مکتوب مجالس

عنوان: شفاعت جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور آپ سے توسل

مجلس عزاء ایام فاطمیہ

مقدمہ

يقول الله: يا بنت حبيبي ما التفاتك وقد أمرت بك إلى جنتي؟ فتقول: يا رب أحببت أن يعرف قدري في مثل هذا اليوم، فيقول الله: يا بنت حبيبي ارجعي فانظري من كان في قلبه حب لك أو لاحد من ذريتك خذي بيده فأدخليه، الجنة، قال أبو جعفر عليه السلام: والله يا جابر إنها ذلك اليوم لتلتقط شيعتها ومحبيها كما يلتقط الطير الحب الجيد من الحب الردئ

روز قیامت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے حبیب کی دختر آپ کو جب جنت کا  حکم مل گیا ہے تو کس چیز کے انتظار میں ہیں؟

تو آپ فرمائیں گی: اے میرے پروردگار! میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن  میرے مقام کو پہچانا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ  فرمائے گا: اے   حبیب کی بیٹی  اس میدان میں نگاہ دوڑائیں  جس کے دل میں بھی آپ یا آپ کی ذریت کے بارے میں محبت ہے  اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں داخل کردیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:  اے جابر! سم بخدا۔  اس دن میری دادی فاطمہ  اپنے محبوں اور شیعوں کو میدان محشر سے اس طرح چن لیں گی جیسے  پرندہ   صاف دانوں کو خراب دانوں سے الگ کرلیتا ہے۔

یہ مکمل حدیث تیسرے نمبر پر جو حدیث عرض خدمت کریں گے وہاں بیان ہوگی

روایات کی روشنی میں:

پہلی روایت:

محمد بن مفضل قال: سمعت أبا جعفر عليه السّلام يقول: لفاطمة عليها السّلام وقفة على باب جهنّم ، فإذا كان يوم القيامة كتب بين عيني كلّ رجل: مؤمن، أو كافر، فيؤمر بمحبّ قد كثرت ذنوبه إلى النار فتقرأ  فاطمة عليها السّلام بين عينيه محبّا. فتقول: إلهي و سيّدي سمّيتني  فاطمة ، و فطمت بي من تولاّني و تولّى ذرّيتي من النار ، و وعدك الحقّ و أنت لا تخلف الميعاد. فيقول اللّه عزّ و جلّ: صدقت يا  فاطمة ، إنّي  سمّيتك   فاطمة ، و فطمت بك من أحبّك و تولاّك و أحبّ ذرّيتك و تولاّهم من النار ، و وعدي الحقّ، و أنا لا اخلف الميعاد؛ و إنّما أمرت بعبدي هذا إلى النار لتشفعي فيه فاشفّعك؛ و ليتبيّن لملائكتي و أنبيائي و رسلي و أهل الموقف موقفك منّي، و مكانتك عندي؛ فمن قرأت بين عينيه مؤمنا، فخذي بيده، و أدخليه الجنّة

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا جہنم کے دروازے پر کھڑی ہوجائیں گی۔ قیامت کے روز ہر شخص کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا گا کہ یہ مومن یا کافر ہے تو فاطمہ کے محبوں کو گناہوں کی کثرت کی وجہ سے جہنم جانے کا حکم دیا جائے گاجبکہ جناب فاطمہ دیکھ لیں گیں کہ ان کے آنکھوں کے درمیان میں محب فاطمہ بھی لکھا ہوا ہے۔

تو آپؑ کہیں گی:اے میرے  معبود و سردار ۔! آپ نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے پس جو شخص مجھے اور میری زریت سے محبت کرتا ہے میں اسے جہنم کی آگ سے آزادی دلاؤں گی  اور تمہارا وعدہ بھی سچا ہے کیوں کہ اللہ ہرگز وعدے خلاف ورزی نہیں کرتا۔

پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے فاطمہ تو نے سچ کہا!  میں نے تمہارا نام فاطمہ رکھا ہے پس میں آپ کے وسیلے سے جو آپ سے محبت کرے ،   اور آپ کی زریت سے دوستی اور محبت کرے گا اس نجات دوں گا  اور میرا وعدہ حق ہے میں ہرگز وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔  میں نے اپنے اس بندے کو جہنم کا حکم دیا تھا  پس تو اس کی شفاعت کی  ہے  میں تیری سفارش قبول کی ہے۔ اور اللہ اپنے ملائکہ ، انبیاء، رسول،  اور  صاحب منزلت و فرستگان کو یہ کہے گاجس کی آنکھوں کے درمیان مومن لکھا ہوا ہو اس کا ہاتھ پکڑو اور اس جنت میں لے جاو۔

دوسری روایت:

قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : إِذَا كَانَ يَوْمُ اَلْقِيَامَةِ تُقْبِلُ اِبْنَتِي  فَاطِمَةُ عَلَى نَاقَةٍ مِنْ نُوقِ اَلْجَنَّةِ مُدَبَّجَةَ اَلْجَنْبَيْنِ خِطَامُهَا مِنْ لُؤْلُؤٍ رَطْبٍ قَوَائِمُهَا مِنَ اَلزُّمُرُّدِ اَلْأَخْضَرِ ذَنَبُهَا مِنَ اَلْمِسْكِ اَلْأَذْفَرِ عَيْنَاهَا يَاقُوتَتَانِ حَمْرَاوَانِ عَلَيْهَا قُبَّةٌ مِنْ نُورٍ يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا وَ بَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا دَاخِلُهَا عَفْوُ اَللَّهِ وَ خَارِجُهَا رَحْمَةُ اَللَّهِ عَلَى رَأْسِهَا تَاجٌ مِنْ نُورٍ لِلتَّاجِ سَبْعُونَ رُكْناً كُلُّ رُكْنٍ مُرَصَّعٌ بِالدُّرِّ وَ اَلْيَاقُوتِ يُضِيءُ كَمَا اَلْكَوْكَبُ اَلدُّرِّيُّ فِي أُفُقِ اَلسَّمَاءِ وَ عَنْ يَمِينِهَا سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ وَ عَنْ شِمَالِهَا سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ وَ جَبْرَئِيلُ آخِذٌ بِخِطَامِ اَلنَّاقَةِ يُنَادِي بِأَعْلَى صَوْتِهِ غُضُّوا أَبْصَارَكُمْ حَتَّى تَجُوزَ  فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فَلاَ يَبْقَى يَوْمَئِذٍ نَبِيٌّ وَ لاَ رَسُولٌ وَ لاَ صِدِّيقٌ وَ لاَ شَهِيدٌ إِلاَّ غَضُّوا أَبْصَارَهُمْ حَتَّى تَجُوزَ  فَاطِمَةُ فَتَسِيرُ حَتَّى تُحَاذِيَ عَرْشَ رَبِّهَا جَلَّ جَلاَلُهُ فَتَنْزَخُ بِنَفْسِهَا عَنْ نَاقَتِهَا وَ تَقُولُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي اُحْكُمْ بَيْنِي وَ بَيْنَ مَنْ ظَلَمَنِي اَللَّهُمَّ اُحْكُمْ بَيْنِي وَ بَيْنَ مَنْ قَتَلَ وُلْدِي فَإِذَا اَلنِّدَاءُ مِنْ قِبَلِ اَللَّهِ جَلَّ جَلاَلُهُ يَا حَبِيبَتِي وَ اِبْنَةَ حَبِيبِي سَلِينِي تُعْطَيْ وَ اِشْفَعِي تُشَفَّعِي فَوَ عِزَّتِي وَ جَلاَلِي لاَ جَازَنِي ظُلْمُ ظَالِمٍ فَتَقُولُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي ذُرِّيَّتِي وَ شِيعَتِي وَ شِيعَةَ ذُرِّيَّتِي وَ مُحِبِّيَّ وَ مُحِبِّي ذُرِّيَّتِي فَإِذَا اَلنِّدَاءُ مِنْ قِبَلِ اَللَّهِ جَلَّ جَلاَلُهُ أَيْنَ  ذُرِّيَّةُ   فَاطِمَةَ وَ  شِيعَتُهَا وَ مُحِبُّوهَا وَ مُحِبُّو ذُرِّيَّتِهَا فَيُقْبِلُونَ وَ قَدْ أَحَاطَ بِهِمْ مَلاَئِكَةُ اَلرَّحْمَةِ فَتَقْدُمُهُمْ  فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلاَمُ حَتَّى تُدْخِلَهُمُ اَلْجَنَّةَ

جابر بن عبد اللہ انصاری نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو میری دختر فاطمہ ایسی حالت میں آئے گی کہ وہ ایک بہشتی اونٹنی پر سوار ہوگی اس اونٹنی کے دونوں طرف بہشتی ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے ۔ اس کی مہار مروارید کی ، اس کے پاؤں سبز زمرد کے، اس کی دم خالص مشک کی اور اس کی آنکھیں سرخ یاقوت اور در کی ہوں گی۔ اس اونٹنی کی پشت پر نور کاگنبد نصب ہوگا جس کا اندرونی حصہ بیرونی حصے سے زیادہ آشکار ہوگا اس کا وسط پروردگار کی عفو و بخشش اور اس کا باہری حصہ خدائے رحیم کی رحمت کا حامل ہوگا۔

فاطمہ ء علیھا السلام کے سر پر نور کا تاج ہوگا جس کے ستر پائے ہوں گے ۔ اس کے پائے پرایک مرصع مروارید درخشاں ستارے کی مانند چمک رہا ہوگا فاطمہ ء علیھا السلام کے دائیں اور بائیں طرف ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جبرئیل نے حضرت فاطمہ ء علیھا السلام کی اونٹنی کی مہار تھام رکھی ہوگی اور وہ بلند آوازسے کہیں گے لوگوں اپنی آنکھیں بند کرلو تاکہ فاطمہ دختر محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جائے اس دن کوئی ایسا پیغمبر رسول صدیق اور شہید نہیں ہوگا جو اپنی آنکھیں بند نہ کرے یہاں تک کہ فاطمہ زہرا ء علیھا السلام میدان محشر سے گزر جائیں۔

جب وہ پروردگار کے عرش کے نیچے پہنچ جائیں گی تو اونٹنی سے نیچے اتریں گی اور کہیں گی اے میرے پروردگار میرے اور ان کے درمیان انصاف کر،جنہوں نے مجھ پر ظلم اور میرے بچوں کو شہید کیا ہے پھر خد اکی طرف سے آواز آئے گی اے میری حبیبہ اور میرے رسول کی دختر مجھ سے مانگو تاکہ میں تمہیں عطا کروں، تم شفاعت کرو تاکہ میں قبول کروں۔ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم کہ آج کسی بھی ظالم کا ظلم میری آنکھوں سے محو نہیں ہوگا۔ اس وقت حضرت زہراء علیھا السلام کہیں گی: خدا یا میرے بچو ں کے شیعوں کے بچوں ، دوستوں اور دوستوں کے دوستوں کو بخش دے ۔ پھر پروردگار عالم کی طرف سے منادی ندا دے گا کہ فاطمہ کی ذریت کے شیعوں کے بچے ، دوست اور دوستوں کے دوست کہاں ہیں؟ وہ سب ایسی حالت میں کہ جب فرشتے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہوں گے آئیں گے اس کے بعد فاطمہ ء علیھا السلام آگے بڑھیں گی تاکہ انہیں جنت میں داخل کریں۔

تیسری روایت:

يا أهل الجمع طأطؤوا الرؤوس وغضوا الابصار فإن هذه فاطمة تسير إلى الجنة، فيأتيها جبرئيل بناقة من نوق الجنة مدبحة الجنبين، خطامها من اللؤلؤ الرطب، عليها رحل من المرجان، فتناخ بين يديها فتركبها، فيبعث الله مائة ألف ملك ليسيروا عن يمينها، ويبعث إليها مائة ألف ملك ليسيروا عن يسارها ويبعث إليها مائة ألف ملك يحملونها على أجنحتهم حتى يصيروها على باب الجنة، فإذا صارت عند باب الجنة تلتفت، فيقول الله: يا بنت حبيبي ما التفاتك وقد أمرت بك إلى جنتي؟ فتقول: يا رب أحببت أن يعرف قدري في مثل هذا اليوم، فيقول الله: يا بنت حبيبي ارجعي فانظري من كان في قلبه حب لك أو لاحد من ذريتك خذي بيده فأدخليه، الجنة، قال أبو جعفر عليه السلام: والله يا جابر إنها ذلك اليوم لتلتقط شيعتها ومحبيها كما يلتقط الطير الحب الجيد من الحب الردئ، فإذا صار شيعتها معها عند باب الجنة يلقي الله في قلوبهم أن يلتفتوا، فإذا التفتوا يقول الله: يا أحبائي ما التفاتكم وقد شفعت فيكم فاطمة بنت حبيبي؟ فيقولون: يا رب أحببنا أن يعرف قدرنا في مثل هذا اليوم، فيقول الله: يا أحبائي ارجعوا وانظروا من أحبكم لحب فاطمة، انظروا من أطعمكم لحب فاطمة، انظروا من كساكم لحب فاطمة، انظروا من سقاكم شربة في حب فاطمة، انظروا من رد عنكم غيبة في حب فاطمة فخذوا بيده وأدخلوه الجنة، قال أبو جعفر عليه السلام: والله لا يبقى في الناس إلا شاك أو كافر أو منافق فإذا صاروا بين الطبقات نادوا كما قال الله تعالى: ” فمالنا من شافعين ولا صديق حميم ” فيقولون: فلو أن لنا كرة فنكون من المؤمنين 

اے اہل محشر اپنی سروں کو جھکا لو اور آنکھیں بند کرلو ۔ ا س لئے کہ فاطمہ بہشت کی طرف جا رہی ہے۔جبرئیل ایک بہشتی اونٹنی کے ساتھ آئیں گے جس کے دونوں پہلو سجے ہوئے ہوں گے اس کی مہار درخشندہ لؤلؤ کی ہوگی اور اس پر مرجان کا محمل ہوگا ۔پس یہ ناقہ آپ کے سامنے ٹھہرے گی اور آپؑ اس پر سوار ہوں گیاور ایک لاکھ فرشتے ان کی طرف بھیجے جائیں گے جو ان کی دائیں طرف چلیں گے اور ایک لاکھ فرشتے ان کی بائیں طرف۔ پھر ایک لاکھ فرشتے آئیں گے اور انہیں اپنے پروں پر سوار کرکے بہشت کے دروازے پر اتاریں گے۔

جب وہ دروازے پر پہنچیں گی تو محشر کی طرف نظر کریں گی پس خداوند متعال فرمائے گا اے میرے حبیب کی دختر تیرے اس التفات کا سبب کیا ہے میں نے تجھے بہشت میں لے جانے کا حکم دیا ہےپس وہ کہیں گی پروردگار ا میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن میری قدر پہچانی جائے پس خدا فرمائے گا اے میرے حبیب کی دختر محشر واپس چلی جاؤ اور دیکھو جس کے د ل میں تمہاری یا تمہاری ذریت میں سے کسی کی محبت ہوگی اسے ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں لے جانا ۔

امام محمد باقر  علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم اے جابر اس دن فاطمہ زہرا ء علیھا السلام اپنے شیعوں اور ان کے دوستوں کو اس طرح چن کر الگ کرلیں گی جس طرح پرندہ برے دانوں میں سے اچھے دانے چگتا ہے۔ پس ان کے شیعہ جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو خداوند عالم ان کے دلوں میں ڈال دے گا تو  وہ توجہ کریں گے پس خدا فرمائے گا اے میرے دوستو تمہارے التفات کا سبب کیا ہے بے شک میں نے تمہارے بارے میں اپنے حبیب کی بیٹی فاطمہ کو شفیع قراردیا ہے۔

وہ کہیں گے پروردگارا!ہم چاہتے ہیں  کہ آج کے دن ہمارے مقام و مرتبے کو پہچانا جائے  تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  اے میرے دوستو پلٹ جاو اور نگاہ کرو  جسے تم فاطمہ سے محبت کی وجہ سے پسند کرتے ہو  اسے دیکھو جس نے فاطمہ کی محبت میں کھانا کھلایا ہو جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں  لباس پہنانا ہوں، جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں   کوئی مشروب پلایا ہو، جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں   تمہاری  غیبت سے روکا ہو پس اس کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں لے جاو۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کی قسم! صرف مشرک ، کافر ، اور منافق باقی رہ جائیں گے باقی سب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔ باقی رہ جانے والے لوگ دوزخ کے طبقات کے درمیان آواز دیں گےاب ہمارا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی سچا دوست ہے اور کہیں گے اگر ہم دنیا میں دوبارہ جاتے تو مومن ہوجاتے ۔

چوتھی روایت:

قَالَ جَابِرٌ لِأَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ فِي فَضْلِ جَدَّتِكَ  فَاطِمَةَ عَلَيْهَا اَلسَّلاَمُ إِذَا أَنَا حَدَّثْتُ بِهِ اَلشِّيعَةَ فَرِحُوا بِذَلِكَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ اَلْقِيَامَةِ نُصِبَ لِلْأَنْبِيَاءِ وَ اَلرُّسُلِ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ فَيَكُونُ مِنْبَرِي أَعْلَى مَنَابِرِهِمْ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ اَللَّهُ يَا مُحَمَّدُ اُخْطُبْ فَأَخْطُبُ بِخُطْبَةٍ [خُطْبَةً] لَمْ يَسْمَعْ أَحَدٌ مِنَ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ اَلرُّسُلِ بِمِثْلِهَا ثُمَّ يُنْصَبُ لِلْأَوْصِيَاءِ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ وَ يُنْصَبُ لِوَصِيِّي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي أَوْسَاطِهِمْ مِنْبَرٌ مِنْ نُورٍ فَيَكُونُ مِنْبَرُهُ [مِنْبَرُ عَلِيٍّ ] أَعْلَى مَنَابِرِهِمْ ثُمَّ يَقُولُ اَللَّهُ [يَقُولُ لَهُ] يَا عَلِيُّ اُخْطُبْ فَيَخْطُبُ بِخُطْبَةٍ [خُطْبَةً] لَمْ يَسْمَعْ أَحَدٌ مِنَ اَلْأَوْصِيَاءِ بِمِثْلِهَا ثُمَّ يُنْصَبُ لِأَوْلاَدِ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ اَلْمُرْسَلِينَ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ فَيَكُونُ لاِبْنَيَّ وَ سِبْطَيَّ وَ رَيْحَانَتَيَّ أَيَّامَ حَيَاتِي منبر [مِنْبَرَانِ] مِنْ نُورٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُمَا اُخْطُبَا فَيَخْطُبَانِ بِخُطْبَتَيْنِ لَمْ يَسْمَعْ أَحَدٌ مِنْ أَوْلاَدِ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ اَلْمُرْسَلِينَ بِمِثْلِهِمَا ثُمَّ يُنَادِي اَلْمُنَادِي [مُنَادٍ] وَ هُوَ جَبْرَئِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ  أَيْنَ  فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ  أَيْنَ  خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ  أَيْنَ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ  أَيْنَ آسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ  أَيْنَ أُمُّ كُلْثُومٍ أُمُّ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا فَيَقُمْنَ فَيَقُولُ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَا أَهْلَ اَلْجَمْعِ لِمَنِ اَلْكَرَمُ اَلْيَوْمَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ وَ عَلِيٌّ وَ اَلْحَسَنُ وَ اَلْحُسَيْنُ [وَ  فَاطِمَةُ ]« لِلّٰهِ اَلْوٰاحِدِ اَلْقَهّٰارِ » فَيَقُولُ اَللَّهُ جَلَّ جَلاَلُهُ [تَعَالَى] يَا أَهْلَ اَلْجَمْعِ إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ اَلْكَرَمَ لِمُحَمَّدٍ وَ عَلِيٍّ وَ اَلْحَسَنِ وَ اَلْحُسَيْنِ وَ  فَاطِمَةَ يَا أَهْلَ اَلْجَمْعِ طَأْطِئُوا اَلرُّءُوسَ وَ غُضُّوا اَلْأَبْصَارَ فَإِنَّ [إِنَّ] هَذِهِ  فَاطِمَةُ تَسِيرُ إِلَى اَلْجَنَّةِ فَيَأْتِيهَا جَبْرَئِيلُ بِنَاقَةٍ مِنْ نُوقِ اَلْجَنَّةِ مُدَبَّجَةَ اَلْجَنْبَيْنِ خِطَامُهَا مِنَ اَللُّؤْلُؤِ اَلْمُحَقَّقِ اَلرَّطْبِ عَلَيْهَا رَحْلٌ مِنَ اَلْمَرْجَانِ فَتُنَاخُ بَيْنَ يَدَيْهَا فَتَرْكَبُهَا فَيَبْعَثُ إِلَيْهَا مِائَةَ أَلْفِ مَلَكٍ فَيَصِيرُوا عَلَى يَمِينِهَا وَ يَبْعَثُ إِلَيْهَا مِائَةَ أَلْفِ مَلَكٍ يَحْمِلُونَهَا عَلَى أَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يُصَيِّرُوهَا [يُسَيِّرُوهَا] عِنْدَ [عَلَى] بَابِ اَلْجَنَّةِ فَإِذَا صَارَتْ عِنْدَ بَابِ اَلْجَنَّةِ تَلْتَفِتُ فَيَقُولُ اَللَّهُ يَا بِنْتَ حَبِيبِي مَا اِلْتِفَاتُكِ وَ قَدْ أَمَرْتُ بِكِ إِلَى جَنَّتِي[ اَلْجَنَّةِ ] فَتَقُولُ يَا رَبِّ أَحْبَبْتُ أَنْ يُعْرَفَ قَدْرِي فِي مِثْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ فَيَقُولُ اَللَّهُ [تَعَالَى] يَا بِنْتَ حَبِيبِي اِرْجِعِي فَانْظُرِي مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ حُبٌّ لَكِ أَوْ لِأَحَدٍ مِنْ ذُرِّيَّتِكِ خُذِي بِيَدِهِ فَأَدْخِلِيهِ اَلْجَنَّةَ . قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ وَ اَللَّهِ يَا جَابِرُ إِنَّهَا ذَلِكَ اَلْيَوْمَ لَتَلْتَقِطُ  شِيعَتَهَا وَ مُحِبِّيهَا كَمَا يَلْتَقِطُ اَلطَّيْرُ اَلْحَبَّ اَلْجَيِّدَ مِنَ اَلْحَبِّ اَلرَّدِيِّ فَإِذَا صَارَ  شِيعَتُهَا مَعَهَا عِنْدَ بَابِ اَلْجَنَّةِ يُلْقِي اَللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ أَنْ يَلْتَفِتُوا فَإِذَا اِلْتَفَتُوا يَقُولُ [فَيَقُولُ] اَللَّهُ يَا أَحِبَّائِي مَا اِلْتِفَاتُكُمْ وَ قَدْ شَفَعَتْ فِيكُمْ  فَاطِمَةُ بِنْتُ حَبِيبِي فَيَقُولُونَ يَا رَبِّ أَحْبَبْنَا أَنْ يُعْرَفَ قَدْرُنَا فِي مِثْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ فَيَقُولُ اَللَّهُ يَا أَحِبَّائِي اِرْجِعُوا وَ اُنْظُرُوا مَنْ أَحَبَّكُمْ لِحُبِّ  فَاطِمَةَ اُنْظُرُوا مَنْ أَطْعَمَكُمْ لِحُبِّ  فَاطِمَةَ اُنْظُرُوا مَنْ كَسَاكُمْ لِحُبِّ  فَاطِمَةَ اُنْظُرُوا مَنْ سَقَاكُمْ شَرْبَةً فِي حُبِّ  فَاطِمَةَ اُنْظُرُوا مَنْ رَدَّ عَنْكُمْ غِيبَةً فِي حُبِّ  فَاطِمَةَ خُذُوا بِيَدِهِ وَ أَدْخِلُوهُ اَلْجَنَّةَ . قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ وَ اَللَّهِ لاَ يَبْقَى فِي اَلنَّاسِ إِلاَّ شَاكٌّ أَوْ كَافِرٌ أَوْ مُنَافِقٌ فَإِذَا صَارُوا بَيْنَ اَلطَّبَقَاتِ نَادَوْا كَمَا قَالَ اَللَّهُ [تَعَالَى] « فَمٰا لَنٰا مِنْ شٰافِعِينَ `وَ لاٰ صَدِيقٍ حَمِيمٍ » فَيَقُولُونَ « فَلَوْ أَنَّ لَنٰا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ اَلْمُؤْمِنِينَ » قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ مُنِعُوا مَا طَلَبُوا« وَ لَوْ رُدُّوا لَعٰادُوا لِمٰا نُهُوا عَنْهُ وَ إِنَّهُمْ لَكٰاذِبُونَ

جابرؓ نے امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا ۔ فرزند رسول ؐ میں آپؑ پر قربان جاؤں ۔ مجھے اپنی جدہ فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا کی فضیلت میں کوئی بات بتایئے ۔ میں یہ بات شیعوں کو بتاؤں گا تو وہ سن کر بہت خوش ہوں گے۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :

مجھے میرے والد نے میرے دادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ جب قیامت کا روز ہوگا انبیاء اور رسولوں کیلئیے نور کے بنے ہوئے منبر نصب ہوں گے ۔ میرا منبر سب سے اونچا ہوگا ۔ رب باری تعالی ارشاد فرمائے گا ۔ اے محمدؐ ! خطبہ پڑھو۔ میں خطبہ پڑھوں گا ۔ انبیاء اور رسولوں نے ایسا خطبہ کبھی نہ سنا ہوگا۔ پھر اوصیاء کی خاطر نور کے منبر نصب ہونگے میرے وصی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا منبر ان سب کے وسط میں نصب ہوگا ، آپؑ کا منبر سب سے زیادہ بلند ہوگا ۔ اللہ تعالی علی ؑ سے فرمائے گا خطبہ دو، آپؑ خطبہ فرمائیں گے اوصیاء نے ایسا بہترین خطبہ کبھی نہ سنا ہوگا ۔

پھر اولاد انبیاء اور رسولوں کے نور کے منبر نصب ہونگے ، میرے دونوں فرزندوں اور دنیا میں میری زندگی میں میری خوشبوؤں ( حسنؑ اور حسینؑ ) کے نور کے دو منبر نصب ہوں گے ، ان سے کہا جائیگا خطبہ دو ۔ دونوں خطبہ دیں گے ۔ ایسا خطبہ اولاد انبیاء اور مرسلین نے کبھی نہ سنا ہوگا ۔

پھر جبرائیل ندا دے گا ۔ فاطمہؑ بنت محمدؐ ، خدیجہؑ بنت خویلد ، مریمؑ بنت وعمران ، آسیہؑ بنت مزاحم ، اور یحیئ بن زکریاؑ کی ماں ام کلثوم کہاں ہیں ؟ یہ سب مخدرات کھڑی ہوجائیں ، خداوند عالم مجمع سے کہے گا ۔ آج عزت و بزرگی والا کون ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علی علیہ الصلوۃ والسلام ، حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام اور فاطمۃ زہراء سلام اللہ علیہا جوابا فرمائیں گے خدا واحد قہار ہے ۔

خداوند عالم مجھ سے کہے گا ۔ میں نے عزت اور بزرگی محمدؐ ، علیؑ ، حسنؑ ، حسینؑ اور فاطمہؑ کو دی ہے ۔ اے گرہ حاضرین اپنے اپنے سر نیچے کرلو ۔ اور آنکھیں بند کرلو۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی طرف تشریف لے جارہی ہیں ۔ جبرائیلؑ جنت کی اونٹنی سواری کے لیے پیش کریں گے جس کی مہار موتیوں کی اور رحل مرجان کا ہوگا ۔

سیدہ سلام اللہ علیہا اس پر سوار ہوں گی اور اس شان سے روانہ ہوگی کہ ایک لاکھ فرشتے دائیں طرف اور ایک لاکھ بائیں طرف چلتے ہوں گے ۔ خداوند عالم ایک لاکھ فرشتے اور بھیجے گا ۔ جو اس اونٹنی کو اپنے پروں پر اٹھا لیں گے اور اسی حالت میں جنت کے دروازے پر پہنچیں گے ۔

سیدہ سلام اللہ علیہا جب جنت کے دروازہ پر تشریف لائیں گی تو ادھر ادھر دیکھیں گی ۔ خداوند عالم فرمائے گا میرے حبیبؐ کی بیٹی ! ادھر ادھر کیوں دیکھتی ہے میں نے تمہیں جنت میں جانے کا حکم دیا ہے ، عرض کریں گی : اے پالنے والے آج لوگوں میں میری منزلت معلوم ہونی چاہیے ۔ خداوند عالم فرمائے گا واپس پلٹ کر مجمع میں تشریف لے جایئے دیکھو جس کے دل میں تیری یا تیری اولاد میں سے کسی ایک کی محبت ہو اس کے ہاتھ کو پکڑ کر جنت میں لے جایئے ۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ۔

بخدا اے جابرؓ اس روز سیدہ ؑ اپنے شیعوں کو اس طرح چن لیں گیں جس طرح پرندہ اچھے دانوں کو گندے دانوں سے جدا کر لیتا ہے۔

شعیہ جنت کے دروازے پر سیدہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ وارد ہوں گے خدا ان کے دلوں کو القا کرے گا اور وہ ادھر ادھر دیکھیں گے۔  اللہ تعالی کہے گا ، میرے دوستو ادھر ادھر کیوں دیکھتے ہو فاطمہ ؑ نے تمہاری سفارش کی ہے ۔ عرض کریں گے آج لوگوں کو ہماری منزلت معلوم ہونی چاہیے ۔ خدا فرمائے گا میرے دوستو ! واپس لوگوں میں چلے جاؤ اور ان لوگوں کو تلاش کرو جنہوں نے تمہیں خدا کی خوشنودی میں کھانا کھلایا ، فاطمہؑ کی محبت میں پانی پلایا اور کپڑا پہنایا ۔ ان کو ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں اپنے ساتھ لے جاؤ ۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ۔ خدا کی قسم! صرف مشرک ، کافر ، اور منافق باقی رہ جائیں گے باقی سب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔ باقی رہ جانے والے لوگ دوزخ کے طبقات کے درمیان آواز دیں گےاب ہمارا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی سچا دوست ہے اور کہیں گے اگر ہم دنیا میں دوبارہ جاتے تو مومن ہوجاتے ۔

امام ؑ فرماتے ہیں افسوس افسوس ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوگا اگر ان کو واپس دنیا میں بھیج دیا جائے تو یہ ممنوعہ کاموں کو پھر کریں گے یہ لوگ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں۔

پانچویں روایت:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

 مَنْ صَلّٰی عَلَیکِیَافَاطِمَۃُ غَفَرَاﷲُلَہُ وَاُلْحِقْہُ حَیْثُ کُنْتِ مِنَ الْجَنَّۃِ۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے فاطمہ! جو شخص بھی تم پر صلوات بھیجتا ہے ، خداوند متعال اسے بخش دیتا ہے اور میں جنت میں جس جگہ بھی ہوں گا، خدا اسے مجھ  سے ملحق کر دے گا۔

جناب سیدہ  سلام اللہ علیھا سے توسل کے واقعات:

1۔خدا سے تقرب کے لیے بی بی سے توسل:

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اہلبیت علیھم السلام کے وسیلہ ہونے کے حوالے سے اپنے خطبہ میں فرماتی ہیں :

وأحمد الله الذی بعظمتة ونوره یبتغی من فی السماوات والأرض ، الیه الوسیلة و نحن وسیلته فی خلقه

زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب تقرّب خدا کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں اور مخلوق خدا میں اس کا وسیلہ ہم ہیں۔

2۔امام معصوم کا جناب سیدہ علیھا السلام  سے توسل:

اگر ہم بحارالانوار جیسی مفصل کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو واضح ہو جا تاہے کہ حضرت زہرا علیھا السلام کی فضیلت ،مقام ومنزلت خدا کی نظر میں کتنی زیادہ ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے آپ کبھی کبھاربخار جیسے مرض کا شکار ہو تے تھے جس کے نتیجہ میں آپ کی توانائی کھوجاتی تھی اس وقت آپ بخار کی تکلیف کو برطرف کرنے اور اس بیماری سے نجات کی خاطر یازہرا بنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز بلند کر تے تھے جس سے آپ کو شفا ملتی تھی۔

3۔صدام کے دور میں جب علماء کو چن چن کر قتل کیا جاتا تو اس وقت مرحوم قزوینی کربلا میں تھے آپ کو کربلا سے حکومتی گاڑیوں میں بٹھا کر پہلے جنف کی راہ میں چلے پھر اچانک صحرا کا رخ کیا اور دور ٹیلوں میں قبر کھودنے کا سامان نکالنا شروع کیا تاکہ آپ کو زدہ دگور کیا جائے تو اس وقت آپ نے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے توسل کیا کہ اگر وہ زندہ بچ گئے تو ان کی حیات طیبہ پر ایک کتاب تحریر کریں گے۔ چناچہ جناب سیدہ کے توسل سے آپ کو نجات ملی بعد ازاں  آپ ؒ نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک مبسوط کتاب "فاطمہ من المھد الی اللحد” تحریر فرمائی۔

4۔زہرا سلام اللہ علیہا کے معجزات میں سے ہے کہ  حوزہ علمیہ قم کے کسی عالم دینکو جب کوئی مشکل پیش آنے کی وجہ سے اساتذہ اور بڑے بڑے اثررسوخ والوں سے متوسل ہوئے لیکن بر طرف نہیں ہوئی عالم دین نے مشکل کی برطرفی کی خاطر حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت کو جا نے کا عزم کیا راستے میں جناب علامہ طبا طبائی سے ہم سفر ہوئے عالم دین نے علامہ سے کہا اے استاد بزرگوار مجھے کو ئی ایسی دعا تعلیم فرمائیں تا کہ میں امام رضا کے روضے پر اس دعا کے ذریعے اپنے راز ونیاز اورحوائج بیان کر سکوں علامہ نے فرمایا جب امام کے روضے پر پہنچیں تو امام سے حضرت زہرا  علیھا السلام سے متوسل ہو کر دعا کریں انشاء اللہ آپ کی حاجت روا ہو گی کیونکہ امام رضا علیہ السلام حضرت زہراسلام اللہ علیہا سے اتنی محبت اور دوستی کے خواہاں ہیں کہ جو بھی گنہگار امام رضاسے کسی مشکل کا حل حضرت زہرا  علیھا السلام کے تو سل سے چا ہتا ہے تو وہ ضرور امام قبول فرماتے ہیں عالم دین نے حضرت علامہ طباطبائی کی نصیحت پر عمل کر تے ہوئے اللہ تبارک وتعالی سے امام رضا کے روضے پر حضرت زہرا  علیھا السلام سے متوسل ہو کر دعا کی خدانے ان کی دعا کو قبول فرمایا۔

5۔جناب شیخ عبدالنبی حوزہ علمیہ قم کے فضلاء میں سے ایک ہیں وہ فرماتے تھے کہ میں کچھ سال پہلے سردرد کی بیماری میں مبتلا ہو ا ایران کے ماہرین ڈاکٹروں میں سے ما ہر تر ڈاکڑ سے علاج کرایا ہر قسم کے ٹیکے اور دوائیوں سے استفادہ کیا لیکن کو ئی اثر ظاہر نہیں ہوا بہت ہی مایوسی کی حالت میں ایک دن حضرت آیت اللہ بہجت دام عزہ کی نماز جماعت میں شرکت کی بیماری کی وجہ سے میری حالت ابتر تھی ساتھ والے ہم صف کو میری حالت کا پتہ چلا تو پوچھا اے آقا آپ کی حالت خراب نظر آتی ہے کیا آپ مریض تو نہیں ہے ؟ میں نے کہا کئی سالوں سے ردرد کی بیماری میں مبتلا ہوں ڈاکڑوں سے علاج کر ایا لیکن ٹھیک نہیں ہو سکا اس نے مجھ سے کہا حضرت زہرا سے متوسل ہو کر دعا کیجئے انشاء اللہ تندرست ہو جا ئیں گے ان کی نصیحت نے مجھے بہت متاثر کیا میں نے حضرت زہرا  علیھا السلام سے متوسل ہو کر دعا کی تو اللہ تبارک وتعالی نے میری دعا کو مستجاب فرمایا لہٰذا میں نے دوستوں کو جمع کر کے حضرت زہرا  علیھا السلام کے نام سے گھر میں ہر ہفتہ مجلس کرنے کا عزم کیا ہے اور ہر ہفتے میں ایک دفعہ غریب خانہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر مجلس ہو تی ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button