اخلاق حسنہ

نفاق کی اجمالی شناخت (حصہ دوم)

مؤلف: سید احمد خاتمی
اخلاقی نفاق
نفاق کا دوسرا عنوان اور معنی جو بعض روایات میں استعمال ہوا ہے اخلاقی نفاق ہے،
یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا، لیکن دین کے قانون پر عمل نہ کرنا، اس کو اخلاقی نفاق
سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(یقیناً اخلاق کی یہ حالتیں، رذائل کےاجزا میں سے ہے لیکن یہ کہ عادت رذیلہ روایات
میں نفاق پر اطلاق ہوتی ہے یا ہیں یہ وہ موضوع ہے جسےاجاگر ہونا چاہیے علامہ
مجلسی بحار الانوار ج72 ص108 میں اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں کہ روایات میں
اسی معنی میں استعمال ہوا ہے،اصول کافی ج2 میں ایک باب صفت النفاق و المنافق ہے
اس باب کی اکثر احادیث انفرادی، اجتماعی اخلاقی نفاق کے سلسلہ میںبیان کی گئی ہے یہ
خود دلیل ہے کہ نفاق روایات میں اس خاص معنی (نفاق اخلاقی) جس کا میں نے اشارہ
کیا ہے استعمال ہوا ہے)
البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اورکبھی اجتماعی پہلوؤں میں رونما ہوتا ہے، وہ فرد جو
اسلام کے فردی احکام و قوانین اور اس کی حیثیت کو پامال کر رہا ہو وہ فردی اخلاقی
نفاق میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق و اجتماعی احکام کو جیسا کہ
اسلام نے حکم دیا ہے نہ بجالاتا ہو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعی سے دوچار ہے۔
فردی، نفاق اخلاق کی چند قسمیں، ائمہ حضرات کی احادیث کے ذریعہ پیش کی جارہی
ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اظهر الناس نفاقاً من امر با لطاعة ولم یعمل بها ونهی عن المعصیة ولم ینته عنها
کسی فرد کا سب سے واضح و نمایاں نفاق یہ ہے کہ اطاعت (خداوند متعال) کا حکم دے
لیکن خود مطیع و فرمان بردار نہ ہو، گناہ و عصیان کو منع کرتا ہے لیکن خود کو اس
سے باز ہیں رکھتا۔
(غرور الحکم، حدیث 3214)
حضرت امام صادق علیہ السلام مرسل اعظم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ما زاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فهو عندنا نفاق

جسم (ظاہر) کا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زیادہ ہو تو ایسی حالت ہمارے نزدیک
نفاق ہے۔
(اصول کافی، ج2، ص396)
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اخلاقی نفاق کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
ان المنافق ینهی ولا ینتهی و یامر بما لا یاتی یمسی وهمه العشا وهو مفطر و یصبح وهمه
النوم ولم یسهر
(اصول کافی، ج2، ص396)
یقیناً منافق وہ شخص ہے جو لوگوں کو منع کرتا ہے لیکن خود اس کام سے پرہیز ہیں
کرتا ہے، اور ایسے کام کا حکم دیتا ہے جس کو خود انجام ہیں دیتا، اور جب شب ہوتی
ہے تو سواء شام کے کہانے کے اسے کسی چیز کی فکر ہیں ہوتی حالانکہ وہ روزہ سے
بھی ہیں ہوتا، اور جب صبح کو بیدار ہوتا ہے تو سونے کی فکر میں رہتا ہے، حالانکہ
شب بیداری بھی ہیں کرتا (یعنی ھدف و مقصد صرف خواب و خوراک ہے)۔
ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کرتی ہیں ان
کی روشنی میں بے عمل عالم اور ریا کار شخص کا شمار ہیں لوگوں میں سے ہے جو
فردی اخلاقی نفاق سے دوچار ہوتے ہیں۔
نفاق اخلاقی اجتماعی کے سلسلہ میں معصومین علیہ السلام سے بہت سی احادیث صادر
ہوئی ہیں، چند عدد پیش کی جارہی ہیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
ان المنافق ان حدثک کذبک و ان ائتمنه خانک وان غبت اغتابک وان وعدک اخلفک
منافق جب تم سے گفتگو کرے تو جہوٹ بولتا ہے، اگر اس کے پاس امانت رکھوتو خیانت
کرتا ہے، اگر اس کی نظروں سے اوجھل رہو تو غیبت کرتا ہے، اگر تم سے وعدہ کرے
تو وفا ہیں کرتا ہے۔
(المحجۃ البیضاء، ج5، ص282)
پیامبر عظیم الشان (ص) نفاق اخلاقی کے صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اربع من کن فیه فهو منافق وان کانت فیه واحدة منهن کانت فیه خصله من النفاق من اذا حدّث
کذب واذا وعد اخلف واذا عاهد غدر واذا خاصم فجر

چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے،
جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اگر عہد و پیمان کرے تو
اس پر عمل نہ کرے، جب پیروز و کامیاب ہوجائے تو برے اعمال کے ارتکاب سے
پرہیز نہ کرے۔(خصال شیخ صدوق، ص254)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
کثرة الوفاق نفاق
کسی شخصی کا زیادہ ہی وفاقی اور سازگاری مزاج و طبیعت کا ہونا یہ اس کے نفاق کی
علامت ہے۔
(میزان الحکمت، ج8، ص3343)
ظاہر سی بات ہے کہ صاحب ایمان ہمیشہ حق کا طرف دار ہوتا ہے اور حق کا مزاج
رکھنے والاکبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ہیں سازگار و
ہمراہ ہیں ہوتا، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے، صاحب ایمان ابن الوقت ہیں ہوتا۔
نفاق اجتماعی کا آشکار ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دور روئی اور دو
زبان کا ہونا ہے، یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف و تمجید کرنا لیکن پس پشت
مذمت و برائی کرنا۔
صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت کی پرستاری، صاحب ایمان کے صفات میں سے
ہیں، صرف چند ایسے خاص مواقع میں جہاں اہم حکمت اس بات کا اقتضا کرتی ہے
جیسے جنگ اور اس کے اسرار کی حفاظت، افراد اور جماعت میں صلح و مصالحت کی
خاطر صدق گوئی سے اعراض کیا جاسکتا ہے
(غیبت و کذب سے مستثنیٰ موارد کےسلسلہ میں اخلاقی و فقہی کتب جیسے جامع
السعادات اور مکاسب کی طرف مراجعہ کریں)
پیامبر اکرم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوعیت کے نفاق کے
انجام و نتیجہ کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
من کان له وجهان فی الدنیا کان له لسانان من نار یوم القیامة
جو شخص بھی دنیا میں دو چہرے والا ہوگا، آخرت میں اسے دو آتشی زبان دی جائے
گی۔
(المحجۃ البیضاء، ج5، ص280)

امام حضرت محمد باقر علیہ السلام بھی اخلاقی نفاق کے خدو خال کی مذمت کرتے ہوئے
فرماتے ہیں:
بئس العبد یکون ذاوجهین و ذالسانین یطری اخاه شاهداً و یأکله غائباً ان اعطی حسده وان
ابتلی خذله
(المحجۃ البیضاء، ج5، ص282)
بہت بدبخت و بد سرشت ہے، وہ بندہ جو دو چہرے اور دو زبان والا ہے، اپنے دینی
بھائی کے سامنے توتعریف و تمجید کرتا ہے اور اس کی غیبت میں اس کو ناسزا کھتا
ہے، اگر اللہ اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا ہے تو حسدکرتا ہے، اگر کسی مشکل
میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی اہانت کرتا ہے۔
اسلام میں وجود نفاق کی تاریخ مشہورنظریہ
مشہورو معروف نظریہ، نفاق کے وجود و آغاز کے سلسلہ میں یہ ہے کہ نفاق کی بنیاد
مدینہ میں پڑی، اس فکر و نظر کی دلیل یہ ہے کہ مکہ میں مسلمین بہت کم تعداد اور
فشار میں تھے، لہذا کم تعداد افراد سے مقابلے کےلئے، کفار کی طرف سے منافقانہ و
مخفیانہ حرکت کی کوئی ضرورت ہیں تھی، مکہ کے کفار ومشرکین علی الاعلان آزار و
اذیت، شکنجہ دیاکرتے تھے۔
عظیم الشان پیامبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ ہجرت
کرنے کی بنا پراسلام نے ایک نئی کروٹ لی، روز بروز اسلام کے اقتدار و طاقت، شان
و شوکت میں اضافہ ہونے لگا، لہذا اس موقع پر بعض اسلام کے دشمنوں نے اسلام کی
نقاب اوڑھ کر دینداری کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کو تباہ و نابود کرنے کی کوشش
شروع کردی، اسلام کااظہار اس لئے کرتے تھے تاکہ اسلام کی حکومت و طاقت سے
محفوظ رہ سکیں، لیکن باطن میں اسلام کے جگر خوار و جانی شمن تھے، یہ نفاق کا
نقطہ آغازتھا، خاص کر ان افراد کے لئے جن کی علمداری اور سرداری کو شدید جھٹکا
لگا تھا، وہ کچھ زیادہ ہی پیامبراکرم اور ان کے مشن سے عناد و کینہ رکھنے لگے تھے۔
عبداللہ ابن ابی انہی منافقین میں سے تھا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ
ہجرت کرنے سے قبل اوس و خزرج مدینہ کے دو طاقتور قبیلہ کی سرداری اسے نصیب
ہونی تھی، لیکن بد نصیبی سے واقعۂ ہجرت پیش آنے کی بنا بر سرداری کےیہ تمام
پروگرام خاکستر ہوکر رہ گئے، بعد میں گر چہ اس نے ظاہراً اسلام قبول کرلیا، لیکن
رفتار و گفتارکے ذریعہ، اپنے بغض و کینہ، عناد و عداوت کا ہمیشہ اظہار کرتا رہا، یہ

مدینہ میں جماعت نفاق کا رئیس و افسر تھا،قرآن مجید کی بعض آیات میں اسکی منافقانہ
اعمال و حرکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں وارد ہوئے۔ اس نے پیامبر عظیم الشان
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکہا:
ہم فریب میں پڑنے والے نہیں، ان کے پاس جاؤ جو تم کو یہاں لائے ہیں اور تم کو فریب
دیا ہے، عبد اللہ ابن ابی کیاس ناسزا گفتگو کے فوراً بعدہی سعد بن عبادہ رسول اسلام کی
خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی آپ غمگین و رنجیدہ خاطر نہ ہوں، اوس و خزرج
کاارادہ تھا کہ اس کو اپنے اپنے قبیلہ کا سردار بنائیں گے، لیکن آپ کے آنے سے حالات
یکسر تبدیل ہوچکے ہیں، اس کی فرماں روائی سلب ہوچکی ہے،آپ ہمارے قبیلے خزرج
میں تشریف لائیں، ہم صاحب قدرت اور باوقار افراد ہیں اسمیں کوئی شک ہیں کہ نفاق کا
مبدا ایک اجتماعی و معاشرتی پروگرام کے تحت مدینہ ہے، نفاقِاجتماعی کے پروگرام کی
شکل گیری کا اصل عامل حق کی حاکمیت و حکومت ہے، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں
تشکیل ہوئی، پیامبرعظیم الشان کا مدینہ میں واردہونا و اسلام کا روز بروز قوی و
مستحکم ہونا باعث ہوا کہ منافقین کی مرموز حرکات وجود میں آئیں، البتہ منافقین کی یہ
خیانت کارانہ حرکتیں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں میں زیادہ قابل
مشاہدہ ہیں۔( اعلام الوری، ص44، بحار الانوار، ج19 ص108)
قرآن مجید میں بطور صریح جنگ بدر، احد، بنی نظیر، خندق و تبوک نیز مسجد ضرار
کے سلسلہ میں منافقین کی سازشیں بیان کی گئی ہیں۔
مدینہ میں جماعت نفاق کے منظّم و مرتب پروگرام کے نمونے، غزوہ تبوک کے سلسلہ
میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشکلات کھڑی کرنا، مسجد ضرار کی
تعمیر کے لئے، چال بازی و شعبدہ بازی کا استعمال کرنا۔
پیامبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غزوۂ تبوک کے لئے اعلان کرنا تھا کہ منافقین کی
حرکات میں شدت آگئی، غزوہ تبوک کے سلسلہ میں منافقانہ حرکتیں اپنے عروج پر پہنچ
چکی تھیں، مدینہ سے تبوک کا فاصلہ تقریباً ایک ہزار کیلو میٹر تھا،موسم بھی گرم تھا،
محصول زراعت و باغات کے ایام تھے، اس جنگ میں مسلمانوں کی مدّ مقابل روم کی
سوپر پاورحکومت تھی، یہ تمام حالات منافقین کے فیور (موافق) میں تھے، تاکہ زیادہ
سے زیادہ افراد کو جنگ پر جانے سے روک سکیں، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
منافقین کے ایک اجتماع میں جو سویلم یہودی کے یہاں برپا ہوا تھا، جس میں منافق
جماعت کے بلند پایہ ارکان موجود تھے، طے یہ ہوا کہ مسلمانوں کو روم کی طاقت و

قوت کا خوف دلایا جائے، ان کے دلوں میں روم کی ناقابل تسخیر فوجی طاقت کا رعب
بٹھایاجائے۔
اس جلسہ اور اہداف کی خبر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی، آپ نے
اسلام کے خلافاس سازشی مرکز کو ختم نیز دوسروں کی عبرت کے لئے حکم دیا، سویلم
کے گھر کو جلادیا جائے آپ نے اس طریقہ سے ایک سازشی جلسہ نیز ان کے ارکان کو
متفرق کر کے رکھ دیا ۔
(سیرت ابن ہشام، ج2، ص517، منشور جاویدقرآن، ج4، ص112)
مسجدضرار کی تعمیر کے سلسلہ میں نقل کیا جاتا ہے کہ منافقین میں سے کچھ افراد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایک مسجد قبیلۂ بنی
سالم کے درمیان مسجدقبا کے نزدیک بنانے کی اجازت چاہی، تاکہ بوڑھے، بیمار اور وہ
جو مسجد قبا جانے سے معذور ہیں خصوصاً بارانی راتوں میں،وہ اس مسجد میں اسلامی
فریضہ اور عبادت الہی کو انجام دے سکیں، ان لوگوں نے تعمیر مسجد کی اجازت حاصل
کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد کی درخواست بھی
کی، آپ نے فرمایا:
میں ابھی عازم تبوک ہوں واپسی پر انشاء اللہ اسکام کو انجام دوں گا، تبوک سےواپسی پر
ابھی آپ مدینہ میں داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے
اور مسجد میںنماز پڑھنے کی خواھش ظاہر کی، اس موقع پر وحی کا نزول ہوا۔
(سورہ توبہ، 107 کے بعد کی آیتیں)
جس نے ان کے افعال و اسرار کی پول کہول کر رکھ دی، پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے تخریب کا حکم دیا تخریب شدہ مکان کو شہر
کے کوڑے اور گندگی ڈالنے کی جگہ قراردیا۔
اگراس جماعت کے فعل کی ظاہری صورت کا مشاہدہ کریں تو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ایسے حکم سے حیرت ہوتی ہے لیکن جب اس قضیہ کے باطنی مسئلہ کی
تحقیق و جستجو کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے، یہ مسجد جوخراب ہونے کے بعد مسجد
ضرار کےنام سے مشہور ہوئی، ابو عامر کے حکم سے بنائی گئی تھی، یہ مسجد ہیں
بلکہ جاسوسی اور سازشی مرکز تھا، اسلامکے خلاف جاسوسی و تبلیغ اور مسلمانوں کے
درمیان تفرقہ ایجاد کرنا اس کے اہداف و مقاصد تھے۔
ابوعامر مسیحی عالم تھا زمانۂ جاہلیت میں عبّاد و زھّاد میں شمار ہوتا تھا اور قبیلۂ خزرج
میں وسیع عمل و دخل رکھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدینہ ہجرت فرمائی مسلمان آپ

کے گرد جمع ہوگئے خصوصاً جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکوں پر کامیابی کے بعد
اسلام ترقی کرتا چلا گیا، ابو عامر جو ہیں ظہور پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدہ
سناتا تھا جب اس نے اپنےاطراف و جوانب کو خالی ہوتے دیکھا تو اسلام کے خلاف اقدام
کرنا شروع کردیا، مدینہ سے بھاگ کر کفار مکہ اور دیگرقبائل عرب سے، پیامبر اسلام
صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مدد حاصل کرنی چاہی، جنگ احد میں مسلمانوں کے
خلاف پروگرام مرتب کرنے میں اسکا بڑا ہاتھ تھا، دونوں لشکر کی صفوں کے درمیان
میں خندق کے بنائے جانے کا حکم اسی کی طرف سے تھا، جس میں پیامبراکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم گر پڑے آپ کی پیشانی مجروح ہوگئی دندان مبارک ٹوٹ گئے، جنگ احد
کے تمام ہونے کے بعد، باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ میں کافی مشکلات و
زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزید ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگا صدائے اسلام ہیں
سے کہیں زیادہ بلند ہونے لگا ابو عامر، یہ کامیابی و کامرانی دیکھ کر مدینہ سے بادشاہ
روم ہرقل کے پاس گیا تاکہ اس کی مدد سے اسلام کی پیش رفت کو روک سکے، لیکن
موت نے فرصت نہ دی کہ اپنی آرزو و خواہش کو عملی جامہ پہنا سکے، لیکن بعض
کتب کےحوالہ سے کہا جاتا ہے، کہ وہ بادشاہروم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا
وعدے بھی کئے۔
اس نکتہ کو بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس کی تخریبی حرکتیں اور عناد پسند
طبیعت کی بنا پرپیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد کا لقب دے رکہا تھا،
بہر حال اس کے قبل کہ وہ واصل جہنم ہوا، ایک خط مدینہ کے منافقین کے نام تحریرکیا
جس میں لشکر روم کی آمد اور ایک ایسے مکان و مقام کی تعمیر کا حکم تھا جو اسلام
کے خلاف سازشی مرکزہو، لیکن چونکہ ایسا مرکز منافقین کے بنانا چنداں آسان ہیں تھا
لہذا انہوں نے مصلحتاً معذوروں، بیماروں، بوڑہوں کی آڑ میں مسجد کی بنیاد ڈال کر ابو
عامر کے حکم کی تعمیل کی، مرکز نفاق مسجد کی شکل میں بنایا گیا، مسجد کا امام
جماعت ایک نیک سیرتجوان بنام مجمع بن حارثہ کو معین کیا گیا، تاکہ مسجد قبا کے نماز
گزاروں کی توجہ اس مسجد کی طرف مبذول کی جاسکے،اور وہ اس میں کسی حد تک
کامیابب ہی رہے، لیکن اس مسجد کے سلسلہ میں آیات قرآن کے نزول کے بعد پیامبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس مرکز نفاق کو خراب کرنے کا حکم دے دیا ،تاریخ کا
یہ نمونہ جسے قرآن بھی ذکر کر رہا ہے منافقین کی مدینہ میں منظّم کار کردگی کا واضح
ثبوت ہے۔
(مجمع البیان، ج3، ص72)
مشہورنظریہ کی تحقیق

مشہورنظریہ کے مطابق نفاق کا آغاز مدینہ ہے، اور نفاق کا وجود، حکومت و قدرت سے
خوف و ہراس کی بناپر ہوتا ہے، اس لئے کہ مکہ کے مسلمانوں میں قدرت و طاقت والے
تھے ہی نہیں، لہذا وہاں نفاق کا وجود میں آنا بے معنی تھا، صرف مدینہ میں
مسلمانصاحب قدرت و حکومت تھے لہذا نفاق کا مبداء مدینہ ہے۔
لیکن نفاق کی بنیاد صرف حکومت سے خوف و وحشت کی بنا پر جو اس کے لئے کوئی
دلیل ہیں ہے، بلکہ اسلام میں منصب و قدرت کے حصول کی طمع بھی نفاق کے وجود
میں آنے کا عامل ہوسکتی ہے، لہذا، نفاق کی دو قسم ہونی چاہیے:
1۔ نفاقِ خوف:
ان افراد کا نفاق جواسلام کی قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ہوکراظہار اسلام کرتے ہوئے
اسلام کے خلاف کام کیا کرتے تھے۔
2۔ نفاقِ طمع:
ان افراد کا نفاق جو اسلالچ میں اسلام کا دم بھرتے تھے کہاگر ایک روز اسلام صاحب
قدرت و سطوت ہوا، تو اس کی زعامت و مناصب پر قابض ہوجائیں یا اس کے حصّہ
داربن جائیں۔
نفاق بر بناء خوف کا سر چشمہ مدینہ ہے، اس لئے کہ اہل اسلام نے قدرت و اقتدار کی
باگ ڈور مدینہ میں حاصل کیا۔
لیکن نفق بر بناء طمع و حرص کا مبداء و عنصر مکہ ہونا چاہیے، عقل و فکر کی بنا پر
بعید ہیں ہے کہ بعض افراد روز بروز اسلام کی ترقی، اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کے
باجود اسلام کی کامیابی، مکرر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سےاسلام
کے عالمی ہونے والی خوش خبری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے دور اندیش ہوں، کہ آج کا
ضعیف اسلام کل قوت وطاقت میں تبدیل ہوجائے گا، اسی دور اندیشی و طمع کی بنا پر
اسلام لائے ہوں، تاکہ آئندہ اپنے اسلام کے ذریعہ اسلام کےمنصب و قدرت کے حق دار
بن جائیں۔
اس مطلب کا ذکر ضروری ہے کہ منافق طمع کے افعال و کارکردگی منافق خوف کی
فعالیت و کارکردگی سے کافیجدا ہے، منافق خوف کی خصوصیت خراب کاری، کار
شکنی، بیخ کنی، اذیت و تکلیف سے دوچار کرنا ہے، جب کہ منافق طمع ایساہیں کرتا،
بلکہ وہ ایک تحریک کی کامیابی کے سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ تحریک ایک
شکل و صورت میں تبدیل ہوجائے، اور یہ قدرت کی نبض اور دھڑکن کو اپنے ہاتھوں

میں لے سکیں، منافق طمع صرف وہاں تخریبی حرکات کو انجام دیتے ہیں جہاں ان
کےبنیادی منافع خطرے میں پڑجائیں۔
اگرہم نفاق طمع کے وجود کو مکہ قبول کریں، تو اس کی کوئی ضرورت ہیں کہ نفاق کا
وجود اور اس کےآغاز کو مدینہ تسلیم کیا جائے۔
جیساکہ مفسر قرآن علامہ طباطبائی (رح) اس نظریہ کو پیش کرتے ہیں
(تفسیر المیزان، ج19 ص287 تا 290، سورہمنافقون کی آیات 1/ 8 کے ذیل میں)
آپ ایک سوال کے ذریعہ کو مذکورہ مضمون کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں،
باوجودیکہ اس قدر منافقین کے سلسلہ میں آیات، قرآن میں موجود ہیں، کیوں پیامبر اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد منافقین کا چرچا ہوتا، منافقین کے بارےمیں
کوئی گفتگو اور مذاکراتھیںہوتے، کیا وہ صفحہ ھستی سے محو ہوگئے تھے؟ کیا پیامبر
اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی بنا پر منتشر اور پراگندہ ہوگئے تھے؟ یا اپنے
نفاق سے توبہ کرلی تھی؟ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ پیامبر اسلام صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم
کی وفات کے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف کا تال میل ہوگیا تھا، اپنی
خواہشات و حکمت عملی کو جامۂ عمل پہنا چکے تھے، اسلام کی حکومت و ثروت پر
قبضہ کر چکے تھے اور بہ بانگ دہل یہ شعر پڑھ رہے تھے
لعبت هاشم بالملک فلا خبرجاء ولا وحی نزل
خلاصہ بحث یہ ہے کہ نفاق اجتماعی ایک منظّم تحریک کے عنوان سے مدینہ میں ظہور
پذیر ہوا، لیکن نفاق فردی جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود میں آیا ہو اس کو انکار
کرنے کی کوئی دلیل نہیں، اس لئے کہ اس نوعیت کانفاق مکہ میں بھی ظاہر ہوسکتاتھا،
وہ افراد جو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستور و حکم سے سر پیچی کرتے
تھے، ان میں بعض وہ تھے جو مکہ میں مسلمان ہوئے تھے، یہ وہی منافق تھے جو طمع
و حرص کی بنا پر اسلام کا اظہار کرتے تھے۔
مرض نفاق اور اس کے آثار
نفاق،قلب اور دل کی بیماری ہے، قرآن کی آیات اس باریکی کی طرف توجہ دلاتی ہیں،
پاکیزہ قلب خداکا عرش اور اللہ کا حرم ہے۔
قلب المؤمن عرش الرحمن
( بحارالانوار، ج58، ص39)
لقلب حرم اللہ فلا تسکن حرم اللہ غیر اللہ

(بحار الانوار ، ج70، ص25)
اسمیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا گذر ہیں ہے، لیکن مریض و عیب دار دل، غیر خدا کی
جگہ ہے ہوا و ہوس سے پر دل شیطان کا عرش ہے، قرآن مجید صریح الفاظ میں منافقین
کو عیب دار اور مریض دل سمجھتا ہے:
فی قلوبهم مرض
(سورہ بقرہ/ 10، مائدہ/52 ، توبہ/ 125،محمد/ 20۔ 29: بعض آیات میں (فی قلوبھم
مرض) کے ہمراہ منافقون کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسے سورہ انفالکی آیت نمبر 49 و
سورہ احزابکی آیت نمبر 12 (اذا یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض ) یہاں یہ سوال
سامنے آتا ہے کہ بیمار دلوالے منافق ہی ہیں یا ان کے علاوہ دوسرے افراد، علامہ
طباطبائی (رح) تفسیر المیزان، ج15، ص286، ج9، ص99، میں اندونوں کو الگ الگ
شمار کرتےہیں، آپ کا کہنا ہے کہ بیمار دل والوں سے مراد ضعیف الاعتقاد مسلمان ہیں،
اور منافقین وہ ہیں جو ایمان واسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن باطن میں کافر ہیں، بعض
مفسرین کی نظر میں، بیمار دل صفت والے افراد منافق ہی ہیں،نفاق کے درجات ہیں، نفاق
کاآغاز قلب و دل کی کجی اور روح کی بیماری سے شروع ہوتا ہے، اور آہستہ آہستہ پایۂ
تکمیل کو پہنچتا ہے، لیکن میرے خیال میں منافقون، و (والذین فی قلوبھم مرض) دو
مترادف الفاظ کے مثل ہیں جیسے فقیر و مسکین، اگر یہ دو لفظ ساتھ میں استعمال ہو تو
ہر لفظ ایک مخصوص معنی کا حامل ہوگا، لیکن اگر جدا استعمال ہوتو دونوں کے معنی
ایک ہی ہوں گے، اس بنا پر وہ آیات جس میں لفظ منافقون (فی قلوبھم مرض) ایک ساتھ
استعمال ہوئے ہیں، دونوں کےمستقل معنی ہیں، منافقون یعنی اسلام کا اظہار و کفر کا
پوشیدہ رکھنا، (فی قلوبھم مرض) یعنی ضعیف الایمان یاآغاز نفاق، لیکن جب (فی قلوبھم
مرض) کا استعمال جدا ہو تو اس سے مراد منافقین ہیں، کیوں کہ منافقین وہی ہیں جو (فی
قلوبھم مرض) کےمصداق ہیں)
نفاق جیسی پُر خطر بیماری میں مبتلا افراد، بزرگترین نقصان و ضرر سے دوچار ہوتے
ہیں، اس لئے کہ آخرت میں نجات صرف قلب سلیم (پاکیزہ) کے ذریعہ ہی میسر ہے، ہوا
و ہوس سے پر، غیر خدا کا محبّ و غیر خدا سے وابستہ دل نجات کا سبب نہیں۔
یوم لا ینفع مال ولا بنونالا من اتی الله بقلب سلیم
اس دن مال اور اولاد کام ہیںآئیں گے۔ مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں
حاضرہو۔

قرآن مجید اس مرض و بیماری کی شناخت و واقفیت کے سلسلہ میں کچھ مفید نکات کا
ذکر کر رہا ہے،تمام مسلمانوں کو ان نکات کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ اپنے قلب و
دل کی صحت و سلامتی و نیز مرض کو تشخیص دےسکیں، نیز ان نکات کے ذریعہ
معاشرےکے غیر سلیم و نادرست قلوب کی شناسائی کرتے ہوئے ان کے مراکز فساد و
فتنہ سے مبارزہ کرسکیں۔
ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے آیاتِ قرآنی جو منافقین کی شناخت میں نازل ہوئی ہیں ان
کو چند نوع میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
وہ آیات جو اسلامی معاشرے میں منافقین کی سیاسی و اجتماعی روش و طرز کو بیان
کرتی ہیں، وہ آیات جومنافقین کی فردی خصوصیت نیز ان کی نفسیاتی شخصیت و عادت
کو رونما کرتی ہیں، وہ آیات جو منافقین کی ثقافتی روش وطرز عمل کو اجاگر کرتی ہیں،
وہ آیات جو منافقین سے مبارزہ و رفتار کے طور و طریقہ کو پیش کرتی ہیں۔
پہلی نوع کی آیات میں منافقین کی سیاسی و معاشرتی اسلوب، اور دوسری نوع کی آیات
میں منافقین کیانفرادی و نفسیاتی بیماری کی علامات کا ذکر ہے اور تیسری نوع کی آیات
میں منافقین کی کفر و نفاق کے مرض کو وسعت دینے نیز اسلام کو تباہ و بربادکرنے
کے طریقے کو بیان کیا گیا ہے، چوتھی نوع کی آیات میں منافقین کی کار کردگی کو بے
اثر بنانے کےطریقۂ کار کو پیش کیا گیا ہے، اگر چہ قرآن میں جو آیات منافقین کے سلسلہ
میں آئی ہیں وہ ان کی اعتقادی نفاق کو بیان کرتی ہیں، مگر جو آیات منافقین کی
خصوصیت و صفات کو بیان کرتی ہیں وہ ان کی منافقانہ رفتار و گفتار کو پیش کررہی
ہیں خواہ اعتقادی ہوں یا نہ ہوں منافقین کے جو خصائص بیان کئے گئے ہیں، منافقانہ
رفتار و گفتار کی شناخت کے لئے معیار و پیمانہ قرار دئے گئے ہیں، اس کے مطابق جو
فرد یا جماعت بھی اس نوع و طرز کی رفتار و روش کی حامل ہوگی اس کا شمار منافقین
میں ہوگا۔
(اقتباس از قرآن اور چہرۂ منافق)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button