خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:174)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک04نومبر 2022ء بمطابق 08ربیع الثانی1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
موضوع: سیرت و کردار امام حسن عسکری علیہ السّلام
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
10 ربیع الثانی گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا مبارک دن ہے۔اس لیے مناسب ہے کہ اس جمعے کے خطبے میں ان کی پاکیزہ سیرت میں سے کچھ بیان کریں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام اس سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا، علم وحلم، عفو وکرم ،سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس شخص سے بھی آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے ۔ اگرچہ آپ کو آپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر آتے تھے اور بامراد وآپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبداللہ بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقاف وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ آگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن عسکری علیہ السّلام سے زیادہ مرتبہ اور علم و ورع ، زہدو عبادت ،وقار وہیبت ، حیاوعفت ، شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہیں معلوم ہوا۔
باوجود یکہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علماء کو سیراب ہونے کا موقع دیا ۔نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہر قسم کے دباو اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت نگرانی کے باوجود دینِ اسلام کی حفاظت اور اسلام مخالف افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد سیاسی، اجتماعی اور علمی اقدامات انجام دیئے اور اسلام کی نابودی کے لئے عباسی حکومت کے اقدامات کو بے اثر کردیا۔
امام حسن عسکری ؑ کے دو اہم القاب:
ہر عظیم کردار آدمی جب بھی کسی عظیم شخصیت یا عظیم کردار کے مالک انسان کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی شخصیت اور عظمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے صرف بہترین نام سے نہیں بلکہ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اسے اس کے کسی ایک لقب کے ساتھ پکارتا ہے اس کے عمل سے صاحب عمل اور صاحب لقب دونوں کی عظمت نظر آتی ہے۔
ہر امام معصوم کے لئے مخصوص القاب بیان کئے گئے ہیں؛آپ کی خدمت میں ہم امام حسن عسکری علیہ السلام کے القاب میں سے دو القاب کی وضاحت کرتے ہیں:
۱۔ خالص: خالص اسے کہا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو؛
امام کا یہ لقب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امام علیہ السلام کا ہر عمل خالص ہوا کرتا تھا؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ ” مَا أَخْلَصَ عَبْدٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً إِلَّا جَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ "( عيون أخبار الرِّضا : 2/69/321)
جو شخص اللہ کے لئے چالیس دن تک اپنے عمل کو خالص کر دے اللہ تعالی اس کے دل سے حکمتوں کے چشموں کو اس کے زبان پر جاری کرے گا۔
اخلاص کی نشانیاں: " لا يصير العبد عبداً خالصاً لله عزَّوجلَّ حتّي يصير المدح و الذَّمُّ عنده سواء…” (بحارالانوار، ج 73، صفحه 294)
بندہ اس وقت تک خالص عبد نہیں ہوسکتا جب تک اس کے بارے میں کی گئی تعریف اور مذمت کو برابر اور یکساں نہ سمجھے۔
اخلاص کے آثار: "احبّ عباد اللَّه من اخلص ” (نہج‏ البلاغه خطبه 87)؛ اللہ کے نزدیک سب زیادہ محبوب وہ شخص ہے جس کا عمل خالص ہو؛ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اخلاص، انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے۔
امام کا دوسرا لقب ہادی ہے؛
ہدایت لغت کے اعتبار سے سکون کو کہا جاتا ہے اور اصطلاحی اعتبار سے راستہ دیکھانا اور افراد کو راستہ کی نشاندہی کرنا کے معنی میں ہے۔
قرآن کی نظر میں ہدایت کے دو معنا ہیں:
پہلا معنا: ہدایت یعنی انسان کو صحیح راستہ دیکھانا اور یہ ہدایت سب انسانوں کو شامل ہوتی ہے؛ جیسے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے:” إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا " (سورہ دہر آیۃ3) ” یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے ”
دوسرا معنی: ہدایت کا مطلب، منزل مقصود تک پہنچانا؛ یہ ہدایت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو خود چاہتے ہیں کہ ہدایت کا راستہ کو اپنالیں اور فطرت کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں لہذا قرآنی تعالیم سے بہرہ مند ہوکر حق کی طرف گامزن رہتے ہیں۔
امام کی علمی جدوجہد:
اگرچہ امام حسن عسکری کے دور میں حالات کی ناسازگاری اور عباسی حکومت کی جانب سے کڑی پابندیوں کی وجہ سے آپٴ معاشرے میں اپنے وسیع علم کو فروغ نہیں دے سکے، لیکن ان سب پابندیوں کے باوجود ایسے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ہر ایک اپنے طور پر معارف اسلام کی اشاعت اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ شیخ طوسی نے آپٴ کے شاگردوں کی تعداد سو سے زائد نقل کی ہے۔ جن میں احمد بن اسحق قمی، عثمان بن سعید اور علی بن جعفر جیسے لوگ شامل ہیں۔ کبھی مسلمانوں اور شیعوں کے لئے ایسی مشکلات اور مسائل پیش آجاتے تھے کہ انہیں صرف امام حسن عسکریٴ ہی حل کر سکتے تھے۔ ایسے موقع پر امامٴ اپنے علمِ امامت اور حیرت انگیز تدبیر کے ذریعے سخت ترین مشکل کو حل کر دیا کرتے تھے۔
شیعوں کی مالی امداد:
آپ کا ایک اور اہم اقدام شیعوں کی اور خصوصاً نزدیکی اصحاب کی مالی امداد تھا۔ امام کے بعض اصحاب مالی تنگی کا شکوہ کرتے تھے اور آپ ان کی پریشانی کو دور کر دیا کرتے تھے۔ آپ کے اس عمل کی وجہ سے وہ لوگ مالی پریشانیوں سے گھبرا کر حکومتی اداروں میں جذب ہونے سے بچ جاتے تھے۔

اس سلسلے میں ابوہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حوالے سے مشکلات میں گرفتار تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک خط کے ذریعے اپنا احوال امام حسن عسکری کو لکھوں، لیکن مجھے شرم آئی اور میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ امام نے میرے لئے ایک سو دینار بھیجے ہوئے ہیں اور ایک خط بھی لکھا ہے کہ جب کبھی تمہیں ضرورت ہو، تو تکلف نہ کرنا۔ ہم سے مانگ لینا، ان شاء اللہ اپنا مقصد پالو گے۔
شیعہ بزرگوں کی تقویت اور ان کے سیاسی نظریات کو پختہ کرنا:
امام حسن عسکری علیہ السلام کی ایک اہم ترین سیاسی فعالیت یہ تھی کہ آپ تشیع کے عظیم اہداف کے حصول کی راہ میں آنے والی تکلیفوں اور سیاسی اقدامات کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعہ بزرگوں کی سیاسی تربیت کرتے اور ان کے نظریات کو پختہ کرتے تھے۔ چونکہ بزرگ شیعہ شخصیات پر حکومت کا سخت دباو ہوتا تھا، اس لئے امام ہر ایک کو اس کی فکر کے لحاظ سے ہمت دلاتے، ان کی رہنمائی کرتے اور ان کا حوصلہ بلند کیا کرتے تھے تاکہ مشکلات کے مقابلے میں ان کی برداشت، صبر اور شعور میں اضافہ ہو اور وہ اپنی اجتماعی و سیاسی ذمہ داریوں اور دینی فرائض کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔ اس حوالے سے جو خط امام نے علی بن حسین بن بابویہ قمی کو لکھا ہے، اس میں فرماتے ہیں: ہمارے شیعہ ہمیشہ رنج و غم میں رہیں گے، یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا؛ وہی کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے بشارت دی ہے کہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام اور احیائے اسلام:
عباسی حکومت کا دور اور خصوصاً امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ، بدترین ادوار میں سے ایک دور تھا۔ کیونکہ حکمرانوں کی عیاشی اور ظلم و ستم نیز ان کی غفلت و بے خبری اور دوسری طرف سے دوسرے اسلامی علاقوں میں غربت کے پھیلاو کی وجہ سے بہت سی اعلیٰ اقدار ختم ہو چکی تھیں۔ بنابریں، اگر امام حسن عسکری علیہ السلام کی دن رات کی کوششیں نہ ہوتیں تو عباسیوں کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا نام بھی ذہنوں سے مٹ جاتا۔ اگرچہ امام براہِ راست عباسی حکمرانوں کی نگرانی میں تھے، لیکن آپ نے ہر اسلامی سرزمین پر اپنے نمائندے مقرر کئے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ بعض شہروں کی مسجدیں اور دینی عمارتیں آپ ہی کے حکم سے بنائی گئیں؛ جس میں قم میں موجود مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے اور علمِ امامت سے تمام محرومیوں سے آگاہ تھے اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرتے رہتے تھے۔
اسحاق کندی کی قرآن کےخلاف سازش ناکام کرنا:
اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ) ہم آہنگی نہیں ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں۔اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم ہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ ہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصروف ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا: ہم اس کے شاگرد ہیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے ہو ؟۔
شاگرد نے کہا: ہاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور وه جو کام کرنا چاہتا ہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال ہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وه مفہوم و معانی نہیں ہیں جو آپ نے سمجھا ہے؟ وہ کہے گا: ہاں یہ احتمال پایا جاتا ہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمهارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل ہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!ہوسکتا ہے قرآن کا مفہوم کچھ اور پو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی ہو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے ہوں!۔
شاگرد اپنے استاد کے پاس گیا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا ہو بہو اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں غرق ہو گیااس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا۔ استاد بار بار شاگرد سے پوچھتا رہا اورشاگرد بھی ٹال مٹول کرتا رہاآخر کاراسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی پیداوارنہیں ہے اور ممکن ہی نہیں ہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے اذہان میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔اب اس شاگرد نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جواب دیا:
ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوه کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا ہے ۔ پھر اس نے آگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ،نذر آتش کردیا۔(مناقب، ج۴، ص۴2۴)
ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ حضرت انجام دےرہے تھے۔

امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا عہد:
ائمہ اثنا عشری کے 250 سالہ دور امامت میں آخری 40 سال یعنی 220ھ سے 260ھ عہد عسکرئین کہلاتا ہے یہ دو امام یعنی امام علی النقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے عہد امامت پر محیط ہے۔ یہ دور تاریخ کے ایسے موڑ پر واقع ہے جہاں سے اہم واقعات رونما ہوئے،اس عہد کی چند اہم خصوصیات کاتجزیہ حسب ذیل ہے:
١۔ یہ دور ایک رواجی سلسلہ ہدایت اور غیبت صغریٰ کے درمیان ایک کڑی ہے۔ اس عرصہ میں آئمہ کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی کہ ایسے اقدامات کریں جو بتدریج امت کو غیبت کبریٰ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ مسلسل قید و بند اور کڑی نگرانی میں یہ کام اور بھی مشکل تھا۔
٢۔ ائمہ اہلبیت سے وابستہ افراد کے لئے یہ زمانہ پریشانی تشویش اور انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ حکومت کےمسلسل سخت رویہ کے خلاف مملکت میں علویوں کی شورشیں پھیل رہی تھیں۔
٣۔ دربار خلافت کی ہیبت ختم ہو رہی تھی خلافت چند لوگوں کے ہاتھوں ایک گیند کی طرح تھی۔ اور بار بار حکومت بدل رہی تھی۔ متوکل نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے شہر سامرہ کو بطور دار الخلافہ چناتاکہ حکومت پر لشکری دباؤ کم کیا جائے۔
٤۔ ائمہ عسکرئین یہ جانتے تھے کہ ١٢ ویں ہادی کی غیبت ایک امر مشیت الہٰی ہے اور اس امر کو اپنے معتقدین کے افکار کاحصہ بنا نا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے کیونکہ غیبت بطور ضرورت کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں تھی۔ البتہ پیغمبر اکرم اور ائمہ گزشتہ کی روایتوں سے اس امر سے کچھ آشنائی پیدا ہوگئی تھی۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے لئے ”موعود منتظر” کے والد ہونے کی حیثیت سے یہ کٹھن ذمہ داری تھی کہ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں کہ انکا بیٹا ہی ”قائم آل محمد ” ہے اور اس ضمن میں معلومات کی تحقیق کا وقت آچکا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے منجملہ اس زمانہ کے سیاسی حالات اور حکومتی سخت پہرہ میں لوگوں کے اذہان میں اس عقیدہ کی تبلیغ بہت حساس کام تھا۔ ( تاریخ اسلام
امام حسن عسکری ؑ کی نظر میں کینہ
کینہ کے متعلق امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے :
اقل النَّاسِ رَاحَةً الْحَقُود[بحار الانوار ج۷۵، ص۳۷۳] کینہ رکھنے والے کو سب سے کم سکون میسر ہوتا ہے۔
امام(علیہ السلام) کی اس حدیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان جب کینہ پروری میں لگ جاتا ہے تو وہ آخر میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کی محبت کو بھی وہ نفرت سمجھنے لگتا ہے ایسے انسان کے اندر انقتام لینے کا جذبہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے وہ ہمیشہ ہر حال میں اس سے انتقام لینے کے لئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بناتا رہتا ہے اس حالت میں وہ کبھی بھی سکون اور چین سے نہیں رہ سکتا اسی لئے امام(علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ کینہ پرور کو سب سے کم سکون میسر ہوتا ہے۔
امام(علیہ السلام) دوسری جگہ پر اس کو ایک بلاء سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «مِنَ الْفَواقِرِ الَّتى تَقْصِمُ الظَّهْرَ جارٌ إِنْ رَأىٰ حَسَنَةً أَطْفَأَها وَ إِنْ رَأىٰ سَيِّئَةً أَفْشاها[بحار الانوار ج۷۵، ص۳۷۳] جو بلائیں انسان کی کمر کو توڑ دیتی ہیں ان میں سے ایک، کسی کا ایسا پڑوسی ہونا ہے جو اس کی اچھائیوں کو چھپاتا ہو اور برائیوں کو فاش کرتا ہو»۔
کینہ پرور انسان صرف یہی تک نہیں پہنچتا بلکہ اس سے آگے پڑھ کر وہ کینہ کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی ذلیل اور رسواء کرلیتا ہے، انسان کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر ایک بری خصلت رسوخ کرگئی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں ذلیل اور خوار ہورہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی امام حسن عسکری(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «ما اقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ انْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ[تحف العقول ص۴۸۹] مؤمن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ اس چیز کی طرف رغبت کرے جو اس کی ذلت اور خواری کا سبب بن رہی ہے»۔
امام کی نظر میں حقیقی شیعہ کی صفات:
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے مطابق جو کوئی اپنے آپ کو شیعہ کہتا ہے اگر اس کے اندر حقیقی شیعوں کی خصوصیات نہ پائی جائیں تو اس کا شمار شیعوں میں نہیں ہوگا، امام(علیہ السلام) کی نظر میں حقیقی شیعہ وہ ہے جو اپنے اماموں کی طرح لوگوں کی خدمت اور ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے اور اللہ تعالی نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے انھیں بجالائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جائے، امام (علیہ السلام) حقیقی شیعہ کی تعریف میں فرمارہے ہیں:« شیعة عَلِّىٍ هُمُ الّذین یؤثِرُونَ اِخوانَهم عَلى اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خصاصَةٌ وَ هُمُ الَّذینَ لایَراهُمُ اللّه حَیثُ نَهاهُم وَ لا یَفقَدُهُم حَیثُ اَمرَهُم، وَ شیعَةُ عَلِىٍّ هم الَّذینَ یَقتَدُون بِعَلىٍ فى اکرامِ اِخوانِهُم المُؤمِنین[بحار ج۶۵، ص۱۶۳] علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دینی بھائیوں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں اگرچہ کہ خود ان کو ضرورت ہو، اور خدا نے جن چیزوں سے منع کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرتے ہیں اور علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کا احترام کرنے میں علی(علیہ السلام) کی اقتداء کرتے ہیں»۔
دوسری جگہ امام حسن عسکری(علیہ السلام) مؤمنین(شیعوں)کی نشانیوں کے بارے میں فرمارہے ہیں: «علامات المؤمنین خمسٌ صلاة الاحدى و الخمسین و زیارة الاربعین و التختم فى الیمین و تعفیر الجبین و الجهر ببسم اللّه الرحمن الرحیم[بحارج۶۶، ص۴۰۷] مؤمنین(شیعوں) کی پانچ نشانیاں ہیں: ہر روز ۵۱، رکعت نماز پڑھنا، زیارت اربعین، داہنے ہاتھ میں انگھوٹی کا پہننا، اور خاک پر سجدہ کرنا، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھنا».
ایک اور جگہ پر امام حسن عسکری(عليہ السلام) شیعوں کے بارے میں فرمارہے ہیں: «أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً[بحارج۴۱، ص۵۵]جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کے لئے سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) کے حقیقی شیعوں میں سے ہے»۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت معصومین کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button