محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

امام مہدی علیہ السلام احادیث کی روشنی میں

محمد حبیب اللہ شہیدی ( متعلم جامعہ الکوثر)
استادرہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدرس جامعہ الکوثر ، شعبہ "تفسیر و علو م قرآن)
مقدمہ:
الحمد للہ الذی لا یخلی الارض من حجۃ لئلا یکون لناس علی اللہ حجۃ و جعل بہ قوام الدین ولطف الدنیا وبہ کلمۃ اللہ(ھی) العلیاوکلمۃ الذین کفروا السفلیٰ والصلاۃ والسلام علی محمد و آلہ انوارالھدیٰ ومصابیح الدجیٰ والحجۃ البالغہ والعروۃ الوثقیٰ۔
اما بعد!قال رسول اللہ ؐ الائمۃ من بعدي اثنا عشر، اولهم امير المؤمنين علي بن ابي طالب وآخرهم القائم،
نبی کریم ؐ نے فرمایا!میرے بعد آئمہ بارہ ہونگے،ان میں سے اول امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب ؑ اور آخری قائم ہیں۔
یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو آپ ؐ کے بعد آپ کے جانشین ہیں ،آج اگر یہ کائنات اور اس میں یہ تمام چیزیں باقی ہیں تو انہی پاک و پاکیزہ ہستیوں کے وجود کی برکت سے ہیں،نظام کائنات،نظام شمسی،کا مسلسل اپنے اپنے مدار میں چلنا لیل و نہار کا اپنے مقررہ وقت پر آنا جانا ،زمین سبزہ اگانے میں بخل نہیں کرتی آسمان سے باران رحمت کا جاری رہنا اور ہر قسم کے رزق و روزی کا میسر آنا یہ سب انکے با برکت وجود سے ہیں،چونکہ آپ سبب بقاء کائنات ہیں ؛لو لاالحجۃ لساخۃ الارض باہلھا۔ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہوتی تو وہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ دہنس جاتی،اور کائنات کا نظام برباد ہوجاتا ۔
اور میں جس ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے جا رہا ہوں وہ ہیں حجت ابن الحسن العسکریؑ امام ثانی عشر عجل اللہ فرجہ الشریف کی ذات گرامی اگر چہ اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن میں اس وجہ سے اس بارے میں اپنا مقالہ لکھنے جارہا ہوں تاکہ امام علیہ سلام کے اوپر لکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکوں زبان وحی و رسالت سے مشہورحدیث روایت کی گئی ہے ؛من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر دنیا سے چلا جائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔اور اس حدیث کا مصداق بننے سے بچنے کیلئے امام ؑ کی کچھ نہ کچھ معرفت کی خاطر اس باب میں وارد ہوا ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام ؑ کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،توفیق کی دعا اس لئے کر رہا ہوں کہ کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں وہ معرفت کے باب سے ہو یا کسی اور باب سے اللہ کی توفیق شامل حال ہونا بہر صورت ضروری ہے۔امام ؑ کے حولے سے اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی فرقہ مھدویت سے خالی نظر نہیں آتا ،ہر مذہب اور فرقوں میں امام ؑ کے حوالے سے نظریہ ملتا ہے ،فرق صرف اس میں ہے کہ بعض فرقوں کے ماننے والے امام کے پیدا ہونے کا قائل ہیں جیسے ہم اہل تشیع،اور اہل سنت کے بھی کچھ علماء ،اور کچھ لوگ قائل ہیں کہ امام مہدیؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے بلکہ آپؑ پیدا ہونے والے ہے۔لیکن الحمد للہ مذہب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے ہاں امام ؑ کی ولادت مسلم ہے تاریخ پیدائش پدر بزرگوار مادر گرامی،محل پیدائش گو کہ ہر مسئلہ واضح ہے،اور ابھی پردہ غیبت میں ہیں اور آپؑ حکم خدا کے انتظار میں ہیں جب حکم خدا ہوگا اس وقت آپ ظہور کریں گے زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں امام ؑ کے ظہور کےلئے ضمیمہ سازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امام مہدی کا تصور صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ اسلام سے پہلے بھی قدیم کتب میں ملتا ہے۔ زرتشتی، ہندو، عیسائی، یہودی وغیرہ سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا کے ختم ہونے کے قریب ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوگا جو دنیا میں ایک انصاف پر مبنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ تصور مسلمانوں میں اس لیے نہیں آیا کہ اس سے پہلے یہ موجود تھا بلکہ یہ عقیدہ احادیث سے ثابت ہے۔ امام مہدی کے وجود کے بارے میں اسلامی کتب میں صراحت سے احادیث ملتی ہیں جو حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔لہذا یہ دور امام ؑ کا دور ہے اس میں ہمیں جتنا ہو سکے کام کرنا چاہئے اور امام ؑ کی عالمی حکومت کیلئے ضمیمہ فراہم کرنا چاہئے خصوصا جوان نسل کو امام ؑ کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کےلئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور امام ؑ کے حوالے سے جو کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کی جانب سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہےان شبہات کے ازالہ کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنے اور اس موضوع پر وسیع مطالعہ رکھنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اس بارے میں اور معرفت امام ؑ کے بارے میں کام کرنا شروع کریں گے تو انشااللہ امام ؑ ہم سے راضی ہونگے اور خدا بھی اس میں ہماری مدد فرمائےگا،ہم اللہ سے ہمہ وقت توفیق کی درخوست گزار ہیں کہ اللہ اپنا کرم اور رحمت ہم پہ بھی نازل فرمائے۔اور امام زمانؑ کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے۔
امام مہدی علیہ السلام احادیث کی روشنی میں:
پہلے باب میں ہم نے کچھ آیات کے زریعے امام مہدیؑ کے وجود پر استدلال کیا ہے تو اب ہم اس دوسرے باب میں کچھ فصلوں کی صورت میں کچھ روایات کو بیان کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدیؑ ابھی پردہ غیبت میں تشریف فرما ہیں۔ اور ابھی مقررہ مدت میں جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ظہور فرمائیں گے۔ دنیا کو جو ظلم جور سے بھر چکی ہوگی عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ اب ہم روایات کو بیان کرتے ہوئے اس طرح کریں گے کہ ہر معصوم سے منقول شدہ ایک یا دو روایات کو الگ الگ فصلوں کی صورت میں بیان کریں گے تاکہ قارئین کرام ترتیب سے ہر معصوم سے منقول شدہ روایات کو الگ الگ پڑھ سکیں۔
امام مہدیؑ بزبان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
بحار الانوار میں علّامہ مجلسی ایک روایت نقل کرتے ہیں : ” قال رسول اللہؐ لا تَذھَبُ الدُّنیَا حَتَّی یَقُومَ بِاَمرِ اُمَّتِی رَجُل مِّن وُّلد الحسینؑ یَملاءُ الاَرضُ قسطَا وَّ عَد لا کما مَلِئَت ظُلما وَّ جَورا”
"دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حسینؑ کی اولاد میں سے ایک شخص میری امت کا حاکم نہ ہوگا جوکہ دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے پُر کریں گےجیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔”
یہی حدیث امام حسن العسکریؑ سے اس طرح نقل ہوئی ہے”۔۔۔ الَّذی یملاءُ الاَرضُ قسطَا وَّ عَد لا کما مَلِئَت ظُلما وَّ جَورا "
امام زمانہؑ دنیا کو عدل و انصاف سے بھردیں گے:
ہم ہمیشہ سے علماء کی زبانی یہ حدیث سنتے آرہے ہیں کہ امام مہدی تشریف لائیں گے تو آپؑ دنیا کو بلکل اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح یہ دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اور یہی روایت مخلتف عبارات کے ساتھ تمام معصومؑ سے منقول ہیں۔ لیکن آج تک ہم نے اس حدیث میں صحیح طرح غور و فکر نہیں کی کہ اس حدیث میں جو الفاظ "قسط” اور”عدل” اسی طرح ان کے مقابل میں "ظلم” اور "جور” استعمال ہوئے ہیں آیا یہ تمام الفاظ مترادف ہے یا ان سب کے الگ الگ معانی ہیں تو ہم اس پہ ایک تحقیقی نظر ڈالتے ہیں کہ آخر معصوم اس حدیث میں امام مہدیؑ کی خوش خبری دینے کے ساتھ ساتھ کیا فرمانا چاہتے ہیں۔
عدل” و "قسط” اور "ظلم” و "جور” کے درمیان فرق:
حدیث کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہم "عدل” و "قسط” اور "ظلم” و "جور” کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہیں۔
استعمال کے اعتبار سے عدل کا دائرہ قسط سے وسیع ہےجبکہ قسط کا دائر ہ محدود ہے۔
پہلا فرق:
قسط استعمال ہوتا ہے دوسرے کے حق کو پورا دے دینا جیسے پیمائش کے وقت گواہی کے وقت وغیرہ۔
جبکہ عدل اس صورت میں استعمال ہوتا ہے کہ دوسرے کے حق کو پورا دے دینا اور اس کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے۔
مثلا: ہم مثال دے سکتے ہیں کہ اللہ نے آنکھ عطا کی ہے تو اس کو راستہ دیکھنے، کتاب پڑھنے( اور بھی سارے کام جو انسان کے روزمرہ زندگی میں سامنے آتے رہتے ہیں جن کو کرنا ضروری ہوتا ہے) کے لیئے ہے۔ لیکن کوئی بدبخت ان آنکھوں کو لگاتار نامحرموں کو دیکھنے اور دوسرے غلط کاموں میں استعمال کرے تو ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آنکھ کے ساتھ عدل نہیں کیا لیکن اس وقت ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اپنے آنکھوں کے ساتھ قسط نہیں کیا۔ اسی طرح ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں کہ گلاس کو بنایا ہے پانی پینے کے لئے لیکن اگر کوئی اس میں چائے پیتا ہے تو کہیں گے یہ عدل کے خلاف ہے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ یہ قسط کے خلاف ہے کیونکہ عدل کا مفہوم محدود ہے فقط دوسرے کے حق کو پورا دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
دوسرا فرق :
عدل مطلقا حق کے موافق ہے جبکہ قسط فقط مخلوقات کے حوالے سے حق کے موافق ہے۔
تیسرا فرق :
عدل کی ضد ظلم ہے اور قسط کی ضد جور ہے۔
چوتھا فرق:
ظلم مطلقا حق سے تجاوز کرنے کا نام ہے چاہے وہ خود سے ہو یا دوسروں کی نسبت ہو۔ جبکہ جور دوسرے کے حق کو دبانا یعنی جس کا تعلق خود سے نہیں ہوتا بلکہ دوسرے سے ہوتا ہے۔
اب جب ظلم و جور اور عدل و قسط میں فرق واضح ہوگیا تو دیکھنا یہ ہے کہ امام مہدیؑ کی تشریف آوری کے وقت ظلم و جور کس طرح ہوگا اور آپؑ ان کو کس طرح ختم کریں گے۔ تو اس بات کو جاننے کے لئے روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں ان روایات کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں حکمران اپنی حکومت و قضاوت میں ظلم و جور کو رواج دیں گے یعنی لوگوں کے جو حقوق ہیں وہ انہیں نہیں دیں گےوہ زمانہ بعید نہیں بلکہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت کے حکمران بلکل اسی طرح کے ہیں کہ اپنے پیٹ اور اپنے عزیز و اقارب کو دوسروں کےمال سے کم کرکے ان کے حقوق سے چھین کے دیتے ہیں اور اپنے آنے والے نسلوں کے لئے جمع کرکے رکھتے ہیں۔
تو امام زمانہؑ تشریف لانے کے بعد ان ظالم و جابر حکمرانوں کا خاتمہ کر کے جورکی جگہ عدل کو رواج دیں گے اسی طرح یہ حکمران ظالم بھی ہوں گے جیساکہ وہ بھی آج کل کے حکمرانوں میں دیکھنے کو ملتاہے جو اپنے اوپر بھی ظلم کرتا ہے اور دوسروں پر بھی ۔ امام کے تشریف آوری کے بعد امام اس دنیا سے ظلم و جور کو ختم کرکے عدل و قسط کو عام کریں گے اور ہر انسان کو اس کا حق دیا جائے گا۔
امام کے عدل کی وسعت :
روایات کی طرف رجوع کرنے سے ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے ملتی ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں
۔” لِیَدخُلَنَّ عَلَیھِم عَدلَہُ جَوفَ بُیُوتِھِم کَمَا یَدخُلِ الحَرَّ وَالقَر”
"آگاہ رہوامام مہدی کا عدل ضرور بالضرور ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جس طرح گرمی اور سردی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتی ہے ۔”
قربان جاؤں آپؑ پر اے مولا عدل امام زمانہ کی وسعت لئے کیا خوب تعبیر استعمال کی ہے کہ امام عدل کو ہر گھر میں اسی برح داخل کریں گے جس طرح موسم گرما میں گرمی اور موسم سرما میں سردی گھروں میں داخل ہوتی ہے یعنی نہ گھر والے سے اجازت کی ضرورت ہے اور نہ کسی جگہ کی ضرورت ہے جس سے داخل ہو بلکہ جس طرح گرمی اور سردی کو کسی کے اذن کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ خود بخود داخل ہوجاتی ہے بلکل اسی طرح عدل بھی گھروں میں ایسے ہی داخل ہوگا ۔
مولا نے عدل کی شدت کو بیان کرنے کے لئے لفظ "قَر” کا استعمال فرمایا جس کا لغت والوں نے "مارڈالنے والی سردی” معنی بیان کیا ہے جو گرمی کی طرح گھروں میں داخل ہوتی ہے۔ اتنے مختصر دو سے تین جملوں میں پورا مطلب سمجھا دیا دوسرے الفاظ میں سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔
اور یہ لفظ کہ "جَوفَ بُیُوتِھِم” گھروں کے اندر یعنی گھروں میں انتہائی خفیہ معاملوں میں بھی عدل رائج ہوگا یعنی یہ ایک ایسے قانون کی طرف اشارہ ہے جو قانون امام زمانہ علیہ السلام کا گھر میں بیوی اور شوہر کے معاملات کو بھی شامل ہوگا شوہر اپنی بیوی پر ظلم نہیں کریگا اور نہ بیوی اپنے شوہر پر زیادتی کریگی۔مطلب یہ کہ عدل کوئی چاہے یا نہ چاہے ہر ایک گھر تک پہنچ کر رہے گا اور کوئی بھی فرار نہیں کرسکتا جس طرح سردی اور گرمی سے کسی کا فرار ممکن نہیں ۔
ہماری اس بات کی تائید کہ عدل گرمی اور سردی کی طرح ہر گھر گھر تک پہنچ جائے گا وہ روایت ہے جس میںٖ امام کے تشریف آوری کے بعد امام کا ابلیس کو قتل کرنے کا ذکر ہے کیونکہ انسانوں کو گمراہ کرنے والا، ظلم کی طرف رغبت دلانے والا، جور کی طرف آمادہ کرنے والا، یعنی ہر برائی کی جڑ شیطان مردود ہے جب کسی چیز کی جڑ کو ہی ختم کیا جائے تو ظاہر ہے اس سے وجود میں آنے والا شر بھی مکمل ختم ہوجائے گا پس جب شیطان کا قتل ہوگا تو انسان تمام برائی سے بچ جائیں گے ۔اس بارے میں روایت کچھ اس طرح نقل ہوئی ہے۔
اسحٰق بن عمار سے روایت ہے: "میں نے امام علیہ السلام سے اس آیت
"قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِيْٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝۳۶ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۝۳۷ۙ اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ۝۳۸
"کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔ فرمایا: تومہلت ملنے والوں میں سے ہے۔ معین وقت کے دن تک”۔ کے بارے میں سوال کیا جس میں ابلیس کو جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور وقت معلوم تک مہلت کا کہا گیا ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟
امام علیہ السلام: وقت معلوم قائم علیہ السلام کے قیام کا وقت ہے جب اللہ تعالیٰ انہیں مبعوث فرمائیں گے تو آپؑ مسجد کوفہ میں موجود ہوں گے وہاں پر ابلیس آئے گا اور اپنے زانو کے بل جھک کر آپؑ کے سامنے بیٹھ جائے گا اور وہ کہے گا کہ ہائے افسوس! اس دن پر جو آگیا ہے پس امام علیہ السلام اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑیں گے اور اس کو قتل کردیں گے پس وہ دن یوم معلوم ہے اور ابلیس کی مدت عمر کے خاتمے کا دن ہے۔
اب فرق نہیں کہ آپ حقیقی طور پر شیطان کو قتل کردیں گے یا نفوس کے اندر موجود شیطان کو قتل کردیں گےنتیجہ جو بھی ہو ہماری بات کی تائید ہوتی ہے۔
اب نتیجہ واضح ہے کہ جب شیطان قتل ہوگا تو دلوں میں وسوسہ ڈالنے والا کوئی نہ ہوگا کہ یہ برائی انجام دو یہ برائی بجالاؤ جس کا نتیجہ تمام انسان عصمت کے درجے کو پالیں گے عصمت کا مطلب ایک بہت ہی عظیم ایمانی حالت پیدا ہوجائے گی اس طرح کہ آپؑ کے حکومت کی زیر سایہ کوئی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا۔
سوال: کیا ہر زمانے میں امام کا وجود ضروری ہے؟
اس سوال کا جواب احادیث کی روشنی میں دیکھے تو یہی ہے کہ ہاں امام کا وجود ضروری ہے کیونکہ احادیث کی طرف رجوع کرنے سےمعصوم سے روایات ملتی ہیں کہ دنیا میں نمائندہ خدا کا ہر زمانے میں ہونا ضروری ہے
اس پر شاہد رسول اللہ ؐ کی وہ حدیث ہے جس میں آپؐ نے ٖفرمایا: ” من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ” "جو شخص بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے”۔ نبیؐ کے اس فرمان سے واضح ہوگیا کہ ہر زمانے میں امام ضرور ہوتا ہے اور آج بھی امام موجود ہے جس کی معرفت ہم پر واجب ہے جس کا رسولؐ نے فرمایا ہے۔ کہ رسولؐ ہمیں معرفت کا کہیں تو اس فرمان کا لازمہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک امام ہو جس کی ہم معرفت حاصل کرسکیں۔
اب فرق صرف اس میں ہے کہ کبھی امام موجود ہوتا ہے کبھی مصلحتوں کی بناء پر امام پردہ غیب میں تشریف فرما ہوتا ہے۔ اب یہ کتابوں سے ثابت ہےکہ امام زمانہ اس دنیا میں تشریف لاچکے ہیں اور امام کا پردہ غیب میں ہونا بھی احادیث سے ثابت ہے ہم آپ کی خدمت میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔ امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا زمین حجت خدا سے خالی رہ سکتی ہے؟ آپؑ نے ارشاد فرمایا: اگر پلک جھپکنے کی دیر تک بھی زمین حجت خدا سے خالی ہو تو یہ زمین اہل زمین سمیت دھنس جائے گی۔
اس حدیث معرفت سے واضح ہوگیا کہ ہر زمانے میں امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت حاصل کی جائےاور اس کی پیروی کرجائے تواتر سے یہ حدیث بھی آپؐ سے نقل ہوئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جو اس حالت میں مرجائے کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہوتو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا۔
پس نتیجہ واضح ہے کہ ہر مسلمان پر ایک امام کی معرفت اور پیروی ضروری ہے اور زمانے کے امام کی بیعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے تاکہ فلاح پاسکے یہ بھی واضح ہے کہ حدیث میں امام کے انتخاب کرنے کا نہیں کہا بلکہ کہا کہ کی امام کی معرفت حاصل کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس امام کی معرفت حاصل کرو جو موجود ہے جسے اللہ نے بنایا ہے کیونکہ معرفت اسی کی حاصل کی جاتی ہے جو پہلے سے موجود ہواور پھر ہمیں معرفت کے بعد اطاعت کا حکم دیا یہ بات واضح ہے کہ اطاعت ہر کس و ناکس کی نہیں کی جاتی بلکہ پیروی اسکی کی جاتی ہے جو معصوم ہو اور معصوم امام وہی ہوسکتا ہے جس کی پیروی کا اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے حکم دی دیا۔
نتیجہ واضح ہوگیا کہ ہر زمانے میں ایک معصوم امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت حاصل کرکے پیروی کریں جس کے نتیجہ میں ہم نبیؐ کی حدیث کا مصداق بن سکیں اور قیامت کے دن کامیاب ہوں جاہلیت کی موت نصیب نہ ہو پس اس کے لئے معصوم امام کی پیروی اس وقت صدق آئے گی جب ہم یقین کریں کہ اس دور کے امام حضرت امام مہدی ابن حسن العسکریؑ فرجہ الشریف ہیں۔
امام مہدیؑ بزبان امیر المومنین علیہ السلام :
امیرالمومنین حضرت علی ؑ جو شہر علم کا دروازہ ہیں، ائمہ اہل بیت کے والد بزرگوار اور اہل بیؑت کے سید و سردار ہیں اور آپؑ کا یہ فرمان تمام مسلمانوں میں مشہور ہے کہ رسول ؐ نے مجھے علم کےہزار ابواب تعلیم فرمائے، اور میں نے ہر باب سے ہزار دروازے کھولے ۔حضرت علی ؑ نے بہت سارے حوادث و واقعات کےبارے میں خبر دی ہے ۔آپؑ نے اسلامی ملکوں پر معاویہ کی حکومت کی خبر دی تھی اور کئی بار شہادت امام حسینؑ کے بارے میں آگاہ فرمایا تھا،خاص طور پر کہ جب آپ ؑ نےان کی حکومت کے زوال کے بارے میں بھی بتایا۔آپ ؑ کی یہ باتیں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئیں ۔
خلا صہ یہ کہ جس طرح آپ ؑ نے بعض دیگر حوادث کے بارے میں خبر دی ہے اسی طرح امام مہدیؑ کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
شیخ صدوق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ امام محمد تقی ؑ سے اور انہوں نے اپنے آباء کے واسطے سے حضرت امیر المومنین ؑسے روایت فرمائی ہے کہ ہمارے قائم کے لئے ایک زمان غیبت ہوگا، اس کی مدت لمبی ہوگی، گویا میں اپنے شیعوں کے ساتھ ہوں اور اس زمانے میں وہ جانوروں کی طرح پھر رہے ہیں اور کوئی چراگاہ ڈھونڈرہے ہیں لیکن انھیں وہ چراگاہ مل نہیں رہی۔آگاہ رہو ! ان میں سے جو بھی ثابت قدم رہے گا اور غیبت کی مدت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکاری نہ ہوگا وہ بروز قیامت میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔
الحافظ ابو نعیم نے اپنی کتاب ” اربعین حدیثا فی ذکر المہدیؑ” میں حدیث یوں روایت کی ہے:
عن علی بن ابی طالب قال: قلت یا رسول اللہ امنّا اٰل محمد المھدی ام من غیرنا؟ فقال رسول اللہ لابل منا یختم اللہ بہ الدین کما فتح بنا ینقذون من الفتن کما انقذوامن الشرک و بنا یؤلف بینھم بعد عدوا ۃ الشرک اخوانا فی دینھم۔
حضرت علیؑ بن ابی طالب ؑکہتے ہیں کہ میں نے کہا:” اے اللہ کے رسول ؐ کیا مہدی ہم آل محمد ؑ میں سے ہوں گے یا ہمارے سوا کوئی دوسرے لوگوں میں سے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ ہم میں سے ہوں گے جس طرح اللہ نے دین کو ہمارے ذریعے شروع کیا ہے ۔ اس کا اختتام بھی ہم پر ہوگا اور لوگ ہمارے ذریعے سے ہی فتنوں سے نکلیں گے جیسا کہ وہ شرک سے نکلے اور فتنوں کی عداوت کے بعد ہمارے ہی ذریعے اللہ ان کے قلوب کو جوڑ کر بھائی بھائی بنادے گا جیسا کہ عداوت شرک کے بعد ان کے قلوب کو جوڑ کردین میں بھائی بھائی بنادیا۔”
امام مہدیؑ بزبان امام حسن علیہ السلام :
حنان بن سدیر سے روایت ہے کہ اس نے اپنے باپ سدیر بن حکیم سے اور اس نے اپنے باب سے، اس نے ابو سعید عقیصا سے روایت کی ہے کہ جب امام حسنؑ بن علی ؑ نے معایہ بن ابو سفیان سے صلح کرلی تو کچھ لوگ آپؑ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور صلح کرنے پر ملامت اور طعن کیا ۔ آپؑ نے فرمایا:
تم پر وائے ہو ،تمہیں کیا خبر کہ میں نے کیا کیاہے! خدا کی قسم جو کچھ میں نےکیا ہے وہ میرے شیعوں کے لئے بہتر ہے ہر چیز سے جس پر سورج طلوع و غروب کرتا ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہار امام ہوں جس کی اطاعت تم پر فرض ہے اور یہ کہ رسول اللہ ؐ کی خاص نص کی بناپر میں نوجوانان جنت کے سردار وں میں سے ایک ہوں؟
انہوں نے جواب دیا : جی ہاں یہ درست ہے۔
آپؑ نے فرمایا: کیا تمہیں یاد نہیں کہ جب حضرت خضرؑ نے کشتی میں سوراخ کیا ، لڑکے کو قتل کیا، اور دیوار کھڑی کی تھی تو یہ باتیں حضرت موسیٰؑ بن عمران کو بری لگی تھیں، اس لئے کہ ان باتوں کی حکمت ان کی آنکھوں سے اوجھل تھی، حالانکہ اللہ کی نظر میں ان باتوں میں حکمت و مصلحت تھی اور یہ سارے کام صحیح تھے؟
کیا تم نہیں جانتے کہ ہم میں ہر ایک کو اپنے زمانہ کے سرکش کی حکومت میں اور اس کے تحت رہنا ہوگا، بخدا حضرت قائم ، جن کے پیچھے حضرت عیسیٰؑ بن مریم نماز پڑھیں گے۔ اللہ عزو جل ان کی ولادت کو مخفی رکھے گا اور ان کے وجود کو غائب کر دے گا، اس طرح ان کی گردن پر کسی کا تسلط اور کسی کی بیعت نہیں ہوگی، میر ےبھائی حسینؑ کی اولاد میں سے نویں ہوں گے اور خروج کریں گے، اللہ غیبت کے زمانے میں ان کی عمر کو طول دے گا۔
جب انہیں ظاہر کرے گا توایک جوان کی شکل میں ، جو چالیس سال سے کم عمر ہوتا کہ سب لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
امام مہدیؑ بزبان امام حسین علیہ السلام :
حضرت ولی العصر ؑ کی عدالت کو بیان کرتے ہوئے سید الشہدا ء امام حسین ؑ کےگوہر نایاب کلام میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
"لولم یبق من الدنیا الا یوم واحد لطول اللہ( عزّ و جلّ) ذالک الیوم حتی یخرج رجل من ولدی فیملا رض قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلما کذالک سمعت رسول اللہ یقول”
"اگر دنیا کی عمر میں سے ایک دن باقی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے طولانی کردے گا یہاں تک کہ میری اولاد میں سے ایک شخص قیام کرے گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھردے گا جیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی، میں نے اسے رسول اکرم ؐ سے سناتھا”۔
اسی طرح امام حسین ؑ سے اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ ؑ فرماتےہیں۔
ہم میں سے بارہوں مہدیؑ ہیں۔ ان کے اول امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ ہیں اور ان میں سے آخری میری اولاد میں سے نویں ہیں ، وہ امام قائم بالحق ہیں ان کے ذریعے خداوند عالم زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرے گا، ان کے ذریعے دین حق کو باقی تمام ادیان پر غلبہ عطا کرے گا، اگر چہ مشرکین اسے ناپسند کرتے ہوں۔
ان کے لئے ایک غیبت ہے جس کے دوران کئی قومیں مرتد ہوجائیں گی، جو اس دین پر ثابت قدم رہیں گی انہیں اذیت پہنچائی جائے گی، ان سے کہا جائے گا،وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو؟
یا د رکھو جس نے ان کی غیبت میں اذیت ، تکلیف اور تکذیب پر صبر کیا ،، وہ اس مجاہد کے مثل ہے جس نے رسول للہؐ کے سامنے تلوار سے جہاد کیا ہو۔
امام مہدیؑ بزبان امام زین العابدین علیہ السلام :
امام زین العابدین ؑ نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں کہ وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ۔ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں گےتواس وقت کسی کی بیعت میں نہیں ہوں گے۔۔۔
شیخ صدوق نے اپنی کتاب "اکمال الدین و اتمام النعمۃ” میں اپنی سند سے سعی بن حبیب سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام علی ابن الحسینؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ” ہمارے قائم ؑ (تمام) انبیا ء کے طریقے پر ہونگےہیں۔ ہمارے باپ آدمؑ کا طریقہ، حضرت نوحؑ کا طریقہ، حضرت ابراہیمؑ کا طریقہ، حضرت موسیؑ کا طریقہ، حضرت عیسیٰؑ کی سنت، حضرت ایوب ؑکی سنت اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سنت”۔
• سنت آدمؑ و نوحؑ سے مراد آپؑ کی عمر کا طویل ہونا ہے۔
• سنت ابراہیمؑ مراد آپؑ کی ولادت کا پوشیدہ اور لوگوں سے دُور ہونا ہے۔
• سنت موسیٰؑ سے مراد خوف اور تقیّہ ہے۔
• سنت عیسیٰؑ سے مراد لوگوں کا آپؑ کے بارے میں اختلاف کرنا ہے۔
• سنت ایوبؑ سے مراد مشکلات کے بعد آسودگی ہے
اور سنت محمدمصطفیٰؐ سے مراد جہاد اور خروج کرنا ہے۔
امام مہدیؑ بزبان امام محمد باقر علیہ السلام :
شیخ صدوق اپنی اسناد سے امِ ہانی الثقفیہ سے روایت کی ہےکہ وہ فرماتی ہیں کہ میں ایک صبح امام محمد باقر ؑ کی بارگاہ میں تھی ۔ میں عرض کیا: مولا! قرآن مجید میں ایک آیت ہے۔ میں اس میں غور کیا تو اس نے مجھے رلا دیا اور میری نیند اُڑادی۔
امامؑ نے فرمایا: ام ہانی بتاؤ وہ کون سی آیت ہے؟
ام ہانی نے عرض کیا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"فلآ اقسم بالخنس الجوار الکنس”
امام نے فرمایا : اے ام ہانی تم نے اچھا سوال کیا، اس سے مراد ایک مولود ہے کہ جو آخری زمانے میں پیدا ہوگا وہ مہدیؑ عترت اہل بیتؑ سے ہوگا۔ لوگ حیران ہوں گے اور آپ ؑ پردہ غیبت میں ہوں گے۔ اس زمانےمیں کچھ لوگ گمراہ ہوجائیں گے اور کچھ ہدایت یافتہ رہیں گے۔ تمہیں مبارک ہو کہ تم ان کا زمانہ پاسکو گی اور ہر اس شخص کو مبارک ہو جو ان کا زمانہ پالے۔
حضرت امام محمد باقرؑ نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا ؐ سے ہمیں ملا ہے۔ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسینؑ کے اولاد سے ہوں گے۔ مہدیؑ بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا۔۔۔
امام مہدیؑ بزبان امام جعفر صادق علیہ السلام :
جناب محمد بن مسلم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام ؑ سے سنا کہ حضرت قائم کی آمد سے پہلے علامات اور نشانیاں ہوں گی یہ اللہ کی طرف سے مومنین کے واسطے امتحان اور آزمائش ہوگی۔
راوی : میں آپؑ پر قربان جاؤں یہ علامات کون سی ہیں؟
امامؑ: اللہ تعالیٰ کا مومنین کو خطاب ہے ” سورہ بقرہ 155 کہ ” بتحقیق ہم ضرور۔۔۔۔۔ تمہیں ( مومنین کو ) آزمائیں گے یعنی حضرت قائمؑ کے ظہور سے پہلے کچھ ڈر ہوگا، کچھ بھوک ہوگی ، اموال میں کمی سے ، جانوں کے چلے جانے سے،
ثمرات اور میوہ جات کے ضائع ہونے سے ، صبر کرنے والوں کے لئے بشارت اور خوش خبری ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس
شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسولؐ خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے۔
عرض کیا گیا: فرزند رسول ؑ مہدیؐ کس کی اولاد سے ہوں گے؟
فرمایا: ساتویں امام موسیٰ بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے۔
امام مہدیؑ بزبان امام موسیٰ کاظم علیہ السلام :
کتاب اکمال الدین میں شیخ صدوق نے اپنی اسنا دسے محمد بن زیاد ازدی سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے مولا امام موسیٰ کاظمؑ سے خدا کے اس قول ” واسبغ علیکم نعمۃ ظاھرۃ و باطنۃ ” کے بارے میں پوچھا۔
آپ نے فرمایا: نعمت ظاہری، امام ظاہر ہے اور نعمت باطنی امام غائب ہے۔
میں نے پوچھا: ائمہؑ میں بھی ہوگا کہ جو غائب ہوگا؟
امام نے فرمایا: ہاں وہ خود ہماری آنکھوں سے غائب ہوں گے لیکن مومنوں کے دلوں میں ان کی یا د ختم نہ ہوگی۔ وہ ہم میں سے بارہویں ہیں ، خدا ان کے لئے ہر مشکل آسان کردے گا، ہر سختی کو ان کےلئے ہیچ کردے گا، انکے لئے زمین کے خزانے ظاہر کردے گا ،، ہر دور کو ان کے قریب کردےگا۔ ان کے ذریعے ہر جابر و سرکش کو ہلاک کردے گا اور ان کے ہاتھوں شیطان مردود کو ہلاک کردے گا۔
وہ تمام ماؤں کی سردار کے فرزند ہیں، اُن کی ولادت لوگوں سے مخفی رکھی جائے گی اور ظہور تک لوگو ں کے لئے ان کا نام لینا جائز نہ ہوگا۔ پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے یوں پرکردیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے جس میں آپؑ نے فرمایا : کہ خداوند عالم ہمارے خاندان کی بارہویں شخصیت کے ذریعے ہر مشکل ور دشواری کو آسان بنادے گا اور اس کےم بارک ہاتھوں سے ہر قسم کے طاغوتی طاقتوں اور ظالموں کو نابود کردے گا اور ہر شیطان سرکش کو تباہ و برباد کردےگا ۔
امام مہدیؑ بزبان امام علی رضا علیہ السلام :
ابو صلت سے روایت ہے کہ دعبل کہتے ہیں: جب میں نے اپنے آقا و مولا امام رضا علیہ السلام کے سامنےیہ قصیدہ پڑھا اور اس شعر تک پہنچا:
خروج امام لا محالہ خارج یقوم علی اسم اللہ والبرکات
یمیز فینا کل حق و باطل و یجزی علی النعماء والنقمات
ایک امام آل محمدؐ میں قیام کریں گے وہ اللہ کے اسمِ اعظم کی تائیدو برکت اور غیبی مدد سے قیام فرمائیں گے اور حق کو باطل سے جدا کریں گے کینہ پروری کرنے والوں کو اپنے اصل انجام تک پہنچائیں گے۔
تو امام رضاؑ روپڑے ، پھر سر اٹھا کر فرمایا: اے خزاعی! اس بیت کے پڑھتے وقت روح القدس نے تمہاری زبان سے نطق کیا ہے اور اس شعر کو ادا کیاہے۔
تمہیں معلوم ہے کہ یہ کون امام ہیں جن کے بارے میں تم نے اس شعر میں اظہار خیال کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے نہیں معلوم، مگر یہ کہ میں نے سنا ہے کہ اے میرے مولا و آقا! آپؑ میں سے ایک امام خروج کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے آپؑ نے فرمایا:
اے دعبل! میرے بعد میرا بیٹا محمد امامؑ ہے ، ان کے بعد ان کا بیٹا علیؑ، ان کے بعد ان کا بیٹاحسنؑ ہے اور حسنؑ کے بعد ان کا بیٹا محمدؑ جو حجت اور قائم ہوگا ان کی غیبت میں لوگ منتظر ہوں گے، ظہور کے بعدان کی اطاعت اور پیروی کی جائے گی۔
اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن بھی رہ گیا تو خدا اس دن کو اس قدر طویل کردے گا کہ ہمارے قائم خروج کریں گے، پھر وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔
امام مہدیؑ بزبان امام محمد تقی علیہ السلام :
امام محمدتقی علیہ السلام نے عبدا لعظیم حسنی سے فرمایا: قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں سے ہونگے۔ قسم ہےاس خدا کی جس نے محمدﷺ کو رسالت اور ہمیں امامت سے سرفرازا۔ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جیساکہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی۔
خدا وند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کرے گا جیساکہ اپنے کلیم موسیٰؑ کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے۔ موسیؑ بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لے کر پلٹے۔
اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے۔۔۔
اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت سید عبدالعظیم حسنی سےنقل ہوئی ہے کہ میں نے امام محمد بن علیؑ سے عرض کیا: مولاؑ مجھے امید ہے کہ آپؑ ہی اہل بیتؑ میں سے وہ قائم ہیں کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھردیں گے جیسے وہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔
امام ؑ نے فرمایا: ہم میں سے ہر ایک امرِ خدا کو قائم کرنے والا ہے اوردین خدا کی طرف ہدایت فرمانے والا ہے لیکن قائمؑ وہ ہے کہ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کردے گا اور اسے عدل و انصاف سے بھردے گا۔ آپ کی ولادت لوگوں سے مخفی ہوگی۔ آپؑ لوگوں سے غائب ہوں گے، لوگوں پر آپؑ کا نام لینا حرام ہوگا۔ آپؑ رسولؐ کے ہم نام و ہم کنیت ہونگے۔ زمین آپؑ کے لئے سمٹ دی جائے گی اور ہر سختی آپؑ کے لئے ہیچ ہوجائے گی۔
امام مہدیؑ بزبان امام علی النقی علیہ السلام :
آپؑ امام مہدیؑ کے جد بزرگوار ہیں۔ خدا نے آپ کے نصیب میں امام مہدی سے ملاقات نہ لکھی تھی، کیونکہ امام مہدی کی ولادت امام ہادی کی شہادت کے بعد ہوئی تھی لیکن امام علی الہادیؑ النقیؑ ان کے لئے فضا سازگار کرنے اور راہ ہموار کرنے میں سرفہرست رہے۔
شیخ صدوق نے کتاب اکمال الدین میں اپنی اسناد سے ابودلف سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام علی الہادیؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک میرے بعد امام، میرے بیٹے حسنؑ(العسکری) ہیں اور حسنؑ کے بعد ان کے بیٹے القائمؑ ہیں کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے یوں بھردیں گے کہ جیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
امام علی نقیؑ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: میرے بعد میرا بیٹا حسنؑ امام ہے اور حسنؑ کے بعد ان کے بیٹے قائمؑ ہیں جو روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے۔۔
امام مہدیؑ بزبان امام حسن العسکری علیہ السلام :
حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام نے فرمایا: میں اس پروردگار عالم کا شکر گزار ہوں جس نے میرے مرنے سے پہلے مجھے میرا جانشین دکھا دیا ۔ اور وہ جانشین انسانوں میں سے شکل و شمائل اور اخلاقی کمالات کے اعتبار سے پیغمبر اکرمﷺ کی شبیہ ہے۔ خداوند عالم ان کو دوران غیبت بلاؤں سے محفوظ فرمائے گا، اس کے بعد ان کو ظاہر و آشکار فرمائے گا اور وہ زمین کو عدل سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔
امام حسن العسکری علیہ السلام نے موسیٰ بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یاد رہے جو شخص پیغمبرؐ کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہو لیکن محمد ﷺ کی رسالت کا منکر ہو کیونکہ ہم میں آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اول کی۔ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کرے گا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا۔ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھےگا۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button