اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب بریر بن خضیر ہمدانی رضوان اللہ تعالی علیہ

جناب بریر بن خضیر ہمدانی المشرقی، خاندان ہمدان کے قبیلہ بنی مشرق کے اشراف و اکابر میں سے ہیں۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور جناب حسنین علیھما السلام کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ علماء سیر و تراجم نے ان کے حالات زندگانی میں لکھا ہے:
کان بریر ناسکا قارعا للقرآن من شیوخ القراء ومن اصحاب امیر المومنین وکان من اشراف اھل الکوفۃ من الھمدانیین
یہ سن رسیدہ بزرگ تابعی بہت بڑے شجاع، عبادت گزار، قاری قرآن(جن کو لوگ سید القراء کہتے ہیں) امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی اور قبیلہ ہمدان کے اشراف میں سے تھے۔ انہوں نے "کتاب القضایا و الاحکام” کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور جناب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں۔ یہ کتاب اصول معتبرہ میں سے سمجھی جاتی ہے۔
جب ان کو امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے بجانب عراق سفر کرنے کی اطلاع ملی تو ذخیرۃ الدارین اور فرسان الہیجا ء کے بیان کے مطابق راستہ میں کسی منزل پر جا ملے( بظاہر یہی قول قرین صواب معلوم ہوتا ہے۔
راستہ میں سید الشہداء علیہ السلام کے ساتھ حر کی ملاقات کے وقت جب امام علیہ السلام نے دل برداشتہ ہو کر خطبہ پڑھا اور اصحاب امام علیہ السلام نے اپنی جانثاری اور خدمت گزاری کا اظہار کیا تو ان مخلصین میں جناب بریر پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ جناب بریر نے امام حسینؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: وَاللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ بِكَ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَ‌ بَيْنَ‌ يَدَيْكَ‌ وَتَقَطَّعَ فِيكَ أَعْضَاؤُنَا ثُمَّ يَكُونَ جَدُّكَ شَفِيعَنَا يَوْمَ الْقِيَامَة؛
اے فرزندِ رسول! قسم بخدا اللہ نے آپ کے ذریعے ہم پر احسان کیا کہ ہم آپ کے سامنے جنگ و قتال کریں اور آپ کی خاطر ہمارے اعضاء کٹ کٹ کر گریں پھر آپ کے جدّ (صلی اللہ علیہ وآلہ) روزِ قیامت ہماری شفاعت کریں۔
شبِ عاشور بریر بن خضیر کا مبارزہ
ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ شبِ عاشور امام حسینؑ اور ان کے اصحاب پوری رات نماز و استغفار میں مصروف رہے اور اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات اور گربہ و بکاء کرتے رہے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے ابن سعد کی فوج کے پہرہ دینے والے گھوڑ سوار آتے جاتے رہتے جوکہ ہمارے اوپر پہرہ دے رہے تھے۔ امام حسینؑ اس آیت کریمہ کی تلاوت فرما رہے تھے: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ مَا كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ؛ اور جنہوں نے کفر کیا وہ یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو ڈھیل دی ہوئی ہے وہ ان کے لیے خیر ہے، ہمارا انہیں ڈھیل دینا تو فقط اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کریں اور ان کے لیے انتہائی پست عذاب ہے، اللہ مومنین کو اس حالت میں نہیں چھوڑتا جس حالت میں تم ہو یہاں تک کہ وہ خبیث کو طیب سے جدا کر لے۔
ابن سعد کی فوج کے پہرہ دینے والے گھوڑ سواروں میں سے ایک نے اس آیت کریمہ کو سنا تو کہنے لگا: ربِّ کعبہ کی قسم! ہم طیب و پاکیزہ لوگ ہیں، ہمیں تم سے جدا کیا گیا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں میں نے اس شخص کو پہچان لیا اور بُریر بن حضیر سے کہا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا۔ میں نے کہا یہ ابو حرب سبیعی عبد اللہ بن شہر ہے جوکہ بہت مزاحیہ اور شجاع و بہادر ہے اور یہ شریف بہادر و دلیر ہے، سعید بن قیس نے امام علیؑ کے عہدِ خلافت میں اس کو ایک جرم کی وجہ سے قید کیا تھا۔ بریر بن حضیر نے یہ سنا تو ابو حرب سبیعی کو پکار کر کہا: اے فاسق! تم کب سے طیب و پاکیزہ ہو گئے ہو؟! ابو حرب نے کہا: تم کون ہو؟ بریر نے کہا: میں بریر بن حضیر ہو۔ ابو حرب نے کہا: بے شک ہم اللہ کی خاطر یہاں آئے ہیں، اللہ کی قسم تم ہلاک و برباد ہو گئے ہو، اے بریر! قسم بخدا میرے لیے بہت مشکل و دشوار ہے کہ میں تم جیسے عظیم انسان کو قتل کروں۔ بریر کہتے ہیں، میں نے اس کو کہا: اے ابو حرب! کیا تمہارے لیے فرصت نہیں کہ تم اپنے بڑے بڑے گناہوں سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لو؟ اللہ کی قسم ہم طیب و پاکیزہ ہیں اور بلا شک و شبہ تم لوگ خبیث ہو۔ ابو حرب نے کہا: بالکل درست کہا، میں اس بات گواہی دیتا ہوں اور گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں۔ بریر نے کہا: تمہارا برا ہو! تمہاری معرفت کا آخر تمہیں کیا فائدہ ؟! یہ دیکھ کر ان پہرہ داروں کا امیر عزرۃ بن قیس درمیان میں آ گیا کیونکہ اس کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں ابو حرب امام حسینؑ کے لشکر میں نہ مل جائے اور اس نے آ کر دونوں میں جدائی ڈال دی اور اس طرح بریر واپس آ گئے۔
روزِ عاشور بریر کا مزاح کرنا
فجعل برير يهازل عبدالرحمن فقال عبدالرحمن : دعنا فوالله ما هذه بساعة باطل فقال له برير:
والله لقد علم قومي أنّي ما أحببت الباطل شابّاً ولا كهلاً ولكن والله لمستبشر بما نحن لاقون ، والله إنّ بيننا وبين الحور العين إلّا أن يميل هؤلاء علينا بأسيافهم ولوددت أنّهم قد مالوا بها الساعة..
اس طرح روز عاشورا ان کے عبدا لرحمن کے ساتھ مذاق کرنے اور ان کے ٹوکنے پر ان کے جواب دینے کہ میری قوم و قبیلہ کے لوگ جانتے ہیں کہ میں مذاق کا عادی نہیں ہوں۔ لیکن آج مستقبل کی تابناکی و درخشندگی، کہ ادھر یہ لوگ ہم پر تلواروں سے حملہ کریں گے۔ ادھر ہم جنت الفردوس میں حور العین کی رفاقت میں پہنچ جائیں گے ، مجھے اس مذاح پر آمادہ کررہی ہے۔ اس سے ان کے ایمان و ایقان اور جذبہ شوق شہادت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
بریر کی ابن سعد کی سے گفتگو
کتب تاریخ میں مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ جب پیاس کی شدت بڑھ گئی تو بریر بن خضیر امام حسینؑ کے پاس تشریف لائے اور ان سے اجازت طلب کی کہ وہ جا کر ابن سعد سے پانی کے مسئلہ پر بات چیت کریں، شاید وہ پانی کھول دے۔ امام حسینؑ نے بریر کو اجازت دے دی۔ بریر کا جب ابن سعد سے آمنا سامنا ہوا تو بریر نے سلام کیے بغیر گفتگو شروع کر دی جسے ابن سعد نے بہت برا محسوس کیا اور کہنے لگا: اے ہمدانی برادر ! مجھے سلام کرنے سے تجھے کس نے روکا ہے؟ کیا میں اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والا مسلمان نہیں ہوں؟! جناب بریر نے جواب دیا: اگر تم مسلمان ہوتے تو رسول اللہؑ کی عترت کے خلاف کیوں نکلتے!! تم انہیں قتل کرنا چاہتے ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو! پھر یہ فرات کا پانی آوارہ کتوں اور خنزیروں کی پیاس بجھانے کے لیے کھلا ہے اور یہ حسین بن علیؑ اور ان کے بھائیوں اور ان کے اہل بیت کی خواتین ہیں جو پیاس سے مر رہے ہیں لیکن تم نے فرات کا پانی ان پر بند کر رکھا ہے تاکہ وہ سیراب نہ ہو سکیں!! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اللہ اور اس کے رسول کو مانتے ہو؟! یہ سن کر عمر بن سعد ٹک ٹکی باندھ کر نیچے دیکھنے لگا اور پھر سر اٹھا کر کہا: اے ہمدانی برادر! میں ان کی اذیت اور تکلیف کی حرمت و پاسداری کو جانتا ہوں، لیکن میں مجھے اپنے نفس میں اس بات کو کوئی جواب نہیں ملتا کہ میں رے کی حکومت ترک کر کے کسی اور کے حوالے کر دوں! یہ سن کر بریر واپس پلٹ آئے اور امام حسینؑ سے کہنے لگے: اے فرزندِ رسول اللہؑ ! ابن سعد رے کی حکومت کے لالچ میں آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔
یہ ان کا شوق شہادت ہی تھا کہ جب پہلے پہل فوج مخالف سے سالم اور یسار میدان کارزار میں آئے تو ادھر سے جناب بریر و جناب حبیب مقابلہ کے لیے کھڑے ہوگئے مگر امام نے ان کو روک دیا بہر حال جنگ مغلوبہ کے بعد جناب بریر یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان کارزار میں نکلے۔
انا بریر وابی خضیر
لیث یروع الاسد عندالزیر
یعرف فینا الخیر اھل الخیر
اضربکم و لا اری من ضیر
کذلک فعل الخیر من بریر
وکل خیر فلہ بریر
میں بریر ہوں اور میرے والد خضیر ہیں میں وہ شیر ہوں جو دھاڑتا ہے تو شیر بھی ڈر جاتے ہیں
اہل خیر ہم کو خیر سے پہچانتے ہیں تمہیں ایسی ضرب لگاؤں گا اور میں اس کو نقصان نہیں سمجھتا
اسی طرح سے بریر میں خیر انجام پاتا ہے اور ہر خیر کے لئے بریر حاضر ہے۔
اس کے بعد تابڑ توڑ حملے کرنے شروع کئے۔ مخالفین کو قتل بھی کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے:
اقتربوا منی یا قتلۃ المومنین اقتربوا منی یا قتلۃ اولاد ابلدریین اقتربوا منی یا قتلۃ اولاد رسول رب العالمین و ذریۃ السابقین
میرے قریب آو! مومنوں کو قتل کرنے والو! میرے نزدیک آو ! او اہل بدر کو قتل کرنے والو! میرے پاس آو! رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت و اولاد کو قتل کرنے والو! انہی حملوں میں زخمیوں میں سے بھی تین ملاعین کو فی النار کیا۔
وخرج يزيد بن معقل من بني عميرة بن ربيعة وهو حليف لبني سليمة من عبد القيس
روزِ عاشور بریر بن خضیر کا یزید بن معقل سے مباہلہ
اسی اثناء میں فوج یزید سےیزید بن معقل نکلا جو کہ بنی عمیرہ بن ربیعہ کا فرد اور بنی سلیمہ بن عبد القیس کا حلیف تھا ۔ ادھر حسینی جماعت سے جناب بریر آگے بڑھے۔ یزید نے کہا :
یا بریر بن خضیر کیف تری اللہ صنع بک؟
اے بریر خدا نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے؟
جناب بریر نے جواب دیا :
صنع اللہ بی واللہ خیرا و صنع اللہ بک شرا!
خدا نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے ہاں البتہ تیرے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔
یزید نے کہا:
کذبت وما کنت قبل الیوم کاذبا
تم جھوٹ کہتے ہو حالانکہ تم اس سے پہلے جھوٹ نہیں بولتےتھے۔
پھر کہا بریر کیا وہ وقت یاد ہے کہ جب ہم، تم بنی لواذن کے محلے سے گذر رہے تھے اور تم کہتے تھے۔
هل تذكر وأنا أُماشيك في بني لواذن وأنت تقول : ان عثمان بن عفان کان علی نفسہ مسرفا و ان معاویۃ ابن سفیان ضال مضل و ان امام الھدیٰ والحق علی ابن ابی طالب
کہ عثمان بن عفان اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ، اور معاویہ بن ابو سفیان خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے تھے۔ اور امام ہادی و برحق صرف علی ابن ابی طالب علیھما السلام ہیں۔
جناب بریر نے کہا:
اشھد انا ھذا رائی و قولی
ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ اور میں اب بھی گواہی دیتا ہوں کہ میرا وہی سابقہ عقیدہ ہے۔
یزید نے کہا :
انی اشھد انک من الضالین
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہوں میں سے ہو ۔
بریر نے کہا:
فقال له برير بن حضير : هل لك فلأُباهلك
اگر خیال ہے تو آیا میں اس سلسلے میں تم سے مباہلہ کرتا ہوں آو دونوں بارگاہ قدرت میں دعا کریں کہ
ان یلعن الکاذب وان یقتل المبطل
وہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت کرے اور سچے کے ہاتھوں جھوٹے کو قتل کرے۔ چناچہ دونوں نے ہاتھ بلند کرکے دعا کی کہ
فخرجا فرفعا أيديهما إلى الله يدعوانه ان یلعن الکاذب وان یقتل المحق المبطل
ثمّ برز كلّ واحد منهما لصاحبه فاختلفا بضربتين فضرب يزيد بن معقل برير بن حضير ضربة خفيفة لم تضرّه شيئاً ، وضربه برير بن حضير ضربة قدّت المغفر وبلغت الدماغ فخرّ كأنّما هوى من حالق ، وإنّ سيف ابن حضير لثابت في رأسه ، فكأنّي أنظر إليه ينضنضه من رأسه ، وحمل عليه رضى بن منقذ العبدي فاعتنق بريراً فاعتركا ساعة ثمّ إنّ بريراً قعد على صدره ،
اس کے بعد آگےبڑھے ۔ یزید بن معقل نے بریر پر وار کیا تلوار معمولی سی لگی جس سے بریر کوکوئی خاص گزند نہیں پہنچا ۔ اس کے بعد جناب بریر نے ایسا بھر پور وار کیا کہ تلوار خود کو کاٹتی ہوئی یزید کے دماغ تک پہنچ گئی۔ یزید فورا زین سے زمین پر دھڑام سے گرا۔ اس حال میں کہ جناب بریر کی تلوار اس کے سر میں گڑی ہوئی تھی۔
عفیف بن زہیر کا بیان ہے کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بریر اس کے سر سے تلوار کو حرکت دے کر کھینچ رہے ہیں۔ اسی اثناء میں رضی بن منقذ عبدی نے جناب بریر پر حملہ کردیا دونوں باہم گتھا گتھا ہوگئے اور کچھ دیر تک باہم کشتی لڑتے رہے۔بالآخر بریر نے اسے پچھاڑ دیا اور اس کے سینے پر چڑھ گئے۔
فقال رضى : أين أهل المصاع والدفاع ؟ قال : فذهب كعب بن جابر بن عمرو الأزدي ليحمل عليه
رضی نے امداد کے لیے اپنے ہمراہیوں کو پکارتے ہوئے کہا :
شمشیر زن دفاع کرنے والے کہاں ہیں؟ چناچہ کعب بن جابر عمرو ازدی آگے بڑھا تاکہ حملہ کرے۔
فقال عفيف فقلت : إنّ هذا برير بن حضير القارئ الذي كان يقرئنا القرآن في المسجد فلم يعبأ بقولي فحمل عليه بالرمح حتّى وضعه في ظهره ، فلمّا وجد مسّ الرمح برك عليه فعضّ بوجهه وقطع طرف أنفه فطعنه كعب بن جابر حتّى ألقاه عنه وقد غيّب السنان في ظهره ثمّ أقبل عليه يضربه بسيفه حتّى قتله
عفیف بن زہیر کہتا ہے میں نے کعب کو حملہ سے باز ررکھنے کے لئے کہا:
کعب! یہ وہی بریر بن خضیر ہے جو مسجد(کوفہ) میں تمہیں قرآن پڑھاتے تھے مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی اور حملہ کرکے نیزہ جناب بریر کی پشت میں گاڑ دیا۔ جناب بریر نے نیزہ کی تکلیف محسوس کی تو رضی بن منقذ کو خوب نیچے روند ا۔ اور اس کی ناک کا کنارہ کٹ دیا لیکن نیزہ چونکہ بڑی زور سے لگا تھا، بریر نیچے گرے پھر کعب نے متعدد وار کرکے ان کو شہید کردیا۔
قال عفيف : كأنّي أنظر إلى العبدي الصريع قام ينفض التراب عن قبائه ويقول : أنعمت عليَّ يا أخا الأزد نعمة لن أنساها أبداً
عفیف کہتا ہے گویا میں اب آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ابن منقذ عبدی جسے بریرنے پچھاڑا تھا اس حال میں اٹھا کہ کپڑوں سے گرد و غبار جھاڑ رہا تھا اور کعب ازدی سے کہہ رہا تھا:
اے ازدی! تم نے مجھ پر وہ احسان کیا ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔
قال : فقلت : أنت رأيت هذا ؟ قال : نعم رأى عيني وسمع أُذني
عفیف کہتا ہے میں نے اس سے کہا کیا تو نے یہ دکھا ہے؟ تو اس نے کہا ہاں میں نے آنکھوں سے دیکھا ہے اور کانوں سے سنا ہے۔
فلمّا رجع كعب بن جابر قالت له امرأته أو أُخته النوار بنت جابر : أعنت على ابن فاطمة وقتلت سيّد القرّاء ، لقد أتيت عظيماً من الأمر لا أُكلّمك من رأسي كلمة أبداً
جب کعب واپس پلٹ کر کوفہ گیا تو اس کی بہن یا زوجہ نے اس سے کہا :
تو نے فرزند فاطمہ سلام اللہ علیھا کے خلاف جنگ کی اور سید القراء کو قتل کرکے ایک عظیم گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس لیے میں تم سے کبھی کلام نہیں کروں گی۔
وقال كعب بن جابر (هذا الشعر يعتذر عمّا فعله إليها)
اس پر کعب نے جو کام کا عذر تراشتے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔
سلي تخبري عنّي وأنت ذميمة
غداة حسين والرماح شوارع

ألم آت أقصى ما كرهت ولم يخل
عليَّ غداة الروع ما أنا صانع

معي يزنيٌّ لم تخنه كعوبه
وأبيض مخشوب الغرارين قاطع

فجرّدته في عصبة ليس دينهم
بديني وإنّي يابن حرب لقانع

ولم تر عيني مثلهم في زمانهم
ولا قبلهم في الناس إذ أنا يافع

أشدّ قراعاً بالسيوف لدى الوغى
ألا كلّ من يحمي الذمار مقارع

وقد صبروا للطعن والضرب حُسّراً
وقد نازلوا لو أنّ ذلك نافع

فأبلغ عبيدالله إمّا لقيته
بأنّي مطيع للخليفة سامع

قتلت بريراً ثمّ حمّلت نعمة
إلى منقذ لمّا دعى من يماصع

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button