سلائیڈرسیرتسیرت امام زین العابدینؑ

دربار یزید میں سید سجادعلیہ السلام کا ظالموں کو ذلیل و رسوا کرنے والا تاريخی خطبہ

یہ وہ خطبہ ہے جسے آپ نے واقعہ عاشورا کے بعد شام میں یزید کے دربار میں ارشاد فرمایا۔ امام سجادؑ اور اسیران کربلا کی موجودگی میں یزید کے حکم پر ایک خطیب نے منبر سے بنی امیہ کی مدح اور امام علیؑ اور آپ کے اہل بیت کی مذمت میں ایک تقریر کی۔ امام سجادؑ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطیب کے جواب میں حضرت علیؑ کے فضائل بیان فرمائے۔ یہ خطبہ جس کے اکثر مطالب حضرت علیؑ کی مدح اور فضیلت پر مشتمل ہیں، شام میں ایک وسیع اثرات کا حامل رہا اور یزید کی ظاہری سیاست میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
تاریخ
شام میں اہل بیت کے داخل ہونے کی تاریخ دقیق طور پر معلوم نہیں اسی بنا پر اس خطبے کی تاریخ بھی دقیق طور پر مشخص نہیں ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے کو شام میں اسیران کربلا کی اقامت کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا ہے، کیونکہ اس خطبے کے بعد یزید نے اہل بیت کو مزید وہاں رکھنے میں مصلحت نہیں دیکھی اور انہیں مدینہ واپس بھیجنے کے مقدمات فراہم کیا۔
امام سجادؑ اور درباری خطیب
اسرائے اہل بیت کی موجودگی میں یزید نے شام کے مسجد اموی میں ایک محفل منعقد کروایا اور اپنے باطل خیال کے مطابق وہ اس کام کے ذریعے اہل بیت کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک خطیب نے ممبر سے یزید اور اس کے آباء و اجداد کی مدح سرائی کرنا شروع کیا۔ اس موقع پر امام سجاد نے مذکوره خطیب سے فرمایا:
"وَيلَكَ أيُّهَا الخاطِبُ! اشتَرَيتَ رِضَا المَخلوقِ بِسَخَطِ الخالِقِ؟ فَتَبَوَّأ مَقعَدَكَ مِنَ النّارِ”
وای ہو تم پر! تم مخلوق کی خشنودی اور رضایت کو خدا کی خوشنودی پر مقدم کیا اور جہنم میں اپنا ٹھکانا معین کیا”
( بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۷۴؛ عوالم، ج۱۷، ص۴۰۹؛ نفس المہموم، ص۴۵۱؛ حیاۃ الحسین، ص۳۸۶)
اس کے بعد امام سجادؑ نے یزید کی طرف رخ کر کے فرمایا:
"يا يَزيدُ ائذَن لي حَتّى أصعَدَ هذِهِ الأَعوادَ، فَأَتَكَلَّمَ بِكَلِماتٍ فيهِنَّ للّه ِ رِضاً، ولِهؤُلاءِ الجالِسينَ أجرٌ وثَوابٌ’
"اے یزید! مجھے اجازت دو کہ میں ان لکڑیوں پر جاوں اور ایسی باتیں کروں جن میں اللہ کی رضا ہو اور ان حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہو”
۔ناسخ التواریخ میں آیا ہے کہ یزید نے امام سجادؑ کی درخواست کو رد کیا لیکن شامیوں کی اصرار پر یزید نے مجبورا امام سجادؑ کی درخواست کو قبول کیا۔بعض تاریخی کتابوں کے مطابق یزید کے بیٹے معاویہ نے اسے کہا: اس شخص کے خطبہ کا کیا اثر ہوگا، جو کہنا چاہتا ہے، اسے کہنے دو۔ یزید نے کہا: تم لوگ اس خاندان کی صلاحیتوں کو نہیں جانتے ہو، وہ علم اور فصاحت کو ایک دوسرے سے میراث میں لیتے ہیں، مجھے خوف ہے کہ اس کا خطبہ شہر میں فتنہ کھڑا کردے اور اس کی مصیبت ہم پر پڑ جائے۔( نفس المهموم .450۔)اسی لیے یزید نے اس پیشکش کی تردید کردی اور لوگ یزید سے اصرار کرنے لگے کہ امام سجاد (علیہ السلام) بھی خطاب کریں۔ یزید نے کہا: اگر وہ منبر پر جائے تو نیچے نہیں آئے گا مگر یہ کہ مجھے اور ابوسفیان کے خاندان کو رسوا کردے۔ یزید سے کہا گیا: یہ نوجوان کیا کرسکتا ہے؟! یزید نے کہا: وہ اس خاندان میں سے ہے جن کو علم کی جنم گھٹی دی گئی ہے۔ مگر شامیوں کے اصرار کی وجہ سے یزید مان گیا کہ امامؑ خطبہ پڑھیں۔ پھر حضرت زین العابدین (علیہ السلام) منبر پر رونق افروز ہوئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جس سے سب لوگ رونے لگے اور بیقرار ہوگئے۔
سید سجاد علیہ السلام کے تاریخی خطبہ کا متن اور اردو ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ؛أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ.وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّيقُ وَ مِنَّا الطَّيَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ.
مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِي وَ نَسَبِي.
أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا.أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّكْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا.
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَى.أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَى.أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَى.
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّى.أَنَا ابْنُ مَنْ حُمِلَ عَلَى الْبُرَاقِ فِي الْهَوَاءِ.أَنَا ابْنُ مَنْ أُسْرِيَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى.أَنَا ابْنُ مَنْ بَلَغَ بِهِ جَبْرَئِيلُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى.أَنَا ابْنُ مَنْ دَنا فَتَدَلَّى فَكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى‏.أَنَا ابْنُ مَنْ صَلَّى بِمَلَائِكَةِ السَّمَاءِ.أَنَا ابْنُ مَنْ أَوْحَى إِلَيْهِ الْجَلِيلُ مَا أَوْحَى.أَنَا ابْنُ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى أَنَا ابْنُ عَلِيٍّ الْمُرْتَضَى.أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِيمَ الْخَلْقِ حَتَّى قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَيْفَيْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَيْنِ وَ هَاجَرَ الْهِجْرَتَيْنِ وَ بَايَعَ الْبَيْعَتَيْنِ وَ قَاتَلَ بِبَدْرٍ وَ حُنَيْنٍ وَ لَمْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ.
أَنَا ابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَارِثِ النَّبِيِّينَ وَ قَامِعِ الْمُلْحِدِينَ وَ يَعْسُوبِ الْمُسْلِمِينَ وَ نُورِ الْمُجَاهِدِينَ وَ زَيْنِ الْعَابِدِينَ وَ تَاجِ الْبَكَّائِينَ وَ أَصْبَرِ الصَّابِرِينَ وَ أَفْضَلِ الْقَائِمِينَ مِنْ آلِ يَاسِينَ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.
أَنَا ابْنُ الْمُؤَيَّدِ بِجَبْرَئِيلَ الْمَنْصُورِ بِمِيكَائِيلَ أَنَا ابْنُ الْمُحَامِي عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِينَ وَ قَاتِلِ الْمَارِقِينَ وَ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ.وَ الْمُجَاهِدِ أَعْدَاءَهُ النَّاصِبِينَ وَ أَفْخَرِ مَنْ مَشَى مِنْ قُرَيْشٍ أَجْمَعِينَ وَ أَوَّلِ مَنْ أَجَابَ وَ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ أَوَّلِ السَّابِقِينَ وَ قَاصِمِ الْمُعْتَدِينَ وَ مُبِيدِ الْمُشْرِكِينَ وَ سَهْمٍ مِنْ مَرَامِي اللَّهِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ
وَ لِسَانِ حِكْمَةِ الْعَابِدِينَ وَ نَاصِرِ دِينِ اللَّهِ وَ وَلِيِّ أَمْرِ اللَّهِ وَ بُسْتَانِ حِكْمَةِ اللَّهِ وَ عَيْبَةِ عِلْمِهِ.
سَمِحٌ سَخِيٌّ بَهِيٌّ بُهْلُولٌ زَكِيٌّ أَبْطَحِيٌّ رَضِيٌّ مِقْدَامٌ هُمَامٌ صَابِرٌ صَوَّامٌ مُهَذَّبٌ قَوَّامٌ.
قَاطِعُ الْأَصْلَابِ وَ مُفَرِّقُ الْأَحْزَابِ.
أَرْبَطُهُمْ عِنَاناً وَ أَثْبَتُهُمْ جَنَاناً وَ أَمْضَاهُمْ عَزِيمَةً وَ أَشَدُّهُمْ شَكِيمَةً
أَسَدٌ بَاسِلٌ يَطْحَنُهُمْ فِي الْحُرُوبِ إِذَا ازْدَلَفَتِ الْأَسِنَّةُ وَ قَرُبَتِ الْأَعِنَّةُ طَحْنَ الرَّحَى وَ يَذْرُوهُمْ فِيهَا ذَرْوَ الرِّيحِ الْهَشِيمِ.
لَيْثُ الْحِجَازِ وَ كَبْشُ الْعِرَاقِ مَكِّيٌّ مَدَنِيٌّ خَيْفِيٌّ عَقَبِيٌّ بَدْرِيٌّ أُحُدِيٌّ شَجَرِيٌّ مُهَاجِرِيٌّ.
مِنَ الْعَرَبِ سَيِّدُهَا وَ مِنَ الْوَغَى لَيْثُهَا وَارِثُ الْمَشْعَرَيْنِ وَ أَبُو السِّبْطَيْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ.
ذَاكَ جَدِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ
ثُمَّ قَالَ:أَنَا ابْنُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ أَنَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ
انا ابنُ خَدیجهَ الکبری. (انا ابن الحسين القتيل بكربلا، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بكى عليه الجن في الظلماء، انا ابن من ناح عليه الطيور في الهواء) فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ أَنَا أَنَا حَتَّى ضَجَّ النَّاسُ بِالْبُكَاءِ وَ النَّحِيبِ. وَ خَشِيَ يَزِيدُ لَعَنَهُ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ فِتْنَةٌ. فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَقَطَعَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ. فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ عَلِيٌّ لَا شَيْ‏ءَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ. فَلَمَّا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ شَهِدَ بِهَا شَعْرِي وَ بَشَرِي وَ لَحْمِي وَ دَمِي. فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ الْتَفَتَ مِنْ فَوْقِ الْمِنْبَرِ إِلَى يَزِيدَ فَقَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا جَدِّي أَمْ جَدُّكَ يَا يَزِيدُ فَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدُّكَ فَقَدْ كَذَبْتَ وَ كَفَرْتَ وَ إِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدِّي فَلِمَ قَتَلْتَ عِتْرَتَهُ.
قَالَ وَ فَرَغَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَةِ وَ …
ترجمہ:اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛
ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔
ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:
خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔صدیق (امیرالمؤمنین علیؑ) ہم سے ہیں۔جعفر طیار ہم سے ہیں۔شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اورمہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،میں اس کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛میں اس کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے۔میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے]میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛
میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ دی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ ؐکے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛
میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد ؐ ) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔
میرے دادا (امیرالمؤمنین ؑ) وہ ہيں جن کو جبرائیل ؑ کی تائید و حمایت اور میکائیل ؑ کی مدد و نصرت حاصل ہے،
میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین ؑ کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔
میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول ؐکی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔
میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین “حسن و حسین ؑ” کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہراؑ کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔میں خدیجۃ الکبرٰی اُم المومنین کا بیٹا ہوں ۔
(میں اُس مظلوم حسین(ع) کا بیٹا ہوں جس کا لاشہ دفن نہیں کیا جا سکا اور خاک و خون میں پڑا رہا۔میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس پر چرند و پرند اور جنات نے جنگلوں اور ہواوں میں نوحہ پڑھا ۔)
پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر “انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا:
الله أكبر الله أكبر
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن لاإله إلا الله
امام علي بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن محمدا رسول الله
امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد ؐ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ؐمیرے نانا ہیں یا تمہارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتاؤکہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی
جن منابع میں یہ خطبہ نقل ہوا ہے:
(ابن شہر آشوب، مناقب، قم، انتشارات علامہ/موفق بن احمد خوارزمی، مقتل الحسین، مکتبہ المفید/
عباس قلی خان سپہر، ناسخ التواریخ، زندگی نامہ امام سجاد علیہ السلام، /باقر شریف قرشی، حیاہ الامام زین العابدین، دار الكتاب الاسلامی
/شیخ عباس قمی، نفس المہموم/محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، چاپ دوم/سید عبدالرزاق موسوی مقرم، مقتل الحسین، دارالکتاب الاسلامى، بیروت)
خطبہ کے چند اہم نکات کی تشریح:
فرزند حج
امام سجادؑ نے اس خطبے میں بعض ایسے مسائل کو بیان فرمایا ہے جو شاید پہلی نگاہ میں کچھ بے اہمیت نظر آئے؛ آپ نے فرمایا: میں فرزند مکہ و منا، زمزم و صفا ہوں۔ ان جملات کی توضیح میں درج ذیل احتمالات پائے جاتے ہیں:
1. ان جملوں کا معنا میں فرزند مناسک حج ہوں ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کہ مناسک حج ایک توحیدی مناسک اور عبادت ہونے کے اعتبار سے آپ کے خون اور گوشت میں رچی بسی ہے، نہ یہ کہ آپ دوسرے مسلمانوں کی طرح فقط مناسک حج کو انجام دیتے ہیں بلکہ جتنا زیادہ حج اور اس کے مناسک کے ساتھ مانوس ہونا ممکن ہے وہ آپ کے وجود میں موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی چیز کے ساتھ اپنے شدید انس اور لگاؤ کو بتانے کی خاطر اپنے آپ کو اس امر کا بیٹا یا بیٹی قرار دیتے ہیں۔ یہاں امام سجاد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے یزید اور یزیدیو! تم ہمیں دین سے خارج سمجھتے ہو؟ میرا دین کے ساتھ اتنا لگاؤ اور انس ہے کہ گویا میں اس کا فرزند ہوں۔
2. حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی یادگار ہے اور مسلمان ان مناسک کو حضرت ابراہیم کے نام سے جدا ناپذیر سمجھتے ہیں۔ امامؑ یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں فرزند ابراہیم خلیل ہوں
3. ایک اور احتمال یہ بھی ہے کہ امام یہاں پر اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت سے منسوب کرنا چاہتے ہیں جس نے مناسک ابراہیمی کو زندہ کیا یعنی میں فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں۔
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابت
پیغمبر اکرمؐ کی تعارف کا مقصد اسیران کربلا کی آنحضرتؐ کے ساتھ موجود قرابت کو لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا ورنہ شام کے لوگ پیغمبر اکرمؐ کو تو جانتے تھے اس حوالے سے آنحضرت کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ بلکہ یہاں یہ ان اسیروں کی قافلہ کی رسول خدا کے ساتھ موجود نسبت اور قرابت کو بتانا مقصود تھا جسے حکمران جماعت خارجی کے نام سے متعارف کرا رہی تھی۔
حضرت علیؑ کا تعارف
شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام سجادؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علیؑ کا تعارف کرنا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام سجادؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علیؑ کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔
حضرت علیؑ کے فضائل شام کے لوگوں کیلئے ایک نئی چیز تھی یہاں پر ہم ان فضائل میں سے بعض کی مختصر توضیح دیتے ہیں۔
دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرنا
امام سجادؑ حضرت علیؑ کی بعض فضائل کو بیان کرنے کے بعد اس فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے دادا نے دو دو تلواروں کے ساتھ جنگ کیا۔ یہاں دو تلوار سے کیا مراد ہے، کچھ احتمالات پائے جاتے ہیں:
• وہ دو تلواریں جسے پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو بخش دی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آٹھویں سنہ ہجری کو على ؑ کو منات نامی ایک بت کو توڑنے کیلئے روانہ کیا۔ امام علیؑ نے اس بت کو توڑنے کے بعد اس بت سے متعلق تمام اشیاء کو اٹھا کر پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں لے آیا۔ اس بت سے متعلق اشیاء میں دو تلواریں بھی تھیں جسے حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا ان تلواروں کو حارث بن ابى شمر غسانی -پادشاہ غسان- نے اس بت کیلئے ہدیہ کے طور پر دیا تھا۔ ان تلواروں میں سے ایک کا نام مخذم اور دوسرے کا نام رسوب تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے ان دونوں تلواروں کو حضرت علیؑ بخش دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک وہی تلوار ہے جو ذو الفقار کے نام سے معروف ہے۔
• دو تلوار سے مراد تنزیل اور تاویل ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
علی، تاویل کے مطابق جنگ کرینگے جس طرح میں نے تنزیل کے مطابق جنگ کیا۔
• مراد یہ ہے کہ ایک تلوار کے بعد دوسری تلوار لے کر جنگ کرتے تھے جس طرح یہ کام جنگ احد میں انجام دیا کہ آپ کی پہلی تلوار کے ٹوٹنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ذوالفقار نامی تلوار دے دیا تھا۔ ( بحار الانوار، ج۳۹، ص۳۴۱)
• ممکن ہے آپ کی تلوار یعنی ذولفقار کے دو دھار ہونے کی طرف اشارہ ہو۔
دو بار ہجرت
اس خطبے میں حضرت علیؑ کی ایک صفت "ہاجر ہجرتین‌” کے عنوان سے ذکر کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپؑ نے دو دفعہ ہجرت کی۔
پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے جبکہ دوسری ہجرت کے بارے میں کئی احتملات ہیں:
پہلا احتمال: شعب ابی طالب کی طرف ہجرت۔
دوسرا احتمال: ایک حدیث میں ابن عباس سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اپنے بھائی جعفر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ تشریف لے آئے۔لیکن یہ نقل ضعیف ہے کیونکہ کسی بھی معتبر تاریخی منابع میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں حضرت علیؑ کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ براین جس وقت حبشہ ہجرت کرنے والے مہاجرین حبشہ میں زندگی بسر کر رہے تھے حضرت علیؑ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے۔
تیسرا احتمال: مدینہ سے کوفہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔
دو بار بیعت
یہ جملہ امام سجادؑ کے خطبے کے علاوہ خودامام علیؑ سے بھی نقل ہوا ہے۔ یہاں پر دو بیعت سے مراد کیا ہے خود امام علی علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:
• امام علیؑ نے معاویہ کے ساتھ اپنی مکتوبات میں فرمایا: "میں نے دو بیعت میں شرکت کیا ان میں سے پہلی بیعت کے وقت تو "کافر” تھا اور وہ بیعت رضوان سنہ چھ ہجری صلح حدیبیہ کے موقع پر انجام پائی۔
• دوسری بیعت فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی اگرچہ معاویہ بھی اس میں شریک تھا ولی بعد میں اس نے اس بیعت کو نقض کیا
مناقب میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق پہلی بیعت سے مراد بیعت بدر اور دوسری بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے۔
جبرئیل کی تأئید اور میکائیل کی امداد
یہ جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کی مدد کیلئے آئے تھے۔ ابن عبد البر "استیعاب فی تمییز لاصحاب” نامی کتاب میں جنگ بدر کے حوالے سے کہتے ہیں: جبرئیل اور میکائیل، حضرت علیؑ کے ساتھ تھے۔
امام حسنؑ بھی اس حوالے سے فرماتے ہیں: رسول خداؐنے جنگ بدر میں پرچم حضرت علیؑ کے دست مبارک میں دیا درحالیکہ جبرئیل آپ کے دائیں طرف اور میکائل بائیں طرف سے آپ کی ہمراہی کر رہے تھے۔
حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت کا تذکرہ
چونکہ شام میں فقط حضرت زہراؑ کی شخصیت تخریب سے محفوظ تھی اس لئے امام سجادؑ بھی فقط کے ساتھ اپنی قرابت کا تذکرہ کیا۔
امام حسینؑ کی مظلومیت
امام سجادؑ نے حضرت علیؑ کے تعارف اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ سے منسوب کرنے کے بعد امام حسینؑ کی مظومیت اور آپ کی شہادت کی نوعیت بیان فرمائی۔ امام سجادؑ کی پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت ثابت ہونے اور حضرت علیؑ کے بارے میں معاویہ اور یزید کے جھوٹے پروپیگنڈے اور امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت سے با خبر ہونا شام کے لوگوں پر کافی اثر انداز ہو سکتا تھا اسلئے امام سجادؑ نے اس خطبے میں اپنے والد گرامی کی مظلومانہ پر بھی گفتگو فرمائی۔
خطبہ سید سجاد علیہ السلام کے اثرات
1۔مزید راز فاش ہونے کا خطرہ/ ایوان ظلم کے ستونوں کو ہلانا
خطیب منبر سلونی کے بیٹے علی زین العابدین (علیہ السلام) اپنی آب وحی میں دھلی ہوئی زبان سے سامعین کو اہل بیت (علیہم السلام) اور اپنے فضائل و کمالات کی معراج کروا رہے تھے کہ سننے والوں کی آنکھیں برس پڑیں اور دل دہل گئے اور خیبرشکن کے فرزند علی سیدالساجدین کی زبان سے نچھاور ہونے والے موتیوں نے یزید کی حکومت کی بنیادوں میں ایسا زلزلہ پیدا کردیا جس سے کائنات کا عظیم ترین ظالم بھی خوف و ہراس میں پڑگیا کہ لوگ انقلاب کرتے ہوئے اس سے حکومت چھین نہ لیں تو توحید، وحی اور نبوت کے اس منکر نے مولاؑ کا خطبہ روکنے کے لئے منافقت کا لباس اوڑھتے ہوئے موذن کو حکم دیا کہ اذان دو، مولاؑ خاموش ہوگئے موذن نے اذان دینا شروع کی۔جب کہا "اللہُ اکبرُ”، امامؑ نے فرمایا: ” كَبَّرتَ كَبيرا لايُقاسُ، ولا يُدرَكُ بِالحَواسِّ، لا شَيءَ أكبَرُ مِنَ اللّه"، "تم نے ایسے بڑے کو بڑا سمجھا جس کا (دوسروں سے) موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور حواس سے ادراک نہیں کیاجاسکتا، کوئی چیز اللہ سے بڑی نہیں ہے”۔ جب موذن نے کہا: ” أشهَدُ أن لا إلهَ إلَا اللّه ُ” تو آپؑ نے فرمایا: "شَهِدَ بِها شَعري وبَشَري، ولَحمي ودَمي، ومُخّي وعَظمي”، "میرے بال، جلد، گوشت، خون، دماغ اور ہڈیاں” اس کی گواہی دیتی ہیں۔ جب موذن نے کہا: "أشهَدُ أنَّ مُحَمَّدا رَسولُ اللّه "تو امامؑ نے بالائے منبر سے یزید کی طرف رخ کیا اور فرمایا: "يا يَزيدُ! مُحَمَّدٌ هذا جَدّي أم جَدُّكَ ؟ فَإِن زَعَمتَ أنَّهُ جَدُّكَ فَقَد كَذَبتَ، وإن قُلتَ إنَّهُ جَدّي فَلِمَ قَتَلتَ عِترَتَهُ؟”!، "اے یزید! یہ محمد، میرے نانا ہیں یا تیرے؟ اگر تم دعوی کرو کہ تمہارے نانا ہیں تو تم نے جھوٹ بولا ہے اور اگر دعوی کرو کہ میرے نانا ہیں تو تم نے ان کے خاندان کو کیوں قتل کیا؟ ( دانشنامه امام حسين عليه السلام بر پايه قرآن، حديث و تاریخ ج8، ص332 سے ماخوذ)
دربار میں موجود ایک یہودی کا رد عمل
جب حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے وہ متاثر کن خطبہ ارشاد فرمایا تو مسجد میں موجود لوگ انتہائی متاثر ہوگئے، ان میں بیداری کی لہر دوڑ گئی اور ان میں جرات اور دلیری پیدا ہوئی۔ یہودیوں کا ایک بڑا عالم جو یزید کی محفل میں موجود تھا، اس نے یزید سے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ یزید نے کہا: علی ابن الحسین ہے۔ اس نے پوچھا: حسین کون ہے؟ یزید نے کہا: علی ابن ابی طالب کا بیٹا۔ پھر اس نے پوچھا: اس کی ماں کون ہے؟ یزید نے کہا: محمد کی بیٹی۔ یہودی نے کہا: سبحان اللہ! یہ تم لوگوں کے پیغمبر کی بیٹی کا بیٹا ہے جسے تم لوگوں نے قتل کردیا ہے؟! تم رسول خدا کے فرزندوں کے لئے کتنے برے جانشین تھے؟! خدا کی قسم اگر ہمارے پیغمبر موسی ابن عمران ہمارے درمیان اپنا کوئی فرزند چھوڑ جاتے تو ہم گمان کرتے کہ ہمیں چاہیے کہ اس کا عبادت کی حد تک احترام کریں اور تمہارا پیغمبر کل وفات پایا ہے اور آج تم نے اس کے فرزند پر حملہ کرتے ہوئے اسے تلوار سے قتل کردیا ہے؟ وائے تم امت پر! (بحارالأنوار، ج‏۴۵، ص۱۳۹؛ مفضل خوارزمی، ج2، ص69)
یزید غصہ میں آگیا اور حکم دیا کہ اس شخص کی گردن اڑا دی جائے۔ وہ بزرگ یہودی عالم کھڑا ہوا جبکہ کہہ رہا تھا: اگر مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی ڈر نہیں! میں نے توریت میں پایا ہے کہ جو شخص پیغمبر کے فرزند کو قتل کرتا ہے وہ ہمیشہ ملعون رہے گا اور اس کی جگہ جہنم کی آگ میں ہے۔(حياة الامام الحسين ج3، ص395۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button