خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:170)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک7اکتوبر 2022ء بمطابق 11 ربیع الاول1444 ھ)

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
17 ربیع الاول کا مبارک دن دو عظیم معصوم ہستیوں حضرت نبی کریم ﷺ اور ان چھٹے وصی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا مبارک دن ہے۔چونکہ ان دو ہستیوں کی ولادت با سعادت ایک ہی دن ہے جبکہ ان میں سے ہر ایک کی شخصیت پر ایک ہی خطبے میں بات کرنا مشکل ہے اس لیے ہماری اس خطبہ جمعہ کی گفتگو جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ہوگی اور اگلے جمعہ کی گفتگو حضرت امام جعفر صادق ؑ کی سیرت و شخصیت سے متعلق ہوگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ
خداے رحمان و رحیم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رحمت مہربانی اور ومہر محبت کا مظہر بنا کر بھیجا ہے۔جس طرح تمام انبیاء کا روئے زمین پر آنا مقصد اور ہدف سے خالی نہیں ہے اسی طرح ہمارے آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کا بھی ایک مقصد ہے اور وہ ہے "اشرف المخلوقات انسان کی بہترین تربیت کرنا۔” حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کو خدا وند عالم نے اسی وجہ سے روئے زمین پر بھیجا تھا کہ تمام انسانوں کو منزل کمال اور سعادت سے ہمکنار کریں، چونکہ انسان ہی تمام مخلوقات میں اشرف ہے اور تمام مخلوقات کے نچوڑکو انسان کہا جاتا ہے، لہٰذا اگر ہر انسان اپنی اصلاح کر لے تو خود بخود پورے معاشرے کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر ایک انسان فاسداورفاسق وفاجر ہو تو معاشرہ پر اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے چونکہ "ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے۔” جناب آدمؑ سے لے کر حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ تک، ہر نبی کی یہی کوشش رہی ہے کہ انسان کو کمال وسعادت کی منزلیں طے کرائے، انھیں صراط مستقیم پر گامزن کرے، نہ یہ کہ صرف راستہ بتادے۔
نبی کریم ﷺ کی شان و عظمت کی بات کریں تو عام طور پر ہم امام علی علیہ السلام کے فضائل پڑھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رسول ﷺ نے کس کس موقع پر علی علیہ السلام کی شان بیان فرمائی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کثیر مقامات پر امام علی علیہ السلام کے فضائل بیان فرمائے۔ لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امام علی علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کی کیا شان بیان فرمائی۔آج اس پرمسرت موقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے کس طرح رسول اللہ ﷺ کی شان بیان فرمائی۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مختلف بیانات میں آنحضرتﷺ کی بعثت کے مقاصد یوں بیان فرمائے ہیں
١۔حق کی طرف دعوت دینا:
”اَرْسَلَه دَاعِياً اِلَی الحَقِّ وَشَاهدًا عَلَی الخَلْقِ ” (نہج البلاغہ خطبہ 114)
”اللہ نے پیغمبر اکرمﷺ کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا”

٢۔لوگوں کو عذاب الہی سے متنبہ اور ڈرانے کے لیے :
”اِنَّ اللّٰه بَعَثَ مُحَمَّدًاصلّیٰ اللّٰه عليه وَاٰلِه وَسَلَّمَ نَذِيرً لِّلْعٰالَمِينَ وَامِينًا عَلَی التَّنْزِيلِ ” (نہج البلاغہ خطبہ194)
”بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکو تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا”
٣۔بت پرستی اور اطاعت شیطان کی ذلتوں سے نکالنا :
”فَبَعَثَ اللّٰه محمّداً ،صَلّٰی اللّٰه عَلَيه وَآلِه بِالحقِّ لِيخْرِج عِبَادَه الَاوْثَانِ اِلٰی عبادَة ،وَمَنْ طَاعَةِ الشَّيطَانِ اِلیٰ طاعَتِه ،بِقُرآنٍ قَدْ بَينَه وَاَحْکَمَه لِيعْلَمَ الِعبَادُ رَبَّهمْ اِذجَهلُوه ، وَلِيقِرُّوا بِه اذجَحَدُوه ولِيثْبِتُوه بَعْدَ اِذْانَکَرُوه”(نہج البلاغہ خطبہ145)
”پروردگار نے حضرت محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمن کی اطاعت کر ائیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تا کہ بندے اپنے رب سے جا ہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں ، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں ۔۔ ”
٤۔اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا :
”ثُمَّ اِنَّ اللّٰه سبحانه بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه وآله بالحَقِّ حين دَنَا من الدُّینا الْا نْقِطَاعُ ، وَاَقْبَلَ الآ خِرَةِ الِا طِلّاَعُ۔۔۔۔۔جَعَلَه اللّٰه بَلَاغاً لِرِسَالَتِه ،وَکَرَامَةً لِاُمَّتِْه ، وَ رَبِيعاًلِاَھْلِ زَمانه ورِفْعَةً لِاَ عْوَانِه وَشَرَفاً لِاَ نْصَارِه ”(نہج البلاغہ خطبہ196)
”اس کے بعد اللہ سبحانہ نے حضرت محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی اور آخرت سر پر منڈلا نے لگی ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ ،امت کی کرامت ، اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور ان کا یارومددگار افراد کی شرکت کاواسطہ قرار دیا ”
دوران رسالت ،رسول اللہﷺکی جانفشانی اور جدوجہد:
رسول خداﷺنے اپنی بعثت کے اہداف کو کس طرح حاصل کیا اور الٰہی اہداف کو کیسے پایہ تکیمل تک پہنچایا ،اس بارے میں حضرت امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :
”اَرْسَلَہُ داعِياً اِلَی الحَقِّ وشَاهدًا عَلَی الْخَلْقِ مَبَلَّغَ رِسَالا تِ رَبِّه غَيرَ وَانٍ ولا مُقَصِّرٍ وَجَاهدَ فِی اللّٰه اَعْدَائَ ه غَيرَ وَاَهنٍ ولا مُعَذِّرٍ اِمَامُ مَنِ اِتَّقیٰ وَبَصَرُ ِمنِ اهتَدیٰ”(نہج البلاغہ خطبہ114)
”اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو حق کی طرف بلانے والا ،او ر مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا تو آپﷺ نے پیغام الٰہی کو مکمل طور پر پہنچا دیا نہ اس میں کوئی سُستی کی نہ کوتاہی ،اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اس میں نہ کو ئی کمزوری دکھائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا،آﷺ متقین کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔”
حضورﷺ کی جدوجہد کے متعلق فرماتے ہیں :
”اَرْسَلَه بوُجُوب الحُحَج، وظُهورِ الفَلَجِ،وَاِيضَاحِ المَنْهجِ،فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صَادِعاً بِها وحَمَلَ عَلَی المَحَجَّةِ دَالّا ًعَلَيها وَاَقَامَ اَعْلَامَ الِا هتِدَائِ ومَنَارَ الِضّيائِ ، وَجَعَلَ اَمْرَ اسَ الِاسْلامِ مَتِينَةً وَعُرَیٰ الاِ يمٰانِ وَثِيقَةً ” (نہج البلاغہ خطبہ183)
”اللہ تعالیٰ نے آﷺ کو نا قابل انکار دلیلوں ،واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت)کی راہنما ئیوں کے ساتھ بھیجا آپ نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کر دیا اورلوگوںکو سیدھے راستے کی راہنمائی کر دی ۔ہدا یت کے نشان قائم کر دیے اور روشنی کے منارے استوار کر دیے اسلام کی رسیوں کو مضبوط بنا دیا او ر ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کر دیا
آنحضرتﷺکا خاندان اور ان کا مقام و مرتبہ: خطبہ ١٦١ میں بیان کرتے ہیں :
” اِبْتَعَثَه بالنُّور المُضِيئِ ،والبُرْهانِ الجَلِیَّ وَالمِنْهاجِ البَادِی ،والکتاب الهادِیْ، اُسْرَتُه خَيرُ اَسْرَةٍٍ وَشَجَرَتَه خَيرُ شَجَرَةٍ ،اغضا نُھَا مُعْتَدِ لَة ،وَثِمَارُ ها مُتَهدِّ لة ”
”پروردگار نے آنحضرتﷺکو روشن نور (واضح دلیل )نمایاں راستہ اور ہدا یت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ، آپﷺکا خاندان بہترین خاندان اورآپﷺکا شجرہ بہترین شجرہ ہے ، جس کی شاخیں معتدل ہیں اور ثمرات دسترس کے اندر ہیں ۔”
خطبہ١٠٦ میں بیان فرمایا ہے :
” اِخْتَارَه مِنْ شَجَرَ ةِ الْاَ نْبَيائِ مِشْکَاةِ الِضّيائِ وَذُؤَابَةِ الْعَلْيائِ وَسُرَّ ةِ البَطْحائِ ومَصَاِبَيحِ الظُّلْمَةِ، وينَا بِيع اِلحِکْمَةِ”
”رسول خداﷺ کو اس نے انبیا ء کے شجرہ ،روشنی کے مرکز (آل ابراہیم )بلندی کی جبیں (قریش ) بطحاء کی ناف (مکہ)اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا ۔ ”
خطبہ٩٢ میں بیان کرتے ہیں :
” انبیا ء کرام کو پروردگار نے بہترین مقامات پر ودیعت رکھا اور بہترین منزل میں ٹھہرایا ، وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے ،جب ان میں سے کو ئی گزرے والا گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی یہاںتک کہ یہ الہیٰ شرف حضرت محمدﷺتک پہنچا اس نے انہیں بہترین نشوونما والے معدنوں اور ایسی اصلوں سے جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہت باوقار تھیں ،پیدا کیا اس شجرہ سے جس سے بہت سے انبیا ء پیدا کیے اور اپنے امین منتخب فرمائے ،پیغمبرﷺ کی عترت ،بہترین عترت اور ان کا خاندان شریف ترین خاندان ہے ،ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ہے جو سر زمین حرم پراُگا ہے اور بزرگی کے سایہ میں پروان چڑھا ہے ،اس کی شاخیں بہت طویل ہیں اور اس کے پھل انسانی دسترس سے با لا تر ہیں۔ ”(نہج البلاغہ خطبہ92)
توصیف و تعریف :
”حضرت رسول خداﷺ کے حقیقی اوصاف اور آپکی سچی تعریف اور دقیق ہے کہ انسان اس کی سحر انگیزی اور معنی کی گہرائی میں ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے،چنانچہ امیر المومنین ـ خطبہ نمبر ١٠٥میں آنحضرتﷺکی یوں تعریف کر تے ہیں ۔ ”
”حَتَّی بَعَثَ الله محمّدًا صلی الله عليه وآله،شهيداً وبَشِيراً، ونذيراً،خَير الَبرِّيةِ طِفلاً،واَنْجَبَها کَهلاً، وَاَطْهرَ الْمُطَهرِينَ شِيمَةً،وَاَجْوَدَ المُسْتَمطَرِےْنَ دِيمَةً ”
”یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو امت کے اعما ل کا گواہ ،ثواب کی بشارت دینے والا ،اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ،جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہو نے پر بھی اشرف کائنات تھے ، عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ”
ایک اور مقام پر آپﷺ کی مدح یوں کر تے ہیں :
”فَهوَ اِمامُ مَنِ اتَّقٰی،وبَصيرَة مَنِ اھْتَدیٰ،سراج لَمَعَ ضَوْئُ ه،وَشِهاب سَطَعَ نُورُه و زَنْد بَرَقَ لَمْعُه،سِےْرَتُه الْقَصْدُ،وسُنَّتُه الرُّشْدُوکَلَا مُه الْفَصْل،وحُکْمُه الْعَدْلُ،اَرْسَلَه عَلَیٰ حِينَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَهفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ،غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ”(نہج البلاغہ خطبہ92)
”آپﷺ اہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے سر چشمہ بصیرت ہیں ،آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لَوْ دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے او ر ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ فشاں ہے ، ان کی سیرت میانہ روی،سنت رشد وہدایت ، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلا نہ ہے، اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو اس وقت بھیجا جب انبیا ء کا سلسلہ موقوف تھا اور بد عملی کا دور دورہ تھا ،اور امتوں پر غفلت چھائی ہو ئی تھی ۔”

ایک اور مقام میں بیان فرمایا : ”بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں آپﷺ کا مقام بہترین مقام اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے ،نیک کرداروں کے دل آپﷺ کی طرف جھکا دئیے گئے اور نگاہوں کے رخ آپﷺ کی طرف موڑ دیے گئے ،اللہ نے آﷺ کے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے،لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا اہل ذلت کو با عزت بنا دیا ،اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کر دیا ،آپ کا کلام شریعت کا بیان اور آپ کی خاموشی احکام کی زبان ”(نہج البلاغہ خطبہ94)
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق :
رسول اکر مﷺ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيمٍ ”(القلم4)
”بے شک آپ اخلا ق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں ”
خود آپﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ،آپ کا فرمان ہے :
”اِنَّما بعثت لاُ تَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ ”
یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے اسی طرح آپ انہی اعلیٰ اخلاق وصفات کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں ، نہج البلاغہ میں جو آپﷺکے اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ ہے انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔

زہد و پارسائی :
حضرت علی ـفرماتے ہیں:
”قَدْ حَقَّرَ الدُّنْيا وَصَغَّرَ ها وَأَهوَنَ بِها وَهوَّنَها ،وَعَلِمَ أَنَّ اللّٰه زَوَاها عَنْه اَخْتِياراً،وَبَسَطَها لِغَيرِه احْتِقَاراً،فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأَمَاتَ ذِکْرَها عَنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَن تَغِيبَ زِينَتُهاعَنْ عَينِه، لِکَيلَا يتَّخِذَمِنْها رِياشاً ،أَو يرْجُوَ فِيها مَقَاماً ،بَلَّغَ عَنْ رَبِّه مُعْذِراً،وَنَصَحَ لِأُ مَّتِه مُنْذِراً،وَدَعَا اِلَی اَلْجَنَّةِ مُبَشَّراً، وَخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً”(نہج البلاغہ خطبہ107)
” آپﷺ نے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا نتے تھے اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہو ں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمائیں اور کسی نہ خاص مقام کی امید کر یں ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا ”
اس بارے میں آنحضرتﷺ کی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں
”وَلَقَدْکَانَ صَلَّیٰ اللّٰه عَلَيه وَآلِه وَسَلَّمَ،يأ کُلُ عَلَیٰ اْلَارضِ ،وَيجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،وَيخْصِفُ بِيدِه نَعْلَه ،وَےَرْقَعُ بِےَده ثَوْبَه،وےَرْکَبُ اَلْحِمَارَ اَلْعَارِیَ وَيرْدِفُ خَلْفَه وَےَکُونُ السَّتْرُ عَلَیٰ بَابِ بَيته فَتَکُونُ فِيه التَّصَاوِيرُ ،فَيقُولُ : (ےَا فُلَانَةُ لِاحْدَیٰ أَزْوَاجِه غَيبيه عَنِّی ،فَانِّیِ اِذَا نَظَرْتُ اِلَيه ذَکَرْتُ الدُّنْيا وَزَخَارِفَها)فَأَعْرَضَ عَنِ الَدُّنْيا بِقَلْبِه،وَأمَاتَ ذِکْرَها مِنْ نَفْسِه ،وَأَحَبَّ أَنْ تَغِيبَ زِينَتُها عَنِ عَينِه ،لِکَيلَا يتَّخِذَ مِنْها رِےَاشاً ،وَلَا ےَعْتَقِدَها قَرَاراً،وَلَاےَرْجُوَ فِيها مُقَاماً ،فَأَخْرَجَها مِنَ النَّفْسِ ، وَأَشْخَصَهاعَنِ اَلْقَلْبِ،وَغَيبَهاعَنِ اَلْبَصَرِ وَکَذٰلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شَياً أَبْغَضَ أَنْ ينْظُرِ اِلَيه ،وَأَنْ يذْکَرَ عِنْدَه”(نہج البلاغہ خطبہ158)
”رسول اللہﷺزمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے اپنے
ہا تھ سے جو تی ٹانکتے تھے اور اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگائے تھے اور بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں ،انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے ”
حسن سلوک اور مہربانی :
قرآن مجید رسول اللہﷺکی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اورمہربانی وعطوفت بیان کر تا ہے ، آپﷺ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہو تا ہے۔
”فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ”(آل عمران 159)
”پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہو تے تو یہ لو گ آپ ۖ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے ”
حضرت علی ـ آنحضرتﷺ کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
”وَاَطْهرَ المُطَهرِينَ شِيمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِينَ دِيمَةً ”(نہج البلاغہ خطبہ103)
”عادات کے اعتبار سے آپﷺ تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور بارا ن رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔”
لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خداﷺکی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
”لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيز عَلَيه مَا عَنِتُّمْ حَرِيص عَلَى کُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُ وْف رَّحِيم ” (التوبہ 128)
”فَلَعَلّکَ بَا خِع نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهمْ اِنْ لَّمْ يؤْ مِنُوْا بِهذَا الْحَدِيثِ اَسَفاً” (الکہف 6)
حضر ت علی ـ نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں
ہا تھ پائوں مار رہے تھے ،نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ”
”فَبَالَغَ صلی الله عيله وآله وسلَّم فِی النَّصِيحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّريقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ”(نہج البلاغہ خطبہ93)
”چنانچہ نبی اکرمﷺنے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے ”
آنحضرتﷺ ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جا تے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کر تے تھے
اس بارے میں امیر المومنین ـ نے فرمایا :
”طبیب دَوَّاربِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اهمَه ،وَاَحْمَیٰ مَوَا سِمَه يضَعُ ذٰلِکَ حَيثُ الحَاجَةُ اِلَيه ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَآذانٍ صُمٍّ،وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحَيرَةِ”(نہج البلاغہ خطبہ106)
”آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ،وہ اندھے دلوں ،بہرے کانوں گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ )میں جہاں ضرورت ہو تی ہے ،ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہو ئوں کی کھوج میں لگا رہتا ہو ۔’
شجاعت و بہادری :
امیر المومنین علی ـکہ جو خود ‘اشجع الناس ‘تھے وہ آنحضرتﷺ کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
”کُنَّا اِذَاحْمَرَّ الْبُأْسُ اتَّقَينَا بِرَسُولِ اللّٰه صلّیٰ اللّٰه عَلَيه وآله وسلّم فَلَمْ يکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنْه”(نہج البلاغہ)
”ہمیشہ ایسا ہو تا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی او ر دو گروہ بر سر پیکار ہو جا تے تو ہم آنحضرتﷺ کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپﷺ کے علاوہ کو ئی بھی دشمن کے قریب نہ ہو تا۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button