خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:323)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 3 اکتوبر 2025 بمطابق 9 ربیع الثانی 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو

اما بعد فقد قال رسول اللّٰہ ﷺ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ
اللہ کا شکر ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں جمعہ کے بابرکت دن میں مسجد میں جمع ہونے کی توفیق ملی تاکہ ہم اس کے کلام اور اس کے رسول اکرم (ص) و آئمہ اہل بیت (ع) کے ارشادات سے رہنمائی حاصل کریں۔ ہماری زندگی، اللہ کی عطا کردہ انمول نعمتوں میں سے ایک ہے، اور اس زندگی میں وقت سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ہم اپنی گفتگو کو اسی سلسلے میں آگے بڑھاتے ہوئے اس اہم حدیث نبوی (ص) پر غور کر رہے ہیں جو ہمیں زندگی کی پانچ قیمتی نعمتوں کو ان کے زوال سے پہلے غنیمت جاننے کی تاکید فرماتی ہے۔ ہم نے پہلے "جوانی کو بڑھاپے سے پہلے”، پھر "صحت کو بیماری سے پہلے” اور اس کے بعد "خوشحالی کو غربت سے پہلے” اور "فراغت کو مشغولیت سے پہلے” غنیمت جاننے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
آج ہماری گفتگو کا موضوع اسی حدیث کا آخری پانچواں اور نہایت اہم حصہ ہے:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:
شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،
وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے،
وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، اپنی خوشحالی کو غربت سے پہلے،
وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، اپنی فراغت کو مشغولیت سے پہلے،
وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آج ہم حدیث کے آخری جملے، "اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو” پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔
زندگی: اللہ کی عظیم امانت اور دارالعمل
زندگی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک محدود مدت ہے، سانسوں کا ایک مقررہ حساب ہے۔ یہ دنیا ہمارا مستقل ٹھکانہ نہیں، بلکہ ایک آزمائش گاہ ہے۔ ہماری زندگی ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے، اور ہمیں اس امانت کا حساب دینا ہوگا۔ ہر لمحہ قیمتی ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جس میں ہم اپنی آخرت کا سامان کر سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے زندگی کا مقصد واضح طور پر بیان فرمایا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورۃ الذاریات، آیت 56)
ترجمہ: "اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔”
زندگی کا بنیادی مقصد اللہ کی بندگی اور اس کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ مزید براں، اللہ نے موت اور زندگی کو ایک خاص حکمت کے تحت پیدا کیا ہے:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (سورۃ الملک، آیت 2)
ترجمہ: ” اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔”
وہ ذات جس نے موت کو خلق کیا۔ موت، عدم حیات کا نام ہے اور عدم، مخلوق نہیں ہے چونکہ خلق، ایجاد کا نام ہے۔ جب خلق ہوا تو وجود میں آنا چاہیے؟ اس سوال کا حل یہ ہے: موت، عدم حیات کا نام نہیں ہے بلکہ انتقال حیات کا نام ہے۔ چنانچہ مادہ بذات خود حیات کا حامل نہیں ہوتا۔ مادے میں خاص شرائط موجود ہونے کی صورت میں حیات جنم لیتی ہے۔ مثلاً جدید انکشافات کے تحت ڈی این اے کے تین ارب چھوٹے سالموں کے منظم ترتیب میں آنے سے اللہ تعالیٰ اس میں حیات ڈال دیتا ہے اور موت یہ ہے کہ اس منظم ترتیب میں خلل آنے سے اللہ وہاں سے حیات نکال دیتا ہے۔ لہٰذا حیات کا نکال دینا ایک تخلیقی عمل ہے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن جلد 9 صفحہ 240)
اس کا مطلب یہ ہے کہ موت اور آخرت کی تیاری کے بغیر یہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشابن جاتی ہے، جیسا کہ قرآن نے خبردار کیا ہے:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ
ترجمہ: "جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل، تماشا، زینت، تمہاری آپس میں فخر کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنا ہے۔”(سورۃ الحدید، آیت 20)
علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ الکوثر فی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں:
اس آیت اور دیگر آیات و احادیث میں دنیا کی مذمت کا تعلق اس دنیا سے ہے جو آخرت کے ساتھ متصادم ہے چونکہ آخرت کی ابدی اور ختم نہ ہونے والی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ دنیا کی کوئی اہمیت نہیں بنتی۔
شیخ بہائیؒ سے منقول ہے: پانچ خصلتیں انسان کی عمر کے مراحل سے مربوط ہیں:
بچپنے میں کھیل میں مشغول ہوتا ہے۔ بلوغ کی عمر کو پہنچے تو لہویات میں مشغول ہوتا ہے۔ جوانی میں زیب و زینت کا دلدادہ ہوتا ہے۔ درمیانی عمر میں فخر و مباہات میں لگ جاتا ہے اور عمر رسیدہ ہونے پر مال و اولاد کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔
دنیاوی زندگی اگر صرف دھوکہ نہ ہوتی اور انسان کو اس دنیا کی زندگی کے لیے بنایا گیا ہوتا تو متاع دنیا کی فراوانی سے سکون و اطمینان میں اضافہ ہونا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے چونکہ مچھلی پانی میں زندگی بسر کرنے کے لیے خلق ہوئی ہے۔ جب کہ اس دنیا کے مال و دولت میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اسی حساب سے بے اطمینانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون چھن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان دنیا کے مال دولت کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ مال و دولت مراد ہے۔ صرف ضرورت کی حد تک مال سے انسان کو سکون ملتا ہے۔
دنیوی زندگی ذریعہ:
اگر زندگی کو کسب آخرت کے لیے ذریعہ بنایا جائے تو اس صورت میں نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں ہے بلکہ اس زندگی کو فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ اس دنیا کی ساٹھ ستر سال کی زندگی کے عوض آخرت کی ابدی زندگی سنور سکتی ہے تو اس زندگی کے ہر آن کے مقابلے میں آخرت کے اربوں سال کی زندگی بن جاتی ہے۔ اس طرح مومن کی دنیا اور ایمان کی زندگی کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا:
الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے۔
تو آخرت کی جو بھی قیمت لگائی جائے کھیتی کو وہی قیمت مل جاتی ہے۔
اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا مولائے متقیان علی علیہ السلام نے:
اِنَّ الدُّنْیَا۔۔۔ دَارُ غِنًی لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْھَا وَ دَارُ مَوْعِظَۃٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِھَا مَسْجِدُ اَحِبَّائِ اللّٰہِ وَ مُصَلَّی مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ وَ مَھْبِطُ وَحْیِ اللّٰہِ وَ مَتْجَرُ اَوْلِیَائِ اللّٰہِ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ حکمت ۱۳۱)
یہ دنیا۔۔۔ جو اس سے زاد راہ حاصل کر ے اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے اس کے وعظ و نصیحت کا محل ہے۔ وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام، وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے۔
موت: ایک ناگزیر حقیقت اور دروازہ آخرت
زندگی کا دوسرا لازمی پہلو موت ہے۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی ہے، ایک ابدی سفر کا آغاز۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی جاندار کو فرار نہیں۔ ہر جان کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (سورۃ آل عمران، آیت 185)
ترجمہ: "ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تمہیں تو قیامت کے دن پورا اجر و ثواب ملے گا (در حقیقت) کامیاب وہ ہے جسے آتش جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے، (ورنہ) دنیاوی زندگی تو صرف فریب کا سامان ہے۔”
اور موت کا وقت یا جگہ کسی کو معلوم نہیں:
وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ(سورۃ لقمان، آیت 34) "اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمانے والا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی، یقینا اللہ خوب جاننے والا، بڑا باخبر ہے۔”
موت کا یہ غیر معلوم وقت ہی ہمیں فوری تیاری کا تقاضا کرتا ہے۔ نبی اکرم (ص) نے ہمیں موت کو کثرت سے یاد کرنے کا حکم دیا ہے:
أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ (يَعْنِي الْمَوْتَ) (مستدرک الوسائل، جلد 2، صفحہ 103)
ترجمہ: "لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔”
موت کی یاد ہمیں غفلت سے نکال کر نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ امام علی (ع) نے فرمایا:
اعْلَمُوا أَنَّهُ مَا مِنْ شَيْءٍ إِلَّا وَ قَدْ فَاتَ أَوْ سَيَفُوتُ إِلَّا مَا كَانَ مِنْ خَيْرٍ أَوْ حَسَنَةٍ وَ ثَوَابٍ
ترجمہ: "جان لو کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے یا عنقریب فنا ہو جائے گی سوائے خیر، نیکی اور ثواب کے۔”
یعنی موت کے بعد صرف ہمارے نیک اعمال ہی ہمارے ساتھ جائیں گے، باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ اس کی عبرتناک مثال ایسے شخص کا قصہ ہے جس کی موت اچانک واقع ہوئی اور اسے آخرت کی تیاری کا موقع نہ ملا، اور وہ حسرت میں چلا گیا۔
مرنے والے کے لیے قیامت آ گئی:
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت بہت دور ہے اور لاکھوں سال گزر گئے مگر قیامت نہیں آئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قیامت اتنی ہی قریب ہے جتنی ہر شخص کی موت قریب ہے۔ کیونکہ جو مر جاتا ہے اس کی زندگی وہیں رک جاتی ہے اور پھر اس نے قیامت کے دن ہی اٹھایا جانا ہے پس جو مر جاتا ہے سمجھو اس کے لیے قیامت آگئی۔ یہ بات حدیث میں واضح کرکے بتائی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:
إذا ماتَ أحَدُكُم فَقد قامَت قِيامَتُهُ، يَرى ما لَهُ مِن خَيرٍ و شَرٍّ
جب تم میں سے کسی ایک کی وفات ہو جاتی ہے توا س کے لیے قیامت قائم ہو جاتی ہے وہ اپنے تمام نیک اور بد اعمال کو دیکھ لیتا ہے۔(میزان الحکمۃ ح ۵۸۳۶)
اسی طرح مولا علیؑ  فرماتے ہیں: المَوتُ بابُ الآخِرَةِ . (غرر الحكم: ۳۱۹)
موت،آخرت کا دروازہ ہے۔
موت سے پہلے آخرت کی تیاری:
اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جاننے کا عملی مفہوم کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کو آخرت کی تیاری میں لگائیں، کیونکہ یہ عمل کا گھر ہے اور موت کے بعد عمل کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی سے فائدہ لیتے ہوئے موت کی تیاری کے چند اہم عملی نکات یہ ہیں:
* توبہ اور استغفار کی فوری عادت:
جب تک زندگی باقی ہے، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور اللہ سے بخشش مانگیں۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور موت سے پہلے کا ہر لمحہ اس کے لیے قیمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا (سورۃ التحریم، آیت 8)
ترجمہ: ” اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ۔”
توبہ کو نصوح کہنے کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ ایسی توبہ کرو جو نہایت خالص ہو چونکہ نصوح صیغہ مبالغہ ہے جیسے ضروب صیغہ مبالغہ ہے۔ نہایت خالص توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ اس گناہ کا نہ سوچے جس سے توبہ کی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں۔ i۔ گزشتہ گناہوں پر ندامت۔ ii۔ عدم اعادہ کا عزم۔ iii۔ وہ تمام فرائض انجام دے جو چھوٹ گئے ہیں۔ iv۔ لوگوں کا حق ذمے نہ ہو۔ v۔ گناہ کے ذریعے جو گوشت بنا ہے وہ غم و اندوہ سے بدل کر تازہ گوشت بن جائے۔ vi۔ اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے جیسا کہ گناہ کی لذت چکھ لی ہے۔( مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۳۰)
* فرائض کی ادائیگی میں پابندی:
نماز، روزہ، زکات، حج (اگر استطاعت ہو) جیسے بنیادی فرائض کو وقت پر اور احسن طریقے سے ادا کریں۔ یہ وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ہمارے دین کی عمارت کھڑی ہے۔
* حقوق اللہ اور حقوق الناس کی ادائیگی:
اپنی زندگی میں اللہ کے حقوق (عبادت، شکر، اس کی حدود کی پاسداری) اور لوگوں کے حقوق (والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں، مساکین اور عام معاشرتی حقوق) کو پوری دیانت داری سے ادا کریں۔ امام علی (ع) نے فرمایا: ” أَدُّوا حُقُوقَ اللَّهِ وَحُقُوقَ النَّاسِ لِتَفْلَحُوا” (اللہ کے حقوق اور لوگوں کے حقوق ادا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔)
* صدقہ جاریہ اور خدمت خلق:
ایسے کام کرنا جن کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہے۔ مثلاً کسی ایسے دینی یا فلاحی ادارے کی مدد کرنا جو علم پھیلا رہا ہو، پانی کا بندوبست کرنا، کوئی درخت لگانا، یا ناداروں کی مدد کا ایسا نظام بنانا جو آپ کے بعد بھی چلتا رہے۔ نبی اکرم (ص) نے فرمایا: "جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔”
* حصول علم نافع اور اس کا پھیلاؤ:
وہ علم حاصل کرنا جو دنیا و آخرت میں فائدہ دے، اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
* حسن اخلاق اور لوگوں کے ساتھ بہتر برتاؤ:
اپنی زندگی میں لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، عاجزی اختیار کریں، غیبت، چغلی اور جھوٹ سے پرہیز کریں، کیونکہ یہ اعمال نامہ اعمال میں درج ہوتے ہیں جو موت کے بعد ہمارے ساتھ جائے گا۔
* اللہ کی یاد اور ذکر کو اپنا معمول بنانا:
اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کی یاد اور ذکر کو شامل کریں، چاہے وہ چلتے پھرتے ہو، کام کرتے ہو، یا آرام کرتے ہو۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے: "الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّٰهِ  أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” وہ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (سورۃ الرعد، آیت 28)
زندگی کی قدر نہ کرنے کے نتائج
اگر ہم اپنی زندگی کی قدر نہیں کرتے اور اسے غفلت میں گزار دیتے ہیں، تو موت کے بعد ہمیں شدید پچھتاوے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن مجید نے ایسے لوگوں کی حسرت کو واضح طور پر بیان کیا ہے:
وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ۔(سورۃ المنافقون، آیت 10)
ترجمہ: ” اور جو رزق ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے پھر وہ کہنے لگے: اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں صدقہ دیتا اور میں (بھی) صالحین میں سے ہو جاتا۔”
اسی طرح گناہگاروں کی حالت قیامت کے دن یوں بیان کی گئی ہے:
وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ(سورۃ السجدہ، آیت 12)
ترجمہ: "اور کاش! تم دیکھو جب گناہگار اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہوئے ہوں گے، (کہیں گے:) اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں واپس لوٹا دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، بے شک ہم یقین کرنے والے ہیں۔”
موت کے وقت یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کا کیا رتبہ ہے۔ اس انکشاف کے بعد وہ اس حسرت کا اظہار کرے گا: کاش ایک موقع پھر مل جاتا تو جی بھر کر راہ خدا میں مال خرچ کرتا۔ چونکہ جب موت سامنے آ ئے گی تو ایک مرتبہ ساری زندگی کا کیا دھرا سامنے آئے گا اور موت سے پہلے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں علم ہو جائے گا۔ اس لمحے حسرت کا بھی اظہار کرے گا اور مزید مہلت کی تمنا کرے گا۔(تفسیر الکوثر)
یہ آیات واضح طور پر موت کے بعد کے پچھتاوے اور مہلت کی بے فائدہ آرزو کو بیان کرتی ہیں۔ اس وقت عمل کا دروازہ بند ہو چکا ہو گا۔ جیسا کہ امام علی (ع) نے فرمایا:
اليَوْمَ عَمَلٌ وَ لا حِسَابَ وَ غَداً حِسَابٌ وَ لا عَمَلَ(نہج البلاغہ، حکمت 42)
ترجمہ: "آج (دنیا میں) عمل ہے اور حساب نہیں، اور کل (آخرت میں) حساب ہے اور عمل نہیں۔”
اس لیے ہمیں اس دنیا کی زندگی کو غفلت میں گزارنے سے بچنا چاہیے، ورنہ فرعون جیسے بڑے بادشاہوں کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔
اختتامیہ
زندگی اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور آخرت کی تیاری کا واحد موقع ہے۔ ہر لمحہ قیمتی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اسے غفلت اور لہو و لعب میں ضائع نہ کریں، بلکہ موت کی یاد کو نیکیوں میں سبقت کے لیے محرک بنائیں۔ ہر سانس کو غنیمت جان کر عمل صالح میں لگائیں۔
آج ہمارے پاس وقت ہے، آج ہم عمل کر سکتے ہیں۔ کل کا کوئی بھروسہ نہیں۔ آئیے اس بہترین موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے رب کے حضور سرخرو ہونے کی تیاری کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کی قدر کرنے، اسے اپنی رضا کے مطابق استعمال کرنے، اور موت سے پہلے بہترین زادِ راہ تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے اور روزِ قیامت ہمیں سرخرو کرے۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button