محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی سیادت

مختار حسین توسلی
ہم مکتبہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے نزدیک خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیادت ایک مسلمہ عقیدہ ہے، یعنی ہمارا عقیدہ ہے اللہ تعالی نے شہزادی کونین کو دنیا میں اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار اور آخرت میں جنت کی عورتوں کی سردار بنایا ہے، اس پر ہمارے پاس قرآن و سنت کی روشنی میں ٹھوس دلائل موجود ہیں۔
اہل سنت کی معتبر کتابوں جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، مستدرک علی الصحیحین، مسند احمد بن حنبل، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، معجم الکبیر وغیرہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیادت کے حوالے سے مختلف الفاظ اور تعبیروں کے ساتھ بہت ساری احادیث و روایات وارد ہوئی ہیں، ہم ذیل میں بطور نمونہ صرف چند حوالے نقل کرنے پر اکتفا کریں گے، صحیح مسلم میں دو مقامات پہ یہ روایت آئی ہے، ذیل میں ان میں سے ایک روایت کو نقل کرکے دوسری کا صرف حوالہ ذکر کیا جائے گا، ملاحظہ فرمائیں ۔
ابو عوانہ نے فراس سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا : ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج آپ کے پاس موجود تھیں، ان میں سے کوئی غیر حاضر نہیں ہوئی تھی، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چلتی ہوئی آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی، جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فرما یا : میری بیٹی کو خوش آمدید ! پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھایا، پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں، جب آپ نے ان کی شدید بے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو مسکرانے لگیں، میں نے ان سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، آپ روئیں (کیوں ؟ ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا ؟ انھوں نے کہا : میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا : میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا) یہاں تک کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا کہا تھا ؟ انھوں نےکہا : اب (اگر آپ پوچھتی ہیں) تو ہاں، پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا : جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کا دورہ کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبار دورہ کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل قریب آگیا ہے، اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا، میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا، اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا :” يَا فَاطِمَةُ أَمَا تَرْضِيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَتْ : فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ ۔”
یعنی : اے فاطمہ ! کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار ہو یا پھر (فرمایا 🙂 اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسا کہ آپ نے دیکھا تھا ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 6313 – 6314 ، ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن، مسلم، صحیح مسلم، مولف: امام أبی الحسین مسلم بن حجاج ابن مسلم قشیری نیشاپوری، باب فضائل فاطمہ بنت نبی، ج 7، ج 143، ناشر دار الفکر بیروت لبنان)
صحیح بخاری میں یہ روایت تین مقامات پر مختلف تعبیروں کے ساتھ مذکور ہے، ان میں سے ایک مقام پے کچھ یوں ہے :” عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ : أَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مَشْيُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ ، ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَبَكَتْ ، فَقُلْتُ : لَهَا لِمَ تَبْكِينَ ثُمَّ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ : مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ فَسَأَلْتُهَا عَمَّا، فَسَأَلْتُهَا عَمَّا، قَالَ، فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: أَسَرَّ إِلَيَّ إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ كُلَّ سَنَةٍ مَرَّةً وَإِنَّهُ عَارَضَنِي الْعَامَ مَرَّتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِي وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِي لَحَاقًا بِي فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَوْ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ ۔”
جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس حالت میں آئیں کہ ان کی چال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے بڑی مشابہت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹی آؤ مرحبا ! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا، پھر ان کے کان میں آپ نے چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہو؟ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنس دیں، میں نے ان سے کہا آج غم کے فوراً بعد ہی خوشی کی جو کیفیت میں نے آپ کے چہرے پر دیکھی وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں میں آپ کے راز کو کسی پر نہیں کھول سکتی۔
چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں کہا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال قرآن مجید کا ایک دورہ کیا کرتے تھے، لیکن اس سال انہوں نے دو مرتبہ دورہ کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ اب میری موت قریب ہے اور میرے گھرانے میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملنے والی تم ہو گی، میں (آپ کی اس خبر پر) رونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں کہ جنت کی عورتوں کی سردار ہو یا فرمایا کہ مومنہ عورتوں کی سردار ہو ، تو اس پر میں ہنسی تھی ۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3624، 6285، 6286 ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن، بخاری، صحیح بخاری، امام أبی عبد اللہ محمد بن إسماعیل بن إبراھیم ابن المغیرہ بن بردزبۃ بخاری جعفی کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب فاطمہ ج : 4 ، ص: 219 ، تاریخ اشاعت: 1401ھ _ 1981م )
مستدرک میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے :” عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم، قال وهو في مرضه الذي توفي فيه يا فاطمة ! ألا ترضين أن تكوني سيدة نساء العالمين وسيدة نساء هذه الأمة وسيدة نساء المؤمنين.
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت کی حالت میں تھے، جناب فاطمہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم عالمین کی عورتوں، اس امت کی عورتوں اور مومنہ عورتوں کی سردار ہو۔
(حاکم، مستدرک علی الصحیحین ج 3، ص 156، دار معرفت بیروت)
واضح رہے کہ اہل سنت کے منابع و ماخذ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے سیدۃ نساء المومنین، سیدۃ نساء هذه الأمة، سیدۃ النساء اہل جنت جیسی تعبیریں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں، جبکہ سیدۃ النساء العالمین کی تعبیر بہت کم نظر آتی ہے، اس کی ایک خاص وجہ ہے وہ یہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر علماء و مفسرین کے مطابق جناب سیدہ سلام اللہ علیہا عالمین کی عورتوں کی سردار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مقام حضرت مریم سلام اللہ علیہا اصل ہے۔
شیعہ منابع و ماخذ میں سیدة نساء العالمین کی تعبیر بھی برابر استعمال ہوئی ہے چنانچہ ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں :” فاطمةُ سيدةُ نساءِ العالمينَ من الأولينَ والآخرين۔” یعنی فاطمہ اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔”
(مجلسی، بحار الانوار ج: 43 ، ص : 49، موسسہ الوفا بیروت لبنان، تاریخاشاعت 1403ھ بمطابق 1983ء – صدوق، الامالی، أبی جعفر محمد بن علی بن الحسین ابن موسی بن بابویۃ قمی ملقب بہ شیخ صدوق، أبی جعفر محمد بن علی بن الحسین ابن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ شیخ صدوق، ص 175 _ 575، مؤسسۃ البعثۃ قم ایران، طبع اول 1417ھ )
یہاں پر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار ہیں، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ العالمین پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اولین وآخرین کا بھی اضافہ کرکے مطلب کو آسان بنا دیا ہے، اگر لفظ عالمین پر بھی اکتفا کیا ہوتا تو بھی اس بات کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آتی کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اول و اخر کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
یاد رہے کہ بعض روایات میں فقط ‘ عالمین ‘ کا لفظ موجود ہے اس کا اطلاق اول و آخر کے تمام زمانوں پر بھی کر سکتے ہیں اور کسی خاص زمانے پر بھی، ویسے اگر کہیں پر مطلقا عالمین کا لفظ استعمال ہو تو اس سے اول و آخر کے تمام زمانے مراد لیے جاتے ہیں، اسے کسی خاص زمانے پر منطبق کرنا چاہیں تو قرینے کی ضرورت ہوگی، البتہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیادت کے مورد میں خواہ اس سے تمام زمانے مراد لیے جائیں یا کوئی خاص زمانہ مراد لیا جائے، ہر دو صورت میں اول و آخر کی تمام عورتوں پر آپ کی سرداری ثابت ہوتی ہے، یعنی اگر عالمین سے تمام زمانے مراد لیے جائیں تو اس بات کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کہ جناب سیدہ ان سب زمانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی سردار ہیں، اور تمام زمانے مراد لینے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔
اور اگر اس سے خود حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اپنا زمانہ مراد لیا جائے تب بھی اول و آخر کی تمام عورتوں پر آپ کی سرداری ثابت ہوتی ہے، کیونکہ آپ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خواتین کی سردار ہیں چونکہ امت مصطفی باقی تمام امتوں سے افضل ہے لہٰذا آپ بھی باقی تمام امتوں کی خواتین سے افضل اور ان کی سردار قرار پاتی ہیں۔
جبکہ اہل سنت کے اکثر علماء اور مفسرین کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بجائے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے، وہ اس بات کے ثبوت کے طور پر قرآن مجید کی اس آیہ شریف کو پیش کرتے ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے: ” وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔”
ترجمہ : وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم ! اللہ رب العزت نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں عالمین کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے یعنی ان پر فضیلت و برتری دی ہے ۔”(سورہ آل عمران: 42)
اس آیہ شریفہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے خواب میں یا پردے کے پیچھے سے نہیں بلکہ براہ راست کلام کیا ہے، آیہ شریفہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کلام کرنے والے فرشتے ایک سے زیادہ تھے، چنانچہ لفظ ملائکہ استعمال ہوا ہے، اس آیہ شریفہ میں جو نکتہ مورد بحث ہے وہ یہ ہے کہ فرشتوں نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو اس بات کی بشارت دی ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں عالمین کی عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔
یہاں پے لفظ عالمین مطلق استعمال ہوا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے مراد کیا ہے، آیا اس سے مراد حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا اپنا زمانہ ہے یا اول و آخر کے سارے زمانے ہیں؟ ہم نے سابقاً عرض کیا ہے کہ عالمین سے اول و آخر کے سارے بھی مراد لیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو، جس طرح جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بیان ہوا کہ آپ کی سیادت اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں پر ثابت ہے لیکن اگر کوئی مانع موجود ہو تو ایک خاص زمانہ ہی مراد لیا جائے گا جس طرح اس مورد میں ہے، البتہ کسی خاص زمانے کو مراد لینے کے لیے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے علماء و مفسرین کے مطابق یہاں پے مطلق زمانہ مراد نہیں لیا جاسکتا بلکہ مقید زمانہ مراد لیا جائےگا، اس پر باقاعدہ قرینہ موجود ہے جو آگے چل کر بیان گا۔
اہل سنت کے اکثر مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہاں پہ عالمین سے اول و آخر کے تمام زمانے مراد ہیں، اس لیے وہ جناب مریم سلام اللہ علیہا کو اول آخر کی تمام عورتوں سے افضل سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک جن روایات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اول و آخر کی تمام عورتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے ان کا مفہوم مذکورہ بالا آیہ شریفہ کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، لہذا وہ اس آیہ شریفہ کے ظاہری معنی کے مطابق جناب مریم سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے قائل ہیں۔
شیعہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں پہ عالمین سے مراد اول و آخر کے سارے زمانے نہیں کیونکہ مانع موجود ہے، لہذا یہاں پہ عالمین سے مراد جناب مریم سلام اللہ علیہا کا اپنا زمانہ ہے، اسی طرح اہل سنت کے بعض نامور مفسرین نے بھی اسی مطلب کو بیان کیا ہے، چنانچہ صاحب تفسیر طبری اس آیت شریفہ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہاں پہ اللہ تعالی نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو ان کے اپنے زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے.
اسی طرح علامہ محمود آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: اللہ تعالی نے جناب مریم سلام اللہ علیہا کو اپنے زمانے کی عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے یہ اس بات کا لازمہ نہیں بنتا کہ وہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بھی افضل ہیں، اس کی تائید میں ابن عباس سے مروی ایک روایت کو نقل کرتے ہیں جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
” أربعُ نِسوَةِ ساداتُ عالَمِهِنَّ، مريمُ بنتُ عِمرَانَ و آسيةُ بنتُ مزَاحِمِ إمرأةُ فرعونَ وخديجةُ بنتُ خُوَيلِد و فاطمةُ بنتُ محمّدِ صل الله عليه وآله وسلم، وأفضلهُنَّ عالَما فاطمةُ.”
” چار خواتین اپنے اپنے زمانے کی سردار ہیں، مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، لیکن زمانے کے اعتبار سے فاطمہ ان سب سے افضل ہیں۔”
(کنز العمال ج: 12، ص: 145، رقم حدیث: 34411، ناشر موسسہ الرسالہ بیروت لبنان، تاریخ اشاعت 1409ھ _ 1989ء)
علامہ آلوسی مزید لکھتے ہیں کہ یہ روایت مرسلہ ہے لیکن اس کی سند صحیح ہے، لہذا اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
پس مذکورہ بالا آیہ شریفہ میں عالمین سے مراد حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا اپنا زمانہ ہے، اول و آخر کے سارے زمانے اس میں شامل نہیں ہیں، اس پر علماء و محققین نے بہت سارے شواہد و قرائن ذکر کیے ہیں ان میں سے چند ایک بطور نمونہ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :-
♦️ بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں عالمین پر فضیلت دی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَ کُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ۔”
” یعنی ہم نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو عالمین پر فضیلت دی ہے۔”(سورہ انعام آیت : 86)
اس آیہ شریفہ کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی نے مذکورہ بالا انبیاء علیہم السلام کو تمام انسانوں پر چاہے انبیاء ہوں یا غیر انبیاء فضیلت عطا فرمائی ہے، جب کہ کوئی بھی مسلمان اس بات کا قائل نہیں ہے کہ مذکورہ بالا انبیاءعلیہم السلام ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل ہیں، بلکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام سے افضل ہیں بلکہ ان سب کے سردار بھی ہیں، پس اس آیہ شریفہ کا معنی یہ بنے گا کہ مذکورہ بالا انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے زمانے کے لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔
♦️ قرآن مجید میں چند آیتیں ایسی ہیں جن میں واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو عالمین پر فضیلت دی ہے، بطور نمونہ صرف ایک آیہ شریفہ کو پیش کیا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ” وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ۔”
” اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب حکمت اور نبوت دی اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں عالمین پر فضیلت دی۔”(سورہ جاثیۃ آیت : 16)
مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ اور ان جیسی دیگر آیات میں عالمین سے مراد بنی اسرائیل کا اپنا زمانہ ہے، باقی زمانے مراد نہیں ہیں، یعنی اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے اپنے زمانے کے تمام اقوام پر فضیلت دی ہے، اسی لیے بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے، سب سے زیادہ معجزات انہیں دکھائے گئے، ان کے لیے دریا شق کیا گیا اور ان پر من و سلوا نازل کیا وغیرہ ۔
واضح رہے کہ جس طرح پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باقی تمام انبیاء کے سردار اور ان سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی امت بھی سابقہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی امتوں سے افضل ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں، تمام علماء المسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے۔
بالفرض اگر بنی اسرائیل کو اول و آخر کے تمام زمانے کی اقوام پر فضیلت دی گئی ہوتی تو انہی کو ہی خیر امت یعنی بہترین امت کے شرف سے بھی نوازا جاتا، جبکہ ہمیں قرآن مجید میں واضح طور پر ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس شرف سے امت محمدی کو نوازا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” كنتم خيرَ أمّة أُخرِجَت لِلنّاسِ……” یعنی تم بہترین امت ہو جو لوگوں(کی اصلاح) کے لیے پیدا کئے گئے ہو۔۔۔”(سورہ آل عمران: 110)
علاوہ ازیں بنی اسرائیل کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دی گئی ہوتی تو انہی کو ہی امت وسط ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوتا جبکہ قرآن مجید میں یہ اعزاز بھی امت محمدی کو دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:” وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ ۔ ” اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔”
(سورہ بقرہ: 143)
اگر بنی اسرائیل امت وسط ہوتے تو قیامت کے دن حضرت موسی ان پر اور وہ خود دیگر اقوام پر شاہد ہوتے جبکہ اس آیہ شریفہ میں امت محمدی کو امت وسط قراردیا ہے ، لہذا یہی امت قیامت کے دن باقی اقوام پر شاہد اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان پر شاہد ہوں گے، پس جن آیات شریفہ میں بنی اسرائیل کو عالمین پر فضیلت اور فوقیت دینے کی بات کی گئی ہے ان میں عالمین سے مراد بنی اسرائیل کا اپنا زمانہ ہے اول و آخر کے سارے زمانے مراد نہیں ہیں۔
♦️ اسلامی تعلیمات اور احکام کے مصادر فقط قرآن مجید میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے دو مصادر ہیں، پہلا مصدر قرآن مجید ہے جبکہ دوسرا مصدر سنت ہے، لہذا دونوں حجت ہیں اور دونوں پر عمل کرنا بھی واجب ہے، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی آیت کے ذریعے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو عالمین کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے اسی طرح انہوں نے اپنے کلام اور احادیث کے ذریعے ہمیں یہ بھی خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اولین وآخرین کی تمام کی عورتوں پر فضیلت اور سرداری عطا فرمائی ہے۔
لہٰذا حضرت مریم سلام اللہ علیہا اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار جب کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں جن میں حضرت مریم سلام اللہ علیہا بھی شامل ہیں، چنانچہ مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا :” فاطمةُ سيدةُ نساءِ العالمين، فقيل يا رسول الله ! أهي سيدة نساء عالمها.؟ فقال (صلى الله عليه واله وسلم) ذاك لمريم بنت عمران، كانت سيدة نساء عالمها، فأما إبنتي فهي سيدة نساء العالمين من الأولين والآخرين…”
یعنی: فاطمہ تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہیں، آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کیا فاطمہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟ آپ نے فرمایا: یہ مریم بنت عمران کا مقام ہے، وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں جبکہ میری بیٹی فاطمہ اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔”
(شیخ صدوق، الأمالی، مجلس : 26، ص : 187، موسسة البعثة قم، 1417 )
ایک اور مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا:” يا بنية أمَا تَرضِينَ إنك سيدةُ نساءِ العالمين، قالَت يا أبَتِ ! فأين مريمُ بِنتِ عِمرَان.؟ قال تِلكَ سيدةُ نساءِ عالمها واَنتَ سيّدةُ نساءِ عالمك.”
” یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہو، جناب سیدہ نے پوچھا پھر جناب مریم بنت عمران کا مقام کیا ہوگا۔؟ آپ نے فرمایا: اے میری بیٹی ! وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو، گویا تم تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہو۔”
(ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ج: 3 ، ص: 105 ، اشاعت : 1376)
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” إنّ فاطمةَ سيدةُ نساءِ أهلِ الجنّة.” ، ” بے شک فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔”
(البخاري، صحیح بخاری ج: 4، ص: 183، نشر 1401ھ، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ج:3، ص: 105، باب مناقب فاطمہ، تاریخ:1376ھ – صدوق، الخصال، أبی جعفر محمد بن علی بن الحسين ابن موسى بن بابويه قمی ملقب بہ شیخ صدوق، ص 573، تصحیح وتعلیق : علی اکبرالغفاری، تاریخ نشر : 18 ذی القعدة الحرام 1403ھ۔)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اُس فرمان سے اعلیٰ و ارفع مقام رکھتا ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ فاطمہ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں، کیونکہ جنت میں فقط مومنہ عورتیں ہوں گی اور جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان سب کی سردار ہونگی، جن میں جناب حوا، جناب حاجرہ، جناب سارا، جناب مریم ، جناب آسیہ اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہن جیسی برگزیدہ خواتین بھی شامل ہیں، اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آپ دنیا میں بھی بطریق اولیٰ ان سب عورتوں کی سردار ہیں۔
واضح رہے کہ ان قرائن و شواہد کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تمام امہات مومنین سے بھی افضل ہیں، نیز قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے چند معزز خواتین کو دنیا کی باقی عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے، ان میں جناب حوا، جناب حاجرہ، جناب سارہ، جناب مریم ،جناب آسیہ، جناب خدیجہ اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہن قابل ذکر ہیں، اور ضمنا یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جو مقام و مرتبہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا فرمایا ہے وہ کسی اور خاتون کو عطا نہیں فرمایا یعنی انہیں دنیا میں اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار بنایا اور اسی طرح جنت میں جنتی عورتوں کی سردار بنایا۔
مگر بدقسمتی سے صدر اسلام کے مسلمانوں کی اکثریت نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت سے رو گردانی کرکے اپنے من پسند خلفاء اور حاکموں کی پیروی کا فیصلہ کرلیا تو انہوں نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و کمالات کو بھی چھپانے کی کوشش کی تاکہ امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت و امامت کے دفاع میں ان کی طرف سے کی گئی جدوجہد کے اثر کو کم کیا جا سکے، اسی لیے انھوں نے نہ صرف آپ کے فضائل کو پھیلنے نہیں دیا بلکہ انہیں پوشیدہ بھی رکھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ فاطمہ اول و آخر کے تمام زمانوں کی عورتوں کی سردار ہیں واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ کے نقش قدم پر چلنے سے اہل ایمان خاص کر عورتیں ابدی نجات اور دائمی سعادت سے ہمکنار ہو سکتی ہیں البتہ اس کے لئے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ سیرت کی کماحقہٗ معرفت بھی ضروری ہے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے اس بلند پایہ مقام کی وجہ سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ان کے وجود مقدس پر افتخار اور ناز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ آپ نے معاویہ کے نام لکھے ہوئے اپنے ایک خط میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو دنیا کی بہترین خاتون کی حیثیت سے یاد کرتے ہوئے لکھا: ” و منا خير نساء العالمين…” یعنی ہم میں عالمین کی سب سے افضل ترین خاتون موجود ہیں۔۔۔۔۔”
اسی طرح آپ نے شوریٰ کے موقع پر بھی خير نساء العالمين کی حیثیت سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے شریک حیات ہونے کو باعث فخر قرار دیا اور اس بات کو اپنی خصوصیات میں شمار کیا۔
آخری بات یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام و مرتبے کی معرفت کا ادراک کرکے آپ کی چوکھٹ پہ سر جھکانے والوں کا نصیب دیکھیں کہ ان میں سے کوئی سلمان بن کر ” السلمان منا أهل البيت ” کی منزل پہ آ جاتا ہے، کوئی بے ذر سے ابوذر بن جاتا ہے، کوئی مقداد تو کوئی عمار بن جاتا ہے اور کوئی جناب فضہ جیسی قرآن سے کلام کرنے والی خاتون بن جاتی ہے۔ والسلام على من اتبع الهدى، أللهم على محمد وآل محمد وعجل الفرجهم.

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button