اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب زھیر بن قین رضوان اللہ تعالی علیہ

زھیر بن قین بجلی قبیلہ بجلیہ کے ایک بزرگ تھے جو کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔ آپ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی سپاہ کے کمانڈر تھے۔
(انساب الاشراف، ج۳، ص۱۸۷، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۲۰ ، الارشاد، ج۲، ص۹۵، الاخبار الطوال، ص۲۵۶، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹)
امام حسین علیہ السلام کے ساتھ الحاق:
زهیر بن قین، قبیلہ بَجیلہ کی بڑی شخصیت تھے اور کوفہ میں مقیم تھے۔(تنقیح المقال، ج۲۸، ص۳۱۹)
ایک قول ضعیف کے مطابق زهیر پہلے «عثمان» کے طرفدار تھے یہاں تک کہ سنہ ۶۰ ہجری میں مکہ کے سفر سے واپسی کے دوران راستے کی ایک منزل پر (دینورى کی روایت کے مطابق یہ ملاقات «زَرُود» کے مقام پر انجام پائی) ۔(الاخبار الطوال، ص ۲۴۶)
امام حسین علیہ السلام کے کاروان کے ساتھ ایک منزل پر ایک ساتھ پڑاؤ ڈالا۔ امام علیہ السلام نے ایک شخص کو زھیر کے پاس بھیجا اور ملاقات کی خواہش کی۔ زھیر پہلے امام ؑ سے ملاقات سے گریز کر رہے تھے لیکن اپنی زوجہ دیلم یا دَلْهم بنت عَمرو کے کہنے پر امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ یہ ملاقات بہت مبارک ثابت ہوئی اور زھیر کی زندگی تبدیل ہو گئی۔ اس ملاقات کے بعد وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کے پاس خوشی کے عالم میں واپس آئے اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ اور ساز و سامان امام علیہ السلام کے خیمے کے پاس منتقل کر دیا جائے۔
(انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۷- ۱۶۸۔ ، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۹۸،تنقیح المقال، ج۲۸، ص۳۲۰)
اپنی زوجہ سے بھی الوداع کیا اور کہا: میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہادت کی طرف جا رہا ہوں، تم اپنے بھائی کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جاؤ؛ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تمہیں اچھائی کے سوا کچھ اور پہنچے۔
پھر اپنے ساتھیوں سے کہا: جو شہادت کو چاہتا ہے، میرے ساتھ آ جائے ورنہ چلا جائے اور یہ میرا آپ لوگوں کے ساتھ آخری دیدار ہے۔ تاہم تمہارے لیے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں: جب ہم جنگ بَلَنْجَر پر گئے تھے تو بڑی کامیابی ملی اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ لہٰذا ہم بہت خوش ہوئے۔ سلمان فارسی (بعض مصادر میں سلمان فارسی کی بجائے سلمان باھلی کا نام ہے) جو ہمارے ہمراہ تھے، نے کہا: جب آل محمد کے جوانوں کے سید و سردار کو درک کرو گے تو ان کے ہمراہ جنگ اور مارے جانے پر اس مال غنیمت ملنے سے زیادہ خوشی کرنا۔
(تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۹۹، الارشاد، ج۲، ص۷۳، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۴۲، مقتل الحسین، ج۱، ص۳۲۳، معجم ما استعجم، ج۱، ص۲۷۶)
بعض مصادر میں ہے کہ زھیر کے چچا زاد سلمان بن مضارب ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے۔
زھیر کی جنگ کیلئے آمادگی
تاریخ طبری کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے حر بن یزید ریاحی کی فوج سے روبرو ہونے کے بعد منزل گاه ذِی ‌حُسُم میں ایک خطبہ دیا اور اس میں معاشرے پر حکم فرما کجرویوں کو شمار کیا اور اپنے ساتھیوں کو اسلامی اقدار کے احیا کیلئے جہاد اور راہ خدا میں شہادت کی تشویق فرمائی۔ زھیر پہلے آدمی تھے جنہوں نے امام علیہ السلام کے خطاب کے بعد حضرت علیہ السلام کے احکام پر عمل درآمد کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کیا اور کہا: اے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند! ہم نے آپ کی باتوں کو سنا ہے، خدا کی قسم! اگر دنیا کی زندگی ہمیشہ کیلئے ہوتی اور ہم اس میں جاویداں ہوتے اور اس سے جدائی صرف آپ کی مدد اور ہمراہی کے سبب ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ قیام کو دنیا میں رہنے پر ترجیح دیتے؛ امام علیہ السلام نے بھی ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
(تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۰۵، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۷۱، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۳۸)
حر کے ساتھ جنگ کی تجویز
امام حسین علیہ السلام کا کاروان، بروز جمعرات دو محرم سنہ اکسٹھ ہجری کو حر کی سپاہ کی نگرانی میں نینوا کی سرزمین پر پہنچا۔ اتنے میں عبید اللہ بن زیاد کا خط پہنچ گیا۔ اس خط میں حر کو حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام پر سختی کرے اور انہیں پانی اور آبادی سے دور سرزمین پر ٹھہرائے۔ حر نے خط کے مضمون کی امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو اطلاع دی اور ان سے اسی جگہ ٹھہرنے پر اصرار کیا۔ امام علیہ السلام کے انصار نے حر سے مطالبہ کیا کہ وہاں سے نزدیک کسی آبادی میں پڑاؤ ڈالا جائے لیکن حر نے کہا: وہ ایسی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ ابن زیاد کا جاسوس اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس موقع پر زہیر بن قین نے امام علیہ السلام کو یہ تجویز دی کہ حر کے لشکر کے ساتھ جنگ کریں کیونکہ ان کے خلاف جنگ ان سے جنگ کی نسبت آسان ہو گی جو ان کی مدد کو آئیں گے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میں جنگ کا آغاز نہیں کروں گا۔
زھیر نے عرض کیا: پس یہ نزدیک کی آبادی جو فرات کے کنارے پر ہے اور اس میں دفاعی وسائل موجود ہیں؛ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے اس کا نام پوچھا۔ زھیر نے کہا: «عَقْر»۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدایا! میں عقر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اسی مقام (نینوا) پر پڑاؤ ڈال دیا۔
تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۰۹، الارشاد، ج۲، ص۸۳-۸۴، الاخبار الطوال، ص۲۵۱-۲۵۲، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۱-۵۲، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۷۶)
عصرِ تاسوعا، خیموں کا دفاع
عصر تاسوعا، جب عمر بن سعد کے سپاہیوں نے امام حسین علیہ السلام کے خیموں پر حملہ کیا اور جنگ شروع کرنے کا قصد کیا تو امام علیہ السلام نے اپنے برادر بزرگوار حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا کہ ان کے پاس جا کر دیکھیں کہ ان کا کیا ارادہ ہے؟! انہوں نے کہا: ہمیں حکم ملا ہے کہ ابن زیاد کا حکم تسلیم نہ کرنے کی صورت میں آپ علیہ السلام سے جنگ کریں۔ حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا: جلدی نہ کرو تاکہ تمہارا پیغام ابا عبد اللہ کے گوش گزار کر دوں۔ انہوں نے قبول کر لیا اور جواب کے منتظر رہے۔
اس فرصت میں حبیب بن مظاہر اور زھیر بن قین عمر سعد کے سپاہیوں کو نصیحت کرنے لگے۔ پہلے حبیب نے بات کی اور انہیں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عترت اور ان کے شیعوں کے قتل سے نہی کی اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں اور عزیزوں کا ذکر خیر کیا اور ان کی بعض اعلیٰ صفات کو شمار کیا۔
اس موقع پر دشمن کے ایک آدمی «عزرة بن قیس» نے حبیب کو مخاطب کر کے کہا: جتنی خود ستائی کر سکتے ہو، کر لو!
زھیر بن قین نے اس کے جواب میں کہا: اے عزرہ! وہ خدائے متعال کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں، خدا سے ڈر، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔ تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مبادا پاکیزہ اشخاص کو قتل کرنے میں گمراہوں کا ساتھ دو!
عزرہ نے کہا: اے زھیر! تم اس خاندان کے شیعہ نہیں تھے اور عثمان کے طرفدار تھے!
زھیر نے جواب دیا: کیا تم میرے اس مقام پر کھڑے ہونے سے یہ نہیں سمجھ رہے ہو کہ میں ان میں سے ہوں (یعنی ان کا شیعہ ہوں)؟! خدا کی قسم، میں نے کبھی انہیں (امام حسین علیہ السلام ) کو خط نہیں لکھا، ان کی طرف قاصد نہیں بھیجا اور ان سے نصرت کا وعدہ نہیں کیا بلکہ میں نے راستے میں ان سے ملاقات کی۔ جب انہیں دیکھا تو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آ گئے اور ان کا پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مقام مجھے یاد آ گیا۔ اسی طرح مجھے معلوم ہوا کہ دشمن اور تمہارے گروہ کی جانب سے انہیں کن سختیوں کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ ان کی نصرت اور حمایت کروں اور اپنی جان کو ان پر فدا کر دوں، تاکہ تم نے خدا و رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس حق کو ترک کر دیا ہے، اس کی پاسداری کروں!
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۱۵-۳۱۶، الفتوح، ج۵، ص۹۸، انساب الاشراف ج۳، ص۱۸۴، مقتل الحسین، ج۱، ص۳۵۳-۳۵۴)
شب عاشور میں زھیر کی وفاداری
شب عاشور، جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو گھر واپسی کی اجازت دے دی تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی وفاداری اور استقامت کا اظہار کیا؛ زھیر بن قین نے کہا: خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ قتل ہو جاؤں، پھر زندہ ہو جاؤں، یہاں تک کہ ہزار مرتبہ اس طرح قتل کیا جاؤں اور خدا اس کے ذریعے آپ اور آپ علیہ السلام کے خاندان کے جوانوں کی جان کو سلامت رکھے۔
(تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۱۸، الارشاد، ج۲، ص۹۲، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۵۳)
امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے کمانڈر
امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن نماز صبح کے قیام کے بعد اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور زھیر بن قین کو میمنہ کی سربراہی عطا کی کہ جس سے زھیر کی اخلاقی اور فوجی اہلیت و قابلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۰، انساب الاشراف ج۳، ص۱۸۷، الارشاد، ج۲، ص۹۵، الاخبار الطوال، ص۲۵۶، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹، مقتل الحسین (علیه‌السلام)، ج۲، ص۶-۷)
زھیر کی سپاہ یزید کے ساتھ گفتگو
روز عاشور جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو پہلے امام حسین علیہ السلام نے دشمن کے سپاہیوں کو نصیحت فرمائی۔ پھر زھیر نے انہیں مخاطب کیا اور کہا: اے اہل کوفہ! تمہیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں۔ مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو۔ ہم ابھی تک بھائی ہیں، ایک دین و مذہب کے حامل ہیں اور تم نصیحت کے سزاوار ہو۔ البتہ جب تک ہمارے درمیان جنگ شروع نہ ہو۔ مگر جنگ چھڑ جانے کے بعد ہمارا دینی اور بھائی چارے کا تعلق ٹوٹ جائے گا اور دو جداگانہ امت ہو جائیں گے۔ پروردگار متعال ہمیں اور تمہیں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے واسطے سے آزما رہا ہے تاکہ دیکھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔ اب تمہیں ان کی مدد اور عبید اللہ بن زیاد ظالم کو چھوڑنے کی دعوت دیتے ہیں؛ کیونکہ تم نے ان دو افراد (عبید اللہ اور اس کے باپ) کی حکومت کے دوران سوائے بدی کے کچھ نہیں دیکھا ہے: یہ تمہاری آنکھوں میں سلائیاں پھیرتے تھے، تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالتے تھے اور تمہیں سخت شکنجہ دیتے تھے۔ خرما کے درخت کی شاخوں پر تمہیں سولی دیتے تھے۔ تمہارے نیک لوگوں اور قرآن کے قاریوں کو قتل کرتے تھے؛ جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں اور ہانی بن عروہ جیسوں کو قتل کیا۔ عمر سعد کے سپاہیوں نے زھیر کو گالیاں دیتے ہوئے عبید اللہ زیاد کی تعریف کی اور کہا: ’’ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تمہارے رفیق اور اس کے ساتھیوں کو قتل نہ کر دیں یا یہ کہ وہ خود کو ہمارے حوالے کر دیں اور ہم انہیں ابن زیاد کے پاس بھجوا دیں۔
زھیر نے کہا: اے خدا کے بندو! فاطمہ علیہ السلام کی اولاد نصرت اور دوستی کیلئے سمیہ کے بیٹے کی نسبت سزاوار ہے۔ اگر ان کی مدد نہیں کرتے تو خدا کے واسطے انہیں قتل نہ کرو۔ ان (امام حسین علیہ السلام ) کے اور یزید کے معاملے میں نہ پڑو، مجھے اپنی جان کی قسم! امام حسین علیہ السلام کو قتل کیے بغیر بھی یزید تمہاری فرمانبرداری سے راضی رہے گا۔
اس وقت شمر نے ایک تیر ان کی طرف پھینکا اور کہا: خاموش ہو جا، خدا تیری آواز کو خاموش کرے؛ تو نے بول بول کر ہمیں تھکا دیا ہے۔
زھیر نے کہا: اے لعین ! میں تجھ سے بات نہیں کر رہا۔ تو ایک حیوان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ خدا کی قسم، میرا نہیں خیال کہ قرآن کی دو آیات کو درست جانتے ہو! تمہیں خبر دیتا ہوں قیامت کے دن کی خواری، رسوائی اور درد ناک عذاب کی!
شمر نے کہا: کچھ دیر تک خدا تجھے اور تیرے رفیق کو قتل کر دے گا!
زھیر نے جواب دیا: کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو؟! خدا کی قسم، ان کے ہمراہ موت تمہارے ساتھ ہمیشہ کی زندگی سے میرے لیے زیادہ محبوب ہے! پھر لوگوں کی طرف رخ کیا اور بلند آواز سے کہا: خدا کے بندو! یہ بد اخلاق احمق اور اس جیسے لوگ تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فریب نہ دیں۔ خدا کی قسم، محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ان کو نہیں ملے گی جنہوں نے ان کی اولاد، ان کے اہل بیت علیہ السلام اور ساتھیوں اور مددگاروں کو قتل کیا!
اس لمحے، کسی نے زھیر کو آواز دی اور کہا: ابا عبد اللہ فرماتے ہیں کہ واپس آ جاؤ! مجھے اپنی جان کی قسم، جیسے مومن آل فرعون نے اپنے لوگوں کو نصیحت کی، تو نے بھی انہیں نصیحت کی؛ اگر نصیحت کا کوئی نفع ہو!
(تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۲۳-۳۲۴، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۳-۶۴، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۴۴-۲۴۵، انساب الاشراف ج۳، ص۱۸۸-۱۸۹)
دشمن کی نگاہ میں زھیر کی شجاعت
زھیر، دشمنوں کے نزدیک بھی ایک شجاع ، ممتاز اور نامور شخصیت تھے؛ چنانچہ جب عاشور کے دن عبد اللہ بن عمیر کلبی، عبید اللہ اور ان کے والد زیاد کے دو غلاموں سالم اور یسار کے مقابلے پر گئے، تو ان دونوں نے انہیں کہا: ہم تمہیں نہیں پہچانتے، زھیر بن قین یا حبیب بن مظاھر کو ہمارے خلاف جنگ کیلئے بھیجو!
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۷، الارشاد، ج۲، ص۱۰۱)
خیموں کا دفاع
زھیر کی جنگ کے یادگار مناظر میں سے ایک وہ ہے کہ جب شمر اور چند دوسرے دشمنوں نے امام حسین علیہ السلام کے خیموں پر حملہ کر دیا اور آگ لگانا چاہتے تھے، انہوں نے امام علیہ السلام کے دس دیگر اصحاب کی مدد سے ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کرنے کے بعد انہیں خیموں سے دور کر دیا۔
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۳۴، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۹-۷۰، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۴، الارشاد، ج۲، ص۱۰۵)
زھیر کی حر کے ہمراہ جنگ
زُهَیر و حُرّ، نے روز عاشور کا کچھ وقت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھرپور جنگ کی اور جب بھی ان دو میں سے کوئی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا، اگر محاصرہ میں گھر جاتا تو دوسرا اسے نجات دیتا۔ یہاں تک کہ حر شہید ہو گئے۔
عاشور کی نماز ظہر
ظہر عاشور، زهیر اور سعید بن عبدالله حنفی نے اپنی جان کو سپر بنایا تاکہ امام حسین علیہ السلام اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ نماز خوف بجا لائیں۔نماز کے بعد دشمن کے حملوں میں شدت آ گئی۔ زھیر اور امام علیہ السلام کے باقی ماندہ تھوڑے انصار نے پوری قوت سے حضرت علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت علیہ السلام کا دفاع کیا۔
زھیر کا عاشور کے دن رجز
زھیر جنگ کے وقت یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انَا زُهَیْرٌ وَانَا ابْنُ الْقَیْنِ
اذُودُکُمْ بِالسّیْفِ عَنْ حُسَیْنِ
(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۳۶، انساب الاشراف ج۳، ص۱۹۵-۱۹۶)
میں زھیر ہوں، قین کا فرزند؛ تمہیں شمشیر کے ساتھ حسین علیہ السلام سے دور کر رہا ہوں!
بعض مصادر نے زھیر کے رجز میں آگے چل کر دو مزید شعر نقل کیے ہیں:
انَّ حُسَيناً احَدُ السِّبْطَينِ
مِنْ عِتْرَةِ البَرِّ التَقِىّ الزِّيْنِ‌
ذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ غَيْر المَيْنِ
اضْرِبُكُمْ وَلا ارى‌ مِنْ شَيْنِ
(الفتوح، ج۵، ص۱۰۹، مقتل الحسین خوارزمی، ج۲، ص۲۳-۲۴)
پھر بشارت اور خوشخبری کے عنوان سے امام علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرماتے تھے:
الْیَوْمَ نَلْقَی جَدَّکَ النَّبیَّا
وَحَسَناً وَالْمُرتَضَی عَلِیَّا
وَذَا الْجَنَاحَیْنِ الْفَتَی الْکَمِیَّا
واسد الله الشهید الحیّا
(الارشاد، ج۲، ص۱۰۵، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۶ ، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۳۶)
آج ہم آپ علیہ السلام کے جد ، امام حسن علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام ، ذو الجناحین جعفر طیار اور اسد اللہ (حضرت حمزہ علیہ السلام ) کا دیدار کریں گے!
بعض مصادر نے ان اشعار کی نسبت حجاج بن مسروق کی طرف بھی دی ہے۔

زھیر دلیرانہ اور کم نظیر جنگ میں ۱۲۰ کے لگ بھگ دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد آخرکار «کثیر بن عبدالله شعبی» اور «مهاجر بن اوس» کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
(مناقب آل ابی ‌طالب، ج۳، ص۲۲۵، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۳۶، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۶، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۱)
امام علیہ السلام کی زهیر کیلئے دعا
خوارزمی لکھتے ہیں: جب زھیر زمین پر گر گئے تو امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا: خدا تجھے اپنی رحمت سے دور نہ کرے اور تیرے قاتل پر ایسے لعنت کرے جیسے ان لوگوں پر لعنت کی جنہیں بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کیا۔
لایبعدنک الله یا زهیر و لعن الله قاتلک لعن الذین مسخهم قردة و خنازیر
(مقتل الحسین خوارزمی، ج۲، ص۲۳)
زھیر کی تد فین
زھیر کی شہادت کے بعد ان کی زوجہ نے ان کے غلام سے کہا: جا کر اپنے آقا کو کفن دو! غلام کہتا ہے: جب میں آیا تو حسین علیہ السلام کو بے کفن پایا، تو میں نے خود سے کہا: اپنے مالک کو کفن دوں اور حسین علیہ السلام کو چھوڑ دوں؟! پھر حسین علیہ السلام کو کفن پہنا کر لوٹ گیا۔ جب یہ ماجرا زھیر کی زوجہ کے گوش گزار کیا تو انہوں نے مجھے آفرین کہا اور ایک اور کفن دے کر کہا: جاؤ! اپنے مالک کو کفن دے آؤ اور میں نے ایسا ہی کیا ۔[۶۹] (ترجمة الامام الحسین و مقتله (علیه‌السلام) ابن سعد، ص۸۱)
زھیر کا زیارت نامہ
زیارت ناحیہ مقدسہ میں زھیر کی وفاداری اور فداکاری کی اس طرح تحلیل کی گئی ہے:
السَّلامُ عَلی زُهَیْرِ بْنِ الْقَیْنِ الْبَجَلِیِّ، الْقائِلِ لِلْحُسَیْنِ وَقَدْ اذِنَ لَهُ فِی الانْصِرافِ: لا وَاللَّهِ لا یَکُونُ ذلِکَ ابَداً، اتْرُکُ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ اسیراً فِی یَدِ الَاعْداءِ وَانْجُو! لا ارانِیَ اللَّهُ ذلِکَ الْیَوْمَ
(الاقبال، ج۳، ص۷۷-۷۸)
سلام ہو زهیر بن قین بَجَلیّ پر! وہی کہ جب امام حسین علیہ السلام نے انہیں لوٹ جانے کی اجازت دی تو حضرت علیہ السلام سے عرض کیا: خدا کی قسم! نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ کیا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو دشمنوں کے ہاتھوں میں اسیر چھوڑ جاؤں اور خود کو نجات دوں؟! خدا مجھے وہ دن نہ دکھائے!
https://ur.wikifeqh.ir/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button