مناقب امام زین العابدین عمناقب و فضائل

امام سجاد علیہ السلام کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

امام سجادؑ کی ذاتی شخصیت:
یہاں پر ہم امام سجادؑ کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگان و علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔
زہری ، ابو حازم ، سعید ابن مسیب اور مالک:
ابن عماد حنبلی نے ان چاروں کے قول کو امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ایسے نقل کیا ہے کہ:
قال الزهري ما رأيت أحدا أفقه من زين العابدين لكنه قليل الحديث وقال أبو حازم الأعرج ما رأيت هاشميا أفضل منه وعن سعيد بن المسيب قال ما رأيت أورع منه وقال مالك بلغني أن علي بن الحسين كان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة إلى أن مات وكان يسمى زين العابدين لعبادته.
زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی زین العابدین سے زیادہ فقیہ و عالم نہیں دیکھا، لیکن ان سے بہت کم روایات نقل کی گئیں ہیں۔
ابو حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی امام سجاد سے بالا تر نہیں دیکھا۔
سعید ابن مسیب سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی امام سجاد سے با تقویٰ تر نہیں دیکھا۔
مالک نے بھی کہا ہے کہ: مجھے خبر ملی تھی کہ علی ابن حسینؑ مرتے دم تک دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، اور ان کو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہا جاتا تھا۔
(العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 105 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير – دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.)
یعقوبی:
یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں ایسے لکھا ہے کہ:
وكان أفضل الناس وأشدهم عبادة وكان يسمى زين العابدين وكان يسمى أيضا ذا الثفنات لما كان في وجهه من أثر السجود وكان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة ولما غسل وجد على كتفيه جلب كجلب البعير فقيل لأهله ما هذه الآثار قالوا من حمله للطعام في الليل يدور به على منازل الفقراء. قال سعيد بن المسيب ما رأيت قط أفضل من علي بن الحسين.
وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بالا و برتر تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے، اسی وجہ سے ان کو زین العابدین کہا جاتا تھا اور اسی طرح سے ان کو ذا الثفنات بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ ان کی پیشانی پر سجدوں کے بہت آثار تھے اور وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو ان کے کندھوں پر زخم کے نشانات تھے۔ جب ان کے گھر والوں سے پوچھا گیا کہ یہ کندھوں پر نشانات کیسے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ راتوں کو فقراء و ضرورت مندوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء اٹھانے کی وجہ سے یہ نشانات پڑے ہیں۔
سعید ابن مسیب نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی علی ابن حسین سے برتر نہیں دیکھا۔
اليعقوبي، ج 2 ص 303 ، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ناشر: دار صادر – بيروت.
ابو نعیم اصفہانی:
ابو نعیم اصفہانی نے ایسے لکھا ہے کہ:
علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم زين العابدين ومنار القانتين كان عابدا وفيا وجوادا حفيا.
علی ابن الحسین [امام سجاد علیہ السلام] عبادت کرنے والوں کی زینت اور عابد لوگوں کے لیے ایک علامت و نشان تھے۔ وہ ایک عابد، وعدے کے پابند اور شرف و وقار کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔
الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 133 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..
ابو الولید الباجی:
اس نے امام سجادؑ  کی شخصیت کے بارے میں زہری کے قول کو نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني علي بن الحسين وكان أفضل أهل سنة وأحسنهم طاعة۔
علی ابن الحسین میرے ساتھ کلام کیا کرتے تھے اور وہ سنت پر عمل کرنے والوں میں سب سے بہترین تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ اطاعت گزار بندے تھے۔
الباجي، سليمان بن خلف بن سعد ابوالوليد (متوفى474هـ)، التعديل والتجريح لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج 3 ص 956 ، تحقيق: د. ابولبابة حسين، ناشر: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض، الطبعة: الأولى، 1406هـ – 1986م.
ابن ابی حازم:
بیہقی نے ابن ابی حازم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
قال ابن أبي حازم وهو من العلماء السلف: ما رأيت هاشمياً أفضل من زين العابدين علي بن الحسين رضي الله عنهما۔
ابن ابی حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔
البيهقي، أبو الحسن ظهير الدين علي بن زيد، الشهير بابن فندمه (متوفي 565هـ) لباب الأنساب والألقاب والأعقاب، ج 1 ص 13 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.
ابن عساکر:
ابن عساکر شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:
وكان يسمى بالمدينة زين العابدين لعبادته۔
وہ امام سجاد علیہ السلام شہر مدینہ میں زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے سجّاد کہلاتے تھے۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة اللّٰه بن عبد اللّٰه،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 379 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.
ابن خلکان:
ابن خلکان نے بھی حضرت امام سجاد سلام اللہ علیہ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:
زين العابدين أبو الحسن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أجمعين المعروف بزين العابدين…هذا وهو أحد الأئمة الأثني عشر ومن سادات التابعين قال الزهري ما رأيت قرشيا أفضل منه۔
زین العابدین، ابو الحسن علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب معروف بہ زین العابدین… وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور بزرگ تابعی تھے۔
زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی ان ( علی ابن الحسین) سے افضل نہیں دیکھا۔
إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 267 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.
عجلی:
عجلی عالم بزرگ اہل سنت نے بھی ایسے لکھا ہے کہ:
على بن الحسين بن على بن أبي طالب مدني تابعي ثقة وكان رجلا صالحا قال العجلي ويروى عن الزهرى قال ما رأيت هاشميا قط أفضل من على بن الحسين۔
علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب اہل مدینہ و تابعی تھے، وہ ثقہ و مورد اعتماد اور ایک صالح انسان تھے۔
عجلی نے زہری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔
العجلي، أبي الحسن أحمد بن عبد الله بن صالح (متوفى261هـ)، معرفة الثقات من رجال أهل العلم والحديث ومن الضعفاء وذكر مذاهبهم وأخبارهم، ج 2 ص 153 ، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ناشر: مكتبة الدار – المدينة المنورة – السعودية، الطبعة: الأولى، 1405 – 1985م.
شیبانی نے بھی اسی طرح کے مطالب نقل کیے ہیں:
الشيباني، أحمد بن عمرو بن أبي عاصم (متوفي287هـ)، الزهد، ج 1 ص 166 ، تحقيق: عبد العلي عبد الحميد حامد، دار النشر: دار الريان للتراث – القاهرة، الطبعة: الثانية 1408 ۔
یحیی ابن سعید:
ابن سعد اور ابن عبد البر نے قول یحییٰ ابن سعید سے ایسے نقل کیا ہے کہ:
حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال سمعت علي بن حسين وكان أفضل هاشمي أدركته۔
یحیی ابن سعید نے نقل کیا ہے کہ: میں نے علی ابن الحسين سے روايت کو سنا ہے اور میں نے جتنے بھی ہاشمیوں کو دیکھا تھا، وہ ان سب میں سے افضل و بالا تر تھے۔
البصري الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله (متوفي230 هـ)، الطبقات الكبرى ، ج 5 ص 214 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، طبق برنامه الجامع الكبير.
النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفى 463هـ)، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، ج 9 ص 156 ، تحقيق: مصطفي بن أحمد العلوي، ‏محمد عبد الكبير البكري، ناشر: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب – 1387هـ..
سعید ابن مسیب:
مزی اور ذہبی نے سعيد ابن مسيب کے قول سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:
قال رجل لسَعِيد بن المُسَيب : ما رأيت أحدا أورع من فلان. قال هل رأيت علي بن الحسين ؟ قال : لا ، قال : ما رأيت أورع منه۔
ایک بندے نے سعید ابن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں شخص سے کسی کو با تقوی تر نہیں دیکھا۔ سعید ابن مسیب نے اس سے کہا: کیا تم نے علی ابن الحسین کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں، سعید نے کہا: میں نے علی ابن الحسین سے با تقویٰ تر کسی کو نہیں دیکھا۔
المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 389 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 4 ص 391 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ..
ابن حجر:
ابن حجر ہیتمی مکی نے اپنی کتاب الصواعق میں امام سجادؑ  کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:
وزين العابدين هذا هو الذي خلف أباه علما وزهدا وعبادة وكان إذا توضأ للصلاة اصفر لونه فقيل له في ذلك فقال ألا تدرون بين يدي من أقف۔
زین العابدین علم، زہد اور عبادت میں اپنے والد کے جانشین تھے اور جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو ان کے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو، انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں ؟!
الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 582 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.
مزّی اور ابن حجر:
اہل سنت کے دو علم رجال کے بزرگ علماء مزی اور ابن حجر نے مالک کے قول سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
وَقَال ابن وهب ، عن مالك : لم يكن في أهل بيت رسول اللّٰه مثل علي بن الحسين۔
مالک سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا (ص) کے اہل بیت میں کوئی فرد بھی علی ابن حسین کی طرح کا نہیں تھا۔
المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 387 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 7 ص 269 ، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984 م.
گنجی شافعی:
گنجی شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:
كان عابداً وفياً، وجواداً حفياً۔
وہ ایک عابد، با وفا اور بخشنے والے سخی انسان تھے۔
الگنجي الشافعي، الإمام الحافظ أبي عبد الله محمد بن يوسف بن محمد القرشي، كفاية الطالب في مناقب علي بن أبي طالب، ص 39 ، تحقيق و تصحيح و تعليق: محمد هادي اميني، ناشر: دار احياء تراث اهل البيت (ع)، طهران، الطبعة الثالثة، 1404هـ..
صفات اخلاقی امام سجاد علیہ السلام:
ابھی ہم مختصر طور پر امام سجادؑ کی اخلاقی صفات کو ذکر کرتے ہیں:
فقراء کی مدد کرنا:
ابو الفرج اصفہانی اور ابو نعیم اصفہانی نے اسی بارے میں لکھا ہے کہ:
حدثنا الحسن بن علي قال حدثني عبد الله بن أحمد بن حنبل قال حدثني إسحاق بن موسى الأنصاري قال حدثنا يونس بن بكير عن محمد بن إسحاق قال كان ناس من أهل المدينة يعيشون ما يدرون من أين عيشهم فلما مات علي بن الحسين فقدوا ما كانوا يؤتون به بالليل۔
محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ: مدینہ میں بعض لوگ زندگی گزارا کرتے تھے، لیکن انکو معلوم نہیں تھا کہ انکی ضروریات زندگی کہاں سے مہیا ہوتی ہیں۔ جب علی ابن حسین دنیا سے چلے گئے تو جو اناج ان کو رات کے اندھیرے میں ملتا تھا، وہ ان کو ملنا ختم ہو گیا۔
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفي356هـ)، الأغاني، ج 15 ص 316 ، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر – لبنان.
الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 136 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..
ابن عساکر نے بھی ایسے ہی لکھا ہے کہ:
أخبرنا أبو عبدالله الفراوي نا أبو بكر محمد بن عبدالله بن عمر العمري أنا أبو محمد بن أبي شريح أنا أبو جعفر محمد بن أحمد بن عبدالجبار الرداني نا حميد بن زنجوية نا ابن أبي عباد نا ابن عيينة عن أبي حمزة الثمالي :
أن علي بن الحسين كان يحمل الخبز بالليل على ظهره يتبع به المساكين في ظلمة الليل ويقول إن الصدقة في سواد الليل تطفيء غضب الرب۔
ابو حمزہ ثمالی نے نقل کیا ہے کہ: علی ابن الحسین رات کی تاریکی میں روٹیاں اپنی کمر پر رکھ کر ضرورت مندوں تک پہنچایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ: رات کی تاریکی میں صدقہ دینا، خداوند کے غضب کی آگ کو خاموش کرتا ہے۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 383 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.
اسی طرح ابن عساکر نے لکھا ہے کہ:
عائشة عن أبيه عن عمه قال قال أهل المدينة ما فقدنا صدقة السر حتى مات علي بن الحسين۔
علی ابن حسین جب دنیا سے چلے گئے تو مدینہ کے لوگوں کو رات کی تاریکی میں ملنے والا صدقہ ختم ہو گیا۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 384 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.
شہادت کے بعد امام سجاد ؑ کے بدن مبارک پر زخموں کے نشان:
ابن کثير دمشقی، ابن جوزی حنبلی اور ابو نعیم اصفہانی نے امام سجاد علیہ السلام کے راہ خدا میں انفاق کرنے اور اس سے امام کے بدن پر ہونے والے زخموں کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:
عن عمرو بن ثابت قال لما مات علي بن الحسين فغسلوه جعلوا ينظرون إلى آثار سواد بظهره فقالوا ما هذا فقيل كان يحمل جرب الدقيق ليلا على ظهره يعطيه فقراء أهل المدينة۔
عمرو ابن ثابت نے نقل کیا ہے کہ: امام سجاد جب دنیا سے چلے گئے، تو جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو غسل دینے والے کی نگاہ امام کی کمر پر موجود زخم کے نشانوں پر پڑی، تو اس نے امام کے گھر والوں سے سوال کیا کہ یہ نشان کیسے ہیں ؟ تو بتایا گیا کہ: یہ ان آٹے کی بوریوں کے نشان ہیں کہ جو امام رات کی تاریکی میں کمر پر رکھ کر مدینہ کے فقراء کو دیا کرتے تھے۔
ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية، ج 9 ص 114 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 96 ، تحقيق: محمود فاخوري – د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة – بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.
الأصبهاني، ابو نعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 136 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..
امام سجاد علیہ السلام کا مہربان ہونا:
يافعی نے امام سجاد ؑ کی ایک بے ادبی کرنے والے شخص سے خوش اخلاقی کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:
وروى انه تكلم رجل فيه وافترى عليه فقال له زين العابدين ان كنت كما قلت فاستغفر الله وان لم اكن كما قلت فغفر الله لك فقام اليه الرجل وقبل رأسه وقال جعلت فداك لست كما قلت فاغفر لى قال غفر الله لك فقال الرجل الله اعلم حيث يجعل رسالته۔
ایک شخص نے امام کے بارے میں بات کی اور ان پر تہمت لگائی۔ امام نے فرمایا: جو کچھ تم نے ذکر کیا ہے، اگر وہ مجھ میں پایا جاتا ہے تو میں خداوند سے بخشش کو اپنے لیے طلب کرتا ہوں، اور اگر جو کچھ تم نے ذکر کیا ہے، وہ مجھ پایا نہیں جاتا تو، میں خداوند سے تمہارے لیے بخشش کو طلب کرتا ہوں۔ وہ شخص کھڑا ہوا اور امام کے سر کو بوسہ دیا اور کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، جو کچھ میں نے کہا ہے، آپ ویسے نہیں ہیں، مجھے معاف کر دیں۔ امام نے فرمایا: خداوند تم کو معاف فرمائے۔ اس شخص نے جواب دیا: خداوند بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے لیے کس کو انتخاب کرے !
اليافعي، ابو محمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفى768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج 1 ص 191 ، ناشر: دار الكتاب الإسلامي – القاهرة – 1413هـ – 1993م.
امام سجادؑ کی ہیبت اور فرزدق شاعر کے اشعار:
امام سجاد ؑ کے حج کرنے اور ان کی ہیبت کا واقعہ شیعہ و سنی کی کتب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔
تنوخی اور ابن سمعون نے اس داستان کو ابو الفرج اصفہانی کے قول سے ایسے نقل کیا ہے کہ:
قال أبو الفرج الأصبهاني: حدثني بن محمد بن الجعد ومحمد بن يحيى قالا: حدثنا محمد بن زكريا العلاني قال: حدثنا ابن عائشة قال: حج هشام بن عبد الملك في خلافة الوليد أخيه ومعه أهل الشام فجهد أن يستلم الحجر فلم يقدر من ازدحام الناس، فنصب له منبر فجلس عليه ينظر إلى الناس، فأقبل زين العابدين علي بن الحسين رضي الله عنهما، وهو أحسن الناس وجهاً، وأنظفهم ثوباً؛ وأطيبهم رائحة، فطاف بالبيت فلما بلغ الحجر تنحى الناس كلهم له وأخلوا الحجر ليستلمه، هيبة له وإجلالاً، فغاظ ذلك هشاماً وبلغ منه، فقال رجل لهشام: من هذا أصلح الله الأمير؟ قال: لا أعرفه، وكان به عارفاً، ولكنه خاف أن يرغب فيه أهل الشام ويسمعوا منه. فقال الفرزدق، وكان لذلك كله حاضراً: أنا أعرفه فسلني يا شامي من هو، قال: ومن هو؟ قال:
هذا الذي تعرف البطحاء وطأته … والبيت يعرفه والحل والحرم
هذا ابن خير عباد الله كلهم … هذا التقي النفي الطاهر العلم …
ہشام ابن عبد الملک اپنے بھائی کے دور خلافت میں اہل شام کے کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر گیا۔ وہاں پر موجود لوگ حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتے تھے، لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ ہشام کے لیے اس جگہ ایک منبر لگایا گیا اور وہ اس پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں امام سجاد بھی وہاں پر آ پہنچے۔ وہ خوبصورتی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزگی کے لحاظ سے ، ان کا لباس پاک ترین لباس تھا۔ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے کرتے جب حجر الاسود کے نزدیک پہنچے تو ایک دم سے سب لوگ ایک طرف ہو گئے اور حجر اسود کو امام کے لیے خالی کر دیا، تا کہ وہ اس پتھر کو ہاتھ سے مس کر سکیں۔ امام کی بزرگی اور ہیبت بہت زیادہ تھی۔ ہشام نے جب امام کی اس جلالت و عظمت کو دیکھا تو بہت غصے میں آ گیا۔ ایک بندے نے کہا اے امیر یہ کون ہے ؟ ہشام نے امام کو جاننے کے باوجود کہا: نہیں میں اس کو نہیں جانتا۔ اس بات کو فرزدق شاعر کھڑا سن رہا تھا، اس نے ہشام سے کہا: میں اس (امام) کو جانتا ہوں۔ اے شامی ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ وہ کون ہے۔ شامی نے فرزدق سے پوچھا، وہ کون ہے ؟ اس موقع پر فرزدق نے اپنے اشعار میں اس شامی کو جواب دیا:
1- یہ وہ شخص ہے کہ جس کو مکہ کی سرزمین جانتی ہے، حتی اس کے پاؤں کے نشان کو بھی یہ زمین جانتی ہے، خانہ کعبہ، مدینہ کے صحرا، حلّ اور حرم تمام اس کو جانتے ہیں۔
2- یہ خداوند کے بہترین بندگان کا بیٹا ہے، یہ وہی پرہیزگار اور پاکیزہ انسان ہے کہ جو زمین پر خداوند کی آیت و علامت ہے۔
البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفى387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج 1 ص 8 ، طبق برنامه الجامع الكبير.
التنوخي، أبو علي المحسن بن علي، (متوفي: 384هـ) ، المستجاد من فعلات الأجواد ، ج 1 ص 303 ، طبق نرم افزار الجامع الکبير.
کنيز و خادمہ کو آزاد کرنا:
اہل سنت کے بعض علماء نے امام سجاد ؑکے اپنی خادمہ کو آزاد کرنے کے واقعے کو ایسے نقل کیا ہے کہ:
حدثني شيخ من أهل اليمن قد أتت عليه بضع وسبعون سنة فيما أخبرني يقال له عبدالله بن محمد قال سمعت عبدالرزاق يقول جعلت جارية لعلي بن الحسين تسكب عليه الماء يتهيأ للصلاة فسقط الإبريق من يد الجارية على وجهه فشجه فرفع علي بن الحسين رأسه إليها فقالت الجارية إن الله عز وجل يقول (والكاظمين الغيظ) فقال لها قد كظمت غيظي قالت (والعافين عن الناس) قال قد عفا الله عنك قالت (والله يحب المحسنين) قال فاذهبي فأنت حرة۔
امام سجادؑ کی خادمہ امام کے وضو کرنے کے لیے پانی لے کر آئی، تا کہ امام وضو کر کے نماز کے لیے تیار ہوں۔ اتنے میں پانی کا برتن اسکے ہاتھ سے گر گیا اور وہ جا کر امام کے سر پر لگا اور سر زخمی ہو گیا، امام نے جب خادمہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: خداوند نے فرمایا ہے کہ: اور وہ جو اپنے غصے کو پی جاتے ہیں۔ امام نے فرمایا: میں نے بھی اپنے غصے کو پی لیا ہے، خادمہ نے کہا: اور وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ امام نے فرمایا: خداوند تجھے بھی معاف کرے، خادمہ نے کہا: اور خداوند احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ امام نے فرمایا: جاؤ کہ میں نے تم کو خدا کی راہ میں آزاد کیا۔
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 387 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسي ابوبكر (متوفى458هـ) شعب الإيمان، ج 6 ص 317 ، تحقيق: محمد السعيد بسيوني زغلول، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى، 1410هـ.
امام سجاد (ع) کا ہمیشہ غمگین رہنا:
ابن عساکر نے واقعہ کربلا کے بعد امام سجادؑ کے غم و حزن کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:
أخبرنا أبو سعد البغدادي أنا أبو عمرو بن مندة أنا الحسن بن محمد بن أحمد أنا أبو الحسن اللنباني نا أبو بكر بن أبي الدنيا حدثني الحسين بن عبدالرحمن عن أبي حمزة محمد بن يعقوب عن جعفر بن محمد قال سئل علي بن الحسين عن كثرة بكائه فقال لا تلوموني فإن يعقوب عليه السلام فقد سبطا من ولده فبكا حتى ابيضت عيناه من الحزن ولم يعلم أنه مات وقد نظرت إلى أربعة عشر رجلا من أهل بيتي يذبحون في غداة واحد فترون حزنهم يذهب من قلبي أبدا.
امام صادق سلام اللہ علیہ سے منقول ہے کہ: جب امام سجادؑ سے ان کے کثرت گریہ کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: میرے اس کام پر ملامت نہ کرو، حضرت یعقوب کا فقط ایک بیٹا ان سے دور ہوا تھا، تو انھوں نے اس پر اتنا گریہ کیا کہ ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں، یعنی وہ اندھے ہو گئے، حالانکہ ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کا بیٹا مر گیا ہے، لیکن میری آنکھوں کے سامنے اہل بیت کے 14 مردوں کو ایک دن میں بے جرم و خطا ذبح کر دیا گیا، کیا اس صورت میں ان کا غم کبھی میرے دل سے نکل سکتا ہے ؟
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 386 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.
نتیجہ مطالب:
حضرت سجاد امام زین العابدین (ع) کے ذاتی اور اخلاقی فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اس تحریر میں نمونے کے طور پر امام کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ کمال یہ نہیں ہوتا کہ اپنے اور چاہنے والے ہی ایک انسان کے فضائل کو بیان کریں، بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کے کمالات کو بیان کریں۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1074

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button