مناقب امام موسیٰ کاظم عمناقب و فضائل

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فضائل و کمالات

امام موسیٰ بن جعفر علیھما السلام اپنے اباء و اجدا کی طرح تمام انسانی کمالات کے حامل اور زمانے کے تمام افراد سے نمایاں تھے بہت سے علماء نے آپ کی شخصیت کو سراہاہے جس کے مندرجہ ذیل نمونے پیش کئے جارہے ہیں:
ابن صباغ مالکی نے تحریر کیا ہے: موسیٰؑ بن جعفرؑعظیم جلیل القدر اور یکتائے روزگار امام تھے آپ ایک عظیم دانشور اور حجت تھے ان کی راتیں عبادت مین بسر ہوتیں تھیں خطاکاروں کی خطاوں کو اتنا زیادہ نظر انداز کرتے تھے کہ آپ کا نام ہی کاظم پڑ گیا آپ عراق کے لوگوں مین باب الحوائج کےنام سے مشہور ہیں۔
(الفصول المہمہ ص۲۱۳)
احمد بن حجر ہیثمی نے لکھا ہے: موسیٰؑ بن جعفرؑ علم و معرفت، کمال اور فضیلت میں اپنے والد کےوارث تھےآپ اتنے حلیم اور بردبار تھے کہ آپ کا نام کاظم پڑ گیا آپ عراق کے لوگوں میں باب الحوائج کے نام سے مشہور ہیں اپنے زمانے میں سب سے بڑے عبادت گذار سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ صاحب کرم تھے۔
(الصواعق المحرقہ ص ۲۰۳)
ابن صباغ مالکی نے ہی لکھا ہے: اپنے زمانے میں سب سے بڑے عبادت گذار سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ صاحب کرم تھے۔
فقراء مدینہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر برابر درہم و دینار ان کے گھروں میں بھیجتے تھے جب کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ درہم و دینار ان کو کہاں سے مل رہے ہیں امام کی شہادت کےبعد ان کو علم ہوا کہ ان کا خرچ کہاں سے آتا ہے۔
(الفصول المہمہ ص۲۱۹)
ابن حجر عسقلانی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کے فضائل و کمالات بہت زیادہ ہیں۔
(تہذیب التہذیب ج۱۰ ص۳۴۰)
خطیب بغدادی نے عبد الرحمن بن صالح ازدی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ جس سال ہارون الرشید حج پر گیا اور بعض دوسرے قبائل کےبزرگوں کےساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لیے حرم مطہر می داخل ہوا ، موسیٰ بن جعفرؑ بھی اس کے ہمراہ تھےجب ہارون پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پہ پہنچا تو تو کہا
’’السلام علیک یابن عم‘‘
جبکہ ابن عم کہہ کر وہ دوسروں پر فخر جتانا چاہتا تھا لیکن اس کے فورا بعد امام موسیٰ کاظمؑ قبر کےقریب پہنچے اور فرمایا
’’ السلام علیک یا ابہ‘‘
اے پدر بزگوار۔ آپ پر سلام ہو یہ سن کر ہارون کا چہرہ اتر گیا
اور امام سے عرض کی: اے ابو الحسن حقیقت میں قابل فخر یہی ہےجو آپ نے فرمایا۔
(تاریخ بغداد ج۱۳ ص۳۱)
ابن شہر آشوبنے تحریر کیا ہے کہ: موسیٰ بن جعفرؑ فقہ و حفظ قرآن میں اپنے زمانے کےتمام انسانوں سے بہتر تھے قرآن مجید کی بہترین آواز میں تلاوت فرماتے تھے قرات قرآن کے وقت گریہ فرماتے تھے ساتھ ساتھ سامعین بھی گریہ کرتے تھے آپ کی شان اور مرتبہ سب سے افضل تھا آپ کا دست مبارک سب سے زیادہ سخی ، سب سے زیادہ فصیح اور قلب مبارک سب سے زیادہ شجاع اور بہادرتھاولایت کا شرف آپ سے مخصوص تھا آپ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث ملی اور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔
(مناقب آل ابی طالب ج۴، ص۳۴۸)
شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے: حضرت امام ابو الحسن اپنے زمانے میں سب سے بڑے عبادت گذار سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ صاحب کریم تھے۔
(الارشاد ج۲، ص۲۳۱)
علی بن ابی الفتح اربلی نے کمال الدین سے روایت کی ہے: ابوالحسن موسی بن جعفر علیھما السلام کے بارے مین اس طرح ذکر ہے: آپ ایک جلیل القدر، راتوں کو بہت زیادہ عبادت کرنے والے امام تھے خداوندعالم کی عبادت میں سعی فرماتے تھے آپ کی کرامات قابل دید اور عبادات مشہور تھیں
، فرائض کے پابند تھے، رات سجدے اور قیام کی حالت میں بسر فرماتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے تھےاور صدقہ دیتے تھے
اتنے زیادہ حلیم اور غصہ کو برداشت کرنے والےتھے کہ آپ کوکاظم کہا جانے لگا اپنے ساتھ برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان فرماتے تھے ان کی غلطیوں کو معاف فرما دیتے تھے کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کو عبد صالح کہا جاتاتھا عراق میں باب الحوائج کے نام سے مشہور تھے آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں جن کے زریعے خدا کے نزدیک آپ کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
(کشف الغمہ ج۳، ص۱)
مامون کا کہنا ہے: میں نے اپنےباپ رشید سے عرض کیا: اے امیر المومنین آپ نے جس شخص کا اتنا احترام کیا ہےان کے اانے کےوقت اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا استقبال کیا اور ان کو اپنی جگہ پر بٹھایا ان کی واپسی کے وقت حکم دیا کہ ہم ان کی رکاب کو پکڑیں وہ کون تھا؟
تو جواب دیا: وہ لوگوں کے امام خدا کے بندوں پر اس کی حجت اور خلیفہ الہٰی ہیں۔
میں نے عرض کی: اے امیرالمومنین کیا یہ صفات آپ میں نہیں ہیں؟
انہوں نے کہا:
میں ظاہرا اور زبردستی خلیفہ ہوگیا ہوں لیکن موسی بن جعفرؑ برحق ہیں خدا کی قسم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی سلسلے میں مجھ سے اوردوسرے تمام انسانوں سے زیادہ سزاوار ہیں لیکن خدا کی قسم اگر خلافت کے معاملے میں تم بھی مجھ سے نزاع کرو تو میں تمہارا سر تن سے جدا کردوں گا۔
فان الملک عقیم
(بحار الانوار ج۴۸ ص۱۳۱)
بادشاہ اپنی حکومت کے سلسلے میں بانجھ ہوتا ہے۔
کتاب ’’ فضیلتوں کے نمونے‘‘ سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button