سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت کے جلوے

اقتباس از کتاب ” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر”
محبت اور مہربانی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحم و عطوفت کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے’ یتیم ‘ گناہگار’ گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_
فبما رحمة من الله لنت لهم ” (آل عمران ۱۵۹)
رحمت خدا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مہربان بنادیا _
گھر والوں سے محبت و مہربانی
جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ‘ گھر کے اندر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ‘ دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے’ رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے’ گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے۔ (سنن النبی ص ۷۳)_
اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
”خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)/ خیارکم خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی”(محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)
یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_
خدمتکار کے ساتھ مہربانی
اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا محبت آمیز سلوک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہربانی کا ایک دوسرا رخ ہے ”انس بن مالک” کہتے ہیں کہ : ” میں نے دس سال تک حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے کلمہ ” اف” تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ‘ ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کردی ہوگی’ یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا’ تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ‘ اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا: (منتھی الامال ج ص۱۸ ،)
اصحاب سے محبت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ملت اسلامیہ کے قائد ہونے کے ناطے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے۔ (سنن النبی ص ۵۱)
جابر پر مہربانی
جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوں میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا۔(حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)
بچوں اور یتیموں پر مہربانی
بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں کیلئے اور بھی زیادہ موثر ہے جو بہت زیادہ محبت اور عطوفت کے محتاج ہیں اور یہ چیز اندرونی پیچیدگیوں کے سلجھانے کیلئے اور احساس کمتری کو دور کرنے میں بہت مہم اثر رکھتی ہے_
رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں رحمت نے اتنی وسعت حاصل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کی گرمی نے تمام افسردہ اور بے مہری کی ٹھنڈک میں ٹھٹھری والوں کو اپنے دامن میں چھپالیا تھا بچوں اور یتیموں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سلوک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا درخشان پہلو ہے_
رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لوگ بچوں کو لاتے تھے تا کہ آپ ان کے لئے دعا کریں اور انکا نام رکھدیں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچے کو اپنی گود میں بٹھاتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ بچہ گود نجس کردیتا تھا، جو لوگ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ہوتے تھے وہ یہ دیکھ کر چلانے لگتے تھے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے تھے کہ بچے کو ڈانٹ کر پیشاب کرنے سے نہ روکواسے پیشاب کرنے دو تا کہ وہ پیشاب کرلے جب دعا اور نام رکھنے کا کام ختم ہوجاتا تھا تو بچے کے وارث نہایت خوشی کے ساتھ بچے کو لے لیتے تھے ایسے موقع پر پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ پر کبھی ناراضگی نہیں نظرآتی تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بعد اپنا لباس پاک کرلیتے تھے_ (سنن النبی ص ۵۰)_
گناہگاروں پر مہربانی
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باوجودی کہ ایک اہم فریضہ اور رسالت کی بڑی ذمہ داری کے حامل تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گنہگاروں کے ساتھ کبھی کسی متکبرانہ جابروں جیسا برتاو نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ لطف و رحمت کا ہی سلوک کیا ، ان کی گمراہی پر ایک شفیق باپ کی طرح رنجیدہ رہے اور ان کی نجات کیلئے آخری حد تک کوشش کرتے رہے اکثر ایسا ہوتا کہ گناہگارآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آتے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوشش یہی رہتی کہ لوگ اعتراف کرنے سے باز آجائیں تا کہ حضور ان پر حد الہی جاری کرنے کیلئے مجبور نہ ہوں اور انکا کام خدا کی وسیع رحمت کے حوالہ ہو جائے ( صدر بلاغی کی کتاب پیامبر رحمت ص ۵۵ ،۵۱ سے مستفادہ ہے)_
سنہ ۸ ھ میں قبیلہ غامد کی ایک عورت جسکا نام ” سبیعہ ” تھا رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول میں نے زنا کیا ہے آپ مجھ پر حد جاری کریں تا کہ میں پاک ہوجاؤں آپ نے فرمایا : جاو توبہ کرو اور خدا سے معانی مانگ لو اس نے کہا کہ : کیا آپ مجھ کو ” ماعز ابن مالک” (ماعز بن مالک وہ شخص تھا جو زنا کے اقرار کیلئے چند مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسے ہر دفعہ لوٹا دیا کہ وہ اقرار سے ہاتھ کھینچ لے (فروغ کافی ج۷ ص ۱۸۵ ) کی طرح واپس کردینا چاہتے ہیں ؟ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا زنا سے حمل بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے آپ نے فرمایا: وضع حمل ہوجانے دو پھر اسکو انصار میں سے ایک شخص کے سپرد کیا تا کہ وہ اسکی سرپرستی کرے جب بچہ پیدا ہوگیا تو حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تیرے بچہ کو دودھ کو ن پلائیگا؟ تو جا اور جاکر اسے دودھ پلاکچھ مدت کے بعد جب اسکی دودھ بڑھائی ہوگئی تو وہ عورت اس بچہ کو گود میں لئے ہوئے پھر آئی بچہ کے ہاتھ میں روٹی تھی اس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پھر حد جاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا _ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بچہ اس سے لیکر ایک مسلمان کے حوالہ کیا اور پھر حکم دیا اسکو سنگسار کردیا جائے ، لوگ ابھی پتھر مارہی رہے تھے کہ خالد ابن ولید نے آگے بڑھ کر اس عورت کے سرپر ایک پتھر مارا پتھر کا لگنا تھا کہ خون اچھل کر خالد کے منہ پر پڑا_ خالد نے غصہ کے عالم میں اس عورت کو برا بھلا کہا پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : اے خالد تم اسکو برے الفاظ سے یاد نہ کرو خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے سبیعہ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ” عشار” ایسے توبہ کرے تو خدا اس کے جرم کو بھی معاف کردے_ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے لوگ اس عورت کا جسم باہر لائے اور نماز کے بعد اس کو سپرد لحد کردیا گیا۔ (ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۷۹)_
رسول خدا کی عنایت اور مہربانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شروع میں اس عورت کو اقرار کرنے سے روکا اسلئے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا اجراء حد کا موجب بنتاہے اور آخر میں حد جاری کرتے وقت اس گنہ کار مجرم کو برا بھلا کہنے سے روکا_
اسیروں پر مہربانی
اسیر ایک شکست خوردہ دشمن ہے جس کے دل کو محبت کے ذریعہ رام کیا جاسکتاہے فتح مند رقیب کیلئے اس کے دل میں جو احساس انتقام ہے اسکو ختم کرکے اسکی ہدایت کیلئے زمین ہموار کی جاسکتی ہے _ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لطف و مہربانی کاایک مظہر اسیروں کے ساتھ حسن سلوک ہے _
ثمامہ ابن اثال کی اسیری
امام محمد باقرعلیہ ‌السلام سے منقول ہے کہ کسی سریہ میں ثمامہ ابن اثال کو گرفتار کرکے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لایاگیا ثمامہ اہل یمامہ کے رئیس تھے کہتے ہیں کہ ان کا فیصلہ اہل طئی اور یمن والوں کے درمیان میں بھی مانا جاتا تھا ، رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپکوپہچان لیا اور ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیاآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزانہ اپنے گھر سے ان کے لئے کھانا بھیجتے ، خود ان کے پاس جاتے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا میں تم کو تین چیزوں کے منتخب کرنے کا اختیار دیتاہوں، پہلی بات تو یہ ہے کہ تم کو قتل کردوں، ثمامہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ ایک بہت بڑی شخصیت کو قتل کرڈالیں گے_حضرت نے فرمایادوسری بات یہ ہے کہ اپنے بدلے کچھ مال فدیہ کے طور پر تم ادا کردو اور آزاد ہوجاؤ_ ثمامہ نے کہا اگر ایسا ہوگا تو میرے لئے بہت زیادہ مال ادا کرنا پڑیگااور میری قیمت بہت زیادہ ہوگی (یعنی میری قوم کو میری آزادی کیلئے بہت مال دینا پڑیگا) کیونکہ میں ایک بڑی شخصیت کا مالک ہوں، رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تیسری صورت یہ ہے میں تجھ پر احسان کروں اور تجھے آزاد کردوں ، ثمامہ نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کریں گے تو مجھے شکرگزار پائیں گے پھر پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے ثمامہ کو آزاد کردیا گیا _ ثمامہ نے ایمان لانے کے بعد کہا : خدا کی قسم جب میں نے آپکو دیکھاتھا تو سمجھا تھا کہ آپ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور اسوقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ کسی کو دشمن نہیں رکھتا تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں _
( سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رفیع الدین الحق ابن محمد ہمدانی ج۲ ص۱۰۹۲)_
دوسروں کے حقوق کا احترام
کسی بھی معاشرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ حقوق کی رعایت کی جائے اور ان کو پامال ہونے سے بچایا جائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حق و عدالت قائم کرنے کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سماجی کردار میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسروں کے حقوق کا حدو درجہ احترام کیا کرتے تھے_
حضرت موسی بن جعفرعلیہ‌السلام سے منقول ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک یہودی کے چند دینار قرض تھے، ایک دن اس نے اپنے قرض کا مطالبہ کیا حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پیسے نہیں ہیں لیکن اس نے یہ عذر قبول نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہم یہیں بیٹھ جاتے ہیں ، پھر یہودی بھی وہیں بیٹھ گیا ، یہاں تک کہ ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز وہیں ادا کی اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودی کو ڈانٹا کہ تو نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیوں بٹھارکھاہے ؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع کیا اورفرمایا : کہ خدا نے ہمیں اسلئے مبعوث کیا ہے کہ جو امن و امان میں ہے اس پر یا اس کے علاوہ اور کسی پر ستم کیا جائے، جب صبح ہوئی اور سورج ذرا بلند ہوا تو یہودی نے کہا :اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسوله پھر اس نے اپنا آدھا مال راہ خدا میں دےدیا اور کہا میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے جو صفتیں بیان ہوئی ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ہیں یا نہیں ہیں ، توریت میں بیان ہوا ہے کہ ان کی جائے پیدائش مکہ، محل ہجرت مدینہ ہے ، وہ تندخو نہیں ہوں گے بلند آواز سے اور چیخ کرباتیں نہیں کریں گے اپنی زبان پر فحش باتیں جاری نہیں کریں گے _ میں نے دیکھا کہ یہ اوصاف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں موجود ہیں اور اب یہ آدھا مال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختیار میں ہے_(حیوة القلوب ج۲ ص ۱۱۷)
بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا
ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی مشکلات حل کرنا پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عملی منصوبوں کا جزء اور اخلاقی خصوصیات کا حصہ تھا پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی کسی سائل کے سوال کو رد نہیں کیا (سنن النبی ص ۸۴) لیکن خاص موقع پر افراد کی عمومی مصلحت کے مطابق یا کبھی معاشرہ کی عمومی مصلحت کے تقاضہ کی بناپر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے ایسا رویہ اسلئے اختیار کیا تا لوگوں کے اندر ” بے نیازی کا حوصلہ ” پیدا ہوجائے_
مدد کی درخواست
رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک صحابی فقر و فاقہ سے عاجز آچکے تھے اپنی بیوی کی تجویز پرحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تا کہ مدد کی درخواست کریں ابھی وہ اپنی ضرورت کو بیان بھی نہیں کرپائے تھے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مجھ سے مدد مانگے تو میں اسکی مدد کروں گا لیکن اگر کوئی بے نیازی کا ثبوت دے تو خدا اسکو بے نیاز بنادیگا، اس صحابی نے اپنے دل میں کہا کہ یہ اشارہ میری ہی طرف ہے لہذا وہ واپس گھر لوٹ گئے اور اپنی بیوی سے ماجرا بیان کیا _ دوسرے دن پھر غربت کی شدت کی بناپررسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں وہی مدعا لے کر حاضر ہوئے مگر دوسرے دن بھی وہی جملہ سنا اور گھر لوٹ آئے،جب تیسری بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پھر وہی جملہ سنا تواپنی مشکل کو حل کرنے کا راستہ پاگئے، انہوں نے صحرا میں جاکر لکڑیاں جمع کرنے کا ارادہ کیا تا کہ اسکو بیچ کر رزق حاصل کریں کسی سے عاریتا ایک کلہاڑی مانگ لائے ، پہاڑ پر چلے گئے اور وہاں سے کچھ لکڑیاں کاٹ کر فروخت کردیں پھر روزانہ کا یہی معمول بن گیا ، رفتہ رفتہ وہ ا پنے لئے کلہاڑی ، باربردار جانور اور سارے ضروری سامان خرید لائے پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ دولت مند بن گئے بہت سے غلام خرید لئے، چنانچہ ایک روز پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ بیان کیا_ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ جو مجھ سے مانگے کا میں اسکی مدد کرونگا لیکن اگر بے نیازی اختیار کریگا تو خدا اسکو بے نیاز کردیگا _ ( اصول کافی ج۲ ص ۱۱۲ باب القناع)_
ایک دوسرے کی مدد کرنا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسے رہبر تھے جو خود انسان تھے، انہیں کے درمیان پیدا ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت سے جدا نہیں تھے کہ اپنے پیروکاروں کو رنج و الم میں چھوڑ دیں اور خود آرام و آسائش کی زندگی گزاریں بلکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر میدان میں خود آگے رہے خوشی اور غم میں سب کے شریک اور سعی و کشش میں دوسروں کے دوش بدوش رہتے اور دشواریوں میں جان کی بازی لگادیتے تھے_ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بستر علالت پر تھے، حضرت بلال کو بلایا، پھر مسجد میں تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا: اے میرے اصحاب میں تمہارے واسطے کیسا پیغمبر تھا؟ کیا میں نے تمہارے ساتھ جہاد نہیں کیا ؟ کیا میرے دانت نہیں ٹوٹے ؟ کیا میرا چہرہ غبار آلود نہیں ہوا؟ کیا میرا چہرہ لہولہان نہیں ہوا یہاں تک کہ میری داڑی خون سے رنگین ہوگئی ؟ کیا میں نے اپنی قوم کے نادانوں کے ساتھ حد درجہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ کیا میں نے اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے؟ اصحاب نے کہا : بے شک یارسول اللہ آپ بڑے صابر رہے اور برے کاموں سے منع کرتے رہے لہذا خدا آپ کو بہترین جزادے ، حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا تم کو بھی جزائے خیر عنایت فرمائے۔(بحارالانوار ج۲۲ / ص۵۰۸)
حضرت علی علیہ‌السلام سے منقول ہے : میں خندق کھودنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کچھ روٹیاں لیکر آئیں ، رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ جناب فاطمہ نے عرض کیا کچھ روٹیاں میں نے حسن و حسین کیلئے پکائی تھیں ان میں سے کچھ آپ کیلئے لائی ہوں _ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تین دن سے تیرے باپ نے کچھ نہیں کھایا ہے تین دن کے بعد آج پہلی بار میں کھانا کھارہاہوں_خندق کھودنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور انہیں کی طرح بھوک کی سختی بھی برداشت کررہے ہیں _( حیات القلوب ج ۲ ص ۱۱۹)_
دشمنوں کے ساتھ آپکا برتاو
جنگ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عملی سیرت اور سپاہیوں کو جنگ کیلئے روانہ کرتے وقت اور دشمن سے مقابلہ کے وقت کی ساری باتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بلندی روح اور وحی الہی سے ماخوذ ہونے کا پتہ دیتی تھیں نیز وہ باتیں بڑی سبق آموز ہیں_
امام جعفر صادق علیہ ‌السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب چاہتے تھے کہ لشکر کو روانہ فرمائیں تو سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر نصیحت کرتے اور فرماتے تھے: خدا کا نام لیکر روانہ ہو اور اس سے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اللہ کیلئے جہاد کرو اے لوگو امت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکر نہ کرنا، مال غنیمت میں چوری نہ کرنا ، کفار کو مثلہ نہ کرنا ، (ا ن کو قتل کرنے کے بعد ان کے کان ناک اور دوسرے اعضاء کو نہ کاٹنا) بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، جب راہب اپنے غاروں یا عبادتگاہوں میں ہیں ان کو قتل نہ کرنا، درختوں کو جڑ سے نہ اکھاڑنا، مگر مجبوری کی حالت میں ، نخلستانوں کو آگ نہ لگادینا، یا انہیں پانی میں عرق نہ کرنا، میوہ دار درختوں کو نہ توڑنا، کھیتوں کو نہ جلانا، اسلئے کہ ممکن ہے تم کو ان کی ضرورت پڑجائے ، حلال جانوروں کو نابود نہ کردینا، مگر یہ کہ تمہاری غذا کیلئے ان کو ذبح کرنا ضروری ہو جائے ، ہرگز ہرگز مشرکوں کے پانی کو خراب نہ کرنا حیلہ اور خیانت سے کام نہ لینا دشمن پر شب خون نہ مرنا_
مسلمانوں میں سے چھوٹا یا بڑا کوئی بھی اگر مشرکین کو پناہ دیدے تو اسکو پناہ حاصل ہے، یہاں تک کہ وہ کلام خدا کو سنے اور تم اس کے سامنے اسلام پیش کرو اگر اس نے قبول کیا تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور اگر اس نے قبول نہیں کیا تو اسکو اس کے ہرامن ٹھکانے تک پہونچادو_ (بحارالانوار ج۱۹ ص۱۷۹ ، ۱۷۸،۱۷۷)_
خلاصہ مفاھیم
۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سماجی برتاو میں جو اخلاقی اصول نظر آتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اور مہربانی کا مظہر ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہرومحبت کا سایہ اس قدر وسیع تھا کہ گنہگاروں کے سروں پر بھی تھا_
۲) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مظہر حق و عدالت تھے، دوسروں کے حقوق کا حد درجہ احترام فرماتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معاشرتی روابط و برتا اور اصول اخلاق میں سے ایک چیز یہی تھی_
۳)رسول خدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حاکم اسلام تھے اور مسلمانوں کے بیت المال کی حفاظت کی بڑی ذمہ داری بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی پر عائد ہوتی تھی کیونکہ بیت المال میں معاشرہ کے تمام افراد شریک ہیں اسکو بے جا خرچ ہونے سے بچانا لازمی ہے اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رویہ بڑا سبق آموز ہے _
۴ ) حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا ان کے مشکلات کو حل کرنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور اخلاقی خصوصیات کا جزء تھا پھر بھی خاص موقع پر افراد یا معاشرہ کی عمومی مصلحتوں کے تقاضہ کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں میں بے نیازی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے تھے_
۵)پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر میدان میں سب سے آگے تھے لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک تھے دوسروں کے ساتھ کوشش میں شامل رہتے اور مشکلات نیز سختیوں کو اپنی جان پرجھیل جاتے تھے_
۶) رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جنگ میں حاضر ہوتے وقت کی سیرت عملی یا لشکر کو روانہ کرتے وقت کے احکام اور دشمنوں کے ساتھ سلوک کا جو حکم صادر فرماتے تھے ان کو دیکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بلند روح کا اندازہ ہوتاہے اور یہ پتہ چلتاہے کہ ان تمام باتوں کا تعلق وحی الہی سے ہے _ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے سبق آموز رویہ کا بھی اسی سے اندازہ ہوجاتاہے_
اقتباس از کتاب ” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر”
مؤلف: مرکز تحقیقات علوم اسلامی

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button