محافلمناقب امام جعفر صادق عمناقب و فضائل

فضائل امام جعفر صادق علیہ السلام

تحریر : محمد تقی ہاشمی
امام جعفر صادق علیہ السلام کے والد کا نام امام محمد باقر علیہ السلام ہے اور آپ کی والدہ کا نام جناب ام فروہ ہے ۔فضائل امام صادق علیہ السلام کو بیان کرنے سے پہلے ہم آپ کی والدہ ماجدہ کی عظمت پر مختصر بیان کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ کی عظمت:
آپ کی والدہ ام فروہ محمد ابن ابی بکر کے بیٹے قاسم کی بیٹی تھیں۔جی ہاں! آپ اسی محمد ابن ابی بکرکی پوتی تھیں کہ جو مولا علی علیہ السلام سے محبت کرنے والے تھے اور مولا علی ؑ بھی ان سے محبت فرماتے تھے اور فرماتے اگرچہ محمد ابو بکر کے صلب سے ہے لیکن میرا بیٹا ہے اور اسی محبت علی ؑ کی پاداش نے حاکم شام نے انہیں اتنی سخت سزا دی کے گدھے کی کھال میں بند کروا کر جلا دیا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ ام فروہ اپنے زمانے کی نیک ترین ترین خاتون تھیں امام صادق علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے تھے:
إنّها ممن‏ آمنت‏ و اتّقت‏ و أحسنت‏، و اللّه‏ يحب‏ المحسنين‏( الإمام الصادق و المذاهب الأربعة، ج‏2 ص : 270)
آپ صاحبان ایمان ، تقویٰ اور احسان میں سے تھی اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام کی والدہ بہت بڑی عالمہ تھیں کہ جنہوں نے وحی کے چشموں سے علم و فیض حاصل کیا تھا ، آپ کی فضیلت و عظمت کے بارے میں امام باقر علیہ السلام کی بھی بہت زیادہ روایات ہیں اور عبد الاعلیٰ کی یہ روایت آپ کی علمی فضیلت پر بہترین شاہد ہے:
عبد الاعلیٰ کہتا ہے کہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ جناب ام فروہ چادر میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہی ہیں اور انہوں نے بائیں ہاتھ سے حجر اسود کو مس کیا تو کسی طواف کرنے والے شخص نے اعتراض کیا اور کہا:
اے اللہ کی کنیز یہ طریقہ سنت کے خلاف ہے تو آپ نے جواب دیا:
فقالت: إنا لأغنياء عن علمك. ‏( الإمام الصادق و المذاهب الأربعة، ج‏2 ص : 270)
ہم تم جیسے لوگوں کے علم سے بے نیاز ہیں ۔
یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ نے یہ واضح فرما دیا کہ ہم وہاں سے علم لیتے ہیں جہاں وحی نازل ہوتی رہی اور تم جیسے لوگوں کے علم کی حیثیت کیا ہے اور تم ہمیں سکھاتے ہو کہ سنت کسے کہتے ہیں؟
فضائل ِ امام صادق علیہ السلام
امام جعفر صادق علیہ السلام کے فضائل کو دیکھا جائے تو ہم ان فضائل کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ، ایک فضائل تو وہ ہیں جو آپ کے علم لدنی کی عظمت کو بیان فرماتےہیں اور ایک فضائل آپ کی فضیلتِ علم سے ہٹ کر آپ کی عظمت کو بیان کر رہے ہیں ،خاندان نبوت عصمت و طہارت فضائل وکمالات میں انبیاء میں وارث ہے اور اسی حقیقت کا بہت سارے واقعات منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام وراثِ موسیٰ علیہ السلام
منصور دوانیقی نے بابل کے ستر جادو گروں سے کہا کہ تمہارا برا ہو تم نے اپنے آباؤ اجداد سے جادو گردی وراثت پائی ہے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی کےلئے استعمال کرتے ہو ۔ تم کچھ یسا کرو کہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی رسوائی ہو ۔
پس دربار سجایا گیا اور دربار میں ستر شیروں کی تصاویر موجود تھیں ہر کوئی اپنی مسند پر بیٹھ گیا ، منصور نے حکم دیا کہ فوراً ابو عبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام) کو بلایا جائے ۔
فلمّا دخل عليه، و نظر إليهم، و إليه، و ما قد استعد له غضب و قال: «ويلكم، أ تعرفوني؟! أنا حجّة اللّه الذي أبطل سحر آبائكم في أيّام موسى بن عمران».
پس جب امام علیہ السلام داخل ہوئے ، ان جادو گروں اور منصور کی طرف دیکھا تو غضب کی حالت میں فرمایا:تمہارے لئے برا ہو، کیا تم مجھے نہیں جانتے؟ میں وہی اللہ کی حجت ہوں کہ جس نے موسیٰ بن عمران کے زمانے میں تمہارے آباء کے جادو کو باطل کر دیا تھا۔
ثمّ نادى برفيع صوته: «أيّتها الصور المتمثلة، ليأخذ كلّ واحد منكم صاحبه، بإذن اللّه تعالى».
پھر امام علیہ السلام نے بلند آواز کے ساتھ شیروں کی تصویروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے پاس بیٹھے ساتھی کو اللہ کے اذن سے نگل جائے ۔
فوثب كلّ سبع إلى صاحبه، و افترسه، و ابتلعه في مكانه، و وقع المنصور عن سريره مغشيا عليه،
پس ہر شیر جادو گر کی طرف لپکا اور اسے اسی کی جگہ پر شکار کر کے کھا گیا اور منصور یہ حالت دیکھ کر خوف کے مارے بے ہوش گیا ۔
فلمّا أفاق قال: اللّه، اللّه يا أبا عبد اللّه، ارحمني و أقلني فإنّي تبت توبة لا أعود إلى مثلها أبدا.
اور پھر جب اسے افاقہ ہوا تو نے اس نے کہا اے ابو عبد اللہ (امام جعفر صادق ؑ) اللہ کےلئے مجھ پر رحم کرو اور مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا اور پکی توبہ کرتا ہوں ۔
پھر وہ کہتا ہے کہ میرے مولا : ان درندوں سے کہیں کہ جادو گروں کو واپس کر دیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
قال: «هيهات، إن‏ أعادت‏ عصا موسى سحرة فرعون، فستعيد السباع هذه السحرة».
ہر گز نہیں ! اگر موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے فرعون کے جادوگروں کو کچھ واپس کیا ہوتا تو یہ درندے بھی جادو گروں کو واپس کر دیں گے۔
پس امام علیہ السلام نے اس واقعے میں اپنی آپ کو اللہ کی حجت اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دے کر بتا دیا کہ ہم ہی وارثان ِ انبیاء ہیں اور یہ واضح پیغام منصور کو دے دیا کہ یاد رکھو جس طرح ہم وارث موسیٰ ہیں اسی طرح تم وارث فرعون ہو ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام وارثِ ابراہیمؑ
مَا رُوِيَ عَنْ يُونُسَ بْنِ ظَبْيَانَ قَالَ‏ كُنْتُ عِنْدَ الصَّادِقِ ع مَعَ جَمَاعَةٍ فَقُلْتُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى لِإِبْرَاهِيمَ‏ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ‏ أَوَ كَانَتْ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَجْنَاسٍ مُخْتَلِفَةٍ أَوْ مِنْ جِنْسٍ وَاحِدٍ
یونس بن ظبیان کہتا ہے کہ میں لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا تو میں نے حضرت ابراہیم ؑ کےلئے اللہ کے اس قول کہ پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو ، کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ مختلف اجناس کے پرندے تھے یا ایک ہی جنس کے تھے ؟
فَقَالَ أَ تُحِبُّونَ أَنْ أُرِيَكُمْ مِثْلَهُ
تو امام علیہ السلام نےجواب میں فرمایا کیا تم لوگ پسند کرو گے کہ میں اسی طرح تمہیں دکھا دوں ؟
قُلْنَا بَلَىتم ہم سب نےکہا ! بالکل جی
پس امام علیہ السلام نے آواز دی
يَا طَاوُسُ فَإِذَا طَاوُسٌ طَارَ إِلَى حَضْرَتِهِ
اے مور ! تو مور اڑ کر آپ کے پاس حاضر ہوگیا ۔
ثُمَّ قَالَ يَا غُرَابُ فَإِذَا غُرَابٌ بَيْنَ يَدَيْهِ
پھر آپ نے فرمایا اے کوے ! تو کوا بھی آپ کے پاس آگیا ۔
ثُمَّ قَالَ يَا بَازِيُّ فَإِذَا بَازِيٌّ بَيْنَ يَدَيْهِ
پھر فرمایا اے عقاب تو عقاب بھی آپ کے پاس آگیا ۔
ثُمَّ قَالَ يَا حَمَامَةُ فَإِذَا حَمَامَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ
پھر فرمایا اے کبوتر تو کبوتر بھی آپ کے پاس آگیا ۔
پھر آپ علیہ السلام نے ان تمام پرندوں کو ذبح کر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ان سب ٹکڑوں کو آپس میں ملا دو ،
ثُمَّ أَخَذَ بِرَأْسِ الطَّاوُسِ فَقَالَ يَا طَاوُسُ فَرَأَيْنَا لَحْمَهُ وَ عِظَامَهُ وَ رِيشَهُ يَتَمَيَّزُ مِنْ غَيْرِهِ حَتَّى الْتَزَقَ ذَلِكَ كُلُّهُ بِرَأْسِهِ وَ قَامَ الطَّاوُسُ بَيْنَ يَدَيْهِ حَيّاً
اس کے بعد امام علیہ السلام نے مور کے سر کو اٹھایا اور آواز دی اے مور!
تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اس مور کا گوشت ، اس کی ہڈیاں ، اس کے پر جدا ہو کر آتے ہیں اور اس سر کے ساتھ مل جاتے ہیں اور آپ ؑ کے ہاتھ میں مور زندہ ہوجاتا ہے ۔
اور پھر اسی طرح امام علیہ السلام کوے کو، عقاب کو اور کبوتر کو صدا دیتے ہیں اور وہ سب زندہ ہوجاتے ہیں تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
«قد أريتكم ما أرى إبراهيم قومه، و قد أعطينا من الكرامة ما أعطي إبراهيم عليه السلام». (الخرائج و الجرائح، القطب الراوندي ،ج‏1،ص:297)
میں نے تمہیں وہی دکھایا ہے جو ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو دکھایا اور ہمیں بھی وہی معجزات دیے گئے ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کو دیے گئے تھے ۔
پس امام علیہ السلام نے اس واقعے میں بھی وارث پیغمبران ہونا واضح فرما دیا۔
اس جیسے بہت سارے معجزات امام علیہ السلام کی زندگی میں ظاہر ہوئے اس کے علاوہ بہت سارے معجزات کا تعلق امام علیہ السلام کے علم لدنی کے اظہار سے ہے اور جن سے دنیا کے سامنے امام علیہ السلام نے یہ واضح کردیا کہ ہر قسم کا علم ہمارےپاس ہے ۔
اس ضمن میں ہم ایک واقعہ کو ذکر کرنے پر اکتفاء کریں گے :
طبیب ہندی سےمناظرہ
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ الرَّبِيعِ صَاحِبِ الْمَنْصُورِ قَالَ: حَضَرَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ ع مَجْلِسَ الْمَنْصُورِ يَوْماً وَ عِنْدَهُ رَجُلٌ مِنَ الْهِنْدِ يَقْرَأُ كُتُبَ الطِّبِّ
عباد بن صہیب اپنے والد اور دادا سے بیان کرتا ہے اور انہوں نے منصور کے ساتھ ربیع سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:
ایک دفعہ امام جعفر صادق علیہ السلام منصور کی محفل میں موجود تھے تو ہند سے ایک بہت بڑا طبیب آیا ہوا تھا ہ جس نے اپنی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا اور امام علیہ السلام کو خاموشی سے سننے کا کہا اور جب پڑھ چکا تو امام علیہ السلام سے کہتا ہے کہ تمہیں کچھ علم چاہئے ؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا:تو امام علیہ السلام نے فرمایا تم سے بہتر ہمارے پاس ہے ۔ تو وہ سوال کرتا ہے کہ آپ کیا جانتے ہیں؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
أُدَاوِي الْحَارَّ بِالْبَارِدِ وَ الْبَارِدَ بِالْحَارِّ وَ الرَّطْبَ بِالْيَابِسِ وَ الْيَابِسَ بِالرَّطْبِ
میں گرم کا ٹھنڈے سے اور ٹھنڈے کا گرم سے، خشک کا تر سے اور تر کا خشک سے علاج کرتا ہوں ۔
(اور یہی طب کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ ہر مرض علاج اس کی ضد سے کرو )
پھر امام علیہ السلام نے اسے فرمایا:
وَ أَعْلَمُ أَنَّ الْمَعِدَةَ بَيْتُ الدَّاءِ
جان لو ! کہ تمام امراض کا مرکز معدہ ہے ۔
اور اس کے بعد مزید طب کے بنیادی اصول ذکر کرنے کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا :
وَ اللَّهِ مَا أَخَذْتُ إِلَّا عَنِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ
اللہ کی قسم یہ علم میں نے کسی کتاب سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے لیا ہے ۔
یعنی امام علیہ السلام نے واضح فرما دیا کہ ہم علم لدنی کے مالک ہیں ۔
پھر امام نے اس سے پوچھا:
فَأَخْبِرْنِي أَنَا أَعْلَمُ بِالطِّبِّ أَمْ أَنْتَ فَقَالَ الْهِنْدِيُّ بَلْ أَنَا
اب بتاؤ کہ میں طب کو زیادہ جانتا ہوں یا تم تو پھر بھی ہندی نے کہا کہ میں۔
قَالَ الصَّادِقُ ع فَأَسْأَلُكَ شَيْئاً
تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں تجھ سے کچھ سوالات کرتا ہوں ۔
اور یہ انیس19 سوال ہیں کہ جس کے جواب وہ طبیب ہندی نہ دے سکا اور پھر خود امام علیہ السلام نے ان تمام سوالات کے جوابات اسے بتائے ۔
تمام سوالوں کو ذکر کرنا اور پھرامام علیہ السلام کے ان سوالوں کے جوابات ذکر کرنا اس مختصر مضمون کے مناسب نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم چند ایک سوالات اور ان کے جوابات قارئین کی خدمت میں بیان کرتے ہیں:
أَخْبِرْنِي يَا هِنْدِيُّ لِمَ كَانَ فِي الرَّأْسِ شُئُونٌ‏
امام علیہ السلام نے فرمایا:
اے ہندی مجھے یہ بتاؤ کہ آنسوؤں اور رطوبتوں کی جگہ سر میں کیوں ہے؟
تو اس نے کہا: قَالَ لَا أَعْلَمُ
پھر امام علیہ السلام نے پوچھا:
2:پیشانی پر بال کیوں نہیں ہیں؟3:سامنے کے دانت تیز اور داڑھ چوڑی کیوں ہے اور ان دونوں کے بیچ لمبے دانت کیوں ہیں؟4:دونوں ہتھیلیاں بالوں سے خالی کیوں ہیں؟5:پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہوتے ہیں اور وہ اپنی جگہ کیوں حرکت کرتا ہے؟
اور یوں امام علیہ السلام سوال کرتے رہے اور وہ لا اعلم (مجھے نہیں معلوم) کہتا رہا ۔چنانچہ اس نے آخر پر امام ؑ سے ان سوالات کے جوابات کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے ہر سوال کے جواب بیان فرمائے:
1:سر آنسؤں اور رطوبتوں کامرکز نہ ہوتا تو گرمی کی شدت سے ٹکڑےٹکڑے ہوجاتا۔
2:پیشانی بالوں سے اس لئے خالی ہے کہ اس جگہ آنکھوں تک روشنی پہنچتی ہے ۔
3:اگلے دانت اس لئے تیز ہیں تاکہ چیز کا کاٹنا آسان ہو اورداڑھ اس لئے چوڑی ہے تاکہ غذا کا پیسنا آسان ہو اور دونوں دانتوں کے درمیان دانت اس لئے لمبے ہیں کہ دونوں کو سنبھال کر رکھیں ۔
4:ہتھیلیوں پر بال اس لئے نہیں ہیں تاکہ چھونے میں سختی اور نرمی کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو۔
5:پھیپھڑے کے دو حصے اس لئے ہیں تاکہ دل ان کے درمیان رہے ۔
شیخ صدوق کی الخصال جلد2 ص 511 سے ان مکمل سوالوں اور ان کے جوابات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ جسے نقوش عصمت (مرحوم ذیشان جوادی رحمہ اللہ) نے ص428 سے ذکر کیا ہے۔
منبع: کربلا ویوز فاونڈیشن۔۔https://karbalaviews.com/source:

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button