امام حسین علیہ السلام کے فضائل

امام حسینؑ کی زیارت کا ثواب
شیخ صدوقؒ نے کتاب ” امالی” میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے : میں امام صادقؑ کے پاس تھا کہ ایک طوس کا رہنے والا آدمی گھر میں داخل ہوا اور امامؑ سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کرےکیا اسے ثواب ملے گا ؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسینؑ کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے پوری کرے گا۔ (امالی صدوق، ص 684، ح 11، مجلس 86)
امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت
بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسینؑ کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پر نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کینہ تھا ابھر آیا، میں نے ان سے کہا: پسر ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اورا ن کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسینؑ نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پناہ لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور فوراً آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔ (سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲)
ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا: تھوڑا دھیرے اور حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو اور رہنمائی کی ضرورت ہے تو رہنمائی کرتاہوں ۔ عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا: کوئی اشکال اور ملامت آپ پر نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ ( سورہ یوسف ۹۲)
اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں اس کے بعد امام حسینؑ نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اس کے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہے ہے وہ مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا ہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے والے پاؤ گے۔ عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امامؑ سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسینؑ اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔ (سفینة البحار، ج 2، ص 116)
ایک سائل کے ساتھ امامؑ کی رفتار
شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب ” تحف العقول” میں نقل کرتے ہیں :
انصار کا ایک آدمی امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امامؑ نے اس سے فرمایا: اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو، ان شا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔ اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرسکو۔
جب امام حسینؑ نے اس کے نوشہ کو پڑھا فوراً گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا: پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا :
۱: متدین اور دیندار،
۲: سخی اور اہل کرامت،
۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔
( تحف العقول ، ص 245)
امام حسینؑ کا تواضع اور انکساری
روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدینؑ سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپؑ نے فرمایا: "هذا مما كان ينقل الجراب علي ظهره إلي مناز الأرامل و اليتامي و المساكين”، یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپؑ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66)
امام حسینؑ کا احسان
انس کہتے ہیں: میں امام حسینؑ کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا دستہ امامؑ کو ہدیہ دیا۔ امامؑ نے فرمایا:
تم راہ خدا میں آزاد ہو۔ عرض کیا: اس نے آپؑ کے لئے پھولوں کا ایک دستہ لایا کہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپؑ اس کو آزاد کر دیں۔ امامؑ نے فرمایا: خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سیکھایا ہے اور قرآن میں فرمایا: "و إذا حُييتُم بِتَحِية فَحَيوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها” ( النساء/86 ) ۔جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔ (كشف الغمة، ج 2، ص 31)
عاشورا کی تعلیمات
کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورا کی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں کہ جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
1: حریت اور آزادی
تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی ، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل”۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: لا و اللہ ، لا اعطیھم یدی اعطاہ الذلیل و لا اقر اقرار العبید۔خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔
اسی طریقے سے کربلا میں جب آپؑ کو جنگ اور بیعت کے درمیان مقید کر دیا تو آپؑ نے فرمایا: "الا و انّ الدعی بن الدعی قد رکزنی بین اثنین ،بین السلۃ و الذ لۃ، ھیھات منا الذلۃ۔۔۔” ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے دوچیزوں کے درمیان ،شمشیر اور ذلت کے درمیان مخیر قرار دیا ہے تو یاد رکھنا ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔
2: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے اور ظلم کی بیخ کنی کرنے کے لیے جنگ کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے اہم فلسفہ ہے۔ حضرت سید الشہداءؑ اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں: «اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب»؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔
امامؑ کے یہ کلمات امامؑ کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں۔ امامؑ کے زیارت نامہ میں بھی یہ موضوع بیان ہوا ہے: "اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی سبیل اللہ حتی اتاک الیقین”۔ زیارت کے یہ کلمات اس فریضہ الہٰی کی گہرائی کو میدان جہاد میں جلوہ نما کرتے ہیں ۔ امام حسینؑ نے عصر عاشورا اس فریضہ الہٰی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ،واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، حتیٰ عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے ۔سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کا انکار کر کے ولید اور مروان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور اس کے بعد نانا رسول خدا(ص) کی قبر پر تشریف لے گئے۔ نانا سے مناجات کرنا شروع کیا۔ اور اپنی مناجات میں معرو ف اور نیکی سے محبت کا اظہار کیا۔ اور خدا سے اس سلسلے میں طلب خیر کرتے ہوئے فرمایا: خدایا میں نیکیوں کو دوست رکھتا ہوں اور منکرات سے متنفر ہوں اے خداے عز و جل میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے اس راستہ کا انتخاب کر جس میں تیری رضا ہو۔
3: رضا اور تسلیم
عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔اہلبیت علیھم السلام نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرۂ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔ واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے۔ امام حسینؑ کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں، خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔
اسی طریقے سے امامؑ اپنے ان اشعار میں جو اس سفر کے دوران رنج و مصائب کی بنا پر ان کی زبان پر جاری ہوئے فرماتے ہیں: رضا اللہ رضانا اھل البیت۔ یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی اہم اہلبیت کی رضا ہے۔ آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ ۔
البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے۔ اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن حسین بن علیؑ کی طرح ثبوت پیش کرنا اور تسلیم و رضا کے درجۂ کمال کو پا لینا صرف حسینؑ کا کمال ہے۔
4: اخلاص
اخلاص مکتب عاشورا کا ایک آشکارجلوہ اور گراں قیمت گوہر ہے۔
تحریک عاشورا کی بقاء کاایک اہم ترین راز یہی گوہر اخلاص ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔ تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو اخلاص اور للٰہیت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم "صبغۃ اللہ” یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔ واقعہ عاشورا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی ان تقاریر میں جو انہوں نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے فرمائے، ہرطرح کی دنیا طلبی اور حکومت خواہی کو محکوم کیا اور اپنے سفر کے خالص ارادہ کو کہ جو وہی دین اور سماج کی اصلاح ہے بیان کیا: خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں ہر گز دنیوی حکومت اور دنیوی مال ومنال کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کی تعلیمات سے باخبر کروں اور خدا کی نشانیوں کو دکھلاؤں اورسماج کی اصلاح کروں تاکہ مظلوم امن و آمان سے رہیں اور تیرا حکم اور تیری سنت اجرا ہو۔
درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقاء کا۔ اس طریقے سے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
https://tvshia.com/ur/content/9519