رمضان المبارکمکتوب دروس

ماہ رمضان المبارک کے آداب و مقدّمات

مؤلف: جناب محمد باقر رضاصاحب
انسان کوئی بھی کام انجام دینا چاہے اور پھر اسے مکمل طور سے انجام بھی دے لے لیکن اگر اس کے آداب و شرائط کا لحاظ نہ رکھے تو عام طور سے اس نتیجہ کو حاصل نہیں کرپاتا جو اس کا مقصود ہوتا ہے ۔ کسی عمل کو اس کے آداب و مقدمات کے ساتھ بجالانا ہی پیش نظر مقصد کے حصول کا باعث ہوتا ہے۔
کتنی دعائیں قبولیت کے درجہ تک نہیں پہنچ پاتیں۔ کتنی نمازیں نماز گزار کے منہ پر ماردی جائیں گی۔ کتنے روزے ایسے ہیں جو روزوں کے بجائے فاقہ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔ کتنے حج ایسے ہیں جو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں ہوتے بلکہ کفّارے لادکر لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنی محنتیں اور ریاضتیں ایسی ہیں جو اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
لہذا ضروری ہے کہ ہم جب کوئی کام انجام دیں تو اس کے آداب کا خیال رکھیں اور ان کی رعایت کریں۔ ضروری ہے کہ ان امور کی شناخت کی جائے جو ہماری ریاضتوں کو ہمارے پیش نظر مقصد و منزل سے ملادیں۔
ماہ رمضان اللہ کی برکتوں کا مہینہ ہے لہذا اس سلسلہ میں رمضان کو مد نظر رکھ کر ضرور غور کرنا چاہئے۔ تو آئیے اس سلسلہ میں کچھ وقت صرف کرتے ہیں۔ البتہ ظاہر ہے کہ یہ مباحث کی تفصیل کافی زیادہ ہے لہذا فی الوقت اس بارے میں اتنی ہی بحث کریں گے جتنی یہ مقالہ اجازت دے گا۔
ماہ رمضان کی عظمت:
ماہ رمضان کے بارے میں اجمالی طور سے یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اور اس میں خصوصی طور سے بندوں کی طرف نظر کرم کی جاتی ہے۔ اس لئے اس ماہ کا استقبال اچھے انداز میں ہونا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان ہی سے اس ماہ کی تیاری شروع کردیتے تھے اسی طرح ہمارے دیگر ائمہ علیھم السلام بھی پہلے ہی سے اس کے استقبال کے لئے تیار رہتے تھے۔ امام رضا علیہ السلام نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ کے وقت ابا صلت سے فرمایا تھا:
"اے ابا صلت! شعبان کے اچھے خاصے دن گزر چکے ہیں اور یہ اس کا آخری جمعہ ہے لہذا اس میں ہوئی کوتاہیوں کا اس کے باقی ماندہ حصہ میں تدارک کرلو، اور جو چیز تمہارے لئے مفید ہے اسے انجام دو اور جو مفید نہیں ہے اسے چھوڑدو، اور دعا و استغفار و تلاوت قرآن زیادہ سے زیادہ کرو، اور اللہ سے اپنے گناہوں کی توبہ کروتاکہ ماہ خدا اس حال میں تمہاری طرف آئے کہ تم اللہ کے لئے خالص ہوچکے ہو، اور اپنی گردن پر کوئی امانت نہ چھوڑو یہاں تک کہ اسے ادا کردو، اور اپنے دل میں کسی مومن کا کینہ نہ چھوڑو یہاں تک کہ اسے نکال پھینکو، اور کوئی گناہ نہ چھوڑو مگر یہ کہ اس سے تم اکھڑ چکے ہو، اور اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنی خلوتوں اور جلوتوں سب میں اسی پر بھروسہ کرو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے بیشک اللہ اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے، اور اس ماہ کے بقیہ حصہ میں یہ ذکر زیادہ کیا کرو”۔
”اللّهمّ اِنْ لَمْ تَکُنْ غَفَرْتَ لَنا فِيما مَضیٰ مِنْ شَعْبان فَاغْفِرْ لَنا فيما بَقیٰ مِنْه”
کیونکہ اللہ اس ماہ کے احترام میں کچھ لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔ يا ابا صلت انّ شعبان قد مضی اکثرہ۔۔۔؛
(وسائل، ج٧، ص٢١٨)
ماہ رمضان کو معصومین علیہم السلام ایک خاص انداز ایک خاص رنگ اور ایک خاص طریقہ سے گزارتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ملتا ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا، نمازیں زیادہ ہوجاتی تھیں اور دعامیں گریہ و زاری بڑھ جاتی تھی۔
"انّه اذا دخل شهر رمضان تغير لونه و کثُرت صلاته، وابتهل فی الدعاء و اشفق منه؛
(اقبال الاعمال، ج١، ص٦٩، مکتب الاعلام الاسلامی، ١٤١٤)
امام سجاد علیہ السلام کا اس مہینہ سے اتنا لگاؤ تھا کہ ماہ رمضان کو وداع کرتے ہوئے عجیب انداز اپناتے ہیں آپؑ فرماتے ہیں:
"یہ مہینہ ختم ہوا اور اپنی انقطاع مدت اور اپنے دن پورے کرنے کے بعد ہمیں داغ جدائی دے گیا اور اب ہم اسے وداع کررہے ہیں”۔
"ثمّ قد فارقنا عند تمام وقته، وانقطاع مدّته، ووفاء عدده، فنحن مودّعوہ "
(صحیفہ کاملہ سجادیہ، دعاء ٤٥،وداع رمضان)
آپ کا وداع بھی عجیب وداع ہے جسے ایک عام اور معمولی وداع نہیں کہا جاسکتا، فرماتے ہیں:
"ایسے کا وداع ہے جس کی جدائی ہمارے اوپر بڑی شاق ہے”۔
(وداع من عزّ فراقه علينا)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
سلام ہو تجھ پر کہ تیری آمد کے لئے ہم انتظار کی گھڑیاں کاٹتے تھے اور آئندہ بھی تیری آمد کے منتظر رہیں گے۔
"السلام عليک ماکان احرصنا بالامس عليک و اشدّ شوقنا غداً اليک”
ایک اور جگہ پر رمضان کی جدائی کو مصیبت سے تعبیر کرتے ہیں:
"پروردگارا! محمد و آل محمد پر درود بھیج اور اس مہینہ کی جدائی کی مصیبت کا تدارک فرما”۔
"اللهمّ صلّ علی محمّد وآل محمّد واجبِر مصيبتنا بشهرنا”
ہمارے ائمہ علیہم السلام رمضان سے مکمل استفادہ کرتے تھے اور اس سے ہونے والے فائدے کو دنیا کا سب سے بڑا فائدہ جانتے تھے:
اس مہینہ میں ملنے والا منافع دنیا کے سارے منافعوں سے بالاتر ہے۔
"و اربحنا افضل ارباح العالمین”
محمد ابن عجلان نے نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام کو یہ کہتے سنا کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نہ کسی غلام کی تنبیہ کرتے تھے اور نہ ہی کنیز کی، اور جب کوئی غلام یا کنیز غلطی کرتے تھے تو اسے لکھ لیتے تھے کہ فلاں نے فلاں وقت یہ غلطی کی ہے اور سزا نہیں دیتے تھے اور ان کے ساتھ اخلاق و ادب سے پیش آتے تھے۔ پھر جب رمضان کی آخری رات آتی تھی تو ان سب کو بلاتے تھے اور اپنے پاس اکٹھا کرتے تھے پھر وہ نوشتہ کھولتے تھے اور کہتے تھے: کہ مثلا فلاں نے یہ غلطی کی تھی اور میں نے نہیں ٹوکا تھا۔ وہ کہتا تھا :ہاں یابن رسول اللہ!
یہاں تک کہ سب کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے اور آخر میں ان کے درمیان کھڑے ہوکر کہتے تھے کہ بآواز بلند یہ کہو کہ: اے علی ابن الحسین علیھما السلام اللہ نے آپ کے سارے اعمال کو بھی اسی طرح ایک ایک کرکے لکھا ہے جیسا کہ آپ نے ہمارے اعمال کو لکھا ہے۔ اس کے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کی بنیاد پر آپ کے خلاف بولنے کی طاقت رکھتی ہے اس سے کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عمل نہیں چھوٹتا وہ سب کچھ لکھتا ہے اور آپ کا ہر عمل اس کے پاس حاضر ہے جیسا کہ ہم نے اپنے تمام اعمال کو آپ کے پاس حاضر پایا، ہمیں معاف کردیں اور بخش دیں جیسا کہ آپ امیدوار ہیں کہ اللہ آپ کو معاف کردے اور بخش دے، اور جیسے آپ چاہتے ہیں کہ معاف کیاجائے اسی طرح آپ بھی ہمیں معاف کردیں تو آپ اس کو بخشنے والا اور مہربان پائیں گے۔ اور آپ کا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ جیسے آپ کے پاس کتاب ہے جو حق کی بنیاد پر ہمارے خلاف بولتی ہے،ہمارا چھوٹا بڑا ہر طرح کا عمل لکھتی ہے۔
لہذا اے علی ابن الحسین علیھما السلام اپنے حاکم وعادل رب کے نزدیک اپنے ادنی مقام کو یاد کریں جو ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتا، اور قیامت کے دن اسے سامنے لائے گا، اور اللہ کافی ہے اور ہرچیز پر گواہ ہے، لہذا ہمیں معاف کریں اور بخش دیں اللہ آپ کو معاف کرے گا اور بخش دے گاکیونکہ اس کا فرمان ہے۔
وَلْيعْفُوْا وَلْيصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّونَ اَن يغْفِرَ اللّٰه لَکُمْ
(نور:٢٢)
یہ سب آپ خود بھی یہ کہتے رہتے تھے اور ان سے بھی کہلواتے رہتے تھے اور وہ آپ کے ساتھ ساتھ بآواز بلند کہتے رہتے تھے اور آپ ؑ روتے رہتے تھے اور کہتے رہتے تھے کہ پروردگارا! تو نے حکم دیا ہے کہ جس نے ہم پر ظلم کیا ہے ہم اسے معاف کردیں اور ہمارے اوپر ہمارے نفسوں نے ہی ظلم کیا ہے تو جیسا تو نے کہا ہم نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کردیا لہذا اب تو بھی ہمیں معاف فرما کیونکہ معاف کرنے کے لئے ہم سے اور اپنے حکم کے دوسرے مخاطبین سے زیادہ تو حقدار ہے۔
اور تو نے حکم دیا ہے کہ ہم کسی سائل کو اپنے دروازے سے واپس نہ کریںاور ہم تیرے در پہ سائل و مسکین بن کر آئے ہیں اور تیرے در پہ اور تیری چوکھٹ پر بیٹھے ہیں، ہم تیری بخشش، خیراور عطا کے طالب ہیں، لہذا ہم پر احسان کر اور ہمیں محروم نہ کر، کیونکہ تو ہم سے اور اپنے حکم کے مخاطبین سے زیادہ اس کا سزاوار ہے، پروردگارا تو صاحب عزت ہے لہذا مجھے عزت عطا کر کیونکہ میں تیرے در کا سائل ہوں، اور تو خیر و نیکی کا سخی ہے تو اے کریم مجھے بھی اپنے در سے پانے والوں میں شمار کرلے۔
(بحار، ج٩٥، ص١٨٧)
غفلت:
غفلت ایسی مصیبت ہے جس کی وجہ سے انسان کا معنوی نقصان بھی ہوتا ہے اور روحانی بھی۔ غفلت سے بچنے اور ہمہ وقت حاضر دماغ اور متنبہ رہنے کی ہمارے یہاں کافی تاکید کی گئی ہے۔
غفلت کے نقصانات اور اس کے آثار کے سلسلہ میں قرآن نے کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے:
غفلت کے آثارو نقصانات
١۔ روزی کی تنگی:
قرآن کا صریحی اعلان ہے کہ غفلت، روزی کی تنگی کا باعث ہوتی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے
"ومَن اعرض عن ذِکرِی فَاِنّ له معِيشةً ضنکاً ونحشرہ يوم القِيامِة اعمی”
(طہ:١٢٤)
” جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کی روزی تنگ رہے گی”۔
یہ ظاہرا ایک مادی نقصان ہے جو دنیا ہی میں ظاہر ہوگا۔ اس کے علاوہ مذکورہ آیت کے تسلسل میں ایک معنوی نقصان کا تذکرہ ہے جو اس سلسلہ کا دوسرا نقصان ہے:
٢۔ قیامت میں اندھا اٹھایا جانا:
"ونحشرہ يوم القِيامِة اعمی”
(طہ:١٢٤)
” ہم قیامت میں اسے اندھا اٹھائیں گے”۔
یہ ایک معنوی نقصان ہے جو قیامت میں ظاہر ہوگا۔ایک اور معنوی نقصان ہے جو اس سے آگے کی آیت میں ہے:
٣۔ قیامت میں بھلادیا جانا:
"وکَذلکِ اليومَ تُنسیٰ”
(طہ:١٢٦)
"اور آج تجھے بھلادیا جائے گا”۔
یہ بات بھی عجیب ہے کہ اس نے اللہ سے غفلت کی تو اللہ نے قیامت میں اسے بھلادیا۔
٤۔ شیطان کی ہمنشینی:
"ومن يعشُ عن ذِکرِ الرحمٰنِ نُقيض له شيطاناً فهو له قرِين”
(زخرف:٣٦)
"اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان بھیج دیں گے جو اس کے ساتھ رہے گا”۔
٥۔ خود فراموشی:
"ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو خودفراموشی’ میں مبتلا کردیا”۔
(حشر:١٩)
یہ ہیں غفلت کے آثار و نقصانات جو مادی بھی ہیں اور معنوی بھی ۔ لہذا دنیاوی اور اخروی نقصانات سے بچنے کے لئے ہمیں ماہ رمضان میں غفلت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں چاہئے کہ رمضان کے ایک ایک لمحہ کو اپنے لئے غنیمت سمجھیں کیونکہ سال میں صرف ایک بار ہم کو یہ موقع ملتا ہے۔
البتہ غفلت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ غفلت کے اسباب کیا ہیں اور انسان غفلت میں مبتلا کیوں ہوجاتا ہے۔ تو آیئے اس پر بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں:
غفلت کے اسباب قرآن نے غفلت کے مختلف اسباب بیان کئے ہیں :
١۔مال و اولاد:
"اے ایمان لانے والو! تمہاری اولاد اور تمہارا مال تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے”۔
(منافقون:٩)
ایسا بہت سے موقعوں پر ہوتا ہے کہ اپنے کاروبار کی وجہ سے کوئی اللہ کے ذکر سے غافل ہوجائے، مال دنیا اسے اللہ سے غافل بنادے۔ اسی طرح اولاد کی چاہت اور اولاد کی جائز ناجائز آرزؤں کو پورا کرنے کی دھن بھی انسان کو اللہ سے غافل کردیتی ہے۔
٢۔ عیش و آرام:
” (وہ لوگ جواب میں کہیں گے) تو پاک و پاکیزہ ہے ہماری کیا مجال کہ تیرے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنائیں، لیکن ہاں تو نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو نعمتوں سے نوازا یہاں تک کہ یہ لوگ ذکر کو بھول گئے”۔
(فرقان:١٨)
دنیا کا عیش و آرام اور دنیاوی سہولیات ایسی چیزیں ہیں جن سے سبب غفلت کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو شروع میں اچھے تھے، اللہ کی یاد میں مصروف تھے لیکن جیسے ہی انھیں کچھ عیش و آرام میسر ہواوہ اللہ کو بھول گئے اور دنیاوی چمک دمک میں ڈوبتے چلے گئے۔
٣۔دنیا طلبی:
"لہذا اے رسول آپ اس شخص سے منہ پھیرلیں جس نے ہمارے ذکر سے منہ موڑا اور جو دنیاوی زندگی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا”۔ (نجم:٢٩)
یہ آیت ظاہرا ان لوگوں کے بارے میں ہے جو دنیاوی عیش و آرام میں مبتلا نہیں ہیں اور ابھی دنیاوی عیش و عشرت ان کو حاصل نہیں ہوپائی ہے لیکن وہ دنیاوی عیش و آرام کے تعاقب میں ہیں اور اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ اللہ کو بھلا بیٹھے ہیں۔
٤۔معاشی سرگرمی:
"وہ لوگ جنھیں تجارت اور (خریدو) فروش، ذکر خدا سے غافل نہیں کرتی”۔
(نور:٣٧)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی سرگرمی اور معاشی تگ و دو انسان کو اللہ سے غافل کرسکتی ہے۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ سے غفلت میں نہیں پڑتے بلکہ دنیاوی و معاشی سرگرمی کے ساتھ ساتھ اللہ کا تذکرہ کو بھی اپنی زندگی کا شعار بنالیے ہیں۔
قرآنی ہدایات کے مطابق اگر ہم مذکورہ اسباب غفلت سے دوری اختیار کریں تو رمضان المبارک سے صحیح اسفادہ کرسکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے :
"رمضان اللہ کا مہینہ ہے اس ماہ میں لا الہ الّا اللّہ، اللّہ اکبر، الحمد للّہ، سبحان اللّہ کا ذکر زیادہ کریں اور اللہ کی تمجید کریں یہ مہینہ فقراء کی بہار ہے”۔
(بحار، ج٩٣، ص٣٨١)
قرآن کی تلاوت
قرآن کی عظمت:
قرآن کی عظمت ہر مسلمان کے لئے کم و بیش واضح ہے اور بہت سی آیات و روایات سے اس کی عظمت واضح ہوتی ہے یہاں صرف ایک آیت پیش کی جاتی ہے۔
"اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوگیا ہے”۔
(حشر:٢١)
رمضان المبار ک میں تلاوت قرآن کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اس طرح کہ اس ماہ میں ایک آیت کی تلاوت کرنے والے کو ختم قرآن کا اجر ملتا ہے۔
"مَن تَلا فیہ آیةً مِن القرآنِ کانَ لَہُ مِثلُ مَن خَتَمَ القرآن فی غیرہ”
( بحار، ج٩٣، ص٣٥٧)
علی ابن مغیرہ کہتے ہیں کہ میں امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میرے والد نے آپ کے جد سے ہر رات کو ختم قرآن کے سلسلہ میں سوال کیا تھا انہوں نے فرمایا تھا کہ رمضان المبارک میں جتنا ممکن ہو اسے انجام دو ، تو میرے والد رمضان میں چالیس ختم قرآن کیا کرتے تھے۔
والد کے بعد اب میں بھی اسی طرح کرتا ہوں کبھی چالیس سے کم اور کبھی زیادہ۔ یہ میری مصروفیت، فراغت اور ہمت و حوصلہ پر ہوتا ہے، پھر جب عید فطر آتی ہے تو ایک ختم قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ایک ایک دیگر ائمہ کے لئے قرار دیتا ہوں یہاں تک کہ ایک ختم قرآن آپ کے لئے قرار دیتا ہوں، میرے لئے اس کا کیا ثواب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تمہارے لئے یہ پاداش ہے کہ تم قیامت میں ان کے ساتھ ہوگے، میں نے کہا اللہ اکبر کیا مجھے یہ شرف ملے گا؟ تو آپ نے تین بار فرمایا: ہاں۔
"قلت لہ ان ابی سال جدّک علیہ السلام۔۔۔ قال نعم ثلاث مرّات”
( بحار، ج٩٥، ص٥)
وہب ابن حفص کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ قرآن کو کتنے دن میں ختم کرنا چاہئے آپ نے فرمایا کہ چھ دن میں یا اس سے زیادہ میں، میں نے عرض کی رمضان المبارک میں کتنے دن کے اندر؟ فرمایا: تین دن کے اندر یا اس سے زیادہ ۔ "قال سالته عن الرجل فی کَم يقرا القرآن، قال فی ستّ، فصاعداً، قلتُ: فی شهر رمضان؟ قال: فی ثلاث، فصاعداً”
( بحار، ج٩٥،ص٦)
اور یہ حدیث تو بڑی مشہورہے کہ ہر چیز کی ایک بہار ہوتی ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔
"لکلّ شيئٍ ربيع و ربيع القرآن شهر رمضان”
( بحار، ج٨٩، ص٢١٣)
امام خمینی کے بارے میں ملتا ہے کہ آپ ماہ رمضان میں اپنی ملاقاتوں کو ملتوی کردیتے تھے۔ امام خمینی کے ایک قریبی شخص کا کہنا ہے کہ آپ اس لئے ان ملاقاتوں کو ملتوی کرتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ دعا، قرآن اور دیگر عبادت کرسکیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ رمضان بجائے خود ایک کام ہے۔
آپ جب نجف میں تھے تو رمضان میں ہر روز دس پارے پڑھتے تھے، یعنی ہر تین دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔ بعض بڑے خوش تھے کہ انہوں نے رمضان میں دوبار قرآن ختم کیا ہے لیکن بعد میں انھیں پتہ چلا کہ امام خمینی نے دس گیارہ بار ختم قرآن کیا ہے۔

ہدایت و رحمت کا وسیلہ
اللہ نے قرآن کو مومنین کے لئے ہدایت ورحمت کا وسیلہ قرار دیا ہے:
"یہ قرآن مومنین کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔”‘
(یونس:٢٣)
لہذا اس کی تلاوت اور اس سے تعلق یقینا ایک مومن کی ہدایت اور اللہ کی رحمت کا سبب بنے گا۔
بیماری کے لئے شفا
رحمت و ہدایت کے علاوہ اللہ نے قرآن کریم کو شفا بھی قرار دیا ہے :
"ہم قرآن میں سے نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارے کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا”۔
(اسرا:٨٢)
تلاوت قرآن کا فائدہ:
الہی انعام قرآن کی تلاوت خود قرآنی ارشاد کے مطابق اللہ کی طرف سے انعام کا باعث بنتی ہے۔ یہ انعام کیا ہوگا اسے قرآن یوں بیان کرتا ہے :
"جو لوگ کتاب خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور جنھوں نے نماز قائم کی اور ہمارے عطاکردہ رزق میں سے اعلانیہ اور چھپ کر انفاق کرتے ہیں، وہ خسارے سے خالی اور کساد بازاری سے پاک تجارت کے امیدوار ہیں”۔
(فاطر:٢٩)
شکر الہی:
اللہ کا شکر ادا کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اور شکر الہی کا شمار واجبات میں ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں اس کا لزوم دوچنداں ہوجاتا ہے کیونکہ یہ ماہ اللہ کی نعمتوں کا مہینہ ہے لہذا نعمتوں کا شکر بھی اسی قدر ضروری ہے۔ شکر کے یوں تو بہت سے فوائد ہیں لیکن قرآن میں خاص طور سے دو فوائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
١۔نعمتوں میں اضافہ:
” اگر شکر کروگے تو میں (نعمتوں میں) اضافہ کروںگا اور اگر (نعمتوں کو) جھٹلاؤگے تو میرا عذاب شدید ہے”۔
(ابراہیم:٧)
واقعا انصاف کی بات بھی یہی ہے کہ اگر کوئی ،نعمت دینے والے کا شکر ادا نہ کرے تو اسے سزا ضرور ملنا چاہئے اور اگر کوئی نعمتوں کا شکر ادا کررہا ہے تو یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔
اگر اللہ نے نعمتیں دیں اور انسان شکرگزار نہ ہو اور پھر نعمتیں چھن جائیں تو اپنے آپ ہی کو ملامت کرنا چاہئے۔
٢۔الہی ہدایت:
"(جناب ابراہیم علیہ السلام) اس کی نعمت کے شکر گزار تھے تو اللہ ان کو منتخب کیا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی”۔
‘(نحل:١٢١)
گناہوں سے پرہیز:
اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان کی تعداد، جائز اور حلال چیزوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اللہ کے احکام کی زندگی بھر اور لمحہ لمحہ پیروی کرتا رہے۔ لیکن یہ ضرورت ماہ رمضان میں زیادہ ہوجاتی ہے اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے لہذا اس مہینہ میں اگر اللہ کی اطاعت نہ ہوپائی تو کافی مشکل پیدا ہوگی۔
گناہوں کی دوقسمیں کی جاتی ہیں ایک گناہ کبیرہ اور دوسرے گناہ صغیرہ۔ گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ اور گناہ صغیرہ یعنی چھوٹا گناہ۔ یعنی شریعت نے گناہوں کے مرتبہ رکھے ہیں۔ البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گناہ کا چھوٹا ہونا اس کے جائز ہونے کا سبب نہیں بنتا بلکہ گناہ گناہ ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اللہ کی نافرمانی دونوں ہی میں ہے وہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ۔ بلکہ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ہر وہ گناہ بڑا ہے جس کو انسان چھوٹا سمجھے۔
(نہج البلاغہ، حکمت:٣٤٨)
اس لئے گناہوں کی تقسیم بندی سے کسی کو یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ چھوٹے گناہ میں اللہ کی نافرمانی کم ہے۔
قرآن میں مذکور گناہان کبیرہ کو اس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے:
١۔شرک :
"اللہ شرک کو معاف نہیں کرسکتا اور اس سے چھوٹے گناہوں کو جس کے حق میں چاہے معاف کرسکتا ہے”۔
(نساء:١١٦)
یہ کہا جاسکتا ہے کہ سب سے بڑا گناہ یہی شرک ہے اس لئے کہ اللہ جو کہ کریم ہے رحیم ہے غفور ہے وہ ہر گناہ کو معاف کرنے کے لئے تیار ہے لیکن شرک سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔
٢۔اللہ کی رحمت سے مایوسی اور ناامیدی:
"اللہ کے فیض و رحمت سے مایوس نہ ہو (کیونکہ) اللہ کے فیض و رحمت سے صرف کفار کا گروہ ہی مایوس ہوتا ہے”۔
(یوسف:٨٧)
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اللہ کی رحمت سے صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں”۔
(حجر:٥٦)
ان آیات کے حساب سے اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر و گمراہی کی علامت ہے۔ لہذا ہمیشہ اللہ کی طرف توجہ اور اس کی رحمت کی امید رکھنا چاہئے۔
٣۔ تدبیر الہی سے بے خوف ہونا:
"کیا یہ لوگ تدبیر الہی سے بے خوف ہوگئے تو اللہ کی تدبیر سے بے خوف وہی ہوتے ہیں جو گھاٹے میں ہیں”۔
(اعراف:٩٩)
اپنے آپ کو الہی تدبیر سے بالاتر سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ اللہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا یہ بڑی خوش فہمی ہے اور ایسا انسان بڑے گھاٹے میں رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے منصوبوں کے لحاظ سے کتنی ہی منصوبہ بندی کیوں نہ کرلے اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ کام کے حواشی و جوانب پر کتنا ہی احتیاط اور زیرکی کے ساتھ نگاہ کیوں نہ ڈال لے پھر بھی اگر اللہ کی تدبیر کے مقابل ہو تو ذرہ برابر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بات تاریخ انسانیت کی سیکڑوں بار کی آزمائی ہوئی بھی ہے۔طوفان نوح علیہ السلام میں فرزند نوح کا ڈوبنا، دربار فرعون میں حضرت موسی علیہ السلام کا پروش پانا، جناب ابراہیم علیہ السلام کا بھڑکتی آگ سے صحیح سالم نکل آنا، شداد کا اپنی ہی جنت کے نظارے سے محروم رہ جانا اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنی مثالیں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کی تدبیر ہر تدبیر سے بالاتر ہے۔
٤۔ قتل:
"اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کردے تو اس کی سزا دوزخ ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اور لعنت اس پر ہے اور اللہ نے اس کے لئے عظیم عذاب تیار کررکھا ہے”۔
(نساء:٩٣)
٥۔ قطع رحم:
"جو لوگ پختہ کرنے کے بعد اللہ سے کئے عہد کو توڑدیتے ہیں اور جس (رشتہ) کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ گھاٹے میں ہیں”۔
(بقرہ:٢٧)
جو قریبی رشتہ دار ہیں ان کے ساتھ اچھے روابط رکھنا ضروری ہے اور تعلقات کو توڑنا نہایت غلط کام ہے اچھے برے وقت میں ان کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ صلہ رحم کیجئے چاہے ایک بار سلام کرنے کے ذریعہ ہی ہو۔
البتہ ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام اور حسن روابط کی برقراری یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ ہوتی ہے جیساکہ اردو کا محاورہ بھی ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں بجتی ہے۔ لہذا یہ کام دونوں طرف سے ہونا چاہئے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے اقدام کو چھوڑکر صرف دوسرے افراد سے یہ توقع رکھے کہ وہ آکر اس کے ساتھ صلہ رحم کرے۔ البتہ یہ انتہائی باریک بینی کا کام ہے اور اس کے مصداق کی تشخیص آسان کام نہیں ہے لہذا بڑے احتیاط اور فرض شناسی کے ساتھ اسے انجام دینا چاہئے۔
٦۔یتیموں کا مال کھانا:
"جو لوگ یتیموں کے مال کو ظالمانہ طریقہ سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب واصل جہنم ہوجائیں گے”۔ (نساء:١٠)
یہ گزر چکا ہے کہ یتیم وہ محروم ہیں کہ نہ دوسرے ان کی مدد کرتے ہیں اور نہ وہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک کہ ان کو اپنی مدد کرنے کا شعور تک نہیں ہوتا۔
٧۔بدکاری (زنا):
"اور زنا کے قریب نہ جاؤ، یہ انتہائی گندا کام اور برا راستہ ہے”۔
(اسرائ:٣٢)
دیگر شریعتوں میں بھی یہ حرام تھا اور دین اسلام میں بھی حرام ہے اور اس کے لئے سخت سزا کا حکم دیا گیا ہے۔
٨۔شراب خوری:
"اے ایمان لانے والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ یہ سب شیطانی گندے اعمال ہیں ان سے پرہیز کرو شاید تم لوگ نجات پاجاؤ”۔
مذکورہ چیزیں ایسی ہیں جن میں دنیاوی نقصان بھی ہے اور اخروی بھی کیونکہ دنیا میں وقت بربادی کاسبب ہوتے ہیں اور آخرت میں دوزخ کا۔
(مائدہ:٩٠)
٩۔پیماں شکنی:
"جو لوگ پختہ کرنے کے بعد اللہ سے کئے عہد کو توڑدیتے ہیں اور جس (رشتہ) کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ان کے اوپر اللہ کی لعنت اور ان کے لئے برا ٹھکانہ ہے "۔
(رعد:٢٥)
١٠۔امانت میں خیانت:
"اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت کو صاحب امانت تک پہنچادو”۔
(نساء:٥٨)
١١۔کم فروشی:
"ویل ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے، یہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا مال لیتے ہیں، اور جب لوگوں کے لئے ناپ تول کرتے ہیں تو کم کردیتے ہیں، کیا ان لوگوں کو یہ گمان (بھی) نہیں کہ ایک روز یہ لوگ اٹھائے جائیں گے،ایک عظیم دن کے لئے، جس دن لوگ رب العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے”۔
(مطفّفین:٦)
کم فروشی ایسی بیماری ہے جس میں عام طور سے لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ خریدیں تو پورا پورا لیں اور بیچیں تو ڈنڈی ماردیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا مال حلال میں شمار نہیں ہوگا اور اس سے تیارکردہ لباس وغیرہ میں عبادت بھی درست نہیں ہوگی لہذا وہ محنت بھی ضائع جائے گی جو نماز جیسی عبادتوں کے لئے کی گئی ہے اور وہ لقمہ حرام اگر شکم میں چلا گیا تو گوشت و پوست بھی حرام کے مال سے نمو پائے گا جس کی تلافی بہت مشکل ہے۔
١٢۔سود خوری:
"اے ایمان لانے والو دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤاور اللہ سے ڈرو شاید نجات پاجاؤ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافرین کے لئے تیار کی گئی ہے”۔
(آل عمران:١٣٠،١٣١)
سود خوری کو اس آیت میں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے کہسود خور کو کفار کے لئے تیار کی گئی آگ سے ڈرنے کے لئے کہا گیا ہے گویا جو آگ کفار کے لئے ہے وہی سود خور کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ عجیب بات یہ ہے کہ شروع میں کہا گیا کہ
"اے ایمان لانے والو’ اور پھر کفر کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے یعنی سود ہی ان کے کفر کا سبب ہے”۔
١٣۔جہاد سے فرار:
"اے ایمان لانے والو! جب تم میدان جنگ میں کفار کے سامنے آؤ تو انھیں پیٹھ نہ دکھانا”۔
(انفال: ١٦)
١٤۔اسراف (فضول خرچی):
” کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، وہ اسراف کرے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ ”
(اعراف:٢٩)
فضول خرچی گناہ کبیرہ بھی ہے اور دوسری طرف انسان کا دنیاوی نقصان بھی ہے کیونکہ اس کا مال بے فائدہ چلا جاتا ہے جس کا ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوتا۔ فضول خرچ انسان اپنے ہاتھ سے اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے۔
١٥۔ مسلمانوں سے جنگ کرنا:
"جو لوگ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرنے میں لگے رہتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں پھانسی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پیروں کو مختلف سمتوں سے کاٹا جائے یا جلا وطن کردیا جائے یہ ان کی دنیاوی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے”۔
(مائدہ: ٣٣،٣٤)
مسلمانوں کے درمیان یا دوسری جگہوں پر فساد پھیلانا اور جھگڑا کھڑا کرنا یہ خود گناہ ہے اور اس کی سزا قرآن نے خود بیان کردی ہے۔ لہذا اس صورت میں خود مسلمان معاشرے کے مقابل آنے سے بچنا چاہئے تاکہ مذکورہ سزا کے مستحق قرار نہ پائیں۔
١٦۔مردار، خون اور خنزیر کھانا:
"اور تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت”۔
(مائدہ:١٣)
یہ چیزیں ویسے بھی نفرت انگیز ہیں لہذا اس سے پرہیز نسبتاً آسان ہے۔ ویسے بھی کھانے کے لئے دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جو لذت و ذائقہ میں ان سے کہیں بڑھ کر ہیں تو انسان کیوں حرام خوری کے پیچھے جائے؟
١٧۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا:
(روم:٣١)
"نماز قائم کریں اور مشرکین میں سے نہ ہوجائیں”۔
مار رمضان میں نماز کے اوپر زیادہ تاکید و توجہ ہونا چاہئے اگر یہاں بھی نماز سے دوری رہی تو بہت ہی حیف ہوگا۔ نماز ویسے بھی دین کا ستون ہے اور اس کے بارے میں ہے کہ اگر قیامت میں یہ قبول ہوگئی تو باقی اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر یہ مسترد کردی گئی تو باقی اعمال بھی مسترد کردئے جائیں گے۔شاعر کا شعر بھی ہے
روز محشر کہ جاں گداز بُوَد
اوّلیں پرسش نماز بُوَد
لہذا نماز کی طرف توجہ انسان کی فلاح وبہبود میں ایک اہم کردار رکھتی ہے جس سے غفلت کرنے میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
١٨۔ زکات نہ دینا:
”مشرکین پر ویل ہو جو زکات نہیں دیتے ہیں اور وہ آخرت کے منکر ہیں”۔
(فصلت:٦،٧)
١٩۔بدگمانی اور غیبت:
"اے ایمان لانے والو! بہت سے گمانوں سے بچو، کچھ گمان گناہ ہوتے ہیں، اور (ایک دوسرے کی) جاسوسی نہ کرو، اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے”۔
(حجرات:١٢)
اکثر سماجی برائیاں اور لڑائی جھگڑے انھیں صفتوں کی بنیاد پر ہیں کہ ہم یا کسی کے سلسلہ میں بد گمان ہیں یا اس کی غیبت کرتے ہیں یا پھر اس کی ٹوہ میں رہتے ہیں جس سے مزید بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جہاں بدگمانی نے کام خراب کیا اور پھر بدگمانی بے بنیاد ثابت ہوئی۔ مثلا ایک صاحب کی کسی سے آشنائی ہوئی سلام کلام ہوا بہرحال اس ملاقات کے بعد جب دوسری بار انہوں نے انھیں ایک جگہ دیکھا تو سلام کیا لیکن دوسرے صاحب نے سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کے سلام کے جواب میں ان کی طرف دیکھ کر عجیب سا منہ بنایا۔
انہوں نے سوچا کہ یہ عجیب انسان ہے ایک تو سلام کا جواب نہیں د ے رہا دوسرے عجب طرح کا منہ بنا رہا ہے بہر حال انہوں نے اس وقت اس واقعہ کو ٹال دیا اور ذہن میں ایک سوال لیکر اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے ایک بار پھر ان سے ملاقات ہوئی یہ صاحب دل کے ذرا اچھے تھے اس لئے اگرچہ ایک بار سبکی ہوچکی تھی لیکن پھر بھی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرکے سلام میں پہل کی اور پھر وہی جواب ملا یعنی انہوں نے سلام سن کر عجیب سا منہ بنایا۔
جب دوبار یہ واقعہ ہوگیا تو سلام کرنے والے صاحب سنجیدہ ہوگئے اور انھیں بڑا برا لگا اور انہوں نے آخر کار مجبورا ًاس آدمی کا نام بداخلاقوں کی فہرست میں بڑے بڑے حروف میں لکھ ہی دیا۔ پھر جب ان کو برا فرض کرہی لیا تو کسی سے ان کے بارے میں شکایت کی کہ یہ آدمی بڑا مغرور ہے سلام تو کرتا ہی نہیں اور اگر سلام کرو تو طرح طرح کے منہ بناتا ہے۔ تو سامنے والے نے انھیں بتایا کہ بھائی وہ ذرا اونچا سنتے ہیں زیادہ امید یہی ہے کہ وہ آپ کا سلام سن ہی نہیں پائے ہوں گے اور سلام نہ سن پانے کی شرمندگی میں انہوں نے طرح طرح کے منہ بنائے ہوں گے اور پھر اسی جھجک میں وہ آپ سے کچھ بول بھی نہیں پائے ہوں گے تب جاکر ان صاحب پر حقیقت آشکار ہوئی اور انہوں نے بدگمانی کے سلسلہ میں استغفار کیا۔
گناہوں سے استغفار:
استغفار ہر انسان کو کرنا چاہئے یعنی جو گناہ انجانے میں یا خدا نخواستہ جان بوجھ کر انجام دئے ہیں دائماً اس کے لئے طلب مغفرت کرتے رہنا چاہئے۔ در حقیقت کوئی بھی انسان استغفار سے بے نیاز نہیں ہے کیونکہ اللہ کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ عبودیت کے اعلی مرتبہ کے لحاظ سے عبادت کے سوا انسان کا ہر کام اور ہر مصروفیت لازم الاستغفار ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو عبادت کے لئے خلق کیا اور اس کے سوا ہر مصروفیت چاہے اس کے سلسلہ میں شریعت نے جواز کا حکم ہی کیوں نہ لگایا ہو وہ حقیقت عبودیت اور مخلوق کے ادنی مقام کے اعتبار سے اس منزل سے کم ہے جس پر ایک بندے کو ہونا چاہئے۔
ایسے موقع پر استغفار، گناہوں یا نافرمانیوں کے سلسلہ کا نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ کے سامنے احساس فقر و نیاز اور اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے ہی کی ایک قسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انبیاء و اولیاء و ائمہ کے توبہ استغفار کو اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
استغفار کا وقت
ویسے تو ہر وقت اللہ سے طلب مغفرت کرنا ایک اچھا عمل ہے لیکن اس کے مکمل طور سے مفید ہونے کے لئے ایک خاص وقت کا خیال رکھنا مزید چار چاند لگنے کا باعث ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے فرزندوں نے جب اپنی حرکتوں پر شرمندہ ہوکر کہا تھا کہ
"اے بابا ہمارے لئے اللہ سے طلب مغفرت فرمائیے”
(یوسف:٩٧)
تو جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا :
”میں بعد میں تمہارے لئے استغفار کروں گا”
(یوسف:٩٨)
بعض تفاسیر میں ملتا ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ شب جمعہ کا وقت آجائے تو مغفرت کروں۔
بہر حال استغفار کے وقت کے طور پر سب سے بہترین وقت وہی وقت ہے جب انسان ساری دنیا سے منہ موڑکر اللہ کی طرف لولگا سکتا ہو اور یہ رات کا ہی وقت ہے کیونکہ دن میں انسان دوسرے انسانوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور اپنی معاشی ضروریات کو پوری کرتا ہے جس کا کچھ حصہ واجب بھی ہے لہذا استغفار کے لئے رات کا وقت بہترین وقت ہے اور وہ بھی رات کا آخری حصہ کیونکہ شروع کے حصہ میں بھی انسان کسی کام میں مصروف ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کے بنا کردہ نظام کے اعتبار سے نیند کی صورت میں جسمانی آرام بھی انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سورہ ذاریات میں پہلے تو کہا گیا کہ متقین رات کو کم سوتے ہیں اور پھر استغفار کے وقت کے طور پر سحر کا وقت بتایا گیا ہے۔
(ذاریات:١٧،١٨)
اسی طرح سورہ آل عمران میں بھی متقین کے بارے میں گفتگو کے دوران کہا گیا ہے
”سحر کے وقت استغفار کرنے والے”۔
(آل عمران:١٧)
اسی طرح رمضان میں استغفار کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ اللہ کی رحمت کے دروازے اس ماہ میں کھلے رہتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں:
”رمضان میں دعا و استغفار زیادہ کرو۔ دعاء کے ذریعہ بلائیں دور ہوںگی اور استغفار سے تمہارے گناہ ختم ہوں گے”۔
(بحار، ج٩٣، ص٣٧٩)
محروموں کی دست گیری:
اللہ کی عبادت اور معبود سے لو لگانے میں کبھی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا کے محروموں اور مظلوموں کو بھول جائیں کیونکہ اللہ نے انسان کو دنیا میں اسی لئے بھیجا ہے تاکہ وہ دنیا میں رہ کر اللہ کے احکام کی اطاعت کرے اور جس طرح اپنی آخرت سنوارتا ہے اسی طرح اپنی دنیا اور دوسروں کی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرے۔ نماز، روزہ، عبادت، دعا، قرآن، شب بیداری وغیرہ کے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محروموں کا خیال رکھنا ایک مومن کی پہچان ہوتی ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ پر نماز کے ساتھ ساتھ زکات کا تذکرہ ہے۔ اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ نماز میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے اور زکات میں بندوں کی دستگیری، لہذا جس طرح اللہ کی عبادت ضروری ہے اسی طرح محروموں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
عبد اللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک بار نماز عشاء ختم کی تو نماز کی صفوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
” اے مہاجرین و انصار! میں ایک غریب الوطن فقیر ہوں اور رسول کی مسجد میں تم سے سوال کررہا ہوں، مجھے کچھ کھانے کے لئے دو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” اے دوست! غریب الوطنی کا ذکر مت کر، تو نے یہ ذکر کرکے میرے دل کی رگوں کو کاٹ دیا ہے، البتہ غرباء چار ہیں”۔
اصحاب نے کہا غرباء کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
"مسجد جو مسلمانوں کے سامنے ہو لیکن اس میں نماز پڑھنے والا کوئی نہ ہو ، قرآن جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہو لیکن اس کی تلاوت کرنے والا کوئی نہ ہو، عالم جو کسی جماعت کے درمیان ہو لیکن اس کا پرسان حال کرنے والا اور قدر شناس کوئی نہ ہو، اسیر جو روم کے کفار کے درمیان ہو جو اللہ کی معرفت نہیں رکھتے”۔
پھر آپ ؐنے فرمایا کہ
” اس شخص کی ضرورت کو کون پورا کرے گا؟ تو امیر المومنین علیہ السلام کھڑے ہوئے اور اس سائل کا ہاتھ تھام کر خانہ زہرا علیہا السلام تک لے آئے پھر فرمایا اے نبی کی بیٹی اس مہمان کے بارے میں کچھ انتظام کرو۔ جناب فاطمہ علیہا السلام نے فرمایا کہ گھر میں ذرا سے گیہوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا میں نے اسی سے کچھ کھانا تیار کیا ہے، وہ بچوں کے لئے بھی ضروری ہے اور آپ بھی روزے سے ہیں، کھانا بھی کم ہے اور صرف ایک آدمی کے لئے ہی کافی ہوسکتا ہے۔
آپ نے فرمایا اسے لے آؤ۔ شہزادی نے کھانا لاکر امام کے سامنے رکھ دیا۔ امام نے اس تھوڑے سے کھانے کو دیکھا اور دل میں کہا مجھے اس کھانے میں سے نہیں کھانا چاہئے کیونکہ اگر میں بھی کھانے لگا تو مہمان کو کم پڑجائے گا۔ لہذا آپ نے اپنا ہاتھ چراغ کی طرف اس طرح بڑھایا جیسے اسے صحیح کرنا چاہتے ہوں لیکن اسے بجھادیا۔ اور شہزادی سے کہا اس کے جلانے میں ذرا دیر کرنا یہاں تک کہ مہمان اطمینان سے کھانا کھالے پھر اسے جلادینا۔
امامؑ تاریکی میں اپنا خالی دہن مبارک اس طرح چلاتے جارہے تھے کہ مہمان سمجھتا رہا کہ کھانا کھارہے ہیں یہاں تک کہ مہمان کھانے سے فارغ اور سیر ہوگیا پھر شہزادی نے چراغ لاکر رکھ دیا، جبکہ کھانا ویسے کا ویسے ہی موجود تھا، امام نے مہمان سے فرمایا: تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟ اس نے کہا اے ابا الحسن میں کھاکر سیر ہوگیا ہوں لیکن اللہ نے اس میں برکت کی ہے۔ پھر اسی کھانے میں سے امام علی علیہ السلام، شہزادی کونین اور حضرات حسنین علیہم السلام نے نوش فرمایا اور پڑوسیوں کو بھی دیا اور اللہ کی برکت سے وہ کسی کو کم نہیں پڑا۔
صبح کو امامؑ مسجد نبوی میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ اے علی ؑمہمان کے ساتھ کیسے گزری؟ کہا الحمد للہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بخیر گزری۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے کل کے کام پر تعجب کیا کہ تم نے چراغ بجھادیا اور مہمان کے ساتھ نہیں کھایا۔امامؑ نے کہا آپ کو یہ سب کس نے بتایا، فرمایا:جبرئیل نے بتایا اور تمہاری شان میں یہ آیت بھی نازل ہوئی ہے "۔
"ويؤثِرونَ عَلیٰ اَنْفُسِهمْ”
(حشر:٩)
"صلّی رسول اللّه ليلة صلاة العشاء”
( مستدرک الوسائل، ج٧، ص٢١٥)
در اصل روزے کا فلسفہ ہی یہ ہے کہ ہر انسان بھوک اور پیاس کی پریشانی سے آشنا ہوسکے اور اپنے مکمل وجود کے ساتھ یہ سمجھ سکے کہ بھوک اور پیاس میں انسان پر کیا گزرتی ہے۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”روزے (کے وجوب) کا سبب یہ ہے کہ بھوک اور پیاس کو قریب سے حسی طور پر پہچانا جاسکے”۔
(علّة الصّوم لعرفان مسّ الجوع والعطش؛ وسائل، ج٧، ص٣)
محروموں میں سب سے زیادہ مظلوم اوربے یار و مددگار و بے سرپرست یتیم ہوتے ہیں ۔ یتیم دنیا کے وہ انسان ہیں جن کا دنیا میں کوئی نہیں ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہ خود بھی اپنے نہیں ہیں کیونکہ ان کے اندر ابھی شعور نہیں ہے وہ ابھی بلوغ کی منزلوں تک نہیں پہنچے ہیں یہی وجہ ہے کہ دین ان کے سلسلہ میں بڑا حساس ہے اور ان کے بارے میں خاص احکام جاری کئے ہیں۔
یقینا یتیموں کی سرپرستی کرنا ان کی ضرورتوں کو پورکرنا ایک انتہائی اہم اور واجب کام ہے۔ اور ان کے مال کو ہڑپ لینا انتہائی پست اور حرام کام ہے۔ جناب موسی اور جناب خضر علیہما السلام کا واقعہ تو کم و بیش ہر مسلمان کے ذہن میں ہوگا کہ اس بستی والوں نے ان کو پناہ دینے سے انکار کردیا تھا لیکن پھر بھی جناب خضر علیہ السلام نے ایک گرتی دیوار کو بغیر مزدوری لئے بنا دیا وجہ یہی تھی کہ اس دیوار کے نیچے مال یتیم تھا جو اگر ظاہر ہوجاتا تو شاید ان یتیموں تک نہ پہنچ پاتا۔
قرآن نے یتیموں کی دیکھ ریکھ کا بڑا خیال رکھا ہے اور جگہ جگہ پر اس سلسلہ میں ہدایتیں دی ہیں ۔ یتیموں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہونا چاہئے؟ ان کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟ اور ان کے اندر پائے جانے والے انجانے احساس کمتری کو کیسے ختم کرنا چاہئے اس سلسلہ میں قرآن نے چند رہنما اصول بیان کئے ہیں:
١۔عزّت دینا:
‘ ‘ہرگز نہیں! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے”۔
(فجر:١٧)
یتیموں کے ساتھ عزت سے پیش آنے سے انھیں سماج میں اپنے اور دیگر انسانوں کے درمیان برادری اور برابری کا احساس ہوگا ۔اور پھر وہ احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوں گے جو کہ ایک صالح معاشرے کے لئے بدترین بیماری ہے۔
٢۔عدل و انصاف سے پیش آنا:
"اور یتیموں کے سلسلہ میں عدل و انصاف کے ساتھ اقدام کرو اور جو تم نیکی کروگے اللہ اس سے آگاہ ہے”۔
(نساء: ١٢٧)
ہوسکتا ہے کہ ہم یتیموں کے ساتھ نیکی کریں ہوسکتا ہے کہ ان کا خیال رکھیں لیکن ضروری ہے کہ یہ کام اس پیمانے پر ہو کہ عدل و انصاف قائم ہوسکے اور یتیموں کے مقابل دوسرے لوگوں کو زیادہ حق نہ دیا جائے۔
٣۔ گشادہ روئی سے پیش آنا:
‘ ‘اور یتیم پر قہر نہ کرو”۔
(ضحیٰ: ٩)
ایک توہین وہ ہوتی ہے جس میں قہر و غلبہ شامل نہیں ہوتا اور ایک توہین وہ ہوتی ہے جس میں قہر و غلبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ پہلے والی آیت میں اس توہین کا ذکر ہے جس میں صرف توہین ہوئی ہے لیکن سردست آیت میں ایسی توہین مراد ہے جس میں قہرو غضب بھی شامل ہو۔ ڈانٹنا، پھٹکارنا اسی کے تحت آئیں گے۔
٤۔دھکا نہ دینا:
‘ ‘کیا آپ نے اسے دیکھا ہے جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے یہی شخص ہے جو یتیم کو دھکا دیتا ہے۔”۔
(ماعون:١،٢)
اپنے دروازے پر یتیم کو دھکا دینا، دھکا دیکر نکال دینا، دھتکارنا، بھگانا اسی زمرے میں آتا ہے۔
یتیموں کا کوئی نہیں ہوتا اگر ان کے ساتھ مذکورہ بالا ہدایات کے برخلاف سلوک کیا جائے گا تو اس میں نہ ہمت رہے گی اور نہ ہی حوصلہ۔ وہ قدم قدم پر احساس کمتری کا شکار ہوگا اور جب اسے ڈانٹا، پھٹکارا، دھتکارا جائے گا تو وہ کسی لائق نہیں رہے گا وہ کسی کام کا نہیں رہے گا نتیجہ میں وہ کسی بھی غلط راستہ پر نکل جانے کے لئے تیار ہوگا اور پھر جب قوم کا ایک آدمی خراب ہوگا تو اس کی خرابی وبا کی طرح پھیل جائے گی اور نہ جانے جتنوں کو اپنے چنگل میں لے لے گی۔
اللّہ کی نافرمانی کے نتائج:
١۔آتش دوزخ:
"اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود سے تجاوز کرے گا اللہ اسے (دوزخ کی) آگ میں جھونک دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا”۔
(لقمان: ٣)
٢۔دنیاوی پریشان حالی:
"اور انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ نے انھیں سخت پریشانیوں میں مبتلا کردیا”۔
(الحاقّہ:١٠)
٣۔ قہر و انتقام الہی:
”تو فرعون نے رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا”۔
(مزمّل: ١٦)
٤۔اللہ کی لعنت:
‘ ‘بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان پر جناب داؤد و موسی علیہما السلام کے زبانی لعنت کی جاچکی ہے کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے”۔
٥۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیزاری:
‘ ‘اگر یہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے کئے سے بیزار ہوں”۔
(شعراء: ٢١٦)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button