محافلمناقب امام حسن مجتبی عمناقب و فضائل

امام حسن علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرمیں

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن علیہ السلام اسلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کادرجہ دیاہے اوراپنے دامن میں جابجاآپ کے تذکرہ کوجگہ دی ہے خودسرورکائنات نے بے شماراحادیث آپ کے متعلق ارشادفرمایا ہے:
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ
’’میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں‘‘۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن علیہ السلام کواورایک کندھے پرامام حسین علیہ السلام کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تھے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردی۔
(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲)
ایک صحابی کابیان ہے کہ’’
میں اس دن سے امام حسن علیہ السلام کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگاہوں جس دن میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں بیٹھ کرانہیں ڈاڑھی سے کھیلتے دیکھا‘‘۔
(نورالابصارص ۱۱۹)
ایک دن سرورکائنات امام حسن علیہ السلام کوکاندھے پرسوارکئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہاکہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدراچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایایہ کہوکہ کس قدراچھاسوارہے۔
(اسدالغابہ جلد ۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)
امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسن علیہ السلام کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرمارہے تھے
’’خدایامیں اسے دوست رکھتاہوں توبھی اس سے محبت کر ‘‘۔
حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن علیہ السلام آگئے اوروہ دوڑکرپشت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرسوارہوگئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیاگیاتوفرمایایہ میراگل امیدہے“۔
ابنی ہذا سید
’’یہ میرابیٹا سیدہے اوردیکھویہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘۔
امام نسائی عبداللہ ابن شدادسے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن علیہ السلام تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازمیں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تواتناطول دیاکہ میں یہ سمجھنے لگاکہ شایدآپ پروحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نمازپرآپ سے اس کاذکرکیاگیا توفرمایاکہ
’’ میرافرزندمیری پشت پرآگیاتھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں،جب تک کہ وہ خودنہ اترجائے، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا‘‘۔
حکیم ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنینؑ آگئے اورحسنؑ کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا۔
(مطالب السؤل ص ۲۲۳)
Source:www.tebyan.net

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button