سیرتسیرت امام زین العابدینؑ

حضرت امام سجاد علیہ السلام اور صحیفۂ سجادیہ

حضرت امام سید سجادعلیہ السلام کاطریقۂ تبلیغ دعا کے پیکر میں اسلامی معارف کا بیان کرنا ہے ،ہم جانتے ہیں کہ دعا انسان اور پروردگار کے درمیان معنوی پیوند اور لگاؤ ہے جو تربیتی اور اخلاقی اثر کی حامل ہے ،اس اعتبار سے کہ اسلام کی نظر میں دعا کا ایک خاص مقام ہے۔ اگر پیغمبر اسلام ص وائمۂ معصومین (علیہم السلام )کی طرف سے جو دعائیں ہم تک پہونچی ہیں جمع کردی جائیں تو ایک بہت بڑا مجموعہ بن جائے گا ۔یہ دعائیں عظیم تربیت کا ایک مکتب ہے جو انسانوں کے رشد ونما اور ان کی اخلاقی تربیت میں ایک اہم کردار کی حامل ہیں ۔
جیسا کہ چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کےزمانےمیں حالات بہت زیادہ پرآشوب اور خراب تھے ،امام اپنے اغراض ومقاصد کو دعا اور مناجات کی شکل میں بیان کرتے تھے ،آپ کی دعاؤں کا مجموعہ جو صحیفۂ سجادیہ کے نام سے مشہور ہے قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے بعد سب سے عظیم واہم حقائق اور الٰہی معارف کا گرانقدر خزانہ سمجھاجاتا ہے کہ جسے ہمارے جلیل القدر علما ء نے اخت القرآن (قرآنکی بہن)،انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد ص کالقب عطاکیا ہے۔
صحیفۂ سجادیہ صرف خداوند عالم کی بارگاہ میں رازونیاز ،مناجات ،دعا اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم ومعارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کراں سمندر ہے کہ جس میں عقیدتی ،ثقافتی ،سیاسی مسائل ،بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام دعا کی شکل میں بیان کئے گئے ہیں۔
مرجع فقید مرحوم آیت اللہ العظمیٰ نجفی مرعشی قدس سرہ نے ١٣٥٣ھمیں علامۂ معاصر مؤلف تفسیر طنطاوی (مفتی اسکندریہ)کی خدمت میں صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ قاہرہ روانہ کیا ،انھوں نے اس گراں قدر ہدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے :
"یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ یہ گراں قدر کتاب جو میراث نبوت سمجھی جاتی ہے اب تک ہم اس سے محروم تھے اور میں جتنا بھی اس میں مشاہدہ اور غورو فکر کرتا ہوں اسے کلام مخلوق سے افضل وبرتر اور کلام خالق سے کمتر پاتا ہوں ۔ ”
صحیفہ ٔ سجادیہ ، ترجمہ سید صدر الدین صدر بلاغی ، تہران ، دار الکتب الاسلامیة ، مقدمہ ، ص ٣٧
صحیفۂ سجادیہ کی بے نظیر اہمیت اور اس کے نہایت معتبر ہونے کی وجہ سے تاریخ اسلام میں عربی اور فارسی زبان میں اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں ۔
مرحوم علامہ شیخ آغا تہرانی نے کتاب الذریعہ میں ترجمہ کے علاوہ تقریباً اس کی پچاس شرحوں کا نام تحریر کیا ہے ۔
شیخ آغا بزرگ ، الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ ، الطبعۃالثانیۃ، ج ٣،ص٣٤٥۔٣٥٩
ان شرحوں کے علاوہ گزشتہ اور معاصر کے جلیل القدر علماء کی ایک جماعت نے اس کا متعدد ترجمہ کیا ہے ۔
صحیفۂ سجادیہ 54دعاؤں پرمشتملہےکہجنکےعناوین کی فہرست اس طرح ہے :
١۔خداوندعالمکی حمد وثناء
٢۔رسولاکرم صاورانکی آل پر درود و صلوات
٣۔حاملانعرشفرشتوںپردرودوصلوات
٤۔انبیا ء کی تصدیق کرنے والوں پر درود و صلوات
٥۔اپنےاوراپنےقرابتداروںکےسلسلہمیں دعا
٦۔صبحوشامکےوقتکی دعا
٧۔مشکلاتکےوقتکی دعا
٨۔طلبپناہکےسلسلہکی دعا
٩۔طلبمغفرتکےسلسلہکی دعا
١٠۔خداکی پناہ طلب کرنے کی دعا
١١۔انجامبخیر ہونے کی دعا
١٢۔اعترافگناہکےبارےمیں دعا
١٣۔طلبحاجاتکےسلسلہمیں دعا
١٤۔ایسے ظلم و ستم کے بارے میں دعا جو ان پر ڈھائے گئے
١٥۔بیماری کی وقت کی دعا
١٦۔گناہوںسےطلببخششکےبارےمیں دعا
١٧۔شیطان پر لعن و نفرین کرنے کے بارے میںدعا
١٨۔دفعبلیات کے سلسلہ میں
١٩۔طلببارانکی دعا
٢٠۔نیک اور پسندیدہ اخلاق کے بارے میں دعا
٢١۔آپکےمحزونوغمگین ہونے کے وقت کی دعا
٢٢۔شدتوسختی کے وقت کی دعا
٢٣۔طلبعافیت کی دعا
٢٤۔والدین کے لئے دعا
٢٥۔اولادکےلئےدعا
٢٦۔پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میںدعا
٢٧۔اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے لئے دعا
٢٨۔بارگاہخداوندی میں پناہ طلب کرنے کے وقت کی دعا
٢٩۔تنگی رزق کے وقت کی دعا
٣٠۔ادائےقرضکی دعا
٣١۔دعائےتوبہ
٣٢۔نمازشبکےبعدکی دعا
٣٣۔دعائےاستخارہ
٣٤۔مشکلاتاورگناہوںکی رسوائی میں گرفتار ہونے کے وقت کی دعا
٣٥۔الٰہی قضا و قدر پر راضی رہنے کے موقع کی دعا
٣٦۔بجلی کڑک اور بادل کی گرج سننے کے وقت کی دعا
٣٧۔شکرپروردگارکےبارےمیں دعا
٣٨۔عذرخواہی کے سلسلہ میں دعا
٣٩۔طلبعفووبخششکی دعا
٤٠۔موتکو یاد کرنے کے وقت کی دعا
٤١۔گناہوںسےپردہپوشی طلب کرنے کے بارے میں دعا
٤٢۔ختمقرآنکےبعدکی دعا
٤٣۔دعائےرویت ہلال
٤٤۔استقبالماہرمضانکی دعا
٤٥۔وداعماہرمضانکی دعا
٤٦۔عیدین اور جمعہ کے دن کی دعا
٤٧۔روزعرفہکی دعا
٤٨۔ عید قربان اور جمعہ کی دعا
٤٩۔دشمنکےمکروفریب کے دفع ہونے کی دعا
٥٠۔خوفالٰہی کے سلسلہ میں دعا
٥١۔تضرعوزاری کے سلسلہ کی دعا
٥٢۔خداسےباربارالتماسکرنےکےسلسلہکی دعا
٥٣۔بارگاہخداوندی میں عجز و انکساری کی دعا
٥٤۔رنجوغمکےدورہونےکی دعا

صحیفۂ سجادیہ کے سیاسی پہلو
صحیفۂ سجادیہ صرف بارگاہ خداوندی میں دعا ،مناجات اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور عقیدتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں ۔حضرت امام سید سجاد ؑ نےاپنی دعاؤں کے ضمن میں کئی مقامات پر سیاسی مباحث بالخصوص مسئلۂ امامت اور اسلامی معاشرہ کی رہبری کو پیش کیا ہے کہ جن کے چند نمونے یہ ہیں:
١۔امام علیہ السلام بیسویں دعا ،دعائے مکارم الاخلاق میں اس طرح فرماتے ہیں :
اے خدا!محمد وآل محمدصپردرودبھیج اور مجھے اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھ پر ظلم کرتا ہے قدرت وتوانائی عطا کر اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جس نے مجھ سے مجادلہ کیا ہے زبان گویا عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے فتح وظفر عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے فریب دیتا ہے راہ چارہ اور تدبیر عطا فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے اذیت پہونچاتا ہے قدرت وطاقت عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں میری عیب جوئی اور مجھے سب وشتم کرتا ہے جھٹلانے کی قوت عنایت فرما اور دشمنوں کے خطرات سے محفوظ فرما ۔
کیاعبد الملک کے کارندوں (جیسے ہشام بن اسماعیل مخزومی)کے علاوہ وہ کون لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے امام علیہ السلام پرظلموستم  ڈھائےگئےاورانھیں اذیت پہوچائی گئی ؟اس بناء پر درحقیقت امام کی یہ دعائیں حکومت وقت کی سینہ زوری کے مقابلہ میں ایک اعتراض اور شکایت تھیں اسی لحاظ سے سیاسی پہلو کی حامل ہیں ۔
٢۔امامـکی وہ دعا جو آپ عید قربان اور جمعہ کے دن پڑھتے تھے ان دعاؤں میں اس طرح بیان ہوا ہے
"اے خدا !یہ مقام (خلافت اور امت مسلمہ کی رہبری جو عید قربان اور جمعہ کے دن اقامۂ نماز اور جمعہ کے در خطبے اسی کی شان ہے)تیرے خلفاء اور تیری برگزیدہ ہستیوں سے مخصوص ہے اور تیرے امانتداروں کا مقام ہے کہ جس کو تو نے بلند وبالا درجہ میں قرار دیا ہے ،لیکن ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے یہوں تک کہ تیری برگزیدہ ہستیاں اور تیرے خلفاء مظلوم و مقہور واقع ہوئے اس حال میں کہ وہ مشاہدہ کررہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردیئے گئے ہیں، تیری کتاب میدان عمل سے دور کردی گئی ہے ،فرائض وواجبات میں تحریف کردی گئی ہے اور تیرے پیغمبر ص کی سنت کو ترک کردیا گیا ہے ۔
اے خدا! اپنے برگزیدہ بندوں کے تمام دشمنوںاوران لوگوں پر لعنت بھیج جو ان کے اس عمل سے راضی ہیں ،نیز ان کے ساتھیوں اور ان کے پیروکاروں پر لعنت بھیج اور اپنی رحمت سے دور کر ۔
اما م علیہ السلام نےاسدعامیں بڑی صراحت کے ساتھ امامت ورہبری کے مسئلہ کو جو خاندان پیغمبر صسےمخصوصہےبیان کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے اس لئے حکومت بنی امیہ کے جائز اور شرعی ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔

٣۔”پروردگارا! درودبھیج اہل بیت عصمت وطہارت پر کہ جن کو تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کو اجرا کرنے کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ دار ،اپنے دین کا محافظ ونگہبان ،روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیا اور اپنے ارادہ ومشیت سے ان کو ہر نجاست سے پاک وپاکیزہ اور دور رکھا اور انھیں اپنی بارگاہ میں پہونچنے اور بہشت میں داخل ہونے کا وسیلہ قرار دیا…
پروردگارا ! تونے ہر زمانے میں کسی امام کے ذریعہ اپنے دین کی تائید و تصدیق فرمائی ہے کہ جس کو اپنے بندوں کا رہبر ، پیشوا اور قائد بنایاہے اور زمین پر مشعل ہدایت ، اپنی خوشنودی کا وسیلہ اور اس کی پیروی کو واجب قراردیاہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرایاہے اور جس چیزکو انجام دینے کا حکم دیاہے اس کی اطاعت اور جس چیز سے منع کیاہے اس کو قبول کرنے کا حکم دیاہے اور یہ مقرر کیاہے کہ نہ کوئی شخص اس سے سبقت کرے اور نہ کوئی اس کی پیروی سے چشم پوشی کرے …”
نیز آپ علیہ السلام نے اس دعا میں الٰہی نمائندوں اور خاندان نبوت کے اماموں کا خاص نقش اور ان کے امتیازات کو بیان کیاہے اس کے معنی یہ ہیں کہ بنی امیہ کی حکومت ناحق اور غاصب حکومت ہے اور جو اصل حقدار ہیں ان کی صفات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔لہذا صحیفہ سجادیہ دعا و مناجات کے علاوہ علوم الہیہ کا مخزن اور سمندر بے کراں ہے کہ جس سے فیص پانے والا خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس کلمات سے بھر پور فیض حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Source: https://erfan.ir/urdu/51783.html

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button