قرآنیاتمکتوبات

قرآن میں آزادی کا تصور

از: شہید رابع سید محمد باقر الصدر (رضوان اللہ تعالی علیہ)
ترجمہ: مرحوم مولانااسد علی شجاعتی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قُلْ یَأَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلیَ کَلِمَۃٍ سَوَاء ِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکمُْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّہَ وَ لَا نُشرِْکَ بِہِ شَیًْا وَ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُون۔(سورہ آل عمران: آیت نمبر 64)
”(اے رسولؐ) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکسان ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے“
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاء ِ وَ الْبَنِینَ وَ الْقَنَاطِیرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الْفِضَّۃِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَ الْأَنْعَمِ وَ الْحَرْثِ ذَالِکَ مَتَعُ الْحَیَوۃِ الدُّنْیَا وَ اللَّہُ عِندَہُ حُسْنُ االمابَْ٭قُلْ أَ ؤُنَبِّئکمُ بِخَیرٍْ مِّن ذَالِکُمْ لِلَّذِینَ اتَّقَوْاْ عِندَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تحَتِہَا الْأَنْہَرُ خَلِدِینَ فِیہَا وَ أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللَّہِ وَ اللَّہُ بَصِیرُ بِالْعِبَاد۔(سورہ آل عمران: آیت؛ 14,15)
”(دنیا میں) لوگوں کو ان کی مرغوب چیزیں (مثلاً) بیویوں، بیٹوں، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیروں، عمدہ عمدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتی کے ساتھ الفت بھلی کر کے دکھادی گئی ہے۔ یہ سب دنیاوی زندگی کے (چند روزہ) فائدے ہیں۔ اور (ہمیشہ کا) اچھا ٹھکانا تو خدا ہی کے ہاں ہے۔ (اے رسولؐ) ان لوگوں سے کہو کہ کیا میں تم کو ان سب چیزوں سے بہتر چیز بتادوں (اچھا سنو) جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں بہشت کے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (اور وہ) ہمیشہ اس میں رہیں گے اور اس کے علاوہ ان کے لئے صاف ستھری بیویاں ہیں اور (سب سے بڑھ کر تو) خدا کی خوشنودی ہے، اور خدا اپنے بندوں کو (خوب) دیکھ رہا ہے۔“
وَ سَخَّرَ لَکمُ مَّا فیِ السَّمَاوَاتِ وَ مَا فیِ الْأَرْضِ جَمِیعًا مِّنْہُ إِنَّ فیِ ذَالِکَ لاََیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون(سورہ جاثیہ: آیت؛13)
”اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیےیقینا اس میں نشانیاں ہیں.
ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فیِ الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلیَ السَّمَاء ِ فَسَوَّۂُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَ ہُوَ بِکلُِّ شیَْء ٍ عَلِیم(سورہ بقرہ: آیت نمبر 29)
”وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے .
لَا إِکْرَاہَ فیِ الدِّینِ قَد تَّبَینََ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَن یَکْفُرْ بِالطَّغُوتِ وَ یُؤْمِن بِاللَّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَی لَا انفِصَامَ لَہَا وَ اللَّہُ سمَِیعٌ عَلِیم(سورہ بقرہ: آیت نمبر 256)
”دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت، گمراہی سے (الگ) ظاہر ہوچکی…….۔“
آزادی ایک ایسا مفہوم ہے جس سے تمام انسان مانوس ہیں۔اور آزادی سے انسان کی یہ انسیت اور دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ آزادی سے یہ لگاؤ، سرمایہ داری یا سوشلزم کے جدید طرز فکر کا بھی نتیجہ نہیں ہے۔بلکہ انسان کی فطرت میں آزادی سے محبت موجود ہے، اور تاریخ کے ہر دور میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
انسان کی کہانی ہی آزاد رہنے اور خود کو آزاد کروانے کی جنگ معلوم ہوتی ہے۔ البتہ اس جنگ کے طریقہ اور مقاصد میں طرز فکر کے اختلاف کی وجہ سے فرق پایا گیا ہے۔ حتی کہ آزادی کے سلسلے میں بعض نظریات، انسان کو غلامی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں!
آزادی سے اس لگاؤ کی وجہ انسان میں فطری طور پر موجود ہے۔ جسم اور روح کا مجموعہ یہ انسان ”ارادے“کابھی مالک ہوتا ہے۔ اور اسی ارادے کی وجہ سے وہ آزادی کو پسند کرتا ہے اور اس کا طلب گار ہوتا ہے۔
انسان جس طرح اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیں، اسی طرح فطرتاً وہ اپنے ارادے پر پابندی بھی ناپسند کرتا ہے۔ البتہ انسان شروع سے اس بات کو تسلیم کرتا چلا آرہا ہے کہ ایک منظم معاشرے میں زندگی گزارنے والے عام انسان کو مکمل اور بے لگام قسم کی آزادی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ معاشرے میں ہر فرد کی مکمل آزادی یا بے لگا می سے دوسرے افراد کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
انسان کو اس کی آزادی کا حصہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کہ ہر ایک انسان دوسرے کی آزادی میں دخل دینے سے پرہیز کرے۔ اس کے لئے اسے اپنی آزادی کو کچھ محدود کر دینا پڑتا ہے، اور اس طرح سے معاشرے میں کچھ ایسے قوانین فروغ پاجاتے ہیں جن سے معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہوجاتا ہے۔
یہاں پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکمل آزادی، محض ایک خیالِ خام ہے۔اورانسان نے جب سے معاشرتی زندگی شروع کی ہے، اسے ایک اہم بات معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جتنی آزادی وہ خود اپنے لئے چاہتا ہے، اتنی ہی آزادی کا حق ہر فرد کے لئے محفوظ رہناچاہئے۔ اور دوسروں کی آزادی کے تحفظ کے لئے اپنی آزادی کو کچھ کم کرنا پڑتا ہے۔
جدید مغربی طرز فکر نے آزادی کی ایسی حدیں مقرر کرنے کی کوشش کی ہے جن میں رہ کر معاشرے کے ہر فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی ملے اور اس کی آزادی دوسروں کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ دوسرے الفاظ میں ہر فرد کی آزادی کی حد جہاں ختم ہو وہیں سے دیگر افراد کی آزادی کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی طرز فکر نے ہر شرابی پر یہ پابندی لگادی کہ وہ اتنی زیادہ شراب نہ پئے کہ دوسروں کے لئے پریشانی کا باعث ہو۔ مغربی طرز فکر نے ہرشرابی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اس حد کے اندر رہتے ہوئے جتنی چاہے شراب پی لے اور اپنا جو چاہے حال بنالے۔ اپنی ذات کی حد تک اس کو آزادی حاصل ہے بشرطیکہ دوسروں کی آزادی کے لئے وہ کسی طرح خطرہ نہ بنتا ہو۔
لیکن اتنی آزادی نے بھی انسانیت کو نشے میں مدہوش کردیا۔ انسانیت ایسی آزادی کے سائے میں غفلت کی نیند سو گئی۔ ایسا لگنے لگا جیسے انسانیت نے تمام حدیں توڑ دی ہوں۔ اور یہ حال ہوگیا کہ ہر شخص کو دن کی روشنی میں بغیر کسی خوف اور خدشے کے جو چاہے کرنے کی اجازت مل گئی ہو۔
البتہ غفلت کی میٹھی نیند زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔ انسانیت نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور ہوش میں آنا شروع کیالیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس نے ہوش میں آکر دیکھا کہ وہ ایک کنویں میں پڑی ہوئی ہے۔ نہ اوپر جا سکتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔
کسی نے آواز لگائی کہ ہاں، اتنی پابندیوں کے باجود یہ کنواں، آزادی کا کنواں ہے!
بے لگام آزادی کے نتیجے میں کنویں کی یہ چہار دیواری نصیب ہوئی اور انسانیت پر اتنی زیادہ پابندیاں عائد ہوگئیں
آخر کار ایسا کیوں ہوا؟
آخر کار اس تلخ حقیقت اور اتنی شدید پابندیوں کا حل کیا ہے؟
ان تمام باتوں کا جواب اور حل اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی پیش کردیا تھا۔ اسلام نے انسان کی سطحی اور ظاہری آزادی کو کافی نہیں سمجھا۔
مغربی انسان نے زندگی میں جو جدید تجربے کئے تھے، ان کے نتیجے میں وہ آزادی سے دور ہوگیا تھا گویا آزادی کے نام پر پابندیوں اور قید و بند میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اسلام نے انسان کو آزادی کی ایک تحریک بنا کردی۔ لیکن یہ تحریک صرف ظاہری آزادی کو نہیں دیکھتی بلکہ یہ تحریک آزادی کو اس کی بنیادوں سمیت حاصل کرنا سکھاتی ہے۔ اور اسی طرح انسان کو اعلیٰ درجہ کی آزادی مل سکتی ہے۔
مغربی طرز فکر آزادی کے نعرے سے شروع ہوا اور آخر کار مختلف قسم کی غلامیوں اور پابندیوں کا شکار ہوگیا۔ لیکن اسلام نے انسان کو جو آزادی عطا کی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
اسلام میں آزادی اللہ کی غلامی اور بندگی سے شروع ہوئی ہے اور نا مناسب پابندیوں سے رہائی پر ختم ہوتی ہے۔
"تم ایسی ٹھکانے کی بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں، اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے۔”
آپ نے دیکھا کہ قرآن، انسان کو صرف خدائے واحد کی غلامی کا درس دیتا ہے، اور اس کے علاوہ ہر قسم کی غلامیوں سے انسان کو آزاد قرار دیتا ہے!!
آپ نے دیکھا کہ اسلام، انسان کا تعلق اس کے مالک اور پروردگار سے ایسا بنادیتا ہے کہ اسے کسی اور کی غلامی کا طوق اپنی گردن پر برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں ہے، اور نہ ہی کائنات کی کسی دوسری چیز کی غلامی کے لئے وہ بنایا گیا ہے۔
اسلام، انسان کو بنیادی طور پر آزاد بتاتا ہے۔ اس کو حقیقی معنوں میں آزاد قرار دیتا ہے۔
البتہ انسانیت کی کچھ حدیں بھی اسلام مقرر کرتا ہے، اس کے لئے انسان کو سب سے پہلے اپنی نفسانی خواہشوں اور شہوتوں کی غلامی سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اور اس آزادی کے لئے ضروری ہے کہ نفسانی خواہشات کو محدود کردیا جائے۔ انسان کا ارادہ ان خواہشات کو قابو میں رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ خواہشات کے زور میں انسان کا ارادہ بے بس ہوجائے۔ اور انسان ان خواہشات کو کسی طرح محدود نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا ہونے لگے تو انسان خواہشات کا غلام بن کر رہ جائے گا اور اس کی آزادی سلب ہوجائے گی۔
انسان جب شہوتوں کا غلام بن جاتا ہے تو اس کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس میں اور درندوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ انسان کی آزادی اور درندوں کی آزادی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اپنی عقل سے کام لے کر شہوتوں اور خواہشوں کو رام کر سکتا ہے، ان کو ایک حد میں محدود کر سکتا ہے۔ لیکن درندہ ہمیشہ اپنی شہوتوں کے آگے رام ہوجاتا ہے، وہ خود کو اپنی خواہشات کی غلامی سے آزاد نہیں کر سکتا۔ انسان کے پاس عقل اور ارادے کی ایسی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ شہوتوں کو حد سے بڑھنے نہیں دیتا۔ انسان شہوتوں کی غلامی سے آزاد رہتا ہے۔ اور انسان اسی صلاحیت کی وجہ سے انسان کہلانے کا مستحق ہے۔
جدید مغربی طرز فکر نے انسان کو اس کی خواہشوں کا غلام بنادیا ہے۔ ان شہوتوں کی پیروی کے نتیجے میں انسان کے اندر چھپا ہوا درندہ بے قابو ہوگیا ہے، اور مغربی انسان اس کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ یوں انسان کے ارادے کی طاقت غالب نہیں رہی، مغلوب ہوگئی ہے، حاکم نہیں رہی محکوم ہوگئی ہے۔ لیکن اگر ارادے کی اس طاقت کو انسان میں تقویت دی جائے تو انسان واقعی انسان بن جاتا ہے، درندہ یا محض حیوان نہیں رہتا۔ حیوان کا سب سے بڑا مقصد اپنی نیچ اور پست شہوتوں اور مادی لذتوں کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن انسان کا مقصد یہیں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے گزر کر وہ آگے بڑھتا ہے۔ وہ شہوتوں کا غلام بن کر نہیں رہ جاتا بلکہ وہ ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے ارادے کی طاقت سے ان شہوتوں کو اپنے ارادے اور اپنی عقل کا تابع بنا لیتا ہے۔
آزاد انسان میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ صرف ”ہاں“کہنےکی صورت میں شہوتوں کو محدود حد میں آگے بڑھنے کا راستہ ملتا ہے، اور جب انسان ”نہیں“ کہہ دے تو شہوتوں میں اتنا دم نہیں رہتا کہ وہ اس کی نافرمانی کر کے آگے بڑھ سکیں اور اس کا منہ بند کر سکیں۔
اور قرآن نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ہے کہ:
”لوگوں کو ان کی مرغوب چیزیں مثلاً بیویوں، بیٹوں، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیروں، عمدہ عمدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتی کے ساتھ الفت بھلی کر کے دکھادی گئی ہے۔ یہ سب دنیاوی زندگی کے چند روزہ فائدے ہیں۔ اور ہمیشہ کا اچھا ٹھکانا تو خدا ہی کے ہاں ہے۔“ (سورہ آل عمران: آیت نمبر 14)
”اے رسولؐ ان لوگوں سے کہو کہ کیا میں تم کو ان سب چیزوں سے بہتر چیز بتادوں؟ اچھا سنو جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیار کی ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں بہشت کے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور اس کے علاوہ ان کے لئے صاف ستھری بیویاں ہیں اور سب سے بڑھ کر تو خدا کی خوشنودی ہے، اور خدا اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے۔“ (سورہآلعمران: آیت نمبر15)
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ اور اسلام کی نظر میں آزاد انسان وہی ہے جو اس جنگ میں غالب رہے اور نفس کو اپنا اسیر اور قیدی بنا رکھے۔کیونکہ اس کے علاوہ ہر قسم کی ”آزادی“ نظروں کا فریب اور دھوکا ہے۔
قرآنی آیات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے انسان کی مکمل تربیت کے لئے، یعنی اسے شہوتوں کی غلامی اور لذتوں کی بندگی سے نجات دلانے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا ہے وہ توحید کا طریقہ ہے۔ اسلام درس دیتا ہے کہ انسان بس ایک خدا کی بندگی اختیار کرے اور اس کی خوشنودی حاصل کرے۔ اس طرح انسان، زمین اور زمین میں موجود لذتوں کی بندگی اور غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ توحید، انسان کو تمام نامناسب غلامیوں اور بندشوں سے آزاد قرار دینے کی سند ہے۔
قرآن نے انسان کو حقیقی آزادی دی ہے۔ جدید مغربی طرز فکر نے آزادی کی غلط حدود کا تعین کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو شراب کی قید میں نہیں مبتلا ہونا چاہئے۔ شراب کو زندگی کی لغت سے محو کردینا چاہئے۔ اپنے ارادے کا خود مالک بنے رہنا چاہئے، دوسرے الفاظ میں شہوتوں اور حیوانی خواہشوں کی غلامی اختیار کرنے سے اسے انکار کردینا چاہئے۔ اور زندگی میں حقیقی آزادی کی راہ اپنا لینا چاہئے۔
لیکن مغربی طرز فکر نے انسان کو ذاتی طور پر مکمل آزادی دے دی ہے مگر یہ آزادی صرف ظاہری حد تک ہوتی ہے۔ اس آزادی کے ماسک کے پیچھے انسانیت کا چہرہ قید ہوتا ہے۔ انسان کو اپنے ارادے پر قابو نہیں رہتا۔ وہ اپنے نفس پر کوئی حکم نافذ نہیں کر سکتا۔
جدید طرز فکر نے انسان کو لذتوں اور شہوتوں کا پابند کردیا ہے۔ آزادی کے نام پر انسان کو شہوتوں کا غلام بنا دیا ہے۔اور اس غلامی کی جڑیں اتنی مضبوط ہوچکی ہیں کہ جب ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت نے شراب کے خلاف مہم شروع کی اور امریکی قوم کو شراب کی قید سے آزاد کرانا چاہا، تو سپر طاقت ہونے کے باوجود امریکہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکا۔ اتنی بڑی اور شرمناک شکست صرف اسی وجہ سے ہے کہ مغربی انسان نے حقیقی آزادی کو اختیار نہیں کیا ہے۔ مغربی انسان، شراب کی خواہش کے آگے ”نہیں“ نہیں کہتا۔ بلکہ تسلیم ہوجاتا ہے۔ لیکن قرآنی انسان، شراب کی خواہش کے آگے جھک نہیں جاتا بلکہ سختی سے ”نہیں“ کہہ دیتا ہے۔
یہی بنیادی فرق ہے قرآنی طریقے اور مغربی طرز فکر میں۔
قرآن صرف انسان کے اندر موجود نفسانی بت کو توڑنے پر اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ آگے بڑھتا ہے اور معاشرے میں موجود تمام بتوں کو توڑ دیتا ہے۔ قرآن انسان کو ذاتی بت کے علاوہ معاشرتی بتوں کی پرستش سے بھی آزاد کر دیتا ہے۔ قرآن انسان کو انسان کی پرستش کرنے سے روک دیتا ہے، اور کہتا ہے:
اے رسول! تم ان سے کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی ٹھکانے کی بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے۔(سورہ آل عمران: آیت نمبر64)
قرآن کا ارشاد ہے کہ تمام انسان صرف اللہ کی پرستش کریں۔ عبادت کے لائق خدا ئے واحد کی بارگاہ میں تمام انسان ایک ہی صف میں کھڑے رہیں، کسی کو کسی پر فوقیت نہ ہو، کوئی قوم کسی دوسری قوم کو اپنا غلام نہ بنائے۔ کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا حق نہ چھینے، کسی کی آزادی پر حرف نہیں آنا چاہئے۔ اور کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خود کو دوسروں کا بت قرار دے۔
قرآن، ہمیں دو قسم کے معرکوں کی دعوت دیتا ہے۔ ایک تو نفسانی بتوں کے خلاف معرکہ ہے اور دوسرا معرکہ معاشرتی بتوں کو توڑنے کا ہے۔ پہلے معرکے میں جس طرح توحید کا ہتھیار استعمال ہوا تھا، اسی طرح دوسرے معرکے میں بھی توحید سے مدد لی گئی ہے۔
انسان جب تک ایک اللہ کی بندگی سے وابستہ رہے گا، وہ اس حال میں فطری طور پر ہر بت سے تعلق توڑے گا۔ ایک آزاد شخص کی طرح سربلند کر کے ہر بت کی طرف سے منہ پھیرے گا۔ زمین کی کسی طاقت کے آگے ذلت سے سر نہیں جھکائے گا۔ کسی بت کو تسلیم نہیں کرے گا۔
ظاہری طور پر بت پرستی کی دو وجہیں ہوتی ہیں:
پہلی وجہ خواہشات کی پیروی ہے۔ انسان کی خواہشات بے لگام ہو کر اسے اس طرح گرادیتی ہیں کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسان کو بت قرار دے دیتا ہے۔
بت پرستی کی دوسری وجہ بتوں میں موجود کمزوری اور عاجزی سے ناواقفیت ہے۔ اگر انسان کو معلوم ہو کہ جن کو وہ بت سمجھ رہا ہے ان میں فلاں، فلاں کمزوریاں ہیں تو وہ کبھی ان سے مرعوب نہ ہو۔ اسلام نے تما م بتوں کے چہروں پر لگے ہوئے ماسک اتار کر پھینک دئیے ہیں اور انسان کو ہر قسم کی بت پرستی سے بچانے کا انتظام کیا ہے۔
کبھی پوری ایک قوم کو بت تصور کر لیا جاتا ہے، کبھی ایک خاص گروہ کو بت کا درجہ دیا جاتا ہے، اور کبھی ایک انسان دوسرے انسان کا بت بن جاتا ہے۔ نفسانی خواہشات کے بتوں کے ساتھ اسلام ایسے تمام بتوں کی پرستش سے انسان کو آزاد کردیتا ہے۔
مغربی طرز فکر اور اسلام میں یہ فرق ہے کہ مغربی طرز فکر کہتا ہے کہ انسان ذاتی طور پر آزاد ہے جو چاہے کرے۔ بشرطیکہ دوسرے انسانوں کی آزادیاں محفوظ رہیں۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ نہیں، انسان صرف اس صورت میں آزاد ہے کہ پہلے وہ اپنے نفس کی غلامی کو قبول نہ کرے۔ پھر کسی بھی بت کی پرستش نہ کرے، اس کے علاوہ وہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے باہر نہ جائے۔ خدا نے جو حد مقرر کر رکھی ہے اس کے اندر وہ آزاد ہے۔ ان حدوں کا خیال رکھتے ہوئے وہ جو جی چاہے کرے۔قرآن کہتا ہے:
اس نے زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے پیدا کیا ہے، اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمہارے اختیار میں دے دیا ہے۔(سورہ جاثیہ: آیت نمبر ۳۱)
خدا نے تمام کائنات انسان کے تصرف میں دے دی ہے۔ وہ با اختیار اور آزاد ہے۔ لیکن اس اختیار اور آزادی کی کچھ حدیں بھی خدا نے مقرر کی ہیں۔ جس طرح کہ بتایا گیا کہ وہ حدیں یہی ہیں کہ انسان اپنے آپ کو شہوت کے اختیار میں نہ دے دے۔ اور کسی دوسرے انسان کو بت کا درجہ بھی نہ دے۔ خدا کے حکم کے آگے نہ وہ اپنے نفس کی بات مانے اور نہ کسی اور کا حکم تسلیم کرے۔ اگر یہ ہوجائے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ آزاد ہے۔ اور یہی حقیقی آزادی ہے۔ یہی زندگی گزارنے کا مکمل پروگرام ہے۔ اور اسلام کے اسی نظرئیے پر انسانیت قائم اور برقرار ہے۔
بعض لوگ قرآن کریم کی اس آیت پر برا مناتے ہیں۔
لَا إِکْرَاہَ فیِ الدِّینِ قَد تَّبَینََ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(سورہ بقرہ: آیت نمبر 256)
”دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں ہے کیونکہ ہدایت، گمراہی سے الگ ظاہر ہوچکی۔“
وہ خیال کرتے ہیں کہ دین کو اختیار کرنے میں اسلام نے کھلی آزادی دے رکھی ہے اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ انسان جو چاہے دین اختیار کرے۔ انسان چاہے تو جدید طرز فکر کو بھی اپنا سکتا ہے۔ کوئی زبردستی نہیں ہے کہ کوئی مخصوص عقیدہ اختیار کیا جائے۔!!
لوگ کچھ غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اسلام نہیں کہتا ہے کہ جو چاہے دین اختیار کر لیا جائے۔ اسلام تو توحید کی اساس پر ہر قسم کی بت پرستی سے روکتا ہے۔ اسلام تو انسان کو نفسانی خواہشات پر بھی پابندی لگانے کا حکم دیتا ہے۔ جبکہ جدید طرز فکر نے نفسانی خواہشات کو ذاتی حد تک کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ مغربی جمہوریت بھی انسان کو اس کے نفس کے قابو میں دے دیتی ہے۔ اسی طرح ڈکٹیٹر شب اور مطلق العنانی بھی نفس کی سرکشی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسلام ایسی کسی قسم کی سرکشی کی اجازت نہیں دیتا۔
پھر قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم کیا ہے کہ ”دین میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں ہے کیونکہ ہدایت گمراہی سے الگ ظاہر ہوچکی ہے“؟
اس آیت کا مفہوم واضح ہے۔ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ جب حق و باطل میں فرق واضح ہوچکا، جب ہدایت گمراہی سے مختلف ظاہر ہوچکی تو پھر زبردستی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
جب
وہ راستہ بتادیا گیا ہے اور سمجھا دیا گیا ہے جس پر چلنا چاہئے، تو ہر عقلمند انسان پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔ جب اس کو معلوم ہو گیا ہے کہ روشنی کدھر ہے اور تاریکی کدھر ہے تو ہر انسان کو اپنے اختیار سے روشنی ہی کی طرف قدم بڑھانے چاہئیں۔ اگر انسان اپنے اختیار سے تاریکی کی طرف جائے اور روشنی کا راستہ دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کردے تو اسلام زبردستی کرنے کا حکم نہیں دیتا۔عقیدے اور دین کے راستے کے سلسلے میں یہ انسان کا امتحان ہوتا ہے جس کا نتیجہ آخرت میں ظاہر ہوگا۔
پس قرآن کریم کی رو سے انسان اسلام کو اختیار کرنے یا نہ کرنے، اپنے نفس پر قابو پانے یا نہ پانے، اور اسی طرح دیگر بتوں کی پرستش چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کے سلسلے میں آزاد ہے۔ البتہ اگر انسان حقیقی آزادی چاہتا ہے تو اسے اپنی مرضی سے اسلام کو بھی اختیار کرنا چاہئے، نفس کی پیروی سے بھی آزاد ہونا چاہئے اور دیگر قسم کے بتوں کو بھی توڑ دینا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہید صدر ریسرچ سنٹر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button