محافلمناقب امام محمد تقی عمناقب و فضائل

امام محمد تقی علیہ السلام کا یحییٰ بن اکثم کیساتھ مناظرہ

تحریر: محمد لطیف مطہری
امام محمد تقی علیہ السلام کے درباری علماء اور فقہاء سے کئی علمی مناظرے ہوئے، جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ رہا۔ ہم یہاں مامون کے دور حکومت میں امام جواد علیہ السلام کا یحییٰ بن اکثم کے ساتھ جو اہم مناظرہ ہوا، اسے بیان کرنے کی کوشش کرینگے۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا، چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جواد علیہ السلام کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: اے یحییٰ: تمہارا سوال بالکل مبہم ہے، یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا سہواً اس سے قتل ہوگیا تھا؟، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا۔؟ شکار پرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟ چھوٹا تھا یا بڑا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ رات کو چھپ کر اس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟ احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں، اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
یحییٰ کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے، جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔ مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجئے، تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو۔ امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے، بیان فرمائے، آپ نے فرمایا: اگر احرام باندھنے کے بعد "حل” میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، کفارہ دے گا اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں، اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا، یہ کفارہ اس وقت ہے، جب شکار حل میں کیا ہو۔
لیکن اگر حرم میں کیا ہو تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا، اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منیٰ میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمداً شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو، وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا۔ اس کے بعد امام جواد نے یحییٰ بن اکثم سے سوال کیا: اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو، جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی۔
امام کی زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاة یحییٰ بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرما دیں۔ امام نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی۔ اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کر دیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کر لیا، پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا، حلال ہوگئی۔ اہلیان دربار اور عباسی علماء نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں، کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔
یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال جو انہوں نے آپ کے بارے میں ذکر کئے ہیں، بیان کریں گے۔
۱۔سبط ابن جوزی: امام جواد علم، تقویٰ، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔۶
۲۔ابن حجر ہیتمی: مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا، کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم و آگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔۷
۳۔فتال نیشابوری: مامون ان کا شیدائی ہوا، کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔۸
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
۲۔ ق، ۱۶۔
۳۔ طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
۴۔ سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
۵۔ طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
۶۔ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص359۔
۷۔ ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
۸۔ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
۹۔ عاملی، مرتضیٰ، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106۔
نوٹ: اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ سے ماخوذ، www.islamtimes.org/

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button