رمضان المبارکمکتوب دروس

روزے کے تربیتی نکات

تحریر: مسعود نور
اسلام ٹائمز: روزہ ایسی الہی نعمت ہے جس کے اثرات انسانی نشوونما، روحانی تربیت، کردار کی اصلاح اور جسمانی و نفسیاتی صحت کے حصول میں انتہائی گہرے ہیں۔
"روزہ” انسان کی تربیت کرنے اور اسے کمال بخشنے والے اعمال میں سے ایک ہے جو اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اور جسم و روح کی صحت کو یقینی بناتا ہے۔ روزہ تقوی و پرہیزگاری کے راز، تہذیب نفس اور باطن کی پاکیزگی، صبر کی تمرین، اپنے سرکش نفس امارہ کی خواہشات کے مقابلے میں استقامت اور جدوجہد اور شیطان کے ساتھ مقابلے کا نام ہے۔ روزہ انسان ساز مکتب، روح کو سکون دینے والا، انسان کی باطنی قوتوں کی تربیت کرنے والا اور لازوال الہی طاقت کی پرتو میں اس کی شخصیت کو خوبصورتی عطا کرنے والا عمل ہے۔ روزہ انسانی روح کو رحمت الہی کی نسیم میں قرار دیتا ہے۔ روزہ، دل کو گناہ اور آلودگی سے پاک کرنے، باطنی پاکیزگی کے حصول اور دل و جان میں ایمان کا پودا بونے کا نام ہے۔ روزہ ایسی الہی نعمت ہے جس کے اثرات انسانی نشوونما، روحانی تربیت، کردار کی اصلاح اور جسمانی و نفسیاتی صحت کے حصول میں انتہائی گہرے ہیں۔ تحریر حاضر میں روزے کے چند ایک محدود مگر حیرت انگیز تربیتی فوائد اور اثرات ذکر کئے گئے ہیں۔

1)۔ تقوی کا حصول:
روزے کا اہم ترین فائدہ جس پر قرآن کریم میں بھی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے "تقوی” کا حصول ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [سورہ بقرہ/ آیہ ۱۸۳]۔
ترجمہ: "اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جاو”۔
تقوی انسانی روح کی ایسی مستقل حالت اور صفت کو کہا جاتا ہے جو اسے شیطانی جالوں اور نفس امارہ کی چالوں سے نجات بخشتی ہے اور گناہ میں مبتلا ہونے یا رذائل اخلاقی کی دلدل میں دھنسنے سے بچاتی ہے۔ تقوی درحقیقت انسان کیلئے ایسی ڈھال کی مانند ہے جو اسے شیطانی وسوسوں اور حملوں اور نفسانی خواہشات سے محفوظ رکھتی ہے۔ لہذا قرآن کریم کی بہت سی آیات میں انسان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تقوی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں ذکر ہوتا ہے:
فاتقوا الله مااستطعتم [سورہ تغابن/ آیہ ۱۶]؛ ترجمہ: "جہاں تک ممکن ہو تقوی اختیار کرو”۔
تقوی برترین اخلاقی فضیلت، تمام نیکیوں اور نیک اعمال کا سرچشمہ اور انسانی اعمال و افکار کو کنٹرول کرنے والا اور انہیں سمت و سو دینے والا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
عليك بتقوي الله، فانه راس الامر كله [الترغیب و الترھیب، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸]۔
ترجمہ: "تقوی الہی اختیار کرو کیونکہ وہ ہر چیز کا سرچشمہ ہے”۔

تفسیر المیزان کے مولف علامہ طباطبائی تقوی کی ضرورت اور فائدے کے بارے میں لکھتے ہیں:
"تقوی کا حصول ایسی چیز ہے جس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ ہر انسان اپنی فطرت سے اس حقیقت کو درک کرتا ہے کہ اگر وہ اعلی اور پاک دنیا سے رابطہ جوڑنا چاہتا ہے اور کمال و روحانیت کے اعلی درجات پر فائز ہونا چاہتا ہے تو پہلے قدم پر جو چیز ضروری ہے وہ خود کو بے راہروی سے روکنا ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ جسمانی لذتوں اور شہوتوں میں غرق نہ ہو جائے اور مادی زندگی کو اپنا ہدف و مقصد نہ بنائے۔ مختصر یہ کہ اسے ہر ایسی چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے جو اسے خداوند متعال سے دور کرتی ہو”۔
تقوی کمال کی جانب عظیم سیڑھی ہے۔ روزے سمیت تمام عبادات انجام دینے کا مقصد اس عظیم الہی قدر کا حصول ہے۔ یہ قیمتی گوہر ایسی چیز نہیں جو اتنی آسانی سے کسی کے ہاتھ آ سکے بلکہ اس کے حصول کیلئے بہت زیادہ محنت اور تگ و دو کی ضرورت ہے۔ گناہوں سے پرہیز ضروری ہے، نفسانی خواہشات سے مسلسل مقابلہ اور ان کے خلاف استقامت کی ضرورت ہے اور ایک لحظہ بھی شیطانی وسوسوں سے غفلت انسان کو اس عظیم صفت سے محروم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

2)۔ تہذیب نفس اور باطنی پاکیزگی:
ان اہم عبادات میں سے ایک روزہ ہے جو انسان کو خودسازی، تزکیہ نفس اور باطنی پاکیزگی میں مدد دیتی ہیں۔ روزہ کی برکت سے انسان اپنے سرکش نفس کو لگام دینے کے قابل ہو جاتا ہے اور اپنی شہوت اور نفسانی خواہشات سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ روزے کے ذریعے انسان نفس امارہ کی ناجائز اور نامعقول خواہشات پر قابو پا سکتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
"روزہ نفسانی خواہشات کو کمزور کر دیتا ہے”۔
نفس امارہ سرکش اور باغی ہے لہذا ہمیشہ انسان کو معصیت خداوند اور گناہ کی جانب اکساتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بقول ذکر ہوا ہے کہ:
ان النفس لامارۃ بالسوء [سورہ یوسف/ آیہ ۵۳]۔ ترجمہ: "یقینا نفس برائیوں کی طرف حکم کرنے والا ہے”۔
انسان جب تک اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کا اسیر ہوتا ہے کبھی بھی سعادت اور فلاح تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان اپنی رذائل اخلاقی اور روحانی بیماریوں جیسے خود پرستی، تکبر، جاہ طلبی، کینہ، حسد، ریا، غیبت وغیرہ کی وجہ سے انسانیت کے پست ترین درجات تک زوال کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا یہ زوال اس حد تک جاتا ہے کہ وہ حیوانوں سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔ لیکن تزکیہ نفس، خودسازی اور نفس امارہ کے ساتھ مقابلہ اسے کمال، فلاح اور اپنی زندگی کے حقیقی ہدف تک پہنچاتا ہے۔ ذات اقدس الہی نے انسانی روح کے کمال کو تزکیہ نفس میں قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
قد افلح من زكها و قد خاب من دسها [سورہ شمس/ آیات ۹، ۱۰]۔
ترجمہ: "بالتحقیق وہ کامیاب ہوا جس نے تزکیہ اختیار کیا اور وہ ناکام ہوا جس نے گناہ کا راستہ اپنایا”۔
"فلاح” درحقیقت تمام انسانی کمالات کا مجموعہ ہے اور قرآن کریم کی روشنی میں اس تک پہنچنے کا واحد راستہ تزکیہ اور تربیت نفس ہے۔
"تزکیہ” کا مطلب ایسی گندگیوں سے خود کو تطہیر اور پاک کرنا ہے جو انسانی کمالات کی نشوونما میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے سورہ شمس میں خداوند متعال نے عالم خلقت اور اپنی پاک ذات کی گیارہ قسمیں کھائی ہیں۔ قرآن کریم میں سب سے زیادہ قسمیں اسی سورہ میں ملتی ہیں۔ روزے کے تربیتی مکتب میں انسان کی روح پر روزے کے اثرات کو مزید گہرا کرنے کیلئے انسان کے تمام حواس خمسہ، بدن کے اعضاء اور اس کی سوچ کو ہر قسم کی اخلاقی گندگی سے پاک کرنے پر خاص تاکید کی گئی ہے۔ مولای متقیان امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
صوم الجسد الامساك عن الاغذيه … و صوم النفس امساك الحواس الخمس عن سائر المئاثم و خلو القلب من جميع اسباب الشر
ترجمہ: "جسم کا روزہ غذا تناول نہ کرنا ہے، روح کا روزہ حواس خمسہ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا اور دل کو برائی کی تمام وجوہات سے پاک رکھنا ہے”۔
حتی بعض روایات میں ان حالات سے عاری روزے کو بے اثر قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں:
"ایسے روزہ دار کے روزے کا کیا فائدہ جو اپنی زبان، آنکھ، کان اور بدن کے دوسرے اعضاء کو گناہ سے نہیں بچاتا؟”۔

3)۔ شہوت کی اسارت سے آزادی اور جنسی خواہش کا معتدل ہو جانا:
روزہ انسان کو شہوت، عادات اور ہوا و ہوس کی قید سے آزاد کرواتا ہے اور اسے روحانی نشوونما اور ملکوت اعلی کی جانب پرواز کے قابل بناتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت روحانی آزادی سے محروم ہے بلکہ اپنے برے اعمال کے نتیجے میں اپنے ہاتھ پاوں کو باندھ چکے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
كل نفس بما كسبت رهينه [سورہ مدثر/ آیہ ۳۸]۔ ترجمہ: "ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہے”۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
من ترك الشهوات كان حرا۔ ترجمہ: "جو شخص اپنی شہوات کو ترک کرتا ہے وہ آزاد ہے”۔
ماہ مبارک رمضان کے روزے انسان کو اپنی طرف لوٹاتے ہیں، اس کے ضمیر کو آگاہ بناتے ہیں اور اس کے شعور کو بیدار کرتے ہیں۔ روزہ دار سحری کے وقت سحری کھانے اور خدا سے راز و نیاز کرنے کیلئے اپنے بستر سے اٹھتا ہے اور اس طرح نیند اور استراحت کی عادت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ روزہ دار پورا دن خود کو جسمانی اور حیوانی خواہشات کے تسلط اور کھانے پینے کی عادت سے آزاد رکھتا ہے اور اس طرح ہوا و ہوس کا جادو توڑ دیتا ہے۔ انسان کی مختلف قسم کی خواہشات میں سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی خواہشات کھانے پینے اور جنسی خواہشات سے مربوط ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "جب انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ طغیان کرتا ہے”۔ اسی طرح امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "روزہ شہوات کی کمزوری کا باعث بنتا ہے”۔

آیات و روایات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کے خلاف شیطان کا ایک انتہائی اہم ہتھکنڈہ انسان کے "جنسی جذبات” ہیں۔ سب سے زیادہ جنسی جذبات جوانوں اور نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں۔ جوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن میں جنسی جذبات شعلہ ور ہو چکے ہیں اور وہ ایسی پوزیشن میں بھی نہیں کہ شادی کر سکیں۔ قرآن کریم میں ایسے انسانوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنے جنسی جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور صرف شرعی طور پر جائز راستے سے ہی اپنی جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح جو افراد جنسی جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور خدا کی مقرر کردہ حدود کو پار کر دیتے ہیں ان کی مذمت اور سرزنش کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں جوانوں پر تاکید کی گئی ہے کہ وہ شادی کریں اور جو جوان شادی نہیں کر سکتے ان پر اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ خداوند متعال اپنے فضل و کرم سے انہیں بے نیاز کر دے گا۔

عفت اور پاکدامنی شہوت کے مقابلے میں ہے۔ شہوت سے مراد ہر قسم کی نفسانی خواہش اور مادی لذتوں کی جانب رغبت اور رجحان ہے۔ لیکن عفت اور پاکدامنی ایسی باطنی صفت ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات اور رجحانات کو کنٹرول کرتی ہے۔ روزہ انسان کے اندر عفت اور پاکدامنی پیدا کرنے کا ایک انتہائی اہم اور یقینی ذریعہ ہے۔ لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نوجوانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اے جوانان، تم میں سے جو کوئی بھی شادی کر سکتا ہے شادی کرے، اور جو فی الحال شادی نہیں کر سکتا اسے چاہئے کہ بہت زیادہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ جنسی خواہش کو کم کر دیتا ہے”۔

4)۔ ارادے کی مضبوطی اور روحانی لطافت:
عصر حاضر کے انسان کی ایک بڑی مشکل ارادے کی کمزوری اور عزت نفس اور خوداعتمادی میں کمی ہے۔ یہ مسئلہ بذات خود کئی نفسیاتی و روحانی مشکلات اور مسائل کا باعث بنتا ہے اور ایسے افراد روزمرہ زندگی سے لذت افروز نہیں ہو سکتے۔ ان مسائل کا شکار افراد روزمرہ زندگی کی مشکلات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں اور آخرکار مایوسی اور ڈپرشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دین مبین اسلام انسان کیلئے ایک جامع تربیتی پروگرام لایا ہے جس میں ان مشکلات کا حل بھی موجود ہے۔ روزہ انسان کیلئے اپنے ارادے کی تقویت اور عزت نفس اور خوداعتمادی میں اضافہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ دار شخص جس نے ایک ماہ تک اپنی بھوک اور پیاس کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول حاصل کیا ہے، درحقیقت ایسی صلاحیت کا مالک بن چکا ہے جو اسے ماہ مبارک رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں بھی اپنے حیوانی رجحانات پر قابو پانے میں مدد کرے گی اور وہ اپنے فولادی ارادے کی بدولت ترقی اور کمال کے راستے پر گامزن ہو کر خوشبختی اور سعادت کی چوٹیوں تک پہنچ پائے گا۔

اگر انسان کے اندر پائے جانے والے بے شمار جذبات، خواہشات اور نفسانی رجحانات معقول انداز میں پورے نہ ہوں اور صحیح طریقے سے اعتدال کی حد تک نہ پہنچ پائیں تو انسان کے وجود پر وحشت اور اضطراب کے بادل چھا جائیں گے۔ انسان ایسی صورتحال پر قابو پانے کیلئے ایک انتہائی مضبوط روحانی اور نفسیاتی طاقت کا محتاج ہے۔ اس مقام پر روزہ انسانی روح کی تربیت اور تقویت کے ذریعے اس کی نفسیاتی طاقت میں اضافہ کرتا ہے اور اسے باطنی محاذ پر نبرد آزما ہونے کے قابل بناتا ہے۔ روزہ انسان کے اندر سے ہر قسم کے نفسیاتی دباو اور اضطرات کو ختم کر کے اسے روحانی اطمینان تک پہنچاتا ہے۔ مولای متقیان امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "روزہ دلوں کو سکون بخشتا ہے”۔

خداوند متعال نے قرآن کریم میں بہت سے شرعی احکام کا مقصد روحانی پاکیزگی کا حصول بیان کیا ہے اور انسانوں کو دستور دیا ہے کہ وہ گندگی سے ہجرت کر کے روحانی پاکیزگی تک پہنچیں۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے: والرجز فاهجر [سورہ مدثر/ آیہ ۵]۔ ترجمہ: "ناپاکی سے دوری اختیار کرو”۔ گناہ بھی ایک قسم کی ناپاکی اور گندگی ہے جو انسان کے قلب پر زنگ اور پردہ آ جانے کا باعث بنتا ہے۔ روزہ رکھنا اس بات کا باعث بنتا ہے کہ انسان کے دل پر لگا ہوا زنگ صاف ہو جائے۔ لہذا قرآن کریم نے بعض گناہان کا کفارہ روزہ کی صورت میں مقرر کیا ہے۔ [سورہ نساء/ آیہ ۹۲؛ سورہ مائدہ/ آیہ ۸۹ اور ۹۵]۔ روزہ کے دنوں میں کھانے پینے سے پرہیز اور نیز ذہن تک معلومات پہنچانے والے تمام راستوں پر کڑا کنٹرول ہونے کے ناطے انسان کی روح دوسرے اوقات کی نسبت زیادہ فراغت پاتی ہے اور باطن کی طرف اس کی توجہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہذا روح ایک خاص لطافت اور پاکیزگی کی حامل ہو جاتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "روزہ دل کی نورانیت اور اعضا و جوارح کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے”۔ انسان کی روح ماہ مبارک رمضان کی روحانی فضا میں خدا کے حضور راز و نیاز اور بندگی کے ذریعے معطر ہو جاتی ہے اور پرواز کرنے لگتی ہے۔ سحر کے وقت دعای ابو حمزہ ثمالی اور دعای سحر کی قرائت انسانی روح کو ایک خاص لطافت عطا کرتی ہے اور اسے عالم ملکوت تک پہنچا دیتی ہے۔

5)۔ صبر و تحمل میں اضافہ:
ایک اور مسئلہ جس کا اکثر انسانوں کو سامنا ہے صبر و تحمل کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اکثر گھرانوں میں موجود مسائل اور مشکلات کی بنیادی وجہ شوہر اور بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کی اصلی وجہ بھی ان میں صبر و تحمل کی کمی ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو انتہائی سمجھ دار اور سلجھے ہوئے گھرانے اور افراد بھی ایسے حالات سے دوچار ہوتے ہیں جن کے باعث ان میں کم حوصلگی اور بے صبری پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ مسائل جس قدر بھی سنگین ہوں قابل حل ہیں۔ اجتماعی و سماجی امور میں انسانوں کے درمیان مفادات کے ٹکراو اور ان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں ایک ناقابل اجتناب امر ہے۔ لہذا ایک مثبت اور تعمیری اجتماعی تعلق استوار کرنے کیلئے دوسروں کی سوچ، اظہار خیال اور عمل کے مقابلے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ انتہائی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیوی زندگی لاتعداد نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے اور کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو بے عیب و نقص ہو اور اسے مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: لقد خلقنا الانسان في كبد [سورہ بلد/ آیہ ۴]۔ ترجمہ: "ہم نے انسان کو رنج اور مشکلات میں پیدا کیا”۔ انسان انہیں مشکلات اور سختیوں کے باعث باتجربہ اور کامل ہوتا ہے۔ خوشبختی اور سعادت کوئی ایسی چیز نہیں جسے خریدا جا سکے بلکہ اسے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ صبر و تحمل اور محنت کے ذریعے اپنی ترقی، نشوونما، سعادت اور خوشبختی کے حصول کو یقینی بنائے۔ روزہ ایک روحانی تمرین ہے جو انسان کو صبر و تحمل اور جسمانی لذتوں کو ترک کرنے کی مشق دلاتی ہے تاکہ وہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کے دوران ہمت نہ ہارے اور بے حوصلگی کا شکار نہ ہو۔ لہذا آیات قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام میں ماہ مبار رمضان کو "ماہ صبر” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام آیہ کریمہ "واستعينوا بالصبر و الصلوه” [صبر اور نماز سے مدد طلب کرو] کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "یہاں صبر سے مراد روزہ ہے”۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہونے والی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: "ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا بہشت ہے”۔

6)۔ ضمیر کی نشوونما:
ضمیر انسانی وجود میں ایسی آسمانی اور ملکوتی طاقت ہے جو اسے نیک کاموں کی طرف ترغیب دلاتی ہے اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اس طاقت کے زیر اثر جب انسان کوئی نیک کام انجام دیتا ہے تو وہ خوش و خرم ہو جاتا ہے اور اس میں اطمینان اور سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے اور جب بھی وہ کوئی ناپسندیدہ عمل یا گناہ انجام دیتا ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کی سرزنش کرتی ہے اور انسان اپنے کئے پر پشیمان اور شرمندہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کریم میں انسان کی اس باطنی کیفیت کو "نفس لوامہ” کا نام دیا گیا ہے۔ سورہ قیامت میں انسانی ضمیر کی قسم کھائی گئی ہے جو اس کی عظمت کی علامت ہے۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
ولا اقسم بالنفس اللوامه [سورہ قیامت/ آیہ ۲]۔ ترجمہ: "سرزنش کرنے والے نفس کی قسم”۔

نفس لوامہ، نفس کا دوسرا مرحلہ ہے جس تک انسان تعلیم، تربیت اور مجاہدت کے بعد ترقی پا کر پہنچتا ہے۔ اس مرحلے میں ممکن ہے انسان کبھی کبھار جسمانی غرائز کے زیر اثر کسی معصیت کا مرتکب ہو جائے لیکن وہ فوراً ہی شرمندہ ہو جاتا ہے اور خود کو ملامت اور سرزنش کرنے لگتا ہے۔ یہ انسانی ضمیر شیطانی وسوسوں میں گرفتاری کے وقت بھی پرہیزگار اور متقی افراد کی مدد کو آتا ہے اور انہیں گناہ کی دلدل میں دھنسنے سے بچا لیتا ہے۔ روزہ ایسی عبادت ہے جو خلوص نیت اور ارادے کی پاکیزگی اور دینی فرض کو انجام دینے پر مبنی ضمیر کی آواز کے تحت انجام پاتی ہے اور اس میں باطل مقاصد اور ریاکاری کی ملاوٹ کم ہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ درحقیقت صبر و تحمل کا نام ہے اور جسمانی خواہشات سے پرہیز پر استوار ہوتا ہے۔ یہ صبر و مشقت صرف وہ شخص ہی انجام دے سکتا ہے جس کی نیت پاک ہو اور اس میں فرمان الہی کی اطاعت کا شوق پایا جاتا ہو۔ جس شخص میں خدا کی اطاعت کا جذبہ اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی صلاحیت نہ ہو وہ ایسی عبادت انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا اور کم از کم تنہائی میں خود کو کھانے پینے یا دوسری جسمانی خواہشات پورا کرنے سے روکنے کی سکت نہیں رکھتا۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے اس فرمان کا بھی یہی مطلب ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ خداوند نے روزے کو بندوں کے خلوص نیت کی آزمائش کیلئے فرض کیا ہے۔

7)۔ عمل اور کردار میں تبدیلی:
روزہ داری انسان کے عمل اور کردار میں تبدیلی اور اس کی درست شخصیت کے احیا میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کردار دو صورتوں میں انجام پاتا ہے۔ ایک یوں کہ روزہ انسان کو منفی اور غلط اعمال سے روکتا ہے اور دوسرا اسے مثبت، اچھے اور خدا کے پسندیدہ امور کی جانب ترغیب دلاتا ہے۔ روزے کے اس قدر مثبت آثار جیسے تقوی کا حصول، تہذیب نفس، روحانی اور باطنی طاقت میں اضافہ، ضمیر کی نشوونما، صبر و تحمل کا فروغ وغیرہ کے پیش نظر ایک روزہ دار شخص کا اچھے اور خدا کے پسندیدہ امور کی طرف مائل ہو جانا فطری امر ہے۔ کیونکہ انسان کے افکار، محرکات اور رجحانات میں کسی قسم کی تبدیلی براہ راست اس کے عمل پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے دوران تیس دن تک روزے کا عمل انسان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس میں خدا کی پسندیدہ صفات کو نشوونما بخش کر خدا سے اس کی قربت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام روزے کے اثرات کے بارے میں فرماتے ہیں: "روزہ اعضا و جوارح کی پاکیزگی، ظاہر و باطن کی تجدید، خدا کی نعمتوں پر شکر گزاری، غریب افراد کے ساتھ نیکی اور خدا کے حضور خشوع و خضوع اور گریہ و زاری میں اضافے کا سبب بنتا ہے”۔

اصولی طور پر ہر طرح کی عادات، عقائد، روحانی خصوصیات اور طریقہ کار جو انسان کو ایک خاص سمت و سو عطا کرتا ہے، اس کی شخصیت کا لازمی حصہ شمار ہوتا ہے۔ انسان جب ایک عمل کا تکرار کرتا ہے تو پہلے مرحلے میں اس کی "حالت” اور اس کے بعد اس کی "عادت” میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس قدر اس کی روح میں راسخ ہو جاتا ہے کہ اسے "ملکہ” کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی روحانی ملکات ہیں جو ایک انسان کے عمل کو خاص شکل و صورت عطا کرتے ہیں اور اس کی زندگی کی جہت کا تعین کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
قل كل يعمل علي شاكلته [سورہ اسراء/ آیہ ۸۴]۔ ترجمہ: "(اے نبی) کہہ دو ہر انسان اپنی باطنی خصوصیات کے مطابق عمل کرتا ہے”۔
قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اسی مطلب پر دلالت کرتی نظر آتی ہیں کہ انسان کی باطنی خصوصیات تبدیلی کے قابل ہیں۔ خدا کسی انسان کی تقدیر کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔
Source: https://www.islamtimes.org/

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button