امام موسی کاظم علیہ السلام کا جہاد

امام جعفر صادقؑ نے جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا، اسی راستے اور جدوجہد پر امام موسی کاظم نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے:
پہلا محور:
فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیداری پیدا کرنا، نیز منحرف عقائد اور قبائلی، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑھانا، اس دور کے خطرناک پروپیگنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا، اس کے خلاف امام موسی کاظمؑ کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لیے میدان میں آتے اور ان نظریات کی حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا۔
یہ حکمران طبقے پر گراں گزرا اور یوں حکام ان کو دبانے اور سخت ترین سزائیں دینے پر اتر آئے، عقائد کے بارے میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی گئی، چنانچہ امام نے اپنے ایک ساتھی ہشام کو پیغام بھیجا کہ وہ لاحق خطرات کے پیش نظر گفتگو میں پرہیز سے کام لے، یوں ہشام خلیفہ مہدی کے مرنے تک عقائد کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کرتا رہا۔ (رجال کشی: ص172)
دوسرا محور:
اپنے وفاداروں اور حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جا سکے۔
امام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے، آپ نے صفوان سے فرمایا: اے صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ اور اچھی ہے سوائے ایک چیز کے،
صفوان: قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے؟
امام: تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم (ہارون) کو کرائے پر دینا۔
صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لیے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دئیے ہیں، علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں۔
امام: اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے (واجب الاداء) باقی رہتا ہے؟
صفوان: میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے۔
امام: اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہے؟
صفوان: جی ہاں!
امام: جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر)
اس کے بعد اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:
وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللّٰهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون، (سوره ہود 113)
امام نے اپنے اصحاب کو ہارونی نظام حکومت میں داخل ہونے اور کسی قسم کا عہدہ یا کام قبول کرنے سے منع کیا، چنانچہ آپ نے زیاد بن ابی سلمہ سے فرمایا: اے زیاد میں کسی بلندی سے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ان ظالموں کے لیے کوئی کام انجام دینے یا ان میں سے کسی کے فرش پر پاؤں رکھنے کی نسبت زیادہ پسند کرتا ہوں۔ (مکاسب شیخ انصاری باب الولایة من قبل الجائر)
تیسرا محور:
آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں۔ قبر رسول خدا ﷺ کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا، وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا:
اے میرے چچا زاد بھائی آپ پر دورد و سلام ہو،
اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ کو یوں سلام کیا:
"سلام ہو آپ پر اے میرے پدر بزرگوار”
یہ سننا تھا کہ ہارون آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آ گیا کیونکہ امام نے فخر و عظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی، چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:
آپ نے ہم سے زیادہ رسول سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا؟
امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:
اگر رسول اللہ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم اسے قبول کرتے؟
ہارون نے جواب دیا: سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لیے باعث فخر ہوتا۔
امام نے فرمایا: لیکن رسول اللہ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے، اسی لیے ہم تمہاری نسبت آنحضرت سے زیادہ نزدیک ہیں۔ (اخبار الدول: ص 113)
ہارون امام کی دلیل کے آگے چپ ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کر دیا کیا۔ (تذکرة الخواص: ص 359)
چوتھا محور:
امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لیے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم و منحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا، امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے، جب شہیدِ فخ، حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں۔
جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی: خدا کی قسم وہ صالح، کثرت سے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے، ان کے گھرانے میں ان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔ (مقاتل الطالبین: ص 453)
یہ مختصراً وہ چار محور ہیں جن پر امام موسی کاظم نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہوا تھا، امام موسی کاظم کے فضائل و کمالات بھی ایسے تھے کہ خلفاء وقت کے لیے وہ بھی ناگوار تھے ہم یہاں پر نمونے کے طور پر اہل سنت کے دو بڑے عالم دین کے ان کے بارے میں قول کو بیان کرتے ہیں:
اہل سنت کے بزرگ عالم دین ابن طلحہ تحریر کرتے ہیں کہ:
هو الامام، الكبير القدر العظيم الشأن، الكثير التهجّد، الجادّة في الإجتهاد، المشهود له بالكرامات، المشهور بالعبادة، المواظب علي الطاعات، يبيّت الليل ساجدا و قائما و يقطع النهار متصدقاً و صائماً ولفرط علمه و تجاوزه عن المعتدين عليه دُعي كاظما، كان يجازي المسيء بإحسانه إليه، ويقابل الجاني عليه بعفوه عنه، و لكثرة عباداته كان يسمي بالعبد الصالح، ويُعرف بالعراق بباب الحوائج إلي اللّٰه، لنجح المتوسلين إلي اللّٰه تعالي به، كراماته تحار منها العقول۔
وہ ایک عظیم القدر اور عظیم الشان امام تھے، بہت زیادہ تہجد گذار اور محنت و کوشش کرنے والے تھے، جن کی کرامات ظاہر تھیں اور جو عبادت میں مشہور اور اطاعت الٰہی پر پابندی سے گامزن رہنے والے تھے، راتوں کو رکوع و سجود میں گزارتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے اور خیرات فرمایا کرتے تھے، اور بہت زیادہ حلم و بخشش اور اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کی بخشش کی وجہ سے آپ کو کاظم کے نام سے پکارا جاتا تھا، اور جو شخص آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آپ اس کا جواب نیکی اور احسان کے ذریعہ دیتے تھے، اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ عبادت کی وجہ سے آپ کا نام عبد صالح پڑ گیا، اور آپ عراق میں باب الحوائج الی اللّٰہ کے نام سے مشہور ہوئے، کیونکہ ان کے وسیلہ سے خداوند سے متوسل ہوا جاتا ہے جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ اور آپ کی کرامات عقلوں کو حیران کر دیتی ہیں…..، (کشف الغمه: ج2،ص212)
اسی طرح آپ کی شان میں اہل سنت کےمشہور عالم ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
و كان معروفاً عند أهل العراق بباب قضاء الحوائج عند اللّٰه و كان أعبد أهل زمانه و أعلمهم و أسخاهم،
آپ عراقیوں کے درمیان خدا کی طرف سے باب اللہ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عبادت گزار، سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ سخی انسان تھے۔ (الصواعق المحرقه: ص203)
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=710