رسالاتسلائیڈرمحافلمناقب امام زین العابدین عمناقب و فضائل

امام زین العابدین علیہ السلام کی شان میں فرزدق کا قصیدہ

ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی آ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجاد علیہ السلام کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہو گئے؟ ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد علیہ السلام کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد علیہ السلام کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے) فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔
اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟
تو فرزدق نے اس کے جواب میں ا یک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا اور اس قصیدہ کے چند شعر اور ان کا ترجمہ یہ ہے:
يا سائلي أين حلّ الجودُ والكرمُ عندي بيان إذا طلاّبُه قَدِمُوا
اے "کہاں ہے سخاوت اور کرم” کا سوال کرنے والے، اگر اس بات کو جاننے کے طلبگار آ جائیں تو میرے پا س اس کا جواب ہے۔
هذا الذي تَعِرفُ البطحاءُ وطأته والبيتُ يعرفُهُ والحِلُّ والحَرَمُ
یہ وہ شخصیت ہیں جن کے نشانِ قدم کو بھی وادی بطحاء(مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے۔
هذا ابن خيرِ عبادِ اللهِ كُلهمُ هذا التقي النقي الطاهر العلمُ
یہ تمام بندگان خدا میں سے بہترو افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیز گار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ھدایت ہیں۔
ھذا علی رسول اللہ والدہ امت بنور ھداہ تھتدی الظلم
یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خدا(ص) ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔
إذا رأتهُ قريش قال قائلها إلى مكارم هذا ينتهي الكرم
جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں ان کے بلند مرتبہ اخلاق پہ جو د و سخا کی انتہاء ہوتی ہے۔
ینمي الی ذروة العز الذی قصرت عن نیلھا عرب الاسلام والعجم
انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔
يكاد يمسكه عرفان راحته رُكن الحطيمِ إذا ما جاءَ يستلمُ
اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔
یفضی حیاء ویفضی من مھابته فما تکلم الاّ حین یتبسم
وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔
ھذا ابن فاطمة ان کنت جاھله بجدہ انبیاء اللہ قد ختموا
اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔
اللہ شرفه قدما و عظمه جری بذاک له فی لوحه القلم
اللہ نے انھیں پیدائش سے پہلے ہی شرف اور عظمت سے نوازا، اور ان کی عظمت کو قلم نے لوحِ محفوظ میں لکھا۔
من جدہ دان فضل الانبیاء له و فضل امّته دانت له الامم
ان کے جد امجد کی عظمت کو انبیاء کی فضیلتیں نہیں پہنچ پاتیں اور ان کی امت کی عظمت کے سامنے تمام امتوں کی عظمتیں کم نظر آتی ہیں۔
سھل الخلیقة لا تخشی بوادرہ یزینه خصلتان الخلق والکرم
یہ نرم مزاج ہیں اور ان کے غصے کا ڈر نہیں اور یہ دو اوصاف ان کے اخلاق کو مزین کیے ہوئے ہیں۔
من معشر حبھم دین و بغضھم کفر وقربھم منجي ومعتصم
لوگوں کا ان(آل رسولؐ) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض وکینہ رکھنا عین کفر ہے ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔
یستدفع الشر والبلوی بحبھم ویسترب به الاحسان و النعم
ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں، اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہی کو حاصل کیا جاتا ہے۔
مقدم بعد ذکر اللہ ذکرھم فی کل یوم و مختوم به الکلم
ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انھی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔
ان عدّ اھل التقي کانوا آئمتھم او قیل من خیر اھل الارض قیل ھم
اگر اھل تقوی کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا سب سے افضل یہی ہیں۔
لا یستطیع جواد بعد غایتھم ولا یدانیھم قوم وان کرموا
کوئی بھی سخی ان کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی بھی قوم چاہے جتنی بھی سخاوت کر لے ان کی برابری نہیں کر سکتی۔
یابی لھم ان یحل الذم ساحتھم خیم کریم واید بالندی ھضم
کریم اخلاق ان کے در پر مذمت کو آنے نہیں دیتا اور ان کے ہاتھوں کی سخاوتیں ہر وقت جاری ہیں۔
لاینقص العسر بسطا من اکفھم سیان ذلک ان اثروا وان عدموا
حالات کی تنگی ان کے سخاوت کو کم نہیں کرتی چاہے ان کے پاس مال ہو یا کچھ نہ ہو ان کی سخاوت کے انداز نہیں بدلتے۔
امام سجاد علیہ السلام کی شہادت:
حضر ت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا امام سجاد علیہ السلام کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے،کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھااور یہی وہ بات تھی جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد علیہ السلام کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہو گئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد علیہ السلام کو کھلا دیا۔ جب امام سجاد علیہ السلام کے بدن میں زہر سرایت کر گیا اور آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہو گیا تو آپ علیہ السلام اپنے بیٹے امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آئے اور انھیں چند وصیتیں فرمائی اور پھر فرمایا:
اے میرے فرزند آگاہ ہو جاؤ! میں عنقریب تم سے جدا ہونے والا ہوں، اور موت قریب آ چکی ہے اور ولید جو میرے ساتھ کرنا چاہتا تھا اس نے کر دیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: اے میرے فرزند! میں تمہیں وہ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں جو میرے بابا نے مجھے اس وقت کی تھیں جب ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تھاپھر امام نے کچھ وصیتیں فرمائی کہ جن میں یہ وصیت بھی تھی کہ:اے بیٹا! خبردار کسی ایسے پر ظلم نہ کرنا جس کا خدا کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔ وصیتیں کرنے کے بعد تین مرتبہ امام سجاد علیہ السلام پر غش طاری ہوا، پھر آنکھیں کھول کر امام سجاد علیہ السلام نے یہ پڑھا :
اذا وقعت الواقعۃ-انا فتحنا لک فتحا مبینا
پھر فرمایا: تمام تعریفیں اس معبود کے لیے ہیں کہ جس نے ہم سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں زمین کا وارث قرار دیا، ہم بہشت میں جس مکان میں چاہیں رہیں، تو اچھے عمل کرنے والوں کا اجر کتنا ہی اچھا ہے۔ اس کی بعد امام سجاد علیہ السلام کی روح پرواز کر گئی اور امام سجاد علیہ السلام نے انتہائی مظلومیت کے عالم میں 25محرم الحرام 94ہجری کو اس بے وفا دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔

امام زین العابدین علیہ السلام کے چند کلمات:
1:۔من قنع بما قسم الله له فهو من أغنى الناس
جو خدا کے عطا کردہ رزق پر قناعت کرے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ غنی و مالدار ہے۔
2:۔ اتقوا الكذب الصغير منه والكبير في كل جد وهزل، فإن الرجل إذا كذب في الصغير اجترأ على الكبير
سنجیدگی اور مذاق میں ہر چھوٹے بڑے جھوٹ سے پرہیز کرو، اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے کام میں جھوٹ بولے تو وہ اسے بڑے جھوٹ کی جرأت دے گا۔
3:۔كفى بنصر الله لك أن ترى عدوك يعمل بمعاصي الله فيك
خدا کی تمہارے لیے یہ مدد ہی کافی ہے کہ تمہارا دشمن تمہارے بارے میں خدا کی نافرمانی کر رہا ہے۔
4:۔ المؤمن من دعائه على ثلاث: إما أن يُدَّخَر له، وإما أن يُعَجَّل له، وإما أن يُدفعَ عنه بلاء يريد أن يصيبه
مومن کو دعا کے بدلے میں تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے یا تو اس کا ثواب محفوظ کر لیا جاتا ہے، یا اس کی دعا کو فوری طور پر پورا کر دیا جاتا ہے، یا پھر اس دعا کے بدلے میں اسے ایسی مصیبت سے نجات دے دی جاتی ہے کہ جو اس پر آنے والی ہوتی ہے۔
5:۔ إن الله ليبغض البخيل السائل الملحف
اللہ تعالی ایسے بخیل کو شدید ناپسند کرتا ہے جو لوگوں سے مانگتے ہوئے ان سے مانگی ہوئی چیز کے لینے پر اصرار کرے۔
6:۔ ثلاث منجيات للمؤمن: كف لسانه عن الناس واغتيابهم، وإشغاله نفسه بما ينفعه لآخرته ودنياه، وطول البكاء على خطيئته
مومن کی نجات تین امور میں ہے: اپنی زبان کو لوگوں کے بارے میں باتیں کرنے اور ان کی برائی کرنے سے روکنا، اپنے آپ کو ان کاموں میں مصروف رکھنا جو اس کی دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند ہیں، اپنے گناہوں پہ طولانی گریہ کرنا۔
7:۔ نظر المؤمن في وجه أخيه المؤمن للمودة والمحبة له عبادة
اپنے مومن بھائی کے چہرہ کی طرف مودت و محبت کی خاطر دیکھنا عبادت ہے۔
زیارت امام علی زین العابدین علیہ السلام :
السَّلامُ عَلَيْكَ يَا زَيْنَ العَابِدِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا زَيْنَ المُتَهَجِّدِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ المُتَّقِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا دُرَّةَ الصَّالِحِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ المُسْلِمِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا قُرَّةَ عَيْنِ النَّاظِرِينَ العَارِفِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَلَفَ السَّابِقِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَصِيَّ الوَصِيِّينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَازِنَ وَصَايَا المُرْسَلِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ضَوْءَ المُسْتَوْحِشِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا نُورَ المُجْتَهِدِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سِرَاجَ المُرْتَاضِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا ذُخْرَ المُتَعَبِّدِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِصْبَاحَ العَالَمِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ العِلْمِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَكِينَةَ الحِلْمِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِيزَانَ القَصَاصِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ الخَلاصِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا بَحْرَ النَّدَى، السَّلامُ عَلَيْكَ بَدْرَ الدُّجَى، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الأَوَّاهُ الحَلِيمُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُهَا الصَّابِرُ الحَكِيمُ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَئِيسَ البَكَّائِينِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِصْبَاحَ المُؤْمِنِينَ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلايَ يَا أَبَا مُحَمِّدٍ، أَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ اللَّهِ، وَابْنُ حُجَّتِهِ، وَأَبُو حُجَجِهِ وَابْنُ أَمِينِهِ، وَأَبُو أُمَنَائِهِ، وَأَنَّكَ نَاصَحْتَ فِي عِبَادَةِ رَبِّكَ، وَسَارَعْتَ فِي مَرْضَاتِهِ، وَخَيَّبْتَ أَعْدَاءَهُ، وَسَرَرْتَ أَوْلِيَاءَهُ، أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ عَبَدْتَ اللَّهَ حَقَّ عِبَادَتِهِ، وَاتَّقَيْتَهُ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَأَطَعْتَهُ حَقَّ طَاعَتِهِ حَتَّى أَتَاكَ اليَقِينُ، فَعَلَيْكَ يَا مَوْلايَ يَا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَفْضَلُ التَّحِيَّةِ، وَالسَّلامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
https://alkafeel.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button