سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

انہدام جنت البقیع ۔۔ آل سعود کا سیاہ کارنامہ

قبرستان بقیع یا بقیعُ الغرقد، مدینہ کے مشرق میں واقع مسلمانوں کا سب سے قدیمی قبرستان اور شیعہ کے چار آئمہ کے علاوہ نبی کریمؐ کے اعزا و اقربا اور بہت سے صحابہ کی جائے دفن ہے ۔ اس قبرستان پر ۸ شوال سنہ ۱۳۴۴ھ کو وہابیوں نے حملہ کر کے اسے توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور آئمہ بقیع کے مزارات کو منہدم کر دیا۔ لہٰذا اس دن کو ’’یوم انہدام جنت البقیع‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مقدمہ
وہابی، پیغمبرؐ اور صالحین کی قبور سے تبرک(حصول خیر و برکت 1(جو ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج سنت ہے؛ کے خلاف ہیں2 اور قبر پر حرم اور مزار کی تعمیر کو حرام قرار دیتے ہیں۔3] انہوں نے آغاز میں حجاز کے شہروں پر تسلط کیلئے آل سعود کی حمایت سے (حکومت ۱۳۴۴ ھ) دو مرتبہ حرمین (مکہ و مدینہ) کی قبور اور مزارات کو مسمار کرنے کا اقدام کیا۔ وہابیوں کے نقطہ نظر کے برخلاف دیگر تمام مسلمین کے نزدیک خدا کی عبادت اور صالحین کے احترام کی نیت سے ان کی قبور پر مزارات کی تعمیر نہ صرف یہ کہ شرک و بت پرستی کی مصداق نہیں ہے بلکہ اس عمل کی اپنی روحانی اہمیت اور حیثیت ہے اور یہ کام مستحب ہے۔ 4,5
ماضی میں صرف قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلوں کی وجہ سے قبور گرتی تھیں۔
6,7 گویا وہابی پہلا ٹولہ ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر مزارات کو منہدم کیا۔ بعض اوقات وہابیوں کے علاوہ اور لوگوں نے بھی حرم بقیع میں خلفا کی مذمت پر مشتمل کتب کی موجودگی کے بہانے سے ان مزارات کو منہدم کرنے کی کوشش کی تھی، مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
انہدام کے عوامل:
وہابیوں نے حجاز کے شہروں پر حملہ آور ہوتے وقت فتوے اور مناظرے کے زور پر قبور کے انہدام کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ۱۲۱۰-۱۲۱۱ھ میں مکہ کے امیر شریف غالب کے ساتھ مذاکرات کے بعد شہر کے علما سے مناظروں میں مزارات کی تعمیر کے حرام ہونے کا فتویٰ لینے پر اصرار کیا، تاہم علما نے صاف انکار کر دیا؛ جس کے بعد انہوں نے زیادہ ڈھٹائی اور شدت سے قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔8
سعود بن عبد العزیز کی سربراہی میں سنہ ۱۲۱۸ھ کو وہابیوں نے حرمین پر پہلا حملہ کیا جس کے دوران مکہ کا محاصرہ کیا گیا 9اور ایک کھلے خط کے ذریعے وہاں کے لوگوں کو مشرک قرار دیا۔ پھر مکہ میں داخل ہو گیا اور لوگوں کو مزارات اور گنبد منہدم کرنے پر مجبور کیا، چنانچہ اس کی نگرانی میں زمزم کی عمارت، کعبہ کے ارد گرد کی عمارتوں کے علاوہ بہت سے مزارات اور گنبد ڈھا دئیے گئے۔ وہ ۲۰ دن تک مکہ میں رہا اور عثمانی سلطان کے نام اپنے ایک خط میں دعویٰ کرنے لگا کہ میں نے شرک کی علامات کو مٹا دیا ہے۔10,11
بعض مورخین نے ۱۲۲۱ھ میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ حج کے موقع پر وہابیوں نے آیت برائت پڑھ کر لوگوں کو تنبیہ کی کہ اگلے سال مشرکین کو حج کی اجازت نہیں دیں گے۔12بعض مزارات جیسے رسول اللہ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ اور حضرت خدیجہؑ کے گنبد کہ جن کی وہابیوں کے پہلے حملے کے بعد تعمیر نو کر دی گئی تھی؛ 13,14 انہیں ۱۳۴۳-۱۳۴۴ھ میں ان کے دوسرے حملے کے دوران گرا دیا گیا۔ مغربی مورخین نے مزارات کے انہدام، اموال کی لوٹ مار اور شہروں اور لوگوں کے قتل عام کے حوالے سے وہابیوں کے گھناؤنے کردار کو کھل کر بیان کیا ہے۔15
بقیع کا قبرستان
بقیع کا قبرستان مدینہ کے مشرق میں واقع ہے کہ جو بہت سی خاردار جڑی بوٹیوں کی وجہ سے بقیع الغرقد کے نام سے معروف ہے۔ 16,17,18 یہ قبرستان مستطیل شکل کا ہے، اس کی لمبائی ۱۵۰ میٹر اور چوڑائی ۱۰۰ میٹر ہے اور اس کی تاریخ کا تعلق آغاز اسلام سے ہے۔ 19,20,21پیغمبرؐ سے منقول ایک حدیث میں بقیع کو آسمان و زمین کیلئے باعثِ نورانیت قرار دیا گیا ہے۔22,23
مروی ہے کہ پیغمبرؐ نے عثمان بن مظعون کی جائے دفن کی علامت کے طور پر ایک بڑا پتھر ان کی قبر پر رکھوایا تھا اور مروان بن حکم نے اپنی امارت کے دوران اسے جا بجا کر دیا یا اسے عثمان بن عفان کی قبر کی طرف منتقل کر دیا۔24
نیز سنہ ۳۳۲ھ کا کندہ شدہ سنگ مرمر کا ایک قطعہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس کے اوپر یہ تحریر ہے کہ یہ قبر فاطمہؑ بنت رسول اللہ کی ہے؛ 25
پس معلوم ہوا کہ یہ علامات قبور و مزارات کی نشانی کے عنوان سے نصب کی جاتی تھیں۔
چھٹی صدی ہجری کی ایک روایت کے مطابق بقیع کی بہت سی قبور پر عمارات اور مزارات کی تعمیر مورد تائید ہے۔ اس کتاب کے مطابق مالک بن انس کی قبر کو پتھر اور مٹی سے چار بالشت کے برابر زمین سے اوپر اٹھایا گیا تھا اور ایک پتھر پر ان کا سن وفات بھی ثبت کیا گیا ہے۔ پھر روضہ عباس، روضہ ابراہیم اور قبرِ عثمان بن عفان کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان سب پر خاص علامات نصب تھیں۔26
مجد الملک براوستانی قمی (متوفی ۴۹۲ھ)، سلجوقی نے آئمہ بقیع کی قبور اور عثمان بن عفان یا عثمان بن مظعون کی قبر پر خصوصی طرز کی خوبصورت عمارت تعمیر کی تھی۔ اس کے ایک صدی بعد ابن جبیر متوفی (۶۱۴ھ) کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے زمانے تک آئمہ بقیع کی قبور پر یہ عمارات قائم و دائم تھیں۔ آئمہ بقیع کی بارگاہ کو مجد الملک براوستانی کے سوا کسی نے تعمیر نہیں کیا تھا اس لیے ابن نجار کی بقیع کے مزارات کے بارے میں روایت کہ اس پر مضبوط، قدیم اور مستحکم عمارت تعمیر کی گئی ہے؛27 کا اشارہ براوستانی کے تعمیر کردہ مزارات کی طرف ہی ہے۔ ابن بطوطہ متوفی (۷۷۹ھ) کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے زمانے میں بقیع کی مختلف قبور پر مزارات اور گنبد موجود تھے۔28
سمھودی (متوفی۹۱۱ھ) نے بھی آئمہ بقیع کی قبور پر مستحکم عمارات کی موجودگی کی تائید کی ہے۔29

وہابیوں کا پہلا حملہ:
یہ مقدس بارگاہ اور حرمین کے دیگر مزارات جو عوام الناس اور سفرنامہ نویسوں کی توجہ کے محور تھے؛ سنہ ۱۲۱۸-۱۲۲۱ھ کو وہابیوں کے پہلے حملے میں گرا دئیے گئے؛ وہابی فورسز نے ڈیڑھ برس کے محاصرے اور مدینہ کو قحط سے دوچار کرنے کے بعد شہر پر حملہ کیا اور نبی کریمؐ کے مزار کے سوا دیگر مزارات کو منہدم کر دیا۔30
قحط کو مسلط کرنا، صرف مدینہ تک محدود نہیں تھا بلکہ جدہ، مکہ اور ہر اس شہر کو قحط اور قتل و غارت سے دوچار کیا جاتا کہ جہاں کے عوام مزاحمت کرتے تھے۔31,32
اس حملے کے دوران آئمہؑ کے مزارات کو منہدم کر دیا گیا اور حضرت زہراؑ کی قبر کا گنبد بھی گرا دیا گیا اور دیگر مقدس مقامات بھی ان حملوں سے محفوظ نہ رہے۔33
وہابیوں نے بیش بہا قیمتی جواہرات، یاقوت، زمرد، چاندی کے زیورات، قندیلیں، پردے اور لعل و جواہر سے کندہ شمشیریں جو گزشتہ خلفا اور بادشاہوں کی جانب سے روضہ نبوی کیلئے ہدیہ کی گئی تھیں اور مزار بقیع کی دیگر قیمتی اشیا کو بھی لوٹ لیا 34,35 اور انہیں اونٹوں پر لاد کر اپنے لوگوں اور قبائل اور وہابی مفتیوں میں تقسیم کر دیا۔36
اس کے بعد انہوں نے احد کے شہدا کی قبور اور مزارات پر حملہ کر کے انہیں بھی زمین بوس کر دیا۔37
انہدام کے خلاف احتجاج:
متعدد مزارات اور متبرک مراقد کو گرانے کے بعد مسلمانوں کی ناراضگی نے عثمانی سلطان کو مجبور کیا کہ محمد علی پاشا کو سعود بن عبد العزیز کا قلع قمع کرنے کیلئے روانہ کرے۔ محمد علی پاشا، مصر کے حاکم نے ۱۸ رجب سنہ ۱۲۲۳ھ یا ۱۲۳۲ھ کو38 اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کی سپہ سالاری میں ایک لشکر وہابیوں کے خلاف بھیجا۔39 انہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر کے بہت سے وہابیوں کو قتل کر دیا اور بہت بڑی تعداد کو باب الشامی کے نزدیک واقع قلعہ میں پناہ گزین ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔40 سعود بن عبدالعزیز کو شکست ہوئی اور محمد علی پاشا کو منانے کے حوالے سے اس کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں کہ اس کو اور اس کے ساتھیوں کو عثمانی بادشاہ کے پاس نہ بھیجا جائے41,42
سعود بن عبد العزیز اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے عثمانی سلطان کے دربار میں پیش کیا گیا پھر سب کو استنبول میں پھانسی دے دی گئی۔ مگر وہابیوں کی تحریک ابن سعود کی اولاد اور رشتہ داروں کے اندر جاری رہی۔ اگلے مرحلے میں ایک اور حملہ کیا گیا اور انہوں نے ۱۳۴۳ھ میں ہاشمی شریفوں کو شکست دے کر بتدریج پورے سعودی عرب پر قبضہ کر لیا اور ۱۳۵۱ھ میں ’’المملکة العربیة السعودیه‘‘ کی بنیاد رکھی گئی اور تمام مذہبی مقامات پر قبضہ کر کے مزارات کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا۔43,44,45
تعمیر نو کی درخواست:
وہابیوں کے پہلے حملے کے بعد عثمانیوں نے عوامی درخواستوں کے پیش نظر بہت سے گنبدوں کی تعمیر نو کی۔[۴۶] محمد علی پاشا نے روضہ رسولؐ کے منہدم حصوں کو دوبارہ تعمیر کیا۔47سنہ ۱۲۳۳ھ میں سلطان محمود عثمانی نے حضرت زہراؑ سے منسوب بیت الاحزان کے گنبد، زوجات الرسول کے گنبد اور عثمان بن عفان کے گنبد کی تعمیر نو کی۔48 اس عمارت کے دوسری مرتبہ انہدام سے پہلے کی تصاویر کتب میں موجود ہیں۔49
وہابیوں کا دوسرا حملہ:
عبد اللہ بن سعود کی سربراہی میں دوسرے حملے کے دوران آٹھ شوال ۱۳۴۴ھ کو مدینہ میں وہابی مفتیوں نے شہر کی عمارات اور گنبد گرانے کا فتویٰ دے دیا۔[50
منقول ہے کہ سعودی امیر نے اپنے خطاب میں مدینہ کے لوگوں اور مفتیوں کو مجبور کیا کہ سب مل کر مراقد اور گنبد گرا دیں۔51
ایک اور روایت کے مطابق وہابیوں نے اپنے قاضی القضاۃ شیخ عبد اللہ بلیھد، کو مدینہ کے علما کے پاس بھیجا کہ ان سے قبور کے انہدام کے بارے میں فتویٰ طلب کریں اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہر کے علما وہابیوں کی رائے سے متفق ہیں۔ اس حملے میں وہابیوں نے تمام مراقد اور پیغمبرؐ کے نزدیکی رشتہ داروں، ازواج، اولاد، صحابہ، تابعین، صالحین اور علما کے تمام مزارات گرا دئیے اور بقیع میں کسی بھی مزار اور گنبد کو باقی نہیں چھوڑا گیا۔52
بقیع کے صندوق اور مراقد کی ضریحوں کو یکسر نابود کر دیا اور صرف پتھر کا ایک ایک ٹکڑا علامت کے طور پر قبور کے اوپر رکھ دیا۔ اس حملے کے دوران ماضی کے اہم آثار قدیمہ حتی بقیع کی اندرونی دیواریں اور گنبد بھی نابود ہو گئے۔53
وہابیوں نے اس کے بعد روضہ رسولؐ پر تیر اندازی کی۔ منقول ہے کہ وہابی مفتی روضہ رسولؐ کے انہدام پر بھی متفق تھے، تاہم امیر عبد اللہ بن سعود نے اس عمل کے ارتکاب اور مسلمانوں کے خوف کے پیش نظر اس کام سے گریز کیا۔ 54
انہدام کا حکم:
بعض کے نزدیک وہابیوں کے ہاتھوں قبور کے انہدام کا یہ گھناؤنا فعل برطانیہ کے حکم پر انجام پایا تھا55مستند رپورٹ کی روشنی میں منقول ہے کہ نویں صدی کے یورپی ماہرین آثار قدیمہ جب نجد اور حرمین کے مزارات، آثار قدیمہ، الواح اور کندہ پتھروں کی تلاش اور جستجو میں تھے تو نجدیوں نے ان بعض محققین کو قتل کر دیا کہ جو پرانے آثار پر تحقیق کر رہے تھے۔56
اس اعتبار سے شاید وہابیوں کی جانب سے انہدام قبور کا ایک محرک اس امر کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ بلا شبہہ سب سے اہم وجہ قبور کی تعمیر کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر ہے۔
تاریخی آثار کا انہدام:
وہابیوں کی تخریب کاری مزارات کے انہدام تک محدود نہیں تھی۔ انہوں نے قبور کو مسمار کرنے کے علاوہ متعدد تاریخی آثار جیسے امام سجادؑ کے بیت ، امام صادقؑ کے بیت، مشربہ ام ابراہیمؑ، مسجد فاطمہ، مبرک ناقہ پیغمبرؐ، مقام عریش پیغمبرؐ اور بہت سی شیعہ و سنی تاریخی مساجد کو بھی نابود کر دیا۔57,58,59
قاجار دور کے حاجی اور سیاسی شخصیات جو اس زمانے میں حرمین کے سفر پر تھے؛ انہوں نے بقیع کی المناک صورتحال کو بیان کیا ہے۔ 60,61,62
اس حالت میں بقیع کو دیکھ کر زائرین کو دکھ ہوتا تھا۔ وہ اپنے غم و اندوہ کا اظہار کرنے کے علاوہ مزارات کی تعمیر نو کی آرزو کو بھی اپنی یاد داشتوں میں تحریر کرتے تھے۔63کچھ اہل مغرب نے بھی مراقد کے انہدام کے بعد وہاں کا دورہ کیا اور صورتحال کو قلمبند کیا ہے۔64
سر ہارفورڈ جونز-بریڈجز(Harford Jones-Brydges) نے اپنی یادداشت میں آئمہ بقیع کے گنبدوں اور مرقد نبوی کے جواہرات کی غارت گری کی طرف اشارہ کیا ہے۔65
رچرڈ برٹن(Richard Burton)، نے مراقد کو منہدم کرنے کے حوالے سے وہابیوں کے طرز عمل کو ایک تباہ کن زلزلے سے تشبیہ دی ہے۔ ڈونلڈ سن(Donaldson) نے بھی وہابیوں کے اس اقدام کا ذکر کیا ہے۔66,67
مسلمانوں کا غم و غصہ:
قبور اور مقدس مقامات کے انہدام کی خبر سے مسلمانوں کے اندر غم و غصے اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اسلامی ممالک کے بہت سے سربراہوں اور سیاسی نمائندوں نے وہابیوں کے اس اقدام پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور اس کی بھرپور مذمت کی۔ وہابیوں نے مسلمانوں کی عملی جدوجہد سے خوفزدہ ہو کر روضہ رسولؐ کو گرانے سے اجتناب کیا، البتہ وہ ہر قسم کے مزار اور گنبد کی تعمیر کو حرام سمجھتے ہیں۔68
اس انہدام کے کچھ عرصے کے بعد کچھ وہابیوں اور سعودیوں نے اپنے رہنماؤں کی مخالفت کی اور ان کے شدت پسندانہ کاموں کی مذمت کی69
دور و نزدیک کے ممالک اور شہروں نے مختلف شکلوں میں گنبدوں اور متبرک مقامات کے انہدام پر احتجاج کیا۔ آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران، ترکی، افغانستان، عراق، چین، منگولستان اور ہندوستان کے لوگوں نے اپنے خطوط میں وہابیوں کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روضہ رسول کے انہدام کی صورت میں سنگین نتائج سے خبردار کیا۔70,71
سید ابو الحسن اصفہانی اور نجف و قم کے دیگر علما نے وہابیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ منقول ہے کہ بقیع کے مزارات کی خبر جب حوزہ علمیہ قم کے مؤسس آیت‌الله حائری کو ملی تو آپ منبر پر تشریف فرما ہو کر درس دے رہے تھے، اس خبر کو سنتے ہی آپ کے آنسو جاری ہو گئے، آپ نے درس کی تعطیل کر دی، مرجع تقلید کے عمل کی پیروی میں قم کے بازاروں اور دکانوں کو بھی بند کر دیا گیا اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔72
کراچی میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں آیت ‌اللہ بروجردی کے نمائندوں محمدحسین کاشف الغطاء اور محمد تقی طالقانی نے سعودیہ کے نمائندوں سے بات چیت کی اور بقیع کے مزارات کی تعمیر نو پر زور دیا۔
ایران کا آل سعود سے احتجاج:
آئمہ بقیع کی ہتک حرمت کی خبر سے پورے ایران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پارلیمنٹ کے نمائندوں نے آل سعود سے احتجاج کیا اور سنہ ۱۳۰۴شمسی کو ایک تحقیقاتی کمیشن کو حجاز کیلئے روانہ کیا۔73
ایران کے ذرائع ابلاغ میں آل سعود کا مقابلہ کرنے کی تدبیروں پر بات ہونے لگی۔
74منقول ہے کہ آیت‌ اللہ بروجردی، نے اپنے نمائندے محمد تقی طالقانی (آل احمد) کو تحقیقات کیلئے مدینہ بھیجا۔ سیدمحسن امین صورتحال کی تحقیق کیلئے حجاز روانہ ہوئے اور اپنی تحقیقات کے نتائج کو مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔ اسی طرح کچھ فقہا نے بقیع کے مزارات کی تعمیر نو پر مبنی فتویٰ بھی جاری کیا۔75
قبور کے انہدام کا رد عمل:
مزارات گرائے جانے کے رد عمل میں فقہی اصولوں کی روشنی میں کتب اور رسائل لکھے گئے۔ محمد جواد بلاغی نے ’’رساله رد الفتوی بهدم قبور الائمة فی البقیع‘‘ میں قبور کو منہدم کرنے کے حوالے سے وہابیوں کے نظریات کے بطلان کو واضح کیا۔76
اسی طرح قبور گرائے جانے کے سانحے پر دیگر کتب بھی لکھی گئیں۔ منجملہ عبد الرزاق موسوی آل مقرم نے کتاب ثامن شوال میں سنہ ۱۳۴۳ھ کے واقعات کی تفصیلات بیان کی ہیں77یوسف ھاجری کی تالیف البقیع قصة تدمیر آل سعود للآثار الاسلامیه اور عبد الحسین حیدری موسوی کی کتاب قبور ائمة البقیع قبل تهدیمها میں آئمہ بقیع کے مزارات کے انہدام کی تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔ حسن آل برغانی نے کتاب بقیع الغرقد میں مدینہ پر وہابیوں کے پہلے حملے کی مختصر تاریخ اور بقیع کی قبور کے انہدام کا تذکرہ کیا ہے۔
مسلمانوں کی جانب سے اظہار حزن و غم کیلئے اس عنوان سے مرثیے اور اشعار بھی لکھے گئے۔ شاعروں نے قبور کے انہدام کے حوالے سے اشعار و کلام کے ذریعے اپنے دلی دکھ درد کا اظہار بھی کیا ہے۔78,79,80

یوم الهدم:
آٹھ شوال کی شہرت یوم الھدم کے عنوان سے ہے اور یہ اہل تشیع کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ مجالس عزا میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہر سال آٹھ شوال کو مجالس کے انعقاد اور مرثیہ خوانی کے ذریعے آئمہ بقیع کی یاد مناتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت جلد آئے کہ جب مزارات کی تعمیر نو کا مطالبہ عملی ہو سکے۔
………………..
حوالہ جات

۱: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۸-۱۰۔
۲: خوارزمی، محمد بن اسحق، اثارة الترغیب، ج۲، ص۳۵۲۔
. ۳: عبدالرحمن بن براک، شرح العقیدة الطحاویه، ج۱، ص۳۲۔
. ۴: مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، ص۴۳۱-۴۵۰۔
. ۵: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۱۲۔
. ۶: ازرقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۳۱۷۔
۷: ابن‌فهد، عمر بن محمد بن‌ فهد، اتحاف الوری، ج۳، ص۲۱۳۔
. ۸: شیخ خزعلی، حسین خلف، تاریخ الجزیرة العربیه، ص۳۶۸-۳۷۸۔
. ۹: جبرتی، عبدالرحمن، عجائب الآثار، ج۲، ص۵۷۳۔
. ۱۰: جبرتی، عبدالرحمن، عجائب الآثار، ج۲، ص۵۸۵۔
. ۱۱: شیخ خزعلی، حسین خلف، تاریخ الجزیرة العربیه، ص۳۷۷-۳۷۸۔
. ۱۲: جبرتی، عبدالرحمن، عجائب الآثار، ج۳، ص۱۹۳۔
. ۱۳: غازی، عبدالله بن محمد، افادة الانام، ج۲، ص۱۷۰۔
. ۱۴: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۲، ص۳۰۳۔
. ۱۵: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۳، ص۳۳۳۔
. ۱۶: جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج۳، ص۱۱۸۷۔
. ۱۷: ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۸، ص۱۸۔
. ۱۸؛ فیروزآبادی، القاموس المحیط، ج۳، ص۶، «بقع»۔
. ۱۹: رفعت پاشا، ابراهیم، مرآة الحرمین، ج۱، ص۴۲۵۔
. ۲۰: انصاری، عبدالقدوس، آثار المدینة المنوره، ص۱۷۱-۱۷۲۔
. ۲۱: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۳۴۔
. ۲۲: ابن‌نجار، محمد بن محمود، الدرة الثمینه، ص۱۶۴۔
. ۲۳: خوارزمی، محمد بن اسحق، اثارة الترغیب، ج۱، ص۳۴۸۔
. ۲۴: صبری پاشا، ایوب، موسوعة مرآة الحرمین، ج۴، ص۷۲۱۔
. ۲۵: صبری پاشا، ایوب، موسوعة مرآة الحرمین، ج۴، ص۷۲۸۔
. ۲۶: کاتب مراکشی، الاستبصار، ص۴۲۔
. ۲۷: ابن‌نجار، محمد بن محمود، الدرة الثمینه، ص۱۶۶۔
. ۲۸: ابن‌بطوطه، رحلة ابن بطوطه، ج۱، ص۳۶۰-۳۶۱۔
. ۲۹: سمهودی، وفاء الوفاء، ج۳، ص۱۰۰۔
. ۳۰: جبرتی، عبدالرحمن، عجائب الآثار، ج۳، ص۹۱۔
. ۳۱: عجائب الآثار، عبدالرحمن الجبرتی، ج۲، ص۶۰۴۔
. ۳۲:جبرتی، عبدالرحمن، عجائب الآثار، ج۳، ص۱۱۔
. ۳۳: وردانی، صالح، خطر الوهابی، ص۱۹۳۔
. ۳۴: حمد الجاسر، رسائل فی تاریخ المدینه، ص۶۵۔
. ۳۵: بریجز، هارفورد جونز، خاطرات سرهارد فورد، ترجمه صالحی علامه، مانی، ص۱۰۔
. ۳۶: سیدجوادی، احمد، دائرة المعارف تشیع، ج۳، ص۳۸۵، «بقیع»۔
. ۳۷: قائدان، اصغر، عتبات عالیات عراق، ص۱۱۱۔
. ۳۸: بریجز، هارفورد جونز، خاطرات سرهارد فورد، ترجمه صالحی علامه، مانی، ص۱۱۔
. ۳۹: سباعی، احمد، تاریخ مکه، ص۶۰۳۔
. ۴۰: آل بسام، عبدالله بن عبدالرحمن بن صالح، خزانة التواریخ النجدیه، ج۴، ص۱۷۴۔
. ۴۱: حمد الجاسر، رسائل فی تاریخ المدینه، ص۶۶۔
. ۴۲: نجفی، سیدمحمدباقر، مدینه شناسی، ص۳۳۸-۳۳۹۔
. ۴۳: سباعی، احمد، تاریخ مکه، ص۷۲۳-۷۵۳۔
. ۴۴: فراهانی، حسن، روزشمار تاریخ معاصر ایران، ج۱، ص۲۶۶۔
. ۴۵:ادموند کلیفورد باسورت، سلسله‌های اسلامی جدید، ص۲۳۵۔
. ۴۶ صبری پاشا، ایوب، موسوعة مرآة الحرمین، ج۴، ص۵۳۴۔
. ۴۷: حمد الجاسر، رسائل فی تاریخ المدینه، ص۶۶۔
. ۴۸: رفعت پاشا، ابراهیم، مرآة الحرمین، ج۱، ص۴۲۶۔
. ۴۹: مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، ص۴۷۹۔
. ۵۰: آل بسام، عبدالله بن عبدالرحمن بن صالح، خزانة التواریخ النجدیه، ج۸، ص۱۵۹۔
. ۵۱: سباعی، احمد، تاریخ مکه، ص۵۸۷۔
. ۵۲: امین، سیدمحسن، کشف الارتیاب، ص۶۔
. ۵۳: عبدالعزیز، معالم المدینه، ج۳، ص۲۱۳۔
. ۵۴: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۳، ص۲۱۸۔
. ۵۵: حرزالدین، محمد، مراقد المعارف، ج۲، ص۲۸۲۔
۵۶: بررسی‌های تاریخی، ش۶۵، ص۷۴-۷۵، «راوبط ایران با حکومت مستقل نجد»۔
. ۵۷: مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، ص۳۶۵-۳۶۶۔
. ۵۸: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۴۹-۵۱۔
. ۵۹: عبدالعزیز، معالم المدینه، ج۳، ص۲۱۳۔
. ۶۰: سفرنامه فرهاد میرزا، طباطبایی، ص۱۷۰۔
. ۶۱: جعفریان، رسول، سفرنامه مکه حسام السلطنه، ص۱۵۱-۱۵۲۔
. ۶۲: محبوبی اردکانی، حسین، چهل سال تاریخ ایران، ج۲، ص۶۲۴۔
. ۶۳: کربلایی کرناتکی، حافظ محمد، تذکرة الطریق، ص۱۳۹۔
. ۶۴: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۳، ص۲۱۸-۲۱۹۔
. ۶۵: بریجز، هارفورد جونز، خاطرات سرهارد فورد، ترجمه صالحی علامه، مانی، ص۱۰۔
. ۶۶: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۳، ص۲۱۸۔
. ۶۷: خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسه، ج۳، ص۳۳۰۔
۶۸: نجمی، محمدصادق، تاریخ حرم ائمه بقیع، ص۵۱-۵۲۔
. ۶۹: آل بسام، عبدالله بن عبدالرحمن بن صالح، خزانة التواریخ النجدیه، ج۸، ص۱۵۹-۱۶۰۔
. ۷۰: قاضی عسکر، سیدعلی، تخریب و بازسازی بقیع، ص۵۵-۵۶۔
. ۷۱: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۵۲-۵۳۔
. ۷۲: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۵۳۔
. ۷۳: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، دانشنامه بزرگ اسلامی، ج۱۲، ص۴۹۷۲، «بقیع»۔
. ۷۴: گزیده مقالات و روزنامه‌های مهم، ص۱۹۵۔
. ۷۵: امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۵۵۔
. ۷۶: رفاعی، عبدالجبار، معجم ما کتب فی الحج، ص۱۷۱۔
. ۷۷: رفاعی، عبدالجبار، معجم ما کتب فی الحج، ص۸۵۔
. ۷۸:مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، ص۳۶۶-۳۶۸۔
. ۷۹امینی، محمدامین، بقیع الغرقد، ص۳۳۵-۳۴۱۔
. ۸۰سیدجوادی، احمد، دائرة المعارف تشیع، ج۳، ص۳۸۵، «بقیع غرقد»

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button