق الصلحاء و دواء لیس بعدہ داء و نوراً لیس معہ ظلمۃ و حبلا وثیقاً عروتہ و معقلا منیعاً ذروتہ وعزاً لمن تولّاہ وسلما لمن دخلہ و ھدی لمن ائتم بہ وعذراً لمن انتحلہ وبرھانا لمن تکلم بہ وشاھدا لمن خاصم بہ وفلجا لمن حاج بہ و حاملا لمن حملہ و مطیۃ لمن اعملہ وآیۃ لمن توسم و جنۃ لمن استلأم وعلما لمن وعی و حدیثا لمن روی وحکما لمن قضی۔” (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۹۶ ص ۵۵۹۔(

"اللہ نے رسول کریم (ص) پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی۔ جو ایسا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں،ایسا چراغ ہے جس کی لو خامو ش نہیں ہوتی،ایسا دریا ہے جس کی تہ تک رسائی نہیں ہو تی،ایسا راستہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی،ایسی کرن ہے جس کی روشنی مدھم نہیں پڑتی،وہ حق و باطل میں ایسا امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی،ایسا کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کیے جا سکتے،وہ سراسر شفا ہے جس کے ہوتے ہوئے (روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں،وہ سراسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتےوہ سراپاحق ہے جس کے معاون بے یار و مددگار نہیں چھوڑے جاتے۔وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے۔یہ علم کے چشموں اور سمندروں سے عبارت ہے۔اس میں عدل کا چمن اور انصاف کا حوض ہےاور اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے۔حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے۔وہ ایسا دریا ہے جس سے پانی بھرنے والے اسے ختم نہیں کر سکتے۔وہ ایسا چشمہ ہے جس سے پانی الچنے والے اسے خشک نہیں کر سکتے۔و ہ ایسا گھاٹ ہے جس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا۔وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہرو بھٹکتا نہیں۔وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والوں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا۔وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ جس کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے۔اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی فقیہوں کے دلوں کے لیے بہار ،اورنیک لوگوں کی رہگذر کے لیے شاہراہ قرار دیا۔یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض باقی نہیں رہتا۔ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں ہے۔ایسی رسی ہے کہ جس کے حلقے مضبوط ہیں۔ایسی چوٹی ہے کہ جس کی پناہ گاہ مضبوط ہے۔جو اس سے وابستہ ہو اس کے لیے سرمایہ عزت ہے۔جو اس کی حدود میں داخل ہو اس کے لیے پیغام صلح و امن ہے۔جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت ہے۔جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کے لیے حجت ہے۔جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان ہے۔جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لیے گواہ ہے۔جو اسے حجت بنا کر پیش کر ے اس کے لیے فتح و کامرانی ہے۔جو اس کا باراٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے۔جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے وسیلہ راہ ہے۔یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے۔جو سلاح بند ہو اس کے لیے سپر ہے۔جو فہم رکھتا ہے اس کے لیے علم و دانش ہے۔بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام ہے اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم ہے۔

فضائل قرآن بزبان حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا

قرآن مجید کی فضیلت بیان کرتے ہوئے جناب فاطمۃ الزھراء ؑ ارشاد فرماتی ہیں۔

"زعیم حق لہ فیکم ، و عھد قدمہ الیکم، و بقیۃ استخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق، و القران الصادق، و النور الساطع و الضیاء اللامح، بینۃ بصائرہ منکشفۃ سرائرہ، منجلیۃ ظواہرہ، مغتبطۃ بہ اشیاعہ ، قائد الی الرضوان اتباعہ مؤد الی النجاۃ استماعہ، بہ تنال حجج اللّٰہ المنورۃ، و عزائمہ المفسرۃ، و محارمہ المحذرۃ، و بیناتہ الجالیۃ، و براھینہ الکافیہ ، و فضائلہ المندوبۃ ، و رخصہ الموھوبۃ و شرائعہ المکتوبۃ ۔۔ "(الاحتجاج للطبرسی ۱: ۹۹)

” یہ قرآن تمہارے درمیان حق کا پاسدار ہے۔ اللہ کا وہ عہد ہے جو تمہارے لیے پیش کیا گیاہے۔ وہ جانشین ہے جو تمہارے لیے پیچھے چھوڑا گیا ہے۔ اللہ کی ناطق کتاب اور سچا قرآن ہے۔ چمکتا نور ، روشن چراغ ہے۔ اس کی بصیرتیں واضح، اس کے اسرار قابل انکشاف، اس کے ظواہر واضح، اس کے پیروکار قابل رشک ہیں۔ اس کی اتباع کرنے والوں کو رضائے حق کی طرف رہنمائی کرنے والا، اس کے سننے والوں کو نجات تک پہنچانے والا، اس سے اللہ کے نورانی دلائل اور اس کے واجب العمل احکام، قابل اجتناب محرمات، واضح دلائل، مکمل براہین، مطلوبہ فضائل، قابل اجازت اعمال اور واجب العمل شریعت تک رسائی ممکن ہے۔”

فضائل قرآن در نہج البلاغہ

نہج البلاغہ میں قرآن مجید کے فضائل اور اس کی قدر و معرفت کے بارے میں انمول خزانے موجود ہیں۔

قرآن میں اللہ کی تجلی

۔۔فتجلی لھم سبحانہ فی کتابہ من غیر ان یکونوا رأوہ بما اراھم من قدرتہ و خوفہم من سطوتہ (نہج البلاغۃ خطبہ ۱۴۵ ص ۳۸۷)

"اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب (قرآن) میں جلوہ فرمایا تو لوگوں نے اسے دیکھا نہیں مگر قدرت کی ان نشانیوں کے ذریعے، جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائیں۔۔۔۔۔”

مستقبل کے علوم

۔۔۔۔ آلا ان فیہ علم مایأتی و الحدیث عن الماضی و دواء دائکم و نظم ما بینکم۔ ) حوالہ سابق خطبہ ۱۵۶ ص ۴۱۵(

"اس (قرآن) میں آئندہ کی معلومات گزشتہ کے واقعات،تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔) انتہائی قابل توجہ بات ہے کہ مستقبل کے لیے ’’ علم ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا اور ماضی کے لیے ’’واقعات‘‘ کا۔(”

جامع ضابطہ حیات

"و اعلموا انہ لیس علی احد بعد القراٰن من فاقۃ و لا لاحد قبل القران من غنی ۔”

"جان لو کہ کسی کو قرآن کے بعد کسی اور لائحہ عمل کی احتیاج باقی نہیں رہتی اور نہ قرآن کے بغیر کسی کی احتیاج پوری ہو سکتی ہے۔)حوالہ سابق خطبہ ۱۷۴ ص ۴۶۱(”

تعلیم قرآن

"تعلموا القران، فانہ احسن الحدیث و تفقہوا فیہ فانہ ربیع القلوب و استشفعوا بنورہ فانہ شفاء الصدور و احسنوا تلاوتہ فانہ انفع القصص۔”

"قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ وہ سینوں میں چھپی ہوئی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور اس کی بہتر تلاوت کرو۔ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ مند ہیں۔”) حوالہ سابق خطبہ۱۰۸ ص ۳۸۹۔(

شفاعت

"و اعلموا انہ شافع مشفع و قائل مصدق و انہ من شفع لہ القران یوم القیامۃ شفع فیہ۔”

"جان لو کہ قرآن مقبول شفاعت اور تصدیق شدہ کلام کرنے والا ہے۔ قیامت کے روز جس کی قرآن شفاعت کرے گا وہ اس کے حق میں مانی جائے گی۔”) حوالہ سابق خطبہ ۱۷۴ ص ۴۶۱ (

زاد آخرت

"فانہ مناد ینادی یوم القیامۃ الا ان کل حارث مبتلی فی حرثہ و عاقبۃ عملہ، غیر حرثۃ القران، فکونوا من حر ثتہ و اتباعہ۔”

"قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا: دیکھو ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجے میں مبتلا ہے سوائے قرآن کی کھیتی بونے والوں کے۔ لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیروکار بنو۔)حوالہ سابق ص ۴۶۲ (

بے مانند نصیحت

"و ان اللّٰہ سبحانہ لم یعظ احداً بمثل ھذا القران فانہ حبل اللّٰہ المتین و سببہ الامین و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقلب جلاء غیرہ "۔ ( حوالہ سابق ص ۴۶۴)

اللہ سبحانہ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں فرمائی جو اس قرآن کی مانند ہو۔ کیونکہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اورمطمئن وسیلہ ہے اور اس میں دلوں کی بہار اور علوم کے چشمے ہیں اور صرف اس سے قلب کی جلا ہوتی ہے۔

عہد و پیمان قرآن

"و لن تأخذوا بمیثاق الکتاب حتی تعرفوا الذی نقضہ۔۔۔ فالتمسوا ذلک من عند اھلہ ۔” ( حوالہ سابق خطبہ ۱۴۵ ص۳۹۸)

تم قرآن کے عہد و پیمان کے ہرگز پابندہ نہ رہ سکو گے جب تک اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو۔ جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو۔

عمل بالقرآن میں اغیار کی سبقت

اللّٰہ اللّٰہ فی القران لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم۔ حوالہ سابق، وصیت ۴۷ ص ۷۳۸)

قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کہیں دوسرے لوگ اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت نہ لے جائیں۔

ذریعۂ نجات

و علیکم بکتاب اللّٰہ فانہ الحبل المتین و النور المبین و الشفاء النافع و الرّیّ الناقع و العصمۃ للمتمسّک و النجاۃ للمتعلق (حوالہ سابق خطبہ ۱۵۴ ص ۴۰۹۔ حال اہل القبور فی القیامۃ)

تم کتاب خدا پر عمل کرو۔ وہ ایک مضبوط رسی، روشن نور، نفع بخش شفا، پیاس بجھانے والی سیرابی ہے۔ تمسک کرنے والے کے لیے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کے لیے نجات ہے۔

قرآن اور اہل قرآن کے ساتھ سلوک

یاتی علی الناس زمان لا یبقی فیھم من القران الا رسمہ و لیس عند اھل ذلک الزمان سلعۃ ابور من الکتاب اذا تلی حق تلاوتہ و لا انفق منہ اذا حرّف عن مواضعہ۔۔۔ فالکتاب یومئذ و اھلہ منفیان طریدان و صاحبان مصطحبان فی طریق واحد لا یؤویہمامؤو فالکتاب و اھلہ فی ذلک الزمان فی الناس و لیسا فیہم و معہم و لیسا معھم، لان الضلالۃ لا توافق الھدیٰ و ان اجتمعا فاجتمع القوم علی الفرقۃ و افترقوا الجماعۃ کانہم ائمۃ الکتاب و لیس الکتاب امامہم (حوالہ سابق۔کلمات قصار ۳۶۹ ص ۹۲۴)

لوگوں پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جب ان میں قرآن کے صرف نقوش باقی رہ جائیں گے۔اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہو گی جب اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ قیمتی چیز نہیں ہو گی جب کہ اس کی آیتوں کی تحریف کی جائے۔ قرآن اور قرآن والے اس وقت راندہ ہوں گے۔ ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے، انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہو گا۔۲ (حوالہ سابق خطبہ ۱۴۵ ص ۳۳۸)وہ بظاہر لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ، ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق۔ اس لیے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں۔ لوگوں نے تفرقہ پردازی پر اتفاق کیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں گویا وہ قرآن کے پیشوا ہیں اور قرآن ان کا پیشوا نہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button