سلائیڈرمحافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

1400 سال پہلے خلقتِ انسان پر امام جعفر صادق علیہ السلام کے حیرت انگیز انکشافات

کتاب ” توحید مفضل” سے اقتباس
صادق آل محمدؑ اپنے صحابی مفصل سے ارشاد فرماتے ہیں :
اے مفضل! میں تمہیں انسان کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو، اے مفضل انسان کے اندر تدبیرپرپہلی دلیل وہ حکمت ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ رحم مادر میں تین تاریکیوں (۱۔ تاریکی شکم ،۲۔ تاریکی رحم ، ۳۔ تاریکی مشیمہ (بچہ دانی)) میں لپٹا ہوا تھا،کہ جب اس کے پاس غذا کو طلب کرنے اور اذیت کو دور کرنے کے لئے کوئی چارہ وعلاج نہ تھا،نہ فائدے کو حاصل کرسکتا تھا اور نہ نقصان کو دور ، ایسی صورت میں خون حیض کے ذریعہ اُسی طرح اس کی غذا فراہم کی جاتی ہے جس طرح پانی پودوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا جسم اور اس کی کھال اس قدر محکم اور قوی ہوجائے کہ وہ تیز اور تند ہوا کا مقابلہ کرسکے، اور اس کی آنکھیں روشنی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجائیں اسی اثناء میں درد زہ اس کی ماں کو بے چین کرتا ہے، یہ درد اس قدر بے چینی اور دباؤ کا سبب بنتا ہے کہ بچے کی ولادت ہوجاتی ہے جب بچے کی ولادت ہوچکی ہو، تو وہ خون جو رحم میں اس کی غذا فراہم کرتا تھا، اب وہی اس کے ماں کے پستانوں کی طرف جاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ و ذائقہ تبدیل ہوکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ دودھ پہلی بہتر غذا اور بچہ کے مزاج کے عین مطابق ہے بچہ پیدائش کے وقت اپنی زبان کو اپنے منھ میں پھرا کر اور ہونٹوں کو حرکت دے کر غذا کی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، ایسے میں اس کی ماںاپنے پستانوں کو جو دو ظروف کے مانند آویزاں ہیں اس کی طرف بڑھاتی ہے اور بچہ ایسی حالت میں جب کہ اس کا بدن نرم اور اس کی غذائی نالیاں بالکل باریک ہیں دودھ کو غذا کے طور پر ان سے حاصل کرتاہے، اور اس طرح نشوونما پاتا ہوا حرکت کو اپنے بدن میں میں ایجاد کرتا ہے، جس کے بعد اب اسےایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو ذرا سخت ہو تاکہ اس کا جسم محکم اور قوی ہوجائے، لہٰذا غذا کو کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت نمودار ہوتے ہیں تاکہ وہ غذا کو نرم بنائیں اور اسے نگلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ بچہ اس طرح منزلیں طے کرتا ہوا حد بلوغ تک پہونچ جاتا ہے اگر وہ بچہ لڑکا ہو تو اس کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، یہی علامت زکوریت اور عزت مرد ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ طفولیت اور خواتین کی شباہت سے باہر آجاتا ہے، اور اگر یہ بچہ لڑکی ہو تو اس کا چہرہ ویسا ہی بالوں سے صاف رہتا ہے تاکہ اس کی زیبائی و درخشندگی باقی رہے کہ جو مردوں کے میلان کا سبب ہے اس لئے کہ عورت ہی کے وسیلہ سے نسل جاری و باقی رہتی ہے۔
اے مفضل۔ اس حسن تدبیرسے عبرت حاصل کرو، جوانسان کے مختلف احوال میں استعمال ہوئی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسان بغیر کسی خالق و مدبر کے وجود میں آیا ہو؟ اگر جنین کو خون نہ ملتا تو وہ اس پودے کے مانند خشک سالی کا شکار ہوجاتا جس کی آبیاری نہ کی گئی ہو اور اگر جنین کو کامل ہونے کے بعد ولادت کے ذریعہ رحم کی تنگی سے نہ نکالا جاتا تو ہمیشہ رحم میں زندہ درگور ہوکر رہ جاتا، اور اسی طرح اگر ولادت کے بعد اس کے لئے دودھ کو جاری نہ کیا جاتا تو بھوک سے مرجاتا یا پھر ایسی غذاؤں کے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا جو اس کے بدن اورصحت کے لئے مناسب نہ ہوتیں اور اگر اس وقت جبکہ وہ غلیظ اور سخت غذا کے استعمال کے قابل ہوجاتا دانت نہ نکلتے تو غذا کا چبانا اس کے لئے ناممکن ہوتا جس کے سبب اس کا نگلنا بچہ کیلئے دشواری کا باعث بنتا اور اگر وہ دودھ جو اس کی غذا تھا، ہمیشہ اس کی غذا رہتا تو اس کا جسم کبھی محکم نہ ہوتا جس کی وجہ سے وہ دشوار اور مشکل کام انجام دینے سے پرہیز کرتا، اور اس کی ماں ساری زندگی اس کی پرورش میں لگی رہتی اور یہ بات دوسرے بچوں کی پرورش میں رکاوٹ کا سبب بنتی اور اگر حد بلوغ پر پہنچنے کے بعد اس کے چہرے پر داڑھی نہ نکلتی تو ہمیشہ عورت کی شبیہ رہتا، اور وہ وقار اور جلال جو مردوں کے لئے ہے ہرگز نہ ہوتا۔
مفضل کہتے ہیں: میں نے کہا اے میرے آقا و مولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مردوں کے داڑھی نہیں نکلتی اور وہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ امام نے فرمایا: یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، ورنہ خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا اب ذرا بتاؤوہ کون ہے جو بچہ کی اس مرحلہ میں دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں ہے اس کے لئے ہر اس چیز کو فراہم کرتا ہے ، جس کی اس بچے کو ضرورت و احتیاج ہے ، سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے، پس وہ چیز کہ جس کا وجود نہ تھا بہترین طریقہ پر وجود میں آتی ہے، اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کے مدبرانہ کام محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں تو اس وقت یہ لازم آتا ہے کہ قصد و ارادہ کے ذریعہ غیر منظم کام وجود میں آئیں اس لئے کہ یہ دونوں اتفاق کی ضد ہیں اور یہ گفتار بدترین گفتار ہے اور اگر کوئی ایسا کہے بھی تو یہ کہنا اس کے جاہل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اتفاق صحیح اور درست کام انجام نہیں دیتا اور نہ ہی تضاد نظم کو ایجاد کرتا ہے، خداوند عالم بلند و برتر ہے ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button