متفرق مقالات

معرکہ کربلا اور آزادیِ انسانیت (دوسری قسط)

تحریر:سجاد حسین مفتی
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے وہ آزاد ہے چلا جائے۔ (ارشاد مفید:243)
اگر تمھارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت کا بھی تمھیں کوئی خوف نہیں ہے تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو۔(مقتل خوارزمی ج2ص33)
الف: حسینی ؑمحاذ اور آزادی کی صورتحال
۱۔ حسینی لشکرؑ کے ہر سپاہی کا دل و دماغ خواہشات نفسانی اور اخلاق رذیلہ کی آلودگیوں سے پاک تھا۔
۲۔ وہ حق طلبی ، حق گوئی ، اخلاص ، وفا، زہدو تقویٰ نیز شو ق شہادت کے حوالے سے یکتائے روزگار تھا۔
۳۔ اس کا دل معرفت الہٰی اور عشق خداوندی سے زندہ اور محمد وآل محمد ؐ کی محبت سے معمور تھا۔
۴۔ اس کی فکر،عمل اور انتخاب پر نہ تو جہل و نادانی کی گرفت تھی اور نہ ہی جاہ طلبی اور مفاد پرستی کا اثر۔ نہ وہ انتقامی جذبے سے مغلوب تھا اور نہ ہی ظلم و استبداد اور دشمن کی عسکری برتری سے مرعوب۔ حسینی ؑلشکر دشمن کے ہجوم اور ان کی خونچکاں تلواروں کے سائے میں بھی اللہ کی بندگی اور انسانی آزادی کا علمبردار تھا۔
ب: یزیدی محاذ اور آزادی کی صورتحال
یزیدی لشکر آزادی و حریت کے منافی درج ذیل صفات رذیلہ میں غرق تھا۔
۱۔ جہالت
۲۔ جاہ طلبی
۳۔مفاد پرستی
۴۔ احساس کمتری
۵۔ جذبہ انتقام
۶۔ ظاہری طاقت کا نشہ
۷۔ علم و معرفت اور ایمان وتقویٰ سے تہی دامنی
۸۔ خیانت اور غداری
۹۔عیش پرستی
۱۰۔قوت فیصلہ اور انتخاب کی نعمت سے محرومی۔
۱۱۔ امراء اور قبائلی سرداروں کی اندھی اطاعت
۱۲۔ خواہشات نفسانی اور اخلاقی برائیوں سے لگاؤ۔
۱۳۔اجتماعی بے حسی اور ظلم کے آگے خاموشی۔
یوں اموی حکمرانوں کے تربیت یافتہ یزیدی فوج اور اس وقت کا معاشرہ فکری اور معنوی آزادی کے مفہوم سے بھی نابلد تھا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button