سیدہ خدیجۃ الکبریٰؑشخصیات

حضرت خدیجہ علیہا السلام کے فضائل

تحریر: اشرف حسین صالحی
رمضان المبارک کی دسویں تاریخ ایک نہایت ہی غم انگیز اور دل دہلا دینے والے واقعہ کی یاد دلاتی ہے، جس نے کائنات کے جوہر اور نبیوں کے خاتم، سب سے افضل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گہرے غم میں مبتلا کر دیا۔ بعثت کے دسویں سال، اسلام کی عظیم خاتون جنہوں نے 25 سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وفاداری، قربانی، ایثار اور محبت سے بھرپور زندگی گزاری، 65 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
ان کی وفات کے تین دن پہلے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم حمایتی اور مہربان چچا، حضرت ابوطالبؑ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان دو عظیم شخصیات کے انتقال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے حد مغموم کر دیا، یہاں تک کہ آپ نے اس سال کو "عام الحزن” یعنی غم کا سال قرار دیا۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام کو شدید غم اور آنسوؤں کے درمیان مکہ کے مقام "حجون” میں سپرد خاک کیا گیا۔
حضرت خدیجہ علیہا السلام کے فضائل
1۔ گہری بصیرت
حضرت خدیجہ کبریٰؑ  کی سب سے بڑی فضیلت یہ تھی کہ وہ بلند سوچ، گہری بصیرت اور غیرمعمولی عقل کی مالک تھیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انہوں نے اپنے بےشمار مالدار اور تاجر رشتے کے طلبگاروں کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو اپنے شوہر کے طور پر منتخب کیا۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے اور اخلاق میں ان کے درخشاں اور ممتاز مستقبل کی جھلک دیکھ رہی تھیں۔ اسی وجہ سےآپ (بعثت سے پہلے) اپنی شادی کی پیشکش کا راز یوں بیان کرتی ہیں:
"اے میرے چچا زاد بھائی! میں نے آپ میں رغبت اس لیے کی کہ آپ میرے رشتہ دار ہیں، اپنی قوم میں عزت و شرف رکھتے ہیں، امانت دار ہیں، اخلاق کے لحاظ سے بہترین ہیں اور آپ کی گفتگو میں ہمیشہ سچائی ہوتی ہے۔”(1)
یہ جملے واضح کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ ؑکی محبت اور عقیدت صرف ظاہری یا دنیاوی خواہشات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کی گہری معرفت اور پہچان پر مبنی تھی لیکن وہ لوگ جو اس بصیرت سے محروم تھے، خاص طور پر قریش کی کچھ خواتین، خدیجہؑ کو سخت ملامت کرتی تھیں۔
یہاں تک کہ وہ کہتی تھیں: "خدیجہؑ نے اپنی ساری عزت و وقار کو چھوڑ کر ابو طالب کے یتیم، ایک غریب نوجوان سے شادی کرلی! یہ کتنی بڑی رسوائی ہے۔”
مگر خدیجہ ؑنے اپنے شعوری اور معرفت بھرے انتخاب پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ان کی لاعلمی پر مبنی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
"اے عورتو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اور تمہارے شوہر میرے محمدؐ سے نکاح پر اعتراض کر رہے ہو۔ میں تم سے پوچھتی ہوں: کیا تم میں یا تمہارے اردگرد (شام اور مکہ میں) کوئی ایسا شخص ہے جو محمد ؐ کی طرح فضائل و اخلاق میں بےمثال ہو؟ میں نے انہی خوبیوں کی وجہ سے ان سے شادی کی ہے اور میں نے ان میں ایسی بلند صفات دیکھی ہیں جو بےحد عظیم ہیں۔”
یہ الفاظ حضرت خدیجہؑ کی غیرمعمولی بصیرت، ان کے اعلیٰ فہم اور محبت کے حقیقی معیار کی ایک شاندار مثال ہیں۔(2)
2۔ مضبوط اور پائیدار ایمان و اسلام
حضرت خدیجہؑ کی گہری بصیرت جس کی بنا پر انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے شریکِ حیات کے طور پر منتخب کیا، وہی بصیرت ان کے ایمان و اسلام کی بنیاد بنی اور اس کی بدولت انہیں "پہلی مسلمان خاتون” ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
ابن عبد البر اپنی سند کے ساتھ ابو رافع کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیر کے دن (بعثت کے دن) نماز ادا کی اور حضرت خدیجہؑ نے اسی دن کے آخری حصے میں نماز پڑھی۔(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
"خدیجہ، اور میں تیسرا تھا۔ میں وحی اور رسالت کے نور کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔”(4)
حضرت خدیجہؑ نے آخری دم تک اپنے ایمان پر ثابت قدمی دکھائی، اسلام کے لیے قربانیاں دیں اور ایک لمحے کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حمایت سے غافل نہ ہوئیں۔
چار عظیم خواتین کے بارے میں ہےجنہیں دنیا کی برترین عورتیں قرار دیا گیا ہے۔ ابن اثیر نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"دنیا کی بہترین خواتین یہ ہیں: مریم (بی بی مریم)، آسیہ (فرعون کی بیوی)، خدیجہ (حضرت خدیجہ الکبریٰ) اور فاطمہ (حضرت فاطمہ زہرا) علیہم السلام۔”
3۔دنیا وآخرت کی بہترین خواتین میں سے ہیں
یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے دنیا میں کمال کے اعلیٰ درجے حاصل کیے اور جنت میں بھی بلند مقام پر فائز ہوں گی۔ (5)
ابن عباس سے عکرمہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"جنت کی سب سے افضل خواتین یہ ہیں: خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران، اور آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی)۔”(6)
یہ الفاظ ان خواتین کے عظمت اور ان کے بلند روحانی مقام کو بیان کرتے ہیں، جو دنیا اور آخرت دونوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔
4۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بہترین زوجہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی متعدد زوجات تھیں لیکن ان کے درجات برابر نہیں تھے۔
ان میں سے ایک زوجہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں اور بعد از وفات آپ کو بہت اذیت پہنچائی اور آپ ؐ کی ہدایات کے خلاف چلیں، جس کی وجہ سے ان کا مقام و مرتبہ گر گیا۔ لیکن بعض ازواج، جیسے حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا، نے اپنی پوری جان و مال کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی رضا کے لیے وقف کر دیا، جس کے نتیجے میں وہ تمام ازواج میں سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔
مرحوم شیخ صدوق ؒنے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے پندرہ عورتوں سے نکاح کیا، جن میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد تھیں۔”(7)
5۔حضرت زہرا علیہاالسلام کی والدہ
قرآنِ کریم کے واضح بیان کے مطابق، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات مومنین کی روحانی مائیں ہیں اور انہیں "ام المومنین” کہا جاتا ہے:
"وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ” (سورہ احزاب، آیت 6) — "اور نبی کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں۔”(8)
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس آیتِ مبارکہ کی سب سے برتر مثال ہیں، اور یہ سعادت ان تمام ازواج میں صرف حضرت خدیجہ ؑ کو نصیب ہوئی کہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے گیارہ امام پیدا ہوئیں۔ حقیقت میں، ایسا بلند مقام لیاقت اور اعلیٰ صلاحیت کا متقاضی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد میں سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل ہے کیونکہ وہ معصومہ ہیں اور انہی کی نسل سے امامت اور وصایت کا سلسلہ جاری رہا۔(9)
6۔ بے مثال سخاوت اور انفاق
حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا) کی دولت اس دور میں مشہور و معروف تھی۔ آپ کی ثروت اس قدر زیادہ تھی کہ قریش کے بڑے مالدار جیسے کہ ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط بھی آپ کے مقابلے میں حقیر نظر آتے تھے۔
مورخین نے حضرت خدیجہ (سلا اللہ علیھا ) کی دولت کو یوں بیان کیا ہے:
1۔ہزاروں اونٹ، جو آپ کے تجارتی سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔(10)
2۔آپ کے گھر کی چھت پر سبز ریشمی کپڑے کا ایک گنبد تھا جسے ریشمی رسیوں سے باندھا گیا تھا۔ یہ نشان آپ کی عظیم دولت کا مظہر تھا اور غریب لوگ اس علامت کو دیکھ کر مدد کے لیے آپ کے دروازے پر آتے تھے۔(11)
3۔ چار سو غلام اور باندیاں، جو آپ کے مختلف کام سرانجام دیتے تھے۔ (12)
یہ الفاظ حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کی عظیم شخصیت، ان کی سخاوت، اور لوگوں کے لیے بے لوث خدمت کے جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔(13)
7۔بے مثال صبر و استقامت
ایک ایسی شخصیت جیسے کہ حضرت خدیجہؑ، جو بے پناہ دولت و نعمتوں میں پلی بڑھی تھیں، فطری طور پر ناز و نعمت کی عادی اور کم حوصلہ ہونی چاہیے تھی لیکن حضرت خدیجہؑ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے اور ان سے نکاح کے بعد خود کو ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے لیے تیار کر لیا۔ مکہ کے مشرکوں کے دباؤ، رشتہ داروں کی ملامت اور شعب ابی طالب میں سخت اقتصادی محاصرے جیسی سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلا۔ خاص طور پر یہ اقتصادی محاصرہ، بڑھاپے کی عمر (63-65 سال کی عمر) میں ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھامگر انہوں نے آخری دم تک بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا۔
بنت الشاطی اس بارے میں لکھتی ہیں:
"خدیجہؑ ایسی عمر میں تھیں کہ ان تمام مصیبتوں کو جھیلنا ان کے لیے آسان نہیں تھا، اور نا ہی وہ ایسی خاتون تھیں جو زندگی میں تنگدستی کی عادی رہی ہوں لیکن اس کے باوجود اور بڑھاپے کے عالم میں، شعب ابی طالب کے محاصرے کی شدید تکالیف کو موت کے دہانے تک صبر کے ساتھ برداشت کیا۔” (14)
8۔حامیہ رسالت ومحب امامت
چار عظیم خواتین کے بارے میں ہے جو اپنی پاکیزگی اور کمال کی وجہ سے نمونہ بنیں: آسیہ، مریم، خدیجہ اور فاطمہ (علیہم السلام)۔ ان خواتین کی سب سے اہم مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے وقت کے رہنما اور پیشوا کی بھرپور حمایت کی۔ آسیہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کی حمایت میں جان تک قربان کر دی، مریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کو تہمتوں اور مصیبتوں کے باوجود مضبوط کیا، حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے لیے آخری سانس تک دفاع کیا اور شہادت کا مرتبہ پایا۔
حضرت خدیجہ علیہا السلام بھی رسالت کی سچی حامی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنا مال بھی اسلام کے لیے قربان کر دیا۔ وہ رسالت کے ساتھ ساتھ امامت کی بھی حامی اور وفادار تھیں۔ ان کی شخصیت میں یہ دونوں پہلو موجود تھے: وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساتھی، مددگار اور امامت کی محبت میں سرشار تھیں۔
حضرت خدیجہؑ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خدیجہ علیہا السلام کی زندگی پر نظر ڈالی اور فرمایا:
"محمد کی مجھ پر یہ فضیلت ہے کہ ان کی بیوی نے اللہ کے احکام کی بجاآوری میں ان کا ساتھ دیا، جبکہ میری بیوی نے مجھے اللہ کی نافرمانی پر اکسایا۔”
حضرت خدیجہؑ کی محبتیں صبح و شام ابوطالب کے گھر کی طرف روانہ ہوتی تھیں۔(16)(17)
مرحوم محلاتی نے علامہ مجلسیؒ سے نقل کیا ہے:
"ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ ؑ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: یہ جبرئیل ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لیے کچھ شرائط ہیں:
پہلی شرط: اللہ کی وحدانیت کا اقرار۔
دوسری شرط: انبیاء کی رسالت کا اقرار۔
تیسری شرط: قیامت پر ایمان اور شرعی اصول و احکام پر عمل۔
چوتھی شرط: اولی الامر (یعنی علیؑ) اور ان کی اولاد میں سے پاک آئمہ کی اطاعت اور ان کے دشمنوں سے برائت۔”
حضرت خدیجہؑ نے ان سب باتوں کا اقرار کیا اور ان کی تصدیق کی۔ (18)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تم (علیؑ) تمام مؤمنوں کے مولا اور میرے بعد ان کے امام ہو۔”
اس کے بعد نبی اکرمؐ نے اپنا دست مبارک امیرالمؤمنینؑ کے ہاتھ پر رکھا، اور خدیجہؑ نے اپنا ہاتھ رسول اللہؐ کے ہاتھ پر رکھا اور یوں ہمیشہ کے لیے ولایت کی بیعت مکمل کی۔(19)

حوالہ جات
1۔سیره نبوی، ابن هشام، ج1، ص201/ تاریخ طبری، ج1، ص521
2۔بحارالانوار،ج16،ص81 /ج103،ص374
3۔الاستیعاب، ج2، ص419، ش13
4۔تاریخ طبری، ج2،ص208 وشرح نہج البلاغه ابن ابی الحدید، ج13،ص197
5۔خصال صدوق، باب خصال اربعه
6۔اسدالغابة، ج5، ص437؛ استیعاب، ج4، ص1821
7۔خصال شیخ صدوق، باب خصال اربعه
8۔احزاب/5
9۔احزاب/33
10۔الوقایع و الحوادث، محمد باقر ملبوبی، ص13؛بحارالانوار،ج17،ص309 /ج16،ص22
11۔ الوقایع و الحوادث، محمد باقر ملبوبی، ص13؛بحارالانوار،ج17،ص309 /ج16،ص22
12۔بحارالانوار،ج16،ص75ـ77
13۔ بحارالانوار، ج19، ص63
14خدیجه کبری، نمونه زن مجاهد مسلمان
15طبقات ابن سعد، ج1،ص134
16۔بحار الانوار، داراحیاء التراث، ج37، ص43
17۔ بحار الانوار، داراحیاء التراث، ج43،ص3
18۔محلاّتی، ریاحین الشریعه، ج2، ص209
19۔ محلاّتی، ریاحین الشریعه، ج2، ص209

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button