عدلعقائد

اصول دین کا ایک اہم جزء عدل الٰہی

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی

مقدمہ
ہم نے گذشتہ دروس میں متکلمین کے دو گروہوں (اشعری اور معتزلی ) کے نظریات کلامی، ارادہ الٰہی، توحید ، جبرو اختیار، قضا و قدر کے سلسلہ میں گفتگو کی کہ جن میں یا تو افراط ہے یا تفریط۔
انھیں دو گرہوں کے درمیان بنیادی اختلاف میں سے ایک عدل الٰہی کا مسئلہ ہے، اس نظریہ میں شیعہ متکلمین ،معتزلہ کے موافق ہیں جنھیں اشاعرہ کے مقابل میں عدلیہ کہا جاتا ہے، اور یہ مسئلہ اپنی اہمیت کی وجہ سے علم کلام کے بنیادی و اساسی مسائل میں شمار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس مسئلہ کو اصول عقائد کا ایک حصہ اور شیعہ و معتزلہ متکلمین کی پہچان کے عنوان سے جانا گیا ہے۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رہے کہ اشاعرہ عدل الٰہی کے منکر نہیں ہیں، اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ وہ (العیاذ باللہ) خدا کو ظالم سمجھتے ہوں، اس لئے کہ قرآن کی آیات واضح انداز میں عدل الٰہی کے اثبات اور اس سے ہر طرح کے ظلم کی نفی کرتی ہیں، لیکن اصل اختلاف یہ ہے کہ کیا عقل، شرعی بیانات (کتاب و سنت) سے ہٹ کر خدا کے افعال کے لئے قوانین کا ادراک کرسکتی ہے، اور اس طرح کسی عمل کے انجام دینے یا اسے ترک کرنے کا حکم دے سکتی ہے، مثلاً کیا ”خدا کے لئے لازم ہے کہ مومنوں کو بہشت اور کافروں کو دوزخ میں لے جائے” کیاعقل حکم دے سکتی ہے، یا پھر ایسے قضایا کا حل صرف وحی کے ذریعہ ممکن ہے اور عقل کو ایسے مسائل میں دخل اندازی کا کوئی امکان نہیں ہے؟
لہذا اختلاف کا محوری نقطہ(حُسن و قبح عقلی )کا مسئلہ ہے جس سے اشاعرہ نے انکار کیا ہے اور وہ قائل ہیں کہ تکوینی امور میں جو خدا کا فرمان ہے وہی بہتر ہے، اور (تشریعی امور) میں صرف اسی کا حکم اچھا اور بہتر ہے، اور ایسا ہرگز نہیں ہے چونکہ وہ نیک کام ہے لہٰذا اسے انجام دینے کا حکم دیا جائے یا برا کام ہے لہذا ا س سے روکا جائے۔
لیکن عدلیہ حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ تکوینی اور تشریعی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے افعال خدا کو(حُسن و قبح) سے متصل کیا جا سکتا ہے، اور عقل بھی ایک حد تک افعال کے برے یا اچھے ہونے کے اسباب کا پتا لگا سکتی ہے اور وجود مقدس الٰہی کو افعال قبیحہ سے منزہ کر سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عقل خدا کو (العیاذ بااللہ) نیک امور کا حکم دے یا برے امور سے منع کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل ذات خداوندی سے افعال قبیحہ کے صدور کو محال جانتی ہے نیز ذات الٰہی اور افعال حسنہ یا قبیحہ کے درمیان نسبتوں کا اندازہ لگا سکتی ہے۔
یہ بات آشکار ہے کہ ان مباحث کی تفصیلی تحقیق اور اس ضمن میں شبہات کا جواب جس میں اشاعرہ کی طرف سے ( حُسن و قبح) عقلی کا انکار کیا گیا ہے اور انھیں جماعت عدلیہ کے مقابلہ میں لا کر کھڑا کردیا ہے اس کتاب کی وسعت سے باہر ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس مسئلہ کے تحت معتزلہ کے بعض ضعیف نظریات ہوں کہ جن کی ہم مناسب موقع پر وضاحت کریں گے ، لیکن یہ حُسن و قبح عقلی کا مسئلہ شیعوں کے نزدیک قابل قبول اور کتاب و سنت کی طرف سے تائید کے علاوہ، معصومین علیہم السلام نے اس کے اثبات میں بڑی تاکید کی ہے۔
اسی وجہ سے ہم یہاں پر مفہوم عدل کے تحت تھوڑی وضاحت کریں گے، اور چونکہ یہ خدا کی صفاتِ فعلیہ ہے لہٰذا اس پر دلیلاقا ئم کرتے ہوئے اس ضمن میںموجودہ شبہات کے سلسلہ میں بحث کریں گے
مفہوم عدل
عدل کے لغوی معنی برابری اورمساوی کرنے کے ہیں، اور عرف عام میں لوگوں کے حقوق کی رعایت کرنے کے معنی میں ہے جسے دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے پس عدل کی اس طرح تعریف کی جا سکتی ہے اِعطَاَء کُلّ ذِ حَقٍ حَقَہُ”صاحب حق کے حق کو عطا کرنا۔
لہٰذا اس تعریف کے تحت ایک ایسے موجود کو فرض کرنا ہوگا جو صاحب حق ہو ، تا کہ اس کی رعایت کو عدل اور اس پر تجاوز کو ظلم کا نام دیا جا سکے لیکن کبھی مفہوم عدل کو وسعت دیتے ہوئے اس طرح تعریف کی جاتی ہے ،کہ (کسی بھی شی کو اس کے مقام پر رکھنااورکسی بھی فعل کو شائستہ صورت میں انجام دینا) اور پھر اس طرح عدل کی تعریف (وضع کل شئٍ فی موضعہ).(کسی بھی شی کو اس کے مقام پر رکھنا) کی جا سکتی ہے، عدل کی یہ تعریف حکمت کے مساوی اور ایک عادلانہ حکیمانہ عمل کا مساوی کہلائے گی لیکن کسی طرح (صاحب حق کا حق)کسی بھی شئی کا اپنا مقام معین ہو، اس سلسلہ میں کافی بحث ہے جس نے فلسفہ اور کلام کے ایک عظیم مباحث کو اپنے سے مخصوص کرلیا ہے جنھیں ہم یہاںپر کسی بھی صورت میں بیان نہیں کرسکتے۔
لیکن جس مسئلہ کی طرف توجہ لازم ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام عقلا اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یتیم کے دہن سے لقمہ کو چھیننا یا نا حق کسی کا خون بہانا ،ایک قبیح عمل ہے، یا یتیم کے دہن سے چھینا گیا لقمہ اس کے منھ میں لوٹا دینا یا ناحق خون بہانے والے کو سزا دینا ایک عادلانہ اور شائستہ عمل ہے، اور یہ امر خدا کے امر و نہی پر منحصر نہیں ہے یہاں تک کہ ایک ملحد بھی اپنے مقام پر یہی قضاوت کرتا ہے لیکن اس فیصلہ کا راز کیا ہے؟ اور کون سی طاقت حسن و قبح کے تعین کی صلاحیت رکھتی ہے اسی طرح کے اور دوسرے مسائل کے بارے میں فلسفہ کی کتابوں میں بحث کی جاتی رہی ہے۔
نتیجہ۔
عدل کے لئے دو مفہوم خاص اور عام فرض کئے جاسکتے ہیں، ایک یہ کہ دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا، اور دوسرے یہ کہ حکیمانہ عمل انجام دینا ،کہ جس میں لوگوں کے حقوق کی رعایت کرنا شامل ہے
لہٰذا عدل کا لازمہ تمام انسانوں یا اشیاء کو برابراور مساوی تقسیم کرنا نہیں ہے جیسے کہ عادل استاد یہ نہیں ہے جو محنتی اور کاہل شاگردوں کو برابر سے تشویق یا انھیں مساوی حثیت سے سزادے، یا عادل قاضی یہ نہیں ہے جو مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان مورد نزاع مال کو مساوی تقسیم کردے، بلکہ عادل استاد یہ ہے جو ہر شاگرد کو اس کی شائستگی کے مطابق تشویق یا اس کی کاھلی کے اعتبار سے اسے سزادے، اور عادل قاضی یہ ہے جو مال کو اس کے مالک کے حوالہ کردے۔
اسی طرح حکمت الٰہی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ تمام مخلوقات کو ایک جیسا خلق کرے، جیسے کہ پرندوں کی طرح انسان کو بھی بال و پر عطا کرے… بلکہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ جہان کو اسی صورت میں خلق کرے کہ جس سے زیادہ سے زیادہ خیر و کمال مل سکے، اور مختلف موجودات کو انتہائی ہدف کے مطابق خلق کرے اسی طرح حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق عمل انجام دینے کا حکم دے ۔ ”لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفساً اِلاَ وُسعَهَا ”.(سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٨٦ )اور پھر اس کی استعداد اور توانائی کے مطابق قضاوت کرے۔وَقُضِیَ بَینَهُم بِالقِسطِ وَهُم لاَ یُظلَمُون . (سورۂ یونس۔آیت/ ٥٤ ) اور اس کے عمل کے عوض میں سزا، یا جزا عطا کرے۔فَالیَومَ لاَ تُظلَمُ نَفس شَیئاً وَلاَ تُجزَونَ اِلَّا مَاکُنتُم تَعمَلُونَ(” .سورۂ یس۔ آیت /٥٤)
دلیل عدل الٰہی
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ عدل ایک تعریف کے مطابق حکمت الٰہی کا حصہ اور دوسری تعریف کے مطابق عین حکمت الٰہی ہے، لہٰذا اس کے اثبات میں دلیل بھی ایسی ہونی چاہیے جو حکمت الٰہی کو ثابت کر سکے، ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ خدا بے نہایت قدرت و اختیار کا مالک ہے اور تمام ممکن الوجود امور اسی کی قدرت میں ہیں، اور کسی بھی خارجی طاقت کے سامنے تسلیم اور مغلوب ہوئے بغیر امور کی انجام دہی یا انھیں ترک کرنے پر قادر ہے، لیکن ہر وہ فعل جسے انجام دے سکتا ہے انجام نہیں دیتا بلکہ جس کے لئے ارادہ بناتا ہے اسے انجام دیتا ہے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ بے حساب و کتاب نہیں ہے، بلکہ صرف وہ اپنے صفات کمالیہ کے مطابق ارادہ بناتا ہے، اور اگر اس کے صفات کمالیہ کسی فعل کا تقاضا نہ رکھتے ہوں تو وہ کبھی بھی اسے انجام نہیں دیتا،’ چونکہ ذات خداوند کمالِ محض ہے ،لہٰذا اس کا ارادہ بھی مخلوقات کے کمال اور ان کے خیر سے متعلق ہوتا ہے، اور اگر کسی مخلوق کے وجود کا لازمہ ،جہان میں نقائص کی پیدائش کا سبب ہو تو اس کے نقائص مقصود بالتبع ہو ں گے۔
یعنی اس لئے کہ وہ خیر فراواں ناقابل انفکاک (شر) کا لازمہ ہے، لہٰذا اس خیر غالب سے ارادہ الٰہی متعلق ہوگا۔
پس الٰہی صفات کمالیہ کا اقتضا یہ ہے کہ جہان اس طرح خلق ہو کہ جو مجموعاً زیادہ سے زیادہ خیر و کمال کا سر چشمہ بن سکے لہذا یہیں سے خدا کے لئے صفات کمالیہ ثابت ہوجاتے ہیں اسی بنیاد پر ارادۂ الٰہی اسی انسان کی خلقت سے متعلق ہوتا ہے کہ جس میں امکان وجود ہو اور ”خیر و برکت کا منشا ہو، اور انسان کے امتیازات میں سے اس کا مختار ہونا اور ارادہ کے اعتبار سے آزاد ہونا ہے، بے شک اختیار و انتخاب کی طاقت سے متصف ہونا کمالات وجودی میں سے شمار کیا جاتا ہے، لیکن انسان کے مختار ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ نیک امور انجام دے ،اور اپنے انتہا ئی کمال کی جانب قدم بڑھاتا رہے،اوراس میں اتنی طاقت ہو کہ وہ ناپسنداوربرُے امور سے اپنے آپ کو بچالے تا کہ شقاوت جاودانی اور خسران عظیم سے محفوظ رہ سکے، البتہ وہ امر جو تنہا ارادہ الٰہی سے متعلق ہوتا ہے وہ صرف تکامل ہے لیکن چونکہ انسان کے تکاملِ اختیاری کے لازمہ کے ساتھ امکان ِ سقوط بھی ہے، جو نفسانی خواہشوں کی پیروی سے حاصل ہو تا ہے، لہٰذا ایسا سقوط اختیاری بھی بالتبع ارادہ الٰہی سے متعلق ہوگا۔
اور چونکہ صحیح انتخاب خیر و شر کی راہوں کی صحیح شناخت کا محتاج ہے، لہٰذا خدا نے انسان کو انھیں امور کے انجام دینے کاحکم دیا ہے جن میں زیادہ سے زیادہ خیر و مصلحت ہو اسی طرح تباہی و بربادی کے عوامل سے بچنے کا حکم بھی دیا ہے،’ تا کہ اس طرح اس کے تکامل کا وسیلہ فراہم ہوجائے اور چونکہ تکالیف اور احکام اس لئے وضع ہوئے ہیں تا کہ انسان ان پر عمل کرتے ہوئے مفید نتائج تک پہنچ سکے کہ جس میں خدا کے لئے نہ کوئی نفع ہے اور نہ ہی نقصان، اس وجہ سے حکم الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ یہ احکام مکلفین کی طاقت کے مطابق ہوں اس لئے کہ وہ احکام جن پر عمل نہیں کیا جا سکتا وہ بے فائدہ اور لغو ہیں۔
پس اس طرح عدل کا پہلا مرحلہ (اپنے خاص معنی میں) یعنی مقام تکلیف میں عدالت اس دلیل سے ثابت ہے کہ اگر خدا بندوں کی طاقت سے ما وراء ان پر کوئی حکم نافد کرے تو وہ چونکہ امکان عمل سے باہر ہے لہٰذا ایک بے فائدہ عمل کہلائے گا۔
لیکن بندوں کے درمیان فیصلہ میں عدالت کا مسئلہ اس نکتہ کی طرف توجہ دینے کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا کا ایسا کرنا صرف اس وجہ سے ہے تا کہ سزا و جزا کے اعتبار سے انسان مشخص ہوسکے ،لہذا اگر ایسی صورت میں خدا نے عدل و انصاف سے کام نہیں لیا تو نقص غرض لازم آئیگی ۔
آخر کار سزا اور جزا دینے کا مقصد مقام عدالت ہدفِ خلقت کے پیش نظر ثابت ہوجاتا ہے اس لئے کہ جس نے انسان کو اچھے اور برے امور کے نتائج تک رسائی کے لئے خلق کیا ہے اگر انھیں اس ہدف کے خلاف سزا یا جزا دینا چاہے تو وہ کبھی بھی اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔
لہذا تمام مظاہر کے درمیان عدل الٰہی کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کے صفات ذاتیہ حکیمانہ اور عادلانہ اعمال کا سبب ہیں اور ایسی کوئی صفت بھی اس کی ذات میں نہیں پائی جاتی جس میں ظلم و ستم یا عبث ہونے کا شائبہ پایا جاتا ہو۔
چند شبہات کا حل۔
١۔ مخلوقات کے درمیان خصوصاً انسانوں میں موجود اختلافات عدل الٰہی سے کس طرح سازگارہیں؟ اور کیوں خدا نے اپنی تمام مخلوقات کو یکساں خلق نہیں کیا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مخلوقات کے درمیان خلقت کے اعتبار سے موجودہ اختلافات نظام خلقت اور اس پر حاکم قانونِ علت و معلول کا لازمہ ہیں تمام مخلوقات کا اپنی خلقت میں یکساں ہونا ایک خام خیالی ہے اگر اس سلسلہ میں ہم تھوڑا بھی غور کر لیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ فرض ترک خلقت کے مساوی ہے اس لئے کہ اگر تمام مخلوقات مرد یا عورت ہو تے تو نسل آگے بڑھ نہیں سکتی تھی اور انسانی نسل کا خاتمہ ہوجاتا، اسی طرح اگر تمام مخلوقات انسان ہو تی تو انھیں اپنی احتیاجات کو برطرف کرنے کے لئے کوئی چیز باقی رہ نہ جاتی اس کے علاوہ اگر تمام حیوانا ت یا نباتات ایک ہی جیسے اور ایک ہی رنگ سے سرقراز ہوتے تو ایسے دلکش مناظر کے علاوہ مختلف فوائد کا وجود نہ ہوتا ،موجودات کا مختلف اشکال میں پیدا ہونا مادہ کے تغیرات کا نتیجہ ہے،اورخلقت سے پہلے کسی کا کوئی بھی حق خدا کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ اسے کیسے اور کس شکل میں خلق کرے، کہاں قرار دے کس مقام میں اتارے، تا کہ اس طرح عدل قائم رہے اور ظلم کا خاتمہ ہوجائے۔
٢۔ اگر حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس جہان میں خلق کرے، تو پھر اسے موت کیوں دیتا ہے اور کیوں اس کی زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے؟
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو یہ : اس جہان میں موجودات کی زندگی اور موت قوانین تکوینی اور علت و معلول روابط کی وجہ سے ہے، اور یہی نظام خلقت کا لازمہ بھی ہے
دوسرے یہ کہ: اگر زندہ موجودات نہیں مرتے اور باقی رہ جاتے تو آئندہ مخلوقات کے لئے خلقت کا کوئی مقام نہیں رہ جاتااوروہ وجود و حیات کی نعمتوں سے محروم ہوجاتے۔
تیسرے یہ کہ: اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تمام انسان خلقت کے بعد ہمیشہ زندہ رہیں تو چند ہی سال کے اندریہ زمین انسانوں کے لئے تنگ ہوجاتی اور لوگ رنج و الم اور تنگی کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے لگتے۔
چوتھے یہ کہ: انسان کی خلقت کا اصل ہدف کمال تک پہنچنا ہے اور جب تک انسان موت کے ذریعہ اس جہان سے جہانِ ابدی میں منتقل نہیں ہوتا اس وقت تک اپنے انتہائی ہدف تک نہیں پہنچ سکتا۔
٣۔یہ اس زمین پر بے شمار طبیعی بلائوں اور رنج و الم (جیسے زلزلہ سیلاب وغیرہ ) اور اجتماعی مشکلات جیسے جنگ ،جدال) کیونکر عدل الٰہی سے سازگار ہیں؟
سب سے پہلے ، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے ناگوار حوادث کا وجود مادی تغیرات کا نتیجہ ہے اورجبکہ اس کی حکمت ان کے عیوب پر غالب ہے لہٰذا یہ کسی بھی حال میںمخالف حکمت نہیں ہو سکتے اس کے علاوہ اجتماعی مشکلات کا اٹھنا انسان کے مختار ہونے کا لازمہ ہے جو حکمت الٰہی کا تقاضا ہے اور زندگی کے مصالح اس کے مفاسد سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ اگر صرف مفاسد ہی مفاسد ہوتے تو اس زمین پر کوئی انسان باقی نہ رہتا۔
دوسرے یہ کہ ، ایک طرف بے شمار رنج و زحمت کا ہونا اسرار طبیعت کو کشف کر نے کے لئے انسانوں کی حرکت کا سبب اور مختلف علوم و فنون کے ایجاد کا انگیزہ ہے اوردوسری سختیوں سے نبرد آزمانا ، نیز اس سے مقابلہ کرنا انسانی صلاحیتوں کو پر ثمر بنانے کے لئے اور راہ تکامل کو طے کرنے کے لئے ایک زبر دست عامل ہے اس کے علاوہ اس جہان میں اگر سختیوں کو تحمل کرنا نیتِ خیر کے ساتھ ہو تو جہانِ ابدی میں عظیم نعمات سے سرفرازی کاسبب ہے۔
٤۔ اس زمین پر ہونے والے محدود گناہوں کی سزا عذاب ابدی کی شکل میں کیو نکر عدالت سے ساز گار ہے؟
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ نیک اور بد اعمال کے درمیان، اور اخروی سزا و جزا کے درمیان ایک قسم کا رابطۂ علیت پایا جاتا ہے جسے وحی الٰہی کے ذریعہ لوگوں کو سنادیا گیا ہے اور جس طرح اس جہان میں بعض حوادث وا شرار ، طولانی آثار کا سبب بنتے ہیں جیسے کہ انسان کا ا پنی یا دوسروں کی آنکھوں کو پھوڑ دینا ایک لحظہ کا عمل ہے لیکن اس کے آثار یعنی نا بینائی آخر عمر تک باقی رہتی ہے اس طرح بڑے بڑے گناہ آخرت میں ابدی آثار سے متصف ہیں، لہٰذا اگر کوئی اس جہان میں انھیں ان کی تلافی نہ کرے (جیسے کہ توبہ نہ کرے) تو اس کے برے آثار ابدتک ،اس کے دامن پر رہیں گے، جس طرح انسانوں کا آخری عمر تک اندھا رہنا تنہا اور تنہا ایک لحظہ کی شرارات کا نتیجہ ہے ،اور عدل الٰہی سے کوئی منا فات نہیں رکھتا، اسی طرح گناہوں کے نتیجہ میں عذاب ابدی میں گرفتار ہونا، عدل الٰہی سے منافات نہیں رکھتا ،اس لئے کہ جو کچھ بھی دیکھ رہا ہے، وہ ان گناہوںں کا نتیجہ ہے، جسے اس نے جانتے ہوئے انجام دیا ہے۔
کتاب ” درس عقائد” سے اقتباس
Source;alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button