ماہ مبارک رمضان اور تلاوت قرآن کریم

ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار ہے، قرآن کریم سے اس مہینہ میں خاص طور پر فیض حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ماہ رمضان، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے تلاوت کے علاوہ قرآن کی آیات کی گہرائی پر بھی غور اور تدبر کرنا چاہیے، اہل بیتؑ کی سیرت اس بات کی تعلیم دیتی ہے۔
ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار:
ماہ مبارک رمضان،قرآن کریم کی بہار اور قرآن سے انس پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان بہترین طریقے سے ذہنی اور عملی طور پر قرآن کریم سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔وہ مہینہ ہے جس کی شب قدر میں رسول خدا کے قلب مطہر کو پورے قرآن، امین وحی سے موصول ہوا۔
وہ مہینہ ہے جس میں ہم روزہ رکھنے، عبادت، دعا و مناجات اور معنوی تیاری کرنے کے ذریعے، تعلیم قرآن حاصل کرنے کا استقبال کرتے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ خالص روزہ کی بھرپور برکات اور اس کے ساتھ دیگر عبادتوں اور دعاؤں کی روشنی میں، قرآن سے اپنا رابطہ مزید مضبوط کریں۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کی روح ہے کہ جس نے اس مہینہ کی عظمت کو بڑھا دیا ہے۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کا وہ دل ہے کہ جس دل کی دھڑکنوں کے بغیر روزہ داروں کی معنوی حیات کی رگوں میں حقیقت کی لہر نہیں دوڑ سکتی۔
قرآن کریم، دلوں کی بہار ہے اور قرآن کریم کی بہار، ماہ رمضان ہے۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقرؑ ارشاد فرماتے ہیں:
لِكُلِّ شيءٍ رَبيعٌ و رَبيعُ القُرآنِ شَهرُ رَمَضان،
ہر چیز کی کوئی بہار ہے اور قرآن کی بہار، ماہ رمضان ہے۔
(الكافي، ج 2 ص 10، 630
ثواب الأعمال، ج 1 ص 129
معاني الأخبار، ج 1 ص 228)
اور حضرت امیر المومنین علیؑ قرآن مجید کی شان میں فرماتے ہیں:
وَ تَفَقَّهُوا فِيهِ فَاِنَّهُ رَبيعُ الْقُلوبِ،اور قرآن میں غور کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے۔
اور حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
وَ قَلْبُ شَهْرِ رَمَضان لَيْلَةُ الْقَدْرِ، اور ماہ رمضان کا دل شب قدر ہے۔
(بحارالانوار، ج96، ص386)
لہذا ماہ رمضان کی بہت ساری برکات، قرآن کریم کے سلسلے میں ہیں اور اس مہینہ میں قرآن کے نورانی احکام کو دلوں کے کھیت میں کاشت کرنا چاہیے تا کہ پروان چڑھیں اور قرآن کے پھَل کو اس مہینہ میں روح کی خوراک بنائیں اور اپنے دل کی قوت کو قرآن کی برکات کے سائے میں مضبوط کریں اور اس طرح فیضاب ہونا، قرآن سے حقیقی انس پانے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
قرآن کریم سے مانوس ہونا:انس، لفظی لحاظ سے وحشت (پریشانی) کا مخالف ہے۔
(احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج 1، ص 145)
انسان کا کسی چیز سے انس پانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس چیز سے کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب نہیں ہے اور اس کے ساتھ سکون پاتا ہے۔
حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:
مَنْ آنَسَ بِتَلاوَةِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْهُ مُفارَقَةُ الاِخْوانِ،
جو شخص تلاوت قرآن سے مانوس ہو گیا تو، اسے دوستوں کی جدائی سے وحشت نہیں ہو گی۔
(غرر الحکم، ح 8790)
امام سجادؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
لَوْ ماتَ مِنْ بَيْنِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ، بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي، اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مر جائیں اور قرآن میرے ساتھ رہے، تو مجھے کوئی خوف نہیں ہو گا۔(تفسیر العیاشی، ج 1، ص 33، ح 23)
حقیقی عارف وہ ہے کہ جو خدا اور خدا کے کلام سے ایسا مانوس ہو جائے، جیسے حضرت امیر المومنین علی (ع) نے آیت:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ،اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں رکھا ہے،(سورہ انفطار، آیت 6)
کی وضاحت میں فرمایا:وَكُنْ للّٰهِ مُطيعا وَ بِذِكْرِهِ آنِسا،اللہ کے اطاعت گزار بن جاؤ اور اس کی یاد سے انس حاصل کرو۔ (نهج البلاغه، خطبه223.)
قرآن کریم سے مانوس ہونا، قرائت قرآن سے ہٹ کر ہے، اگرچہ قرائت انس کا مقدمہ ہے۔ قرآن کریم سے انس کی کچھ شرطیں ہیں کہ جن میں سے پہلی شرط قرآن سے محبت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص عمر بھر قرآن کی قرائت کرے لیکن قرآن سے محبت نہ کرے۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن زندہ حقیقت ہے، قرآن کریم سے انس یعنی انسان دن رات قرآن کا نظارہ کرے، اس کی زیارت کرے، اس کا بوسے لے، قرآن کو اپنے ساتھ رکھے اور لمحہ بھر اس سے غافل نہ ہو، اگر ایسا کرے گا تو قرآن کریم اپنا اثر دکھائے گا۔ یہ کام ہر عام آدمی کر سکتا ہے اور اس کام کی حد تک کا فیض حاصل کر سکتا ہے۔
ماہ رمضان، قرآن کی تجلی گاہ اور تلاوت قرآن کا موقع:
کیونکہ ماہ رمضان، نزو ل قرآن کا مہینہ، اللہ کا مہینہ اور تہذیب و تذکیہ کا مہینہ ہے اور قرآن جو اس مہینہ کی شب قدر میں نازل ہوا ہے، رسول خدا (ص) کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے،لہذا ماہ رمضان قرآن کی تجلی گاہ اور قرآن سے انس کا مہینہ ہے۔ روزے دار مؤمنین، اس مہینہ میں خداوند کریم کے مہمان ہیں اور قرآن کے بابرکت دسترخوان پر بیٹھے ہیں، لہذا تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے اور قرآن کی آیات میں تدبر اور غور و خوض کرنے کے ذریعے قرآن کے مفاہیم سے فکری اور عملی فیض حاصل کرتے ہوئے، اپنے ملکوتی کمال میں اضافہ کرنا چاہیے۔
رسول خدا (ﷺ) نے خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا:هُوَ شَهْرُ دُعِيتُمْ فيه اِلي ضِيافَةِ اللهِ … وَ مَنْ تَلا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرآنِ كانَ لَهُ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشّهُورِ،ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے… تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے، اس کا ثواب اس شخص کے برابر ہے کہ جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے۔ (عيون اخبار الرّضا، ج2، ص295)
ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن کی تلاوت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ماہ رمضان کی روزانہ کی دعائیں جو رسول اللہ (ﷺ) سے نقل ہوئی ہیں، ان میں سے دوسرے دن کی دعا میں یہ فقرہ ہے:
اَللّٰهُمَّ وَفِقْني فِيهِ لِقَرائَةِ آياتِكَ،خداوندا ! مجھے اِس دن میں اپنی آیات کی قرائت کی توفیق عطا فرما، (مفاتيح الجنان)
اور بیسویں دن کی دعا میں ہے:
اَللّٰهُمَّ وَفِّقْني فِيهِ لِتِلاوَةِ الْقُرآنِ،خداوندا ! مجھے اِس دن میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما۔ (مفاتيح الجنان)
قرآن سے مانوس ہونے کے ارکان:
1- آیات قرآن کی تلاوت:
رسولؐ اللہ فرماتے ہیں:
نَوِّروا بُیوتَکُم بِتِلاوَةِ القُرآنِ،اپنے گھروں کو تلاوت قرآن کے ذریعے نورانی کرو۔ (اصول کافی، ج 2 ص 610)
2- تدبّر اور غور و خوض:
حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں:اَلا لا خَیرَ فی قِراءَةٍ لَیسَ فیها تَدَبُّرٌ،
آگاہ رہو کہ جس قرائت میں تدبّر نہ ہو، اس میں کوئی خیر (فائدہ) نہیں ہے۔اصول کافی، ج 1 ص 36
3- قرآن کے دستورات پر عمل:
رسول اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے:
و من قرء القرآن و لم يعمل به حشرہ اللّٰه يوم القيمة اعمى،اور جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل نہ کرے، تو خداوند اسے قیامت کے دن اندھا محشور کرے گا۔
(ثواب الأعمال، ج 1 ص 337)
قرآن کے قاریوں کی اقسام:
القُرّاءُ ثلاثةٌ: قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) لِيَستَدِرَّ بهِ المُلوكَ و يَستَطيلَ بهِ علَى الناسِ فذاكَ مِن أهلِ النارِ، و قارئٌ قَرَأَ القرآنَ فَحَفِظَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ فذاكَ مِن أهلِ النارِ ، و قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) فاستَتَرَ بهِ تَحتَ بُرنُسِهِ فهُو يَعمَلُ بمُحكَمِهِ و يُؤمِنُ بمُتَشابِهِهِ و يُقيمُ فَرائضَهُ و يُحِلُّ حَلالَهُ و يُحَرِّمُ حَرامَهُ فهذا مِمَّن يُنقِذُهُ اللّه ُ مِن مُضِلاّتِ الفِتَنِ و هُو مِن أهلِ الجَنّةِ و يُشَفَّعُ فيمَن شاءَ۔
حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: قاری تین طرح کے ہیں:وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے تا کہ اس ذریعے سے بادشاہوں سے فائدہ اٹھا سکے اور لوگوں پر فخر کرے، ایسا آدمی جہنمیوں میں سے ہے۔اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے حروف کا خیال رکھتا ہے اور اس کے معانی کو چھوڑ دیتا ہے، یہ بھی جہنمیوں میں سے ہے۔
اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی ٹوپی کے نیچے چھپ جاتا ہے اور اس کی محکم آیات پر عمل کرتا ہے اور اس کی متشابہ آیات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے فرائض کو قائم کرتا ہے اور اس کے حلال کو، حلال اور حرام کو، حرام سمجھتا ہے، پس یہ (قاری) ان میں سے ہے جسے اللہ فتنہ کی گمراہیوں سے نجات دیتا ہے اور وہ جنتیوں میں سے ہے اور جس کی چاہے گا، وہ شفاعت کرے گا۔ (الخصال، ص 143، 165)
حضرت امام سجادؑ جب قرآن کریم کے آخر تک تلاوت کر لیتے، تو ایک دعا پڑھتے جس کا ایک فقرہ یہ ہے:اَللّٰهُمَّ فَاِذا اَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلي تِلاوَتِهِ وَ سَهَّلْتَ جَواسِيَ اَلْسِنَتِنا بِحُسْنِ عِبارَتِهِ، فَاجْعَلْنا مِمِّنْ يَرْعاهُ حَقّ رِعايَتِهِ،خداوندا ! کیونکہ تو نے ہمیں اس کی تلاوت میں مدد فرمائی، اور تو نے ہماری زبانوں کی دشواری کو قرآن کی عبارت کی خوبصورتی کے ذریعہ آسان کر دیا، پس ہمیں ایسا قرار دے کہ قرآن کا ایسا خیال رکھیں جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق ہے۔ (صحيفہ سجاديہ، دعا 42)
اہل بیتؑ کا قرآن سے انس:
پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ قرآن سے بہت مانوس تھے، اور قرآن کریم کے ظاہری اور باطنی فیضان سے بہرہ مند ہوتے تھے، آیات قرآن کے صرف ظاہر کی تلاوت کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کی آیات میں تدبر اور غور بھی کیا کرتے تھے اور آیات کو آرام آرام سے پڑھتے تھے، دلکش آواز میں تلاوت کرتے اور اس کے معانی پر توجہ کرتے ہوئے، عمل کرنے کے ارادہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔
1- حضرت امام حسینؑ قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ کربلا میں نو محرم کے دن عصر کے وقت، جب دشمن آپ اور آپ کے اصحاب کے خیموں پر حملہ کرنا چاہتا تھا، تو آپ نے حضرت عباسؑ سے فرمایا:دشمنوں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ آج رات ہمیں مہلت دیں کیونکہ:
هُوَ يَعْلَمُ اَنّي اُحِبُّ الصَّلاةَ لَهُ وَ تِلاوَةَ كِتابِهِ،خدا جانتا ہے کہ میں اُس کے لیے نماز کو اور اس کی کتاب کی تلاوت کو پسند کرتا ہوں۔
(ابن جرير طبري، تاريخ طبري، ج6، ص337)
(محدّث قمي، نفس المهموم، ص113)
2- حضرت امام زین العابدینؑ جب سورہ حمد کی قرائت کرتے تو جب آیت مالِكِ يَومِ الدّين، تک پہنچتے، اس آیت کو خاص خضوع کے ساتھ اتنا دہراتے کہ آپ کی جان لب پر آنے کے قریب ہو جاتی تھی۔ (اصول كافي، ج2، ص602 و616)
اور آنحضرت اتنی دلنواز اور پیاری آواز سے قرآن پڑھتے کہ جب سقّا (پانی پہنچانے والے) آپ کے گھر کے قریب سے گزرتے تو وہاں ٹھہر جاتے تا کہ آپ کی دلنشین آواز کو سنیں۔ (اصول كافي، ج2، ص602 و616)
3- حضرت امام جعفر صادقؑ آیات قرآن کی نماز میں خاص کیفیت کے ساتھ ایسے تلاوت کرتے تھے کہ اپنی عادی حالت سے باہر ہو جاتے۔ ایک دن یہی واقعہ ہوا، جب آپ معمولی حالت میں واپس پلٹ آئے تو حاضرین نے دریافت کیا:
یہ آپ کی کیسی کیفیت تھی؟ آنحضرت نے فرمایا:ما زِلْتُ اُكَرِّرُ آياتَ الْقُرْآنِ حَتّي بَلَغْتُ اِلي حالٍ كَاَنَّنِي سَمِعْتُها مُشافِهَةً مَمَّنْ اَنْزَلَها۔
میں مسلسل آیاتِ قرآن کو دہراتا رہا یہاں تک کہ ایسی کیفیت میں پہنچا کہ گویا ان آیات کو براہ راست اس ذات سے سن رہا ہوں کہ جس ذات نے ان کو نازل کیا ہے۔
(بحار الانوار، ج84، ص248)
4- حضرت امام رضاؑ قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ ہر تین دنوں میں ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور فرماتے تھے:
اگر میں چاہوں کہ تین دن سے کم میں، قرآن کو ختم کروں تو کر سکتا ہوں، لیکن ہرگز میں نے کوئی آیت نہیں پڑھی مگر یہ کہ اس کے معنی میں غور کیا اور اس بارے میں کہ وہ آیت کس سلسلے میں اور کب نازل ہوئی ، غور کیا، لہذا ہر تین دنوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، ورنہ تین دن سے کم میں پورے قرآن کی تلاوت کر لیتا۔ (مناقب آل ابي طالب، ج4، ص360)
5- قرآن کریم میں سینکڑوں بار يا اَيُّهَا الّذينَ آمَنُوا، اے صاحبان ایمان، کا جملہ ذکر ہوا ہے۔ حضرت امام علی رضا (ع) جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے، اس آیت پر پہنچتے اور اس کی تلاوت کرتے تو اچانک عرض کرتے:
لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ،قبول کرتا ہوں اے خداوندا (تیری دعوت کو) قبول کرتا ہوں۔
(بحار الانوار، ج85، ص34)
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیتؑ توجہ اور تدبر کے ساتھ، قرآن کی آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اسی وقت ارادہ کر لیتے تھے کہ خداوند کے فرامین پر عمل کریں۔
نتیجہ:
ماہ مبارک رمضان، قرآن کریم کی بہار ہے، قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے اس مہینہ میں قرآن کریم کے معارف سے بھرپور فیض حاصل کرنا چاہیے۔ قرآن کے صرف ظاہری الفاظ کی قرائت نہ کی جائے، بلکہ قرائت کے علاوہ اس کے معانی اور گہرائیوں میں بھی غور و خوض کرنا چاہیے۔
اہل بیتؑ قرآن سے بہت مانوس تھے اور ان کا قرآن کریم سے انس، تلاوت، تدبر اور غور کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
ان حضرات کی سیرت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے دستورات کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔