خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:185)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک20 جنوری 2023ء بمطابق 27جمادی الثانی 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: فضائل ماہ رجب و سیرت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
چند دن بعد ہم ماہ رجب میں داخل ہو رہے ہیں۔۔ ماہ رجب کی بے شمار عظمت و فضیلت کا ائمۂ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بڑی تعداد میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اس مہینے کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول خدا ارشاد فرماتے ہیں:
إنَّ اللّهَ تَعالى نَصَبَ فِي السَّماءِ السّابِعَةِ مَلَكا يُقالُ لَهُ : الدّاعي ، فَإِذا دَخَلَ شَهرُ رَجَبٍ يُنادي ذلِكَ المَلَكُ كُلَّ لَيلَةٍ مِنهُ إلَى الصَّباحِ : طوبى لِلذّاكِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ!
ويَقولُ اللّهُ تَعالى :……..
الله تعالی نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ کو مقرر کر کے رکھا ہے اسے "داعی” کہا جاتا ہے اور جب رجب کا مہینہ آتا ہے وہ فرشتہ رجب کے تمام راتوں میں یہ ندا دیتا رہتا ہے ” کتنا خوش نصیب ہے اس ماہ میں ذکر خدا کرنے والے ؛ کتنا خوش نصیب ہے اطاعت کرنے والے”اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اس کا ھمنشین ہوں جو اس ماہ میں میرا ہم نشین ہوتا ہے،اس شخص کو بخش دیتا ہوں جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے،اسے جواب دیتا ہوں جو مجھے پکارتا ہے،اسے عطا کرتا ہوں جو مجھ سے مانگتا ہے،اور اسے ھدایت کرتا ہوں جو مجھ سے ہدایت طلب کرتا ہےاور اس مہینے کو میں نے اپنے اور بندوں کے درمیاں ایک رسی قرار دیا ہے جو بھی اس رسی کے ساتھ تمسک کرے اور اسے تھام لے وہ مجھ تک پہنچے گا۔(الإقبال : ج ۲ ص ۲۲۸)
رَجَب یا رَجَب المُرَجَّب قمری اور اسلامی سال کے ساتویں مہینے کو کہا جاتا ہے۔ رجب، ذوالقعدة، ذی الحجہ اور محرم کو اشہر الحرم یعنی حرمت والے مہینے بھی کہا جاتا ہے اور روایات کی رو سے ان مہینوں میں جنگ اور خون ریزی حرام ہے۔ احادیث میں رجب کے مہینے میں حج، عمرہ اور روزہرکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ روایات میں رجب کے مہینے کو خداوندِ متعال کا مہینہ قرار دیا گیا ہے جبکہ شعبان المعظّم کو رسولِ خداﷺ کا مہینہ اور رمضان المبارک کو آنحضرتؐ کی اُمت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔اس مہینے کی پہلی شب جمعہ کو لیلة الرغائب کہا جاتا ہے جس کے حوالے سے روایات میں مختلف اعمال اور آداب ذکر ہوئے ہیں۔ اس مہنیے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ جو ایام بیض کے نام سے معروف ہیں، میں اعتکاف جیسی عظیم سنت اور عبادت بھی انجام دی جاتی ہیں جو اسلامی عبادتوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔نیز ماہ رجب کے حوالے سے ایک مخصوص دعا "یامن ارجوہ لکل خیر۔۔۔”بھی منقول ہے جو ا س مہینے ہر واجب نماز کے بعد پڑھنےکی تاکید کی جاتی ہے۔
ماہ رجب ماہ استغفار
چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا «رجب شهر الاستغفار لاُمَّتي، فأكثروا فيه الاستغفار فإنه غفور رحيم ويسمى رجب الاصبّ لانّ الرحمة على أُمّتي تصبُّ فيه صَبّا ، فاستكثروا من قول "أَسْتَغْفِرُ الله وَأَسْأَلُهُ التَّوْبَةَ» (زاد المعاد ، ص 5)
یعنی ماہ رجب میری امت کیلئے استغفار کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرو، خدا سے بخشش طلب کرو کہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے نیز رجب کو اصبّ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر کثرت سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔
دعا، وظائف اور اعمال کی کتابوں میں بھی اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ اس ذکر کو کہنے کی تاکید ہے «اَسْتَغْفِرُ الله وَ اَسْئَلُه التَّوْبَةَ» یعنی میں خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کی توفیق مانگتا ہوں

ماہ رجب کے روزے کی فضیلت
ثوبان نامی شخص رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن آنحضرت (ص) کے ساتھ قبرستان میں تھا کہ حضرت چلتے چلتے رک گئے پھر کچھ قدم چلے اور رک گئے ، عرض کیا یا رسول اللہ (ص) اپ کے اس عمل کی وجہ کیا ہے ؟ تو حضرت (ص) زور سے زور سے رونے لگے اور فرمایا میں اہل عذاب کے رونے کی آوازیں سن رہا ہوں ، ان پر رحم کی دعا کی تو خداوند متعال نے ان کےعذاب میں کمی کردی ، اے ثوبان ! اس قبرستان میں عذاب الھی کے شکار مُردوں نے اگر ماہ رجب میں فقط ایک روزہ رکھا ہوتا اور ایک شب صبح تک عبادت میں گزاری ہوتی تو اج قبر میں عذاب نہ ہو رہا ہوتا ۔ (بحارالانوار، ج97 ، ص 26)
یہ تمام فضائل و کمالات اس ماہ یعنی رجب میں روزہ رکھنے والوں کیلئے ہیں لیکن اگر کوئی روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو روایتوں میں اس تسبیح پڑھنے کی تاکید ہے "سُبْحانَ الْاِلٰہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إِلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ أَھْلٌ ؛ پاک ہے وہ معبود اور بڑی شان والا ہے ، پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں ، پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے ، پاک ہے وہ جو لباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔ ” اگر کوئی ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تو اسے اس ماہ میں روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔( ترجمہ ثواب الاعمال ، ص 136)
ابوسعید خُدری نے مرسل اعظم کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر کوئی ان اعمال کو انجام نہ دے سکے تو کیا کرے تو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی ماہ رجب میں روزہ نہ رکھ سکے تو وہ صدقہ دے دے کہ خداوند متعال قیامت میں اسے اس قدر ثواب عنایت کرے گا کہ جسے نہ انکھوں نے دیکھا ہوگا اور کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی ذھن نے تصور کیا ہوگا ۔ (امالی صدوق، ص 542)
اور پھر حضرت (ع) نے فرمایا ” ماہ رجب میں ہر دن فقیروں کو ایک روٹی صدقہ دو ، قسم اس خدا کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں جان ہے کہ اگر اس ماہ میں ہر دن صدقہ دیا جائے تو صدقہ دینے والے کو ماہ رجب کیلئے بیان کردہ فضائل سے بھی زیادہ ثواب اور فضیلت نصیب ہوگی ۔(وسائل الشیعة، ج 10، ص 483)
ماہ رجب کی اہم مناسبات
اس مہینے میں واقع ہونے والے واقیعات میں سب سے اہم واقعہ پیغمبر اسلام ﷺکی بعثت ہے جو اس مہینے کی ستائسویں تاریخ کو پیش آیا۔ اس کے علاوہ امام باقر علیہ السلام ، امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ امام ہادی علیہ السلام اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت بھی اس مہنیے کے اہم واقعات میں شامل ہیں۔
سیرت امام محمد باقر ؑ
یکم رجب المرجب ۵۷ ھ کو پانچواں آفتاب، آسمانِ امامت کے اُفق پر همیشہ کے لئے روشن و منوّر ہوا، ان کی پوری زندگی علوم و معارف سے سرچشمہ تھی اسی وجہ سے انھیں باقر العلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، چونکہ آپ علوم کی مشکلوں کو حل کرتے، معرفت کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے اور ظلم و جور و جہالت کی تاریکیوں اور گھٹاٹوپ اندھیرے میں پوشیده اسلامی اقدار کو دورباره حیاتِ نو عطا کرتے اور انھیں آشکار کرتے تھے ۔
آپ کا سب زیاده مشہور لقب باقر یا باقر العلوم(علوم کو شگافتہ کرنے والا)تھا جس کا تذکره اکثر تاریخی منابع میں وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔حضرت کے اس لقب سے ملقّب ہونے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں چار وجوہات بیان ہوئی ہیں:
1. آپ علمی مشکلات کو شگافتہ کرتے اور اس کی پیچیده گتھیوں کو سلجھاتے تھے ۔
2. حضرت کے علوم و معارف کی کثرت کی وجہ سے آپ کو باقر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔
3. زیاده سجده کرنے کی وجہ سے آپ کی پیشانی گشاده ہوگئی تھی۔
4. کلی قوانین کے متن سے احکام الٰہی کا استنباط کرتے تھے ۔(اعیان ¬الشیعة، ج۱، ص۶۵۰)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام بھیجنا:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی کے اختتام پرامام محمد باقرعلیہ السلام کی ولادت سے تقریبا ۴۶/ سال قبل جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے امام محمد باقرعلیہ السلام کو سلام کہلایا تھا، امام علیہ السلام کا یہ شرف ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے (مطالب السؤل ص ۲۷۲)
مورخین کا بیان ہے کہ سرورکائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے پیارکر رہے تھے۔ اسی دوران آپ کے صحابی خاص جابربن عبداللہ انصاری حاضرہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا ،اے جابر!میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جوعلم وحکمت سے بھرپور ہو گا،اے جابرتم اس کا زمانہ پاؤ گے،اوراس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پرنہ آ جائے ۔
اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا، جابر نے اس خبراوراس پیشین گوئی کو کمال مسرت کے ساتھ سنا،اور اسی وقت سے اس بہجت آفرین ساعت کا انتظار کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ چشم انتظار پتھرا گئیں اورآنکھوں کا نورجاتا رہا۔
جب تک آپ بینا تھے ہرمجلس ومحفل میں تلاش کرتے رہے اورجب نورنظرجاتا رہا توزبان سے پکارنا شروع کردیا،آپ کی زبان پرجب ہر وقت امام محمد باقرعلیہ السلام کا نام رہنے لگا تولوگ یہ کہنے لگے کہ جابرکا دماغ ضعف و بڑھاپےکی وجہ سے ناکارہ ہو گیا ہے لیکن بہرحال وہ وقت آ ہی گیا کہ آپ پیغام احمدی اورسلام محمدی پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم جناب جابرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے، آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند امام محمد باقرعلیہ السلام بھی تھے، امام علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند سے فرمایا کہ چچا جابربن عبداللہ انصاری کے سر کا بوسہ دو ،انہوں نے فورا تعمیل ارشاد کیا،جابر نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا کہ ابن رسول اللہ آپ کو آپ کے جد نامدارحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایا ہے۔
حضرت نے کہا! اے جابر ان پراورآپ پرمیری طرف سے بھی سلام ہو،اس کے بعد جابربن عبداللہ انصاری نے آپ سے شفاعت کے لیے ضمانت کی درخواست کی، آپ نے اسے منظورفرمایا اورکہا کہ میں تمہارے جنت میں جانے کا ضامن ہوں(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ، وسیلہ النجات ص ۳۳۸ ،مطالب السؤل ، ۳۷۳ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، نورالابصارص ۱۴۳ ،رجال کشی ص ۲۷ ،تاریخ طبری جلد ۳ ،ص ۹۶ ،مجالس المومنین ص ۱۱۷ )
علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان بقائک بعد رویتہ یسیر“ کہ اے جابر! میرا پیغام پہنچانے کے بعد بہت تھوڑا زندہ رہو گے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا(مطالب السؤل ص ۲۷۳)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا بہت دشوار ہے، کیونکہ معصوم اور امام زمانہ کوعلم لدنی ہوتا ہے، وہ خدا کی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولد ہوتا ہے، حضرت امام محمد باقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات، علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے۔ تاہم میں ان واقعات میں سے مستثنی ازخروارے، لکھتا ہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ” علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی “ ہمیں طائروں تک کی زبان سکھا دی گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے (مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخدا ۔ خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں، لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہو کرعرض پرداز ہوا کہ :
۱ ۔ مولا کونسا اسلام بہترہےفرمایا جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے،
۲۔ کونسا خلق بہترہے؟ فرمایا ! صبراورمعاف کردینا
۳ ۔ کون سا مومن کامل ہے؟ فرمایا! جس کے اخلاق بہترہوں
۴ ۔ کون سا جہاد بہترہے ؟ فرمایا ! جس میں اپنا خون بہہ جائے
۵ ۔ کونسی نماز بہترہے ؟ فرمایا! جس کا قنوت طویل ہو،
۶ ۔ کون سا صدقہ بہترہے؟ فرمایا! جس سے نافرمانی سے نجات ملے،
۷ ۔ بادشاہان دنیا کے پاس جانے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا! میں اچھا نہیں سمجھتا، پوچھا کیوں؟
فرمایا کہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں :
۱ ۔ محبت دنیا ۲ ۔ فراموشی موت ۳ ۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھا پھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیا سے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی(گناہ) سے روکتا ہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہد اورشرف میں ساری دنیا سے فوقیت لے گئے ہیں۔ آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایا تھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا فرزند”باقرالعلوم“ ہوگا ،علم کی گتھیوں کو سلجھائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص ۱۵۷ ،علامہ شیخ مفید)
امام باقر علیہ السلام پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی:
امام باقرعلیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کی امامت کے دور میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی بناء پر ان دو اماموں کے لیے وہ راستہ فراہم ہوا جو ہرگز کسی دوسرے امام کو میسر نہیں ہوا تھا ۔ وہ حالات جو اس زمانے میں پیش آئے یہ تھے کہ اس دور میں اموی حکومت کی بنیادیں کمزور پڑ گئی تھیں ، سیاسی صورت حال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ حاکمان وقت کو فرصت نہیں تھی کہ گذشتہ حاکموں کی طرح خاندان رسالت پر دباو ڈالیں اور انہیں گوشہ نشین کرسکیں ۔یقینا اگر یہی مقدمہ سازراستے کسی بھی دوسرے امام کو فراہم ہوتے تو وہ بھی بڑے بڑے علمی مراکز کی بنیاد رکھتے اور بہت زیادہ علماء اور فقہا ء کی پرورش کرسکتے تھے ۔پس انہی حالات کی وجہ سے فقہی اور حدیثی کتابوں میں زیادہ تر امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیثیں دکھائی دیتی ہیں۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کا دور امويوں اور عباسيوں کے سياسي اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںميں تقسيم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور ميں مادي اور يوناني فلسفہ اسلامي ملکوں ميں داخل ہوا جس سے ايک علمي تحريک وجود ميں آئي- جس تحريک کي بنياد مستحکم اصولوں پر استوار تھي – اس تحريک کے لئے ضروري تھا کہ ديني حقايق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلي احاديث کو نکال باہر کرے – ساتھ ہي زنديقوں اور ماديوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خيالات کي اصلاح کرنا- نامور دھري اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمي مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا يہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کے بغير کسي اور سے ممکن نہ تھا – آپ عليہ السلام نے حقيقي عقايد اسلامي کي تشہيرکي راہ ميں علم کے دريچوں اور درازوں کو کھول ديا اور اس علمي تحريک کو پہلي اسلاي يونورسٹي کے قيام کے طور پر ديکھا جاتا ہے -آپ کے بارے ميں امام حنبل اور امام شافعي جيسے اسلام شناس کہتے ہيں:
ابن عباد حنبلي کہتے ہيں : ابو جعفر بن محمدمدينہ کے فقہا ميں سے ہيں -آپ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ نے علم کو شکافتہ کيا اور اس کي حقيقت اور جوہر کو پہچانا ہے-(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ -ج -1-ص 149)
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام کي قايم کردہ اسلامي مرکز علم(يونيورسٹي) ميں سے مايہ ناز علمي شخصيات فقہ، تفسير اور ديگر علوم ميں تربيت حاصل کر گئے جيسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعين، ابو بصير ، بُريد بن معاويہ عجلي، جابر بن يزيد، حمران بن اعين اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہيں-
علمی دروس سے امام محمد باقر علیہ السلام کے مقاصد :
آپ کی علمی تحریک کے چاربنیادی مقاصد تھے:
1- تمام چیزوں کے متعلّق اسلامی آراء و نظریات کو پیش کرنا، خاص طور سے مختلف مذاهب کے علماء و دانشمندوں کی طرف سے جو سوالات کئے جاتے تھے، اس طرح کے مطالب باعث ہوا کرتے تھے کہ دین اسلام کے پیروکار اپنے دین میں ثابت قدم رهیں اور غیر مسلمانوں کو اسلام کی برتری و فوقیّت کا اعتراف کرنا پڑتا تھا ۔
2- فقہی، کلامی، تفسیری، تاریخی اور اخلاقی امور سے متعلق جو انحرافات اور غلطیاں اموی حکومت کی طرف سے وجود میں لائی گئی تھیں یا وه چیزیں سنت نبوی سے الگ تھیں، حضرت انھیں واضح طورپر صحیح انداز میں بیان کیا کرتے تھے ۔
3- دینی معارف کے مختلف ابواب کو کھولنا جن کو بیان کرنے سے اس زمانے کے اسلامی حکمرانوں کی طرف سے ممانعت اور پابندی لگائی گئی تھی، اور ان امور سے متعلّق علم و آگہی حکمرانوں کے سیاسی نظام کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتی تھی ۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں آیا هے: "بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان سے متعلق بحثوں کو سیکھنے میں آزادی دے رکھی تھی لیکن وه چیزیں جو شرک کا باعث هوتی تھیں ان کی تعلیم سے روکتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کبھی لوگوں کو شرک آمیز کاموں کے کرنے کا حکم دیں تو لوگ اس کی (قباحت و حرمت کو) سمجھنے سے قاصر رہیں "۔(اصول کافی، ج۲، ص۴۱۵-۴۱۶)
4- بعض اسلامی دانشمندوں کا انتخاب اور ان کی تربیت و پرورش امام باقر علیہ السلام کے دستور العمل کے مطابق کرنا اور انہیں اسلامی بزرگ شهروں میں بھیجنا تاکہ حضرت علیہ السلام کے نظریات کے اعتبار سے صحیح اسلامی خدمات انجام دیں، جس کے نتیجہ میں اهلبیت پیغمبر علیہ السلام کے خلاف عرصہ دراز سے بنی امیہ کی سازش اور پرپیگنڈوں کو ناکام کرنا تھا اور اسی کے ساتھ اهلبیت علیہم السلام کے ماننے والے بعض لوگوں کی غلوآمیز افکار کو ختم کرنا وغیره تھا جو حضرت علیہ السلام کے اقدامات کے بڑے اہم پہلو ہیں ۔
تربیت اولاد کا انداز:
امام علیہ السلام نے قرآن کی آیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی تربیت کی، آپ کے ایک صحابی محمد ابن مسلم نقل کرتے ہیں: میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، اسی وقت امام علیہ السلام) کے فرزند امام صادق علیہ السلام داخل ہوئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ کھیلتے تھے، امام باقرعلیہ السلام نے بڑی خوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا اور آپ کو اپنے سینہ سے لگایا اور فرمایا: آپ کے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں، اس لکڑی سے بیکار کاموں کو انجام نہ دینا، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد میرے بعد یہ تمھارا امام ہوگا، میرے بعد اس کی اتباع کرنا، اس کے علم سے استفادہ کرنا، خدا کی قسم یہ وہی صادق ہے جس کی تعریف میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس کے شیعہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونگے۔(بحارالانوار ج۴۷، ص۱۵، ح۱۲)
امام باقرعلیہ السلام کے اس کردار سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب محفل میں آپ کا فرزند داخل ہوجائے تو اس کا احترام کرو اور پیار و محبت کے ساتھ اس کے ساتھ پیش آؤ، کیونکہ اس کے ذریعہ وہ خوش ہونگے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم بچوں کو ہمیشہ خوش رکھنےکی کوشش کریں۔
بچوں کی تربیت میں محبت اور احترام میں زیادتی نہیں کرنا چاہئے، نہ ان کو پوری طریقہ سے آزاد چھوڑ دینا چاہئے کہ جو ان کے دل میں آئے اس کو انجام دیں اور نہ اتنا قید کرنا چاہئے کہ وہ خود سے کسی بھی فیصلہ کو نہ کرسکیں، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں اعتدال کے ساتھ برخورد کریں۔
امام باقر(علیہ السلام) تربیت اور محبت کو اعتدال کے ساتھ لیکر چلتے تھے اور کبھی بھی اس میں کمی یا زیادتی نہیں کرتے تھے، جس کے بارے میں خود امام(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: « شَرَّ الْآبَاءِ مَنْ دَعَاهُ الْبِرُّ إلَى الْإِفْرَاطِ: بدترین والدین وہ ہیں جو اپنی اولاد کے ساتھ نیکی کرنے میں زیادتی کرتے ہیں۔(تاریخ یعقوبی ج۲، ص۳۲۱)
اگر اولاد کے درمیان فرق ہوں، مثلا ایک بہت زیادہ زیرک اور ہوشیار ہوں لیکن دوسرا اس طرح نہ ہو، تب بھی ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنا چاہئے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار سے نقل فرماتے ہیں: خدا کی قسم، میں اپنی بعض اولاد سے محبت کا اظھار بغیر رغبت کے کرتا ہوں، حالانکہ میری یہ محبت کا مستحق میرا دوسرا فرزند ہے، میں اس طرح اس لئے کرتا ہوں، تاکہ ان کے شر سے میرا دوسرا فرزند محفوظ رہے، اور وہ لوگ اس طرح کا کردار پیش نہ کریں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔(تفسير نورالثقلين، ج۲، ص۴۰۸)
حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بھائیوں نے حسد کی بناء پر اس طرح کا کردار پیش کیا، یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس طرح کی حسد میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں، کیونکہ حسد ان کی پوری زندگی کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔
نیکی کے دروازوں کی پہچان کرانا:
ایک دن امام باقر(علیہ السلام) نے سلیمان ابن خالد سے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمھیں نیکی کے دروازوں کا پتا بتلاؤ؟ سلیمان نے عرض کی: میری جان آپ پر قربان ہوجائے بتلائیے۔ اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے فرمایا: «الصَّوْمُ‏ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ وَ الصَّدَقَةُ تَذْهَبُ بِالْخَطِئَةِ وَ قِيَامُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ بِذِكْرِ اللَّه‏؛ روزہ جہنم کے لئے ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور آدھی رات میں کسی شخص کا اللہ کی یاد میں قیام کرنا»، اس کے بعد امام(علیہ السلام) نے اس آیت کی تلاوت کی: «تَتَجافى‏ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِع‏ (سورۂ سجده، آیت:۱۶) ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں»(الکافی،ج۲،ص۲۴)
امام باقر علیہ السلام کا مومنین کے اجتماعی حقوق کا احترام کرنا:
زراره کہتے امام باقر علیہ السلام قریش کے ایک آدمی کی تشییع جنازه میں حاضر هوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا، تشییع جنازه کرنے والوں کے درمیان عطاء نامی شخص بھی موجود تھا، اسی دوران مصیبت زدہ افراد میں سے ایک عورت نے نالہ و فریاد کی آواز بلند کی، عطاء نے اس داغ دیده عورت سے کہا: یا تم خاموش ہوجاؤ، یا میں واپس چلا جاؤں! اور اس تشییع جنازه میں شریک نہیں رہوں گا، لیکن وه عورت خاموش نہیں ہوئی، وہ گریہ و زاری کرتی رہی اور عطاء بھی تشییع جنازه کو ادہورا چھوڑ کر واپس چلاگیا۔
میں نے عطاء کے اس واقعہ کو امام علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا (اور حضرت کے ردِّ عمل کا منتظر تھا لیکن) امام علیہ السلام نے فرمایا:
"راستہ چلتے رہو، ہم اسی طرح جنازه کی تشییع کرتے رہیں گے، اس لئے کہ اگر ہم ایک عورت کے بے موقع چیخنے اور گریہ و زاری کی وجہ کسی حق کو چھوڑ دیں (اور ایک صاحبِ ایمان کے متعلق اجتماعی وظیفہ پر عمل نہ کریں) تو ہم نے ایک مردِ مسلمان کے حق کو نظر انداز کردیا ہے” ۔
زراره کا بیان ہے: تشییع کے بعد جنازه کو زمین پر رکھا اور اس پر نماز پڑھی گئی، دفن کے مراسم انجام دیئے جار ہے تھے اس دوران مصیبت زدہ شخص نے آکر امام باقر علیہ السلام کا شکریہ ادا کیا اور حضرت علیہ السلام سے عرض کیا: آپ اس سے زیاده راستہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے هیں، آپ نے ہم پر لطف و کرم کیا اور تشییع جنازه میں شرکت فرمائی، میں شکرگزار وں اب آپ تشریف لے جائیں!
زارره کہتے ہیں: میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: اس وقت صاحبِ عزا نے آپ کو واپس ہونے کی اجازت دے دی، بہتر ہے ہم واپس ہوجائیں، اس لئے کہ میں آپ کی خدمت بابرکت سے استفاده کرنا چاہتا ہوں اور کچھ سوالوں کے جواب آپ سے دریافت کرنے ہیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:
"تم اپنا کام کرتے رہو، میں صاحبِ عزا کی اجازت سے نہیں آیا ہوں کہ اس کی اجازت سے واپس هو جاؤں، مردِ مؤمن کی تشییع کا اجر و ثواب هے جس کی وجہ سے میں آیا هوں، انسان جب تک تشییع جنازه میں شریک رهے گا، مؤمن کا احترام کرے گا، وہ پروردگار عالم سے اس کا اجر و ثواب حاصل کرتا رهے گا”۔(بحار الانوار، ج46، ص301۔)

امام باقر علیہ السلام کی نظرمیں نیک عمل کی اہمیت:
بعض اوقات انسان نیک اعمال بجاتا ہے، لیکن اس کی لا پرواہی کی و جہ سے اس کے وہ نیک اعمال ضایع اور برباد ہوجاتے ہیں، ہوسکتا ہے اس لاپرواہی کی وجہ یہ ہو کہ انسان ان نیک اعمال کو چھوٹا اور حقیر سمجھتا ہے، اسی لئے ان اہمیت نہیں دیتا، جیسا کہ حضرت عبدالعظیم حسنی، امام محمد باقر(علیہ السلام) سے اس کی اہمیت کے بارے میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے جناب محمد ابن مسلم سے فرمایا:يا مُحَمَّدَ بنَ مُسلِمٍ لا تَستَصغِرَنَّ حَسَنَةً أن تَعمَلَها؛ فإنَّكَ تَراها حَيثُ يَسُرُّكَ، اے محمد ابن مسلم، نیک عمل بجالانے کو ہرگز حقیر نہ سمجھو، کیونکہ تم اسے ایسے موقع [قیامت] میں دیکھوگے جب وہ تمہیں خوش کرے گا۔
(وسائل الشیعہ، ج:۱۵، ص:۳۱۲)

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button